پاکستان کے حکمرانوں کو نہ ہندوستان سے دشمنی کرنی آئی نہ دوستی کرنی آئی۔ پاکستان کے حکمران ان دونوں دائروں میں ناکام ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کی دشمنی میں دوستی پوشیدہ ہوتی ہے اور دوستی میں دشمنی چھپی ہوتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ اس وقت پاک بھارت تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ لیکن روزنامہ جنگ کراچی کی ایک خبر کے مطابق بھارت کو سلامتی کونسل کا بلامقابلہ رکن منتخب کرانے میں پاکستان کی حمایت بھی شامل تھی۔ روزنامہ جنگ 18 جون 2020ء، صفحہ 10) عمران خان جب اقتدار میں تھے تو وہ ایک جانب مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دے رہے تھے اور دوسری جانب بھارت کو سلامتی کونسل کا بلامقابلہ رکن منتخب ہونے میں بھارت کی مدد کررہے تھے۔ واہ کیا بھارت دشمنی ہے؟۔
ہندوستان سے تعلقات کے تقاضوں کو ہمارا صرف ایک رہنما سمجھا۔ قائداعظم۔ ہندوستان نے کشمیر میں فوج داخل کی تو اس وقت پاکستان کا خزانہ خالی تھا۔ پاکستان کی فوج، فوج نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود قائداعظم نے جنرل گریسی کو فوجی اقدام کا حکم دیا۔ یہ اور بات کے جنرل گریسی نے حکم عدولی کی۔ قائد ظاہری معنوں میں ایک کمزور پاکستان کے رہنما تھے مگر ان کے عزم کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے صاف کہا کہ اگر بھارت نے مسلم اقلیت کے ساتھ بُرا سلوک کیا تو پاکستان بھارت میں مداخلت کرے گا۔ یہ بات کوئی کمزور رہنما نہیں کہہ سکتا تھا۔ کہنا تو دور کی بات ہے کمزور رہنما یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ قائداعظم بلاشبہ یک رکنی فوج یا One Man Army تھے۔ قائداعظم 1940ء سے 1948ء تک ایک ایک رکنی فوج تھے۔ اس کے برعکس ہم نے 16 دسمبر 1971ء کو پوری فوج کو ایک لاغر شخص کی طرح ’’Behave‘‘ کرتے ہوئے پایا۔
جنرل ایوب ہمارے پہلے ’’فوجی آمر‘‘ اور جیسا کہ مشہور کیا گیا ہمارے پہلے ’’مرد آہن‘‘ تھے۔ اس ’’مرد آہن‘‘ کو 1962ء میں ہندوستان کی گردن دبوچنے کا ایک نادر موقع ملا۔ 1962ء میں چین بھارت جنگ ہوگئی۔ اس جنگ سے پہلے چین کی قیادت نے جنرل ایوب کو پیغام دیا کہ بھارت اپنی ساری عسکری طاقت چین کی سرحد پر لے آیا ہے۔ پاکستان کے لیے موقع ہے کہ وہ آگے بڑھے اور ہندوستان سے اپنا کشمیر چھین لے۔ یہ ایسا موقع تھا کہ قوموں کو ’’صدیوں‘‘ میں ملتا ہے۔ دنیا کا اصول ہے کہ دعویٰ جھوٹا اور قبضہ سچا ہوتا ہے۔ پاکستان کشمیر پر قبضہ کرلیتا تو دنیا کی کوئی طاقت اس سے یہ قبضہ چھڑا نہیں سکتی تھی۔ مگر ہمارے ’’مردِ آہن‘‘ نے یہ موقع ضائع کردیا۔ ہمارا ’’مرد آہن‘‘ امریکا کے دبائو میں آگیا۔ امریکا نے چین کا پیغام اُچک لیا اور اس نے جنرل ایوب سے کہا کہ آپ کشمیر پر قبضے کی کوشش نہ کریں۔ چین بھارت جنگ ختم ہونے دیں ہم مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرادیں گے۔ امریکا کی بات پر اعتبار کرنا شیطان کی بات پر اعتبار کرنا ہے۔ بدقسمتی سے جنرل ایوب نے امریکا کی بات پر اعتبار کرلیا۔ انہوں نے چین بھارت جنگ کے دوران کشمیر حاصل کرنے کی رّتی برابر بھی کوشش نہ کی۔ اس کے برعکس 1970ء کے انتخابات کے بعد مشرقی پاکستان میں سیاسی بحران پیدا ہوا تو بھارت نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کو کہتے ہیں ’’دشمنی‘‘۔ اس کو کہتے ہیں ’’موقع شناسی‘‘۔
پاکستان کا حکمران طبقہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے حوالے سے اس خیال کو نمایاں کرتا ہے کہ بھارت نے مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے سلسلے میں مشرقی پاکستان کی ہندو آبادی کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔ اگر ہمیں ٹھیک یاد ہے تو مشرقی پاکستان کی ہندو آبادی مجموعی آبادی کا 8 سے 10 فی صد تھی۔ بھارت نے 8 سے 10 فی صد آبادی کو پاکستان کے خلاف کامیابی سے استعمال کرلیا مگر پاکستان ہندوستان میں موجود 25 کروڑ مسلمانوں کو کبھی بھارت کے خلاف استعمال نہ کرسکا۔ حالاں کہ مسلمان ہندوستان کی مجموعی آبادی کا 20 سے 25 فی صد ہیں۔ یہ اور بات کہ سرکاری اعداد وشمار میں انہیں 15 سے 17 فی صد دکھایا جاتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر موجودہ پاکستان میں ہندو آبادی کا 20 سے 25 فی صد ہوتے تو بھارت ان ہندوئوں کو بھی کامیابی کے ساتھ پاکستان کے خلاف استعمال کرتا۔
پاکستان کا حکمران طبقہ حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کے مسائل کو زندہ رکھنے اور ان کے حوالے سے بھارت پر دبائو ڈالنے میں ناکام رہا۔ حالاں کہ بھارت کے ممتاز صحافی جاوید نقوی نے روزنامہ ڈان کراچی میں شائع ہونے والے اپنے ایک حالیہ کالم میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت کے ’’مردِ آہن‘‘ سردار پٹیل ایک موقع پر اس بات کے لیے تیار تھے کہ پاکستان کشمیر لے لے اور حیدر آباد دکن کو پرامن طریقے سے بھارت میں شامل ہونے دے۔ بھارت میں آزادی کی آٹھ دس بڑی تحریکیں موجود ہیں۔ ان میں نکسل باڑی تحریک سرفہرست ہے۔ اس تحریک کا اثر بھارت کی ایک درجن ریاستوں میں ہے اور بھارت کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ اس تحریک کو بھارت کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ بھارت ہزار کوشش کے باوجود اس تحریک کو کچل نہیں سکا۔ اس لیے کہ یہ تحریک سماجی اور معاشی عدم مساوات کی بنیاد پر کام کررہی ہے اور بھارت سے زیادہ سماجی اور معاشی عدم مساوات شاید ہی دنیا میں کہیں موجود ہو مگر ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ گزشتہ 40 سال میں کسی پاکستانی حکمران نے حقیقی معنوں میں نکسل باڑی تحریک پر نظر التفات ڈالی ہو۔ خاکم بدھن پاکستان میں نکسل باڑی تحریک کا عشر عشیر بھی موجود ہوتا تو بھارت اس کے ذریعے بچے کھچے پاکستان کو بھی تہہ و بالا کرچکا ہوتا۔ کیا بھارت کراچی اور بلوچستان کے حالات میں ملوث نہیں۔
پاکستان کے حکمران طبقے نے 1980ء کی دہائی میں کشمیر کی تحریک آزادی کو متحرک کیا۔ پاکستانی حکمرانوں نے تحریک آزادی کے رہنمائوں کو یقین دلایا کہ آپ تحریک کو تحرک کی ایک خاص سطح پر لے آئیں گے تو پاکستان آپ کی مدد کرے گا اور مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کرے گا لیکن جب کشمیری غیر معمولی قربانیوں اور غیر معمولی تحریک کے ذریعے تحریک کو مطلوبہ سطح پر لے آئے اور پاکستان سے مداخلت کے خواستگار ہوئے تو انہیں بتایا گیا کہ کشمیر کے لیے پاکستان کو دائو پر نہیں لگایا جاسکتا۔ قائداعظم نے کہا تھا کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے مگر کشمیریوں کوبتایا گیا کہ پاکستان کشمیر کی شہہ رگ ہے۔ عمران خان کہتے تھے کہ وہ کشمیریوں کے وکیل ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کشمیر اور اہل کشمیر کے لیے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں تھے۔ انہوں نے اور ان کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ نے اہل کشمیر کو ظالم ہندوستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ پاکستان کے حکمران کشمیریوں کو اپنے فکروعمل سے ایک ہی پیغام دے رہے ہیں اور وہ یہ کہ جو کچھ کرنا ہے تمہیں کرنا ہے۔ تحریک چلانی ہے تو تمہیں چلانی ہے۔ مظاہرے کرنے ہیں تو تمہیں کرنے ہیں۔ جان کی بازی لگانی ہے تو تمہیں لگانی ہے۔ جیل جانا ہے تو تمہیں جانا ہے۔ شہید ہونا ہے تو تمہیں ہونا ہے۔ اس سب کے باوجود بھی تم زندہ اور باقی رہے تو ہم تمہارے اور تم ہمارے۔ ان باتوں سے صاف عیاں ہے ہمارا حکمران طبقہ ہندوستان دشمن نہیں ہندوستان پرست ہے۔ وہ ہندوستان کو ایک حد سے زیادہ پریشان نہیں دیکھ سکتا۔
جنرل پرویز مشرف کارگل کے ’’ہیرو‘‘ تھے۔ انہوں نے کارگل ’’ایجاد‘‘ کیا تھا۔ جنرل پرویز پر ہمیں اتنے اعتراضات ہیں کہ ان کا نام لینا بھی ہمیں ایک آزمائش محسوس ہوتا ہے مگر کارگل ان کی ایک بہترین کاوش تھی لیکن کارگل کا یہ ہیرو کارگل سے اترتے ہی بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگتا ہوا پایا گیا۔ چوں کہ جنرل پرویز امریکا کے لیے کرائے کے فوجی کا کردار ادا کررہے تھے اس لیے انہیں بھارت سے مذاکرات کی بھیک ملی مگر انہوں نے آگرے میں کشمیر کے حوالے سے جو کچھ کیا وہ ہماری تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے۔
اب تک ہم کہتے آئے تھے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے مگر جنرل پرویز نے اس اصولی موقف پر تھوک دیا اور وہ کشمیر کے حوالے سے ’’Options‘‘ کا ’’دسترخوان‘‘ سجا کر بیٹھ گئے۔ یہ کشمیر اور پاکستان دونوں سے غداری تھی اور یہ بھارت کی بہترین خدمت تھی مگر بھارت اس خدمت سے بھی خوش نہ ہوا اور آگرہ مذاکرات آخری مرحلے میں ناکام ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہندوستان کے حوالے سے پاکستان کے حکمرانوں کا مسئلہ کیا ہے؟۔
پاکستان کے حکمرانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اپنے اوپر ’’یقین‘‘ ہی نہیں ہے۔ اقبال کہتے ہیں۔
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے ناداں کہ مغلوبِ گماں تو ہے
٭٭
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
خود اقبال نے ایک شعر میں یقیں کے حوالے سے اپنا ’’ذاتی تجربہ‘‘ بھی بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں۔
مرا دل مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر یقین کا ثبات
اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کا حکمران طبقہ بھارت کے سلسلے میں یقین سے عاری ہونے کے باعث گمانوں کے لشکر کی زد میں رہتا ہے۔
ہمارا حکمران طبقہ خواہ کچھ کہے وہ بھارت کی طاقت سے بھی خوف زدہ ہے۔ حالاں کہ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ بابر نے 8 ہزار کے لشکر سے بھارت فتح کیا۔ محمد بن قاسم نے 17 ہزار کے لشکر سے راجا داہر کی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل فوج کو شکست دی۔ طارق بن زیاد نے 17 یا 18 ہزار سپاہیوں کی مدد سے ایک لاکھ کے لشکر کو زیر کیا۔ بھارت کے مقابلے پر پاکستان کی پوزیشن بڑی مضبوط ہے۔ بھارت ایٹمی طاقت ہے تو پاکستان بھی ایٹمی طاقت ہے۔ بھارت کے پاس دور مار میزائل ہیں تو ہمارے پاس بھی دور مار میزائل ہیں۔ بھارت ایٹمی حملہ کرکے پاکستان تباہ کرسکتا ہے تو ہم بھی ایٹمی حملہ کرکے بھارت کو نیست و نابود کرسکتے ہیں۔ ایٹمی صلاحیت کی بات کی جائے تو پاکستان کے پاس فٹبال کے سائز کے ایٹم بم بھی ہیں۔ یہ صلاحیت ابھی تک بھارت کو حاصل نہیں۔ لیکن ہماری یہ طاقت بھارت کے حوالے سے ہمارے رویوں اور ہماری پالیسیوں میں نہیں جھلکتی۔ ہمارا حکمران طبقہ جس طرح 1971ء میں بھارت کی طاقت سے خوف زدہ تھا اسی طرح وہ آج بھی بھارت سے خوف زدہ ہے۔