بروس ریڈل 30 سال تک امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ رہے ہیں۔ لیکن ان کی اہمیت صرف یہی نہیں ہے۔ وہ بروکنگس انسٹی ٹیوشن کے سینئر فیلو اور اس کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا اور مشرقی وسطیٰ کے امور پر ان کی گہری نظر ہے۔ چناں چہ وہ چار امریکی صدور کے زمانے میں ان علاقوں کے لیے امریکی صدور کے مشیر رہے ہیں۔ 2009ء میں صدر اوباما نے انہیں افغانستان اور پاکستان کے Strategic Review کا چیئرمین تعینات کیا تھا۔ بروس ریڈل کی کتاب ’’What We Won! America’s Secret War in Afghanistan‘‘ اپنے موضوع پر اہم تصنیف سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب میں بروس ریڈل نے جنرل ضیا الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کی شخصیتوں، فکر اور حکمت عملی کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ تجزیہ کئی اعتبار سے اہمیت کا حاصل ہے۔ دی نیوز کراچی نے اپنی حالیہ اشاعت میں اس کے اہم اقتباسات مضمون کی صورت میں شائع کیے ہیں۔ اپنی اہمیت کی وجہ سے یہی اقتباسات آج ہمارا موضوع ہیں۔
افغان جنگ کے بارے میں پاکستان کے سیکولر اور سوشلسٹ عناصر نے اس خیال کو عام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کا جہاد ایک امریکی پروجیکٹ تھا۔ اس پروجیک کا آغاز بھی امریکا نے کیا اور اختتام بھی امریکا نے کیا۔ اس پروجیکٹ کے لیے سرمایہ بھی امریکا سے آیا اور حکمت عملی بھی امریکا سے آئی۔ لیکن بروس ریڈل نے جو کچھ لکھا ہے اس سے اس خیال کی نفی ہوتی ہے۔ بروس ریڈل نے لکھا ہے کہ جب سوویت یونین افغانستان میں آدھمکا تو جنرل ضیا الحق نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن نے کہا کہ وہ افغانستان میں سوویت یونین کی آمد کے مضمرات پر بریفنگ دیں۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے اپنی بریفنگ میں خیال ظاہر کیا کہ سوویت یونین افغانستان تک محدود نہیں رہے گا، جلد یا بدیر وہ بلوچستان پر قبضہ کرلے گا۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے اس اندیشے کا بھی اظہار کیا کہ بھارت اور سوویت یونین اتحادی ہیں۔ چناں چہ یہ بھی ممکن ہے کہ سوویت یونین مغرب اور بھارت مشرق سے پاکستان پر بیک وقت حملہ کردے۔ چناں چہ انہوں نے جنرل ضیا الحق کو مشورہ دیا کہ وہ افغان مجاہدین کی امداد میں اضافہ کردیں تاکہ افغانستان کو سوویت یونین کے لیے دلدل میں تبدیل کیا جاسکے۔ ایسا ہی ہوا۔ پاکستان نے نہ صرف یہ کہ افغان مجاہدین کی امداد میں اضافہ کیا بلکہ انہیں زیادہ منظم کرنا شروع کیا اور انہیں سوویت یونین کے لیے ڈرائونا خواب بنادیا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ افغان جہاد کے ابتدائی مرحلے میں امریکا جہاد کے اُفق پر کہیں موجود نہیں تھا اور پاکستان افغانستان میں جو مزاحمت منظم کررہا تھا اس کی پشت پر صرف اور صرف پاکستان موجود تھا۔ یعنی افغان جہاد کسی بھی اعتبار سے امریکی پروجیکٹ نہیں تھا۔
بروس ریڈل نے لکھا ہے کہ جنرل اختر عبدالرحمن نے جہاد اور مجاہدین پر پاکستان کے مکمل کنٹرول پر اصرار کیا۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے کے تعلقات کو ضابطے کے تحت لانے کے لیے اصول بنائے گئے جنہیں ’’Reagan Rules‘‘ کا نام دیا گیا مگر مجاہدین سے براہ راست صرف آئی ایس آئی کا رابطہ تھا۔ امریکا سے جو ممتاز شخصیات مثلاً نائب صدر، سی آئی اے کے اعلیٰ اہلکار اور کانگریس کے اراکین وغیرہ پاکستان آئے تھے انہیں مجاہدین کے رہنمائوں سے ملایا جاتا تھا مگر صرف تصاویر کے لیے۔ امریکیوں کا براہِ راست مجاہد رہنمائوں یا مجاہدین سے کوئی براہِ راست رابطہ اور تعلق نہ تھا۔ مجاہدین کی تربیت کا پورا نظام صرف پاکستان کے ہاتھ میں تھا۔ بروس ریڈل نے لکھا ہے کہ مجاہدین کی سیاسی جماعتوں اور مجاہدین کے کمانڈوز کو کنٹرول کرنا آئی ایس آئی کا درد سر تھا۔ یہ لوگ پشاور میں اکثر ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ افغانستان میں بھی ان کے اختلافات سطح پہ ظاہر ہوتے رہتے تھے۔ اس منظرنامے میں یونٹی آف کمانڈ صرف آئی ایس آئی سے فراہم ہوتی تھی۔
جنرل اختر عبدالرحمن پاکستان میں کئی اعتبار سے ایک متنازع کردار ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے افغان جہاد سے بڑا مال بنایا۔ انہوں نے پاکستان کی داخلی سیاست میں بھی منفی کردار ادا کیا۔ لیکن بروس ریڈل نے جنرل اختر عبدالرحمن کی بڑی تعریف کی ہے۔ بروس ریڈل نے لکھا ہے کہ جنرل اختر عبدالرحمن ایک انتہائی باصلاحیت انٹیلی جنس افسر تھے۔ وہ پریس سے دور رہتے تھے۔ انہیں اپنی تصاویر لیا جانا پسند نہیں تھا۔ وہ سرد مزاج اور لوگوں سے الگ تھلگ رہنے والے انسان تھے۔ ان سے پہلے آئی ایس آئی کے اہلکاروں کی تعداد صرف 2 ہزار تھی لیکن جنرل اختر عبدالرحمن نے آئی ایس آئی کے دائرے کو بہت پھیلادیا۔ ان کے زمانے میں آئی ایس آئی کے کارکنوں کی تعداد بڑھ کر 40 ہزار ہوگئی۔ اس زمانے میں آئی ایس آئی کا بجٹ ایک ارب ڈالر تھا۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے 1965ء اور 1971ء میں بھارت کے خلاف دو جنگیں لڑی تھیں اور وہ بھارت کو ایسا دشمن تصورکرتے تھے جسے کبھی خوش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے صرف آئی ایس آئی کے دائرے کو وسیع نہیں کیا۔ انہوں نے پاکستان کے ہر شہر اور ہر گائوں سے اطلاعات جمع کرنے کا نظام وضع کیا۔ ان کے زمانے میں ملک کے اندر ہر ٹیلی فون کال سنی جاتی تھی۔ پاکستان کے بہت سے سیاست دان آئی ایس آئی کے ’’پے رول‘‘ پر تھے۔ بروس ریڈل کے بقول آئی ایس آئی کے دائرے کی وسعت کا مقصد جنرل ضیا الحق کو اقتدار میں رکھنا تھا۔ لیکن اس وسعت نے افغان جہاد میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ بروس ریڈل کے بقول جنرل اختر عبدالرحمن اپنے افسروں کے لیے رشک اور خوف کی علامت تھے۔ بروس ریڈل نے لکھا ہے کہ سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی جنرل اختر عبدالرحمن کے پیچھے لگی ہوئی تھی اور اس نے ان کے سر کی بھاری قیمت مقرر کی ہوئی تھی۔
مغرب اور سوویت یونین کے درمیان برپا سرد جنگ 20 ویں صدی کی تعریف متعین آنے والی چیز تھی۔ یہ سرد جن عالم گیر تھی۔ یہ جنگ یورپ میں بھی لڑی جارہی تھی اور لاطینی امریکا میں بھی۔ یہ جنگ ایشیا میں بھی برپا تھی اور افریقا میں بھی۔ چالیس سال تک اس جنگ کو کوئی فتح نہ کرسکا۔ نہ امریکا نہ سوویت یونین۔ لیکن بالآخر اس جنگ میں سوویت یونین کو شکست ہوگئی۔ اس جنگ کی فتح کا سہرا امریکا کے سر باندھا گیا تاہم بروس ریڈل نے لکھا ہے کہ پاکستان کی قیادت نے صرف افغان جہاد ہی میں اہم کردار ادا نہیں کیا، اس نے سرد جنگ میں سوویت یونین کی شکست کے حوالے سے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ بروس ریڈل نے لکھا ہے کہ جنرل ضیا الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن صرف جرنیل نہیں تھے وہ اعلیٰ درجے کے ’’حکمت کار‘‘ اور ’’سفارت کار‘‘ بھی تھے۔ انہوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کو ایک لڑی میں پرونے کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔ بلاشبہ افغان جہاد میں افغان مجاہدین نے اہم کردار ادا کیا مگر وہ پاکستان کے بغیر سوویت یونین کو نہیں ہرا سکتے تھے۔ افغانستان میں سوویت یونین کا راستہ روکنے کا فیصلہ غیر معمولی طور پر جرأت مندانہ تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ جنرل ضیا اور جنرل اختر عبدالرحمن نے افغانستان کی کیتلی میں اُبلتے ہوئے پانی کو کبھی اتنا گرم نہیں ہونے دیا کہ سوویت یونین افغانستان سے نکل کر پاکستان میں داخل ہوجائے۔
بروس ریڈل کے بقول افغان جہاد کے ابتدائی مرحلے ہی سے جنرل ضیا الحق نے جہاد کے دوسرے مرحلے کی تیاری شروع کردی تھی۔ جہاد کا دوسرا مرحلہ مقبوضہ کشمیر میں جہاد سے متعلق تھا۔ بروس ریڈل کے مطابق امریکا نے پاکستان کو افغان جہاد کے سلسلے میں جو مدد کی اس کا ایک حصہ مقبوضہ کشمیر میں جہاد کے لیے استعمال کیا گیا۔ پاکستان نے خاموشی کے ساتھ کشمیریوں کی مدد شروع کردی۔ سعودی عرب میں کشمیری مجاہدین اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں۔
اوجھڑی کیمپ کا سانحہ پاکستان کی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔ اس سانحے میں آئی ایس آئی کے پانچ افسروں سمیت سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ بروس ریڈل نے اس سانحے کے ذمے داروں کا بھی ذکر کیا ہے۔ بروس ریڈل نے لکھا ہے کہ افغانستان میں جاری جہاد کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرنے کے لیے راولپنڈی کے باہر اوجھڑی کے مقام پر ایک ڈپو بنایا گیا تھا۔ بروس ریڈل کے مطابق اس ڈپو میں 10 ہزار ٹن اسلحہ اور گولہ بارود موجود تھا جسے 10 اپریل 1988ء کو دھماکے سے اُڑا دیا گیا۔ بروس ریڈل کے بقول انہیں 2012ء میں بھارت کے دو انٹیلی جنس اہلکاروں نے بتایا کہ اوجھڑی کیمپ کو بھارت نے تباہ کیا تھا اور اس کا مقصد کشمیر اور بھارتی پنجاب میں پاکستان کے کردار کا حساب برابر کرنا تھا۔
بروس ریڈل نے 17 اگست 1988ء کے روز تباہ ہونے والے جنرل ضیا الحق کے طیارے پر بھی اہم گفتگو کی ہے۔ اس طیارے میں جنرل اختر عبدالرحمن سمیت کئی فوجی افسران جاں بحق اور امریکی سفیر ہلاک ہوگئے تھے۔ بروس ریڈل نے لکھا ہے کہ پاکستانی اور امریکی فضائیہ کی مشترکہ ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ حادثہ مجرمانہ اقدامات اور سبوتاژ کا نتیجہ ہے تاہم بروس ریڈل کے بقول مجرموں کی نشاندہی میں نہ امریکا نے دلچسپی لی نہ پاکستان نے۔ اس تجزیے کا مفہوم عیاں ہے اور وہ یہ کہ حادثے میں امریکا بھی ملوث تھا اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے عناصر نے بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ایسا نہ ہوتا تو حادثے کے ذمے داروں کا تعین بھی ہوتا اور انہیں سزا بھی دی جاتی۔ بروس ریڈل نے تحریر کیا ہے کہ جنرل ضیا الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن زندہ ہوتے تو افغانستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ یہ دونوں لوگ افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے بعد افغانستان کو مستحکم رکھنے میں کردار ادا کرتے۔