امریکا ہمارے زمانے کی ایک غالب قوت ہے۔ اس کا غلبہ عالمگیر ہے۔ دنیا کے کتنے ملک ہیں جن کی سیاست امریکا مرکز ہے، دنیا کے درجنوں ملک ہیں جن کی معیشت امریکا کی مٹھی میں ہے، کسی اور کیا یورپ جیسی طاقت کا دفاع امریکا کے ہاتھ میں ہے۔ آج امریکا یورپ کے سر سے اپنے دفاع کی چھتری اٹھالے تو یورپ کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ امریکا کے اس غلبے کے کئی ہولناک نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے ملک امریکا کے غلام ہیں۔ غلامی کی کئی صورتیں ہیں۔ ان صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ غلام کو اپنی غلامی کا احساس ہوتا ہے اور وہ غلامی سے نجات کی خواہش رکھتا ہے۔ لیکن غلامی کی ایک ہولناک صورت یہ ہے کہ انسان غلامی کا جشن منانے لگتا ہے۔ اسے Celeberate کرنے لگتا ہے۔ غلامی کی اس صورت میں انسان دائمی طور پر غلامی کا اسیر ہوجاتا ہے۔ اس کے ذہن سے آزادی کا خیال ہی نکل جاتا ہے۔ مسلم دنیا میں ایسے کروڑوں انسان موجود ہیں۔ ان میں سے ایک انسان غامدی صاحب کے شاگرد رشید خورشید ندیم بھی ہیں۔ امریکا کے سلسلے میں ان کی غلامی کا یہ کیا عالم ہے خود انہی کی زبانی سنیے۔ خورشید ندیم اپنے ایک حالیہ کالم ’’کیا ہم غلام ہیں؟‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا امریکا کی غلامی سے نجات کا سودا کسی ہوش مند معاشرے میں بک سکتا تھا؟ سیاسی وابستگی سے صرف نظر کرتے ہوئے، کبھی اس مقدمے کا تجزیہ (Deconstruction) کیجیے۔
پہلی چیز لغت ہے جو پوسٹ ٹرتھ کی تخلیق میں سب سے اہم ہے۔ وہ کون سے الفاظ ہیں جو ذہن کی چھلنی سے گزرے بغیر براہ راست مخاطب کے جذبات تک پہنچ سکتے ہیں؟ سب سے پہلے ان کو تلاش کیا جاتا ہے۔ آسان ترین طریقہ ان الفاظ کا کھوج لگانا ہے جو کسی تاریخی تجربے کی روشنی میں مخاطب کے لاشعور کا حصہ بن چکے ہوں۔ ’’غلام‘‘ ایسا ہی ایک لفظ ہے۔ عصری لغت میں، یہ متروک ہوچکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غلامی اپنے اصطلاح مفہوم میں باقی نہیں رہی۔ ہمارے لاشعور سے مگر یہ لفظ نکل نہیں سکا۔ علامہ اقبال ہمارے نصاب کا حصہ ہیں اور واعظین و سیاست دان، آج بھی ان کے اشعار کے ساتھ، عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ اس لیے آج بھی یہ لفظ اپنے اس تاریخی پس منظر کے ساتھ، جب ہم انگریزوں کے غلام تھے، ہمارے لاشعور میں رچ بس گیا ہے۔ جیسے ہی یہ لفظ بولا جاتا ہے، ہم کم و بیش ایک صدی ماضی میں چلے جاتے ہیں۔
نعرہ لگانے والا بھی یہی چاہتا ہے۔ اس کے بعد اس کے لیے اپنا مقدمہ پیش کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس کو مزید اس طرح واضح کیا جاتا ہے کہ آج بھی ہمیں تحریک پاکستان کے جذبے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد لوگ خود بخود کسی قائداعظم ثانی کو ڈھونڈ لیتے ہیں اور یہ وہی ہوسکتا ہے جو غلامی سے نجات دلا سکتا ہے۔ ایک مسیحا۔ ایک نجات دہندہ۔ اگر اس پس منظر سے الگ ہو کر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو اقوام متحدہ کے قیام کے بعد اقوام کے باہمی تعلقات کا ایک نیا ماڈل وجود میں آچکا۔ اس ماڈل کو تخلیق کرنے والی اقوام نے اس میں اپنی بالادستی کا سامان کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی اپنا مقدر بدلنا چاہے تو اس کے لیے امکانات موجود ہیں۔ جاپان اور چین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ آج قوموں کے باہمی تعلقات غلامی یا آزادی کی بنیاد پر نہیں باہمی مفادات کی سطح پر طے ہوتے ہیں۔ ضیا الحق صاحب کے دور میں امریکا نے چاہا کہ پاکستان افغانستان میں روس کے خلاف امریکا کے ساتھ تعاون کرے۔ ہم آمادہ ہوگئے۔ جواب میں ایک طرف امریکا نے ایٹمی پروگرام پر ہماری پیش رفت سے صرف نظر کیا اور دوسری طرف ڈالرز کی ریل پیل ہوگئی۔
فیصلہ بہرحال ہمیں ہی کرنا ہے اور وہ بھی اپنے معروضی حالات کے پیش نظر۔ آج آپ امریکا کو صاف جواب دے دیں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی متبادل ہے۔ آپ کے پاس اپنی معاشی اور عسکری قوت کو بڑھانے کا کوئی دوسرا راستہ موجود ہے تو ضرور اس پر چلیے۔ آپ کو امریکا روکتا ہے نہ کوئی اور۔ یہ سفارت کاری امتحان ہے۔ کیا تحریک انصاف سمیت کسی جماعت کے پاس کوئی ایسا معاشی منصوبہ موجود ہے جو آئی ایم ایف سے بے نیاز ہو کر قابل عمل ہو؟ یقینا نہیں ہے۔ کیا امریکی ٹیکنالوجی سے بے نیاز ہو کر، ہم اپنی فضائیہ کو مضبوط بناسکتے ہیں۔ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔
(روزنامہ دنیا۔ 16 اگست 2022ء)
خورشید ندیم نے اپنے اسی کالم کے آغاز میں یہ فقرہ بھی لکھا ہے کہ سوچنے سمجھنے کے ہم قائل نہیں۔ مذہب اور سیاست میں ہم رومان پرور ہیں۔ رومان کا ایک مطلب خواب ہے۔ خواب کے ایک معنی مثالیے یا Ideal کے ہیں۔ دنیا کی غریب ترین قوم وہ ہے جس کی آنکھوں میں کوئی خواب نہیں۔ جو کسی Ideal سے وابستہ نہیں۔ جو اپنے مثالیے کے مطابق دنیا کو بدلنے کی تمنا کیا خواہش بھی نہیں رکھتی۔ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں خواب سے بڑی انقلابی قوت کا تصور محال ہے۔ خواب مثالیہ ہے۔ خواب Ideal ہے۔ خواب امید ہے، خواب میں وہی قوت اور تاثیر ہے جو بارش میں ہوتی ہے۔ بارش سے پہلے تھر لق و دق صحرا کا منظر پیش کررہا ہوتا ہے۔ لیکن بارش کے ہوتے ہی تھر میں ہر طرف سبزہ اُگ آتا ہے۔ یہاں تک کہ تھر کو پہچاننا دشوار ہوجاتا ہے۔ خواب کی بارش بھی زندگی کے صحرا کو سبزہ زار میں ڈھال دیتی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو مذہب انسان کا سب سے بڑا خواب ہے۔ جدید فلسفے کو لوگ بڑی چیز سمجھتے ہیں۔ مگر فلسفہ صرف یہ بتاتا ہے کہ زندگی کیا ہے۔ مذہب نہ صرف یہ کہ یہ بتاتا ہے کہ زندگی کیا ہے، بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ زندگی کو کیسا ہونا چاہیے۔ یہی خواب کی قوت ہے۔ یہی خواب کا جمال ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خواب دیکھنے والوں سے زیادہ اہم کوئی نہیں۔
انبیا و مرسلین انسانیت کی تاریخ کی عظیم ترین ہستیاں ہیں۔ انبیا کی تاریخ یہ ہے کہ تمام انبیا نے انسانیت کو کفر اور شرک کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کی۔ انہوں نے حاضر و موجود کے جبر کو تسلیم نہیں کیا۔ نمرود بادشاہِ وقت تھا۔ اس کے پاس سلطنت تھی، اس کے پاس فوج تھی، اس کے ساتھ قوم تھی، اس کے برعکس سیدنا ابراہیمؑ تنہا تھے۔ فرد واحد تھے۔ آپ کے پاس نہ حکومت تھی، نہ سلطنت تھی، فوج تھی نہ کوئی پارٹی تھی۔ لیکن اس کے باوجود انہیں حکم ہوا کہ تم نمرود کی جھوٹی خدائی کو چیلنج کرو۔ نمرود کو اس کی اوقات بتائو۔ سیدنا ابراہیمؑ نے اس کے جواب میں خدائے واحد سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے ریاست اور فوج عطا کر۔ پہلے قوم کی قوت سے سرفراز کر، پھر میں نمرود کو چیلنج کروں گا۔ آپ نے تن تنہا نمرود کو چیلنج کیا۔ آپ نے نمرود سے کہا کہ تو جھوٹا خدا ہے۔ آپ نے فرمایا میرا خدا تو وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اگر اپنے خدائی کے دعوے میں سچا ہے تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا۔ سیدنا موسیٰؑ اور ان کے بھائی سیدنا ہارونؑ بھی تنہا تھے۔ ان کا مقابلہ بھی بادشاہ وقت سے تھا۔ وقت کی سلطنت سے تھا۔ وقت کی سب سے بڑی فوج کے ساتھ تھا۔ اس کے باوجود ان دونوں نے وقت کے حاضر و موجود کو چیلنج کیا اور بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی۔ رسول اکرمؐکی سیرت طیبہ کا پیغام بھی یہی ہے کہ باطل خواہ کتنا ہی طاقت ور ہو اس کے آگے ہتھیار نہ ڈالو۔ وقت کا جبر خواہ کتنا ہی قوی ہو اس کے آگے سر نہ جھکائو۔ رسول اکرمؐ 313 افراد کو ایک ہزار کے لشکر کے سامنے لے کر کھڑے ہوگئے۔ رسول اکرمؐ نے جس فضا میں کام شروع کیا تھا اس فضا میں بظاہر ایمان کے کفر اور شرک کے متبادل کے طور پر اُبھرنے کاکوئی امکان نظر نہیں آتا تھا۔ لیکن انبیا کی سنت یہی ہے کہ وہ رات کا سینہ چاک کرکے صبح کا سورج طلوع کرتے تھے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں انبیا کی سنت کی پیروی کرنی چاہیے۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت حاضر و موجود کی اسیر ہوتی ہے۔ خورشید ندیم اور ان کے استاد مکرم جاوید غامدی بھی حاضر و موجود کے اسیر ہیں۔ چناں چہ انہیں ہر طرف امریکا اور مغرب ہی نظر آتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ اس حاضر و موجود کا کوئی متبادل نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حاضر و موجود کی کشش ثقل یا Gravitational Force غیر معمولی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ حاضر و موجود ہمارے مفادات سے عبارت ہوتا ہے۔ ہمارے تعصبات سے عبارت ہوتا ہے۔ ہمارے ذہنی و نفسیاتی تحفظات سے عبارت ہوتا ہے۔ چناں چہ اس کی کشش ثقل سے آزاد ہونا آسان ہوتا۔ لیکن جس طرح راکٹ زمین کی کشش ثقل کو توڑ دیتا ہے۔
ٹھیک اسی طرح خواب حاضر و موجود کی کشش ثقل کو ناکارہ بنا کر انسان کو حاضر و موجود سے بلند کردیتا ہے۔
خواب انسان کو خودشناس بناتا ہے۔ اس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے۔ انسان جب تک حاضر و موجود کا اسیر رہتا ہے اس وقت تک صرف معلوم صلاحیتیں ہی اس کے کام آتی ہیں۔ مگر خواب انسان پر اس کی نامعلوم صلاحیتوں کا انکشاف کرتا ہے۔ خواب معلوم کی سرحد کو نامعلوم کی سرحد سے ملادیتا ہے۔ حاضر و موجود کے حوالے سے کہیں صرف انسان کا ذہن بروئے کار آتا ہے۔ کہیں صرف اس کے جذبات بروئے کار آتے ہیں۔ کہیں صرف اس کے احساسات کام آتے ہیں۔ مگر خواب انسان کے پورے وجود کو متحرک کردیتا ہے۔ اس طرح انسان ’’معمولی‘‘ سے ’’غیر معمولی‘‘ بن جاتا ہے۔ اقبال جب تک وطن پرست شاعر تھے وہ حاضر و موجود کی گرفت میں تھے اور زیادہ سے زیادہ صرف اچھے شاعر کہلاسکتے تھے۔ مگر اسلام کے احیا کے خواب نے انہیں بیسویں صدی کا شاعر اعظم بنا کر کھڑا کردیا۔ مولانا مودودی کے سفر کی ابتدا صحافت سے ہوئی تھی۔ اس وقت مولانا مودودی صرف ایک اچھے صحافی تھے۔ مگر اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے خواب نے مولانا مودودی کو وقت کا مفکر اور مجدد بنا کر کھڑا کردیا۔
کہنے کو خواہش، آرزو اور تمنا ایک دوسرے کے متبادل الفاظ ہیں مگر ان کی معنویت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خواہش انسانی وجود کے صرف ایک معمولی گوشے یا حصے کی علامت ہے۔ آرزو انسانی وجود کے بڑے حصے کا استعارہ ہے۔ جب کہ تمنا انسانی وجود کی کلیت کو ظاہر کرتی ہے۔ انسانوں کی عظیم اکثریت خواہش کے زیر اثر زندگی بسرکرتی ہے۔ بہت کم لوگ خواہش سے بلند ہوکر آرزو تک پہنچ پاتے ہیں۔ رہی تمنا تو وہ صرف چند لوگوں کا مقدر بن پاتی ہے۔ خواب کا کمال یہ ہے کہ وہ انسان کے روحانی، نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی ارتقا کو ممکن بنا کر اسے آرزو اور تمنا سے ہمکنار کرتا ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری دنیا خواب کی دنیا نہیں ہے۔ مثالیے یا Ideal کی دنیا نہیں ہے۔ اس دنیا میں کوئی خواب کا خریدار نہیں۔ ن م راشد جدید نظم کا سب سے بڑا نام ہے۔ ان کی ایک نظم ہے ’’اندھا کباڑی‘‘ یہ کباڑی ٹھیلے پر گلی گلی خواب بیچتا پھرتا ہے۔ اس کباڑی کے کاروبار کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ہوئے
یا شکستہ سربریدہ خواب
جن سے شہر والے بے خبر
گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روز و شب
کہ ان کو جمع کرلوں
دل کی بھٹی میں تپائوں
جن سے چھٹ جائے پرانا میل
ان کے دست و پا پھر سے ابھر آئیں
چمک اٹھیں لب و رخسار و گردن
جیسے نو آراستہ دولھوں کے دل کی حسرتیں
پھر سے ان خوابوں کو سمت ِ راہ ملے
٭٭
خواب لے لو خواب
صبح ہوتے چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا
خواب اصلی ہیں کہ نقلی؟
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
خواب داں کوئی نہ ہو،
٭٭
خواب گر مَیں بھی نہیں
صورت گرِ ثانی ہوں بس
ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں
٭٭
شام ہوجاتی ہے
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا
’’مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب‘‘
مفت سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ
دیکھنا یہ مفت کہتا ہے
کوئی دھوکا نہ ہو
ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو
گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
یا پگھل جائیں یہ خواب
بھک سے اُڑ جائیں کہیں
یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب
جی نہیں کس کام کے؟
ایسے کباڑی کے یہ خواب
ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب
٭٭
رات ہوجاتی ہے
خوابوں کے پلندے سر پہ رکھ کر
منہ بسورے لوٹتا ہوں
رات بھر پھر بڑبڑاتا ہوں
’’یہ لے لو خواب‘‘
اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
خواب لے لو، خواب
میرے خواب
خواب، میرے خواب
خواا اب
ان کے داااام بھی ی ی ی
خورشید ندیم کی آنکھوں میں اگر آزادی کا کوئی خواب ہوتا تو وہ امریکا کے حاضر و موجود کو ضرور چیلنج کرتے۔ فکری طور پر ہی سہی۔