ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے جب تک قائداعظم زندہ تھے ریاست کی ماں کی طرح تھی۔ صرف پاکستانیوں کے لیے نہیں پوری امت مسلمہ کے لیے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قائداعظم نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس نے اپنی مسلم اقلیت کے ساتھ ظلم کیا تو پاکستان خاموش نہیں رہے گا بلکہ ہندوستان میں مداخلت کرے گا۔ ظاہر ہے کہ مداخلت بیانات کے ذریعے نہیں ہوتی۔ مداخلت فوجی طریقے سے ہوتی ہے۔ قائداعظم کے دل میں صرف بھارت کے مسلمانوں کا درد نہیں تھا۔ ان کا دل فلسطین کے مسلمانوں کے لیے بھی دھڑک رہا تھا۔ یہودی برطانیہ کی سازش کے تحت ارض فلسطین پر قابض ہورہے تھے۔ چناں چہ قائداعظم نے فرمایا کہ اگر یہودی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو پاکستان اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کرے گا خواہ اسے اس سلسلے میں ’’تشدد‘‘ کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ قائداعظم کا یہ طرزِ عمل بتارہا تھا کہ وہ پوری امت کے دکھ درد کو سنبھال رہے تھے اور وہ ایسا کیوں نہ کرتے۔ انہوں نے برسوں تک نظریۂ پاکستان کو سنبھال کر دکھایا۔ انہوں نے برصغیر کی ملت اسلامیہ کی تاریخ کو سنبھال کر دکھایا۔ انہوں نے برصغیر کی ملت اسلامیہ کی تہذیب کو سنبھال کر دکھایا۔ لیکن قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد جو حکمران طبقہ پاکستان پر مسلط ہوا اس سے کچھ بھی نہیں سنبھل رہا۔ سیلاب تک نہیں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے پوری قوم کو آگاہ کیا ہے کہ سیلاب سے 4 کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب نے 151 شہروں میں تباہی پھیلائی ہے۔ 55 لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ 20 لاکھ مویشی سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں، کھربوں روپے کا نقصان ہوا ہے، سیلاب کو آئے اب پندرہ دن ہوگئے ہیں مگر پاکستان کے حکمران کہیں متاثرین کا درد بانٹتے نظر نہیں آرہے۔ میاں شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں مگر وہ صرف اپنی تصویریں کھنچوانے اور ٹی وی پر نظر آنے کے لیے کوشاں ہیں۔ شریف خاندان کھربوں روپے کا مالک ہے۔ وہ اگر سیلاب سے متاثرہ افرادکے لیے 10 ارب روپے کا اعلان کردیتا تو اس کے وسائل میں کوئی کمی نہ آجاتی مگر ابھی تک شریف خاندان نے سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے کسی امداد کا اعلان نہیں کیا۔ یہی حال بھٹو خاندان کا ہے۔ بھٹو خاندان بھی کھرب پتی ہے۔ آصف علی زرداری نے گزشتہ 30 سال میں کھربوں کمائے ہیں۔ چناں چہ وہ اگر سندھ کے متاثرہ افراد کے لیے پانچ ارب روپے کی مدد کا اعلان کردیتے تو یہ ایک معمولی بات ہوتی۔ مگر بھٹو خاندان نے پورے ملک کے کیا سندھ کے شہریوں کے لیے بھی کسی امداد کا اعلان نہیں کیا۔ شریف خاندان اور بھٹو خاندان اس سلسلے میں صرف ریاستی وسائل کو استعمال کررہے ہیں۔ اس کے باوجود سیلاب کے متاثرین جگہ جگہ شکایت کررہے ہیں کہ انہیں اب تک کوئی سرکاری مدد میسر نہیں آئی۔ یہ منظرنامہ بتارہا ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ سیلاب سے پیدا ہونے والی صورت حال کو سنبھالنے میں بری طرح ناکام ہورہا ہے۔ یہی صورت حال 2010ء میں سندھ میں آنے والے سیلاب کے وقت تھی۔ اس سیلاب میں جماعت اسلامی نے ایک ریاست کی طرح سندھ کے بھائیوں کی مدد کی تھی۔ جماعت اسلامی نے اس سلسلے میں سندھ کے بعض علاقوں میں سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد کو ایک ایک کمرے کے مکان بنا کر دیے تھے۔ اس حوالے سے ہونے والی ایک تقریب میں ہمیں بھی شرکت کا موقع ملا۔ ہم نے وہاں موجود اپنے سندھی بھائیوں سے پوچھا سیلاب تو آیا تو پیپلز پارٹی کے کسی مرکزی رہنما نے آپ کی مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ نہیں سائیں کسی مرکزی رہنما نے ہماری مدد نہیں کی۔ ہم نے پوچھا کسی صوبائی وزیر یا صوبائی سطح کے کسی رہنما نے آپ کی داد رسی کی۔ کہنے لگے کسی نے نہیں کی۔ ہم نے پوچھا پیپلز پارٹی کا کوئی ضلعی یا علاقائی رہنما آپ کی مدد کو آیا۔ جواب آیا کہ نہیں آیا۔ ہم نے پوچھا پھر آپ کی مدد کس نے کی۔ کہنے لگے ہماری مدد کو یا تو فوج آئی یا جماعت اسلامی آئی۔ ہم نے پوچھا جماعت اسلامی نے آپ کی کیا مدد کی۔ سیلاب سے متاثرہ لوگوں نے کہا کہ جماعت کے کارکنوں نے ہمیں خیمے دیے، کھانا مہیا کیا، علاج معالجے کی سہولت فراہم کی اور اب یہ ایک ایک کمرے کا گھر بنا کر ہم کو دیا جارہا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ اب آئندہ انتخابات میں آپ ووٹ کس کو دیں گے۔ کہنے لگے سائیں ووٹ تو رانی بے نظیر کا ہے۔ یہ سانحہ 2010ء کے سیلاب میں بھی ہوا تھا اور اب 2022ء کے سیلاب میں بھی ہوا ہے کہ سندھ کے بڑے بڑے وڈیروں نے اپنی زمینوں کو بچانے کے لیے سیلابی ریلوں کا رخ عام سندھیوں کی بستیوں کی جانب کردیا۔
ہمیں 2005ء کا زلزلہ بھی یاد ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اس زلزلے سے بھی نمٹنے میں ناکام رہا تھا۔ یہ جنرل پرویز کا زمانہ تھا۔ اس زلزلے میں ایک لاکھ افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ زلزلے نے 32 ہزار مربع کلو میٹر کے رقبے پر تباہی پھیلائی تھی۔ ہم زلزلے کے 17 ویں روز نعمت اللہ خان صاحب کے ہمراہ آزاد کشمیر کے دارالحکومت پہنچے تو ملک کے سب سے منظم ادارے یعنی فوج کا یہ حال تھا کہ 17 ویں روز مظفرآباد میں کمبائن ملٹری اسپتال کا ملبہ اٹھنا شروع ہوا تھا۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کا یہ عالم تھا کہ وہ 17 دنوں میں ایک لاکھ لوگوں کو کھانا کھلا چکی تھی۔ 20 ہزار سے زیادہ زخمیوں کو علاج کی سہولت مہیا کی جاچکی تھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں نے سیکڑوں زخمیوں کو دشوار گزار پہاڑی علاقوں سے پیٹھ پر لاد کے مظفر آباد منتقل کیا تھا۔ جمعیت کے درجنوں نوجوانوں نے بچوں کی تعلیم کے لیے اسکول کھول دیے تھے۔ جماعت اسلامی کے سوا مظفر آباد میں اگر کوئی کام کررہا تھا تو جماعت الدعوۃ۔ ان کے سوا متاثرہ علاقوں میں کوئی موجود نہ تھا۔ حکومت کا مظفر آباد، بالاکوٹ اور مانسہرہ میں دور دور تک نام و نشان موجود نہ تھا۔ اس زلزلے میں جماعت اسلامی ایک چھوٹی سی ریاست بن کر ابھری تھی۔ اس نے نقد اور اشیا کی صورت میں زلزلے سے متاثرہ افراد پر پانچ ارب روپے صرف کیے تھے۔ یہ صورت حال بتارہی ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے سے نہ کبھی سیلاب سنبھلا نہ کبھی زلزلہ سنبھلا۔ وہ ہر مشکل میں معاشرے اور بین الاقوامی برادری کے آگے بھیک مانگتا نظر آتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ حکمرانی کے مزے تو حکمران لوٹیں اور آفتوں کا بوجھ معاشرہ اور بین الاقوامی برادری اٹھائے۔ یعنی دکھ سہیں بھی فاختہ اور کوّا انڈے کھائے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ایک فائیو اسٹار زندگی بسر کررہا ہے۔ پاکستان کے سول حکمران اربوں کھربوں میں کھیلتے ہیں۔ ان کا لباس، ان کی غذا ان کا پورا لائف اسٹائل فائیو اسٹار ہے۔ ہمارے کورکمانڈرز تک کا یہ حال ہے کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد انہیں کروڑ کمانڈر کہا کرتے تھے۔ اس کے برعکس معاشرے کی عظیم اکثریت فائیو اسٹار کیا صرف ایک اسٹار زندگی بھی بسر نہیں کرتی مگر جب کوئی آفت آتی ہے جب کوئی مشکل آتی ہے تو حکمران طبقہ اپنا سارا بوجھ عام آدمیوں پر ڈال دیتا ہے۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان کا نظریہ ایک معجزے کی طرح تھا۔ اس نظریے نے برصغیر کے مسلمانوں کی بھیڑ کو قوم بنایا تھا۔ اس نظریے نے محمد علی جناح کو قائداعظم میں ڈھالا تھا۔ اس نظریے نے پاکستان کو ’’عدم‘‘ کے اندھیرے سے نکال کر ’’وجود‘‘ کی روشنی عطا کی تھی مگر پاکستان کا حکمران طبقہ اس غیر معمولی نظریے کو بھی نہ سنبھال سکا۔ جنرل ایوب نے ملک و قوم پر سیکولر ازم مسلط کرنے کی سازش کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم ایجاد کرلیا، حالاں کہ اسلام سوشلزم کی اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا۔ بے نظیر بھٹو کے مذہبی شعور کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ایک جلسے میں اذان کی آواز سن کر کہا خاموش ہوجاتے ہیں اذان ’’بج‘‘ رہا ہے۔ جنرل پرویز نے ملک پر لبرل ازم مسلط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
پاکستان کا حکمران طبقہ ملک کے نظریے کو کیا خود پاکستان کو بھی نہ سنبھال پایا۔ پاکستان 1947ء میں بنا تھا مگر 1971ء میں پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ اقلیت اکثریت سے الگ ہوتی ہے مگر 1971ء میں پاکستان کی 56 فی صد آبادی نے اعلان کردیا کہ وہ اقلیت کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے حکمران طبقہ نے بنگالیوں کے ساتھ ظلم کیا، پاکستان کے حکمرانوں نے بنگالیوں کے ساتھ انصاف سے کام نہ لیا۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے بنگالیوں کی اکثریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان پر ون یونٹ مسلط کیا۔ انہوں نے ملک کے اہم ترین ادارے فوج کے دروازے بنگالیوں پر 1962ء تک بند رکھے۔ اس بعد بنگالیوں کو فوج میں لیا گیا مگر آٹے میں نمک کے برابر، بنگالی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر 1970ء میں فوج میں ان کی موجودگی صرف 8 سے 10 فی صد تھی۔ 1970ء میں انتخابات ہوئے تو عوامی لیگ ملک کی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے اس کی اکثریت کو تسلیم ہی نہ کیا۔ چناں چہ ملک ٹوٹ گیا۔
پاکستان کی آزادی پر 10 لاکھ سے زیادہ لوگ قربان ہوئے تھے۔ ہزاروں مائوں اور بیٹیوں نے اس ملک کے لیے اپنی عصمتیں گنوائیں تھیں مگر پاکستان کا حکمران پاکستان کی آزادی کو نہ سنبھال سکا۔ اس نے پاکستان کی آزادی امریکا کے پاس گروی رکھ دی۔
پاکستان میں مارشل لا آتا ہے تو امریکا کی مرضی ہے، جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امریکی اشارے پر، ہماری معاشی آزادی امریکا کے ادارے آئی ایم ایف کے پاس گروی پڑی ہے۔ ملک کے عوام کی عظیم اکثریت کا یہ حال ہے کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی ملک کی 40 فی صد آبادی ناخواندہ ہے۔ ملک میں سات سے دس کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ 70 فی صد لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں۔ 70 فی صد لوگوں کو علاج کی مناسب سہولت فراہم نہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ قوم کو بھی سنبھال نہیں سکا۔