روزنامہ ڈان میں امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے مشیر ڈیرک شولے کا اہم انٹرویو شائع ہوا ہے۔ اس انٹرویو میں ڈیرک شولے نے اتنے جھوٹ بولے ہیں کہ پروین شاکر کا شعر یاد آگیا۔ پروین شاکر نے کہا ہے۔
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جائوں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
ڈیرک شولے نے اپنے انٹرویو میں جھوٹ پر جھوٹ گھڑا ہے مگر انٹرویو کرنے والے نے انہیں کہیں روکا ہی نہیں۔ امریکی اس طرز عمل کے عادی ہیں۔ وہ پوری دنیا میں جھوٹ بولتے پھرتے ہیں مگر کوئی ان کے جھوٹ کو چیلنج ہی نہیں کرتا۔ امریکی جھوٹ بولتے ہیں اور سننے والے کان دبا کر ان کے جھوٹ کو سنتے ہیں۔ دنیا کے اس طرز عمل نے امریکیوں کو وحشی اور درندہ بنا دیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ڈیرک شولے نے کہا کیا ہے؟۔
ڈیرک شولے نے ایک بات یہ کہی ہے کہ امریکا پاکستان سے یہ نہیں کہتا کہ وہ چین اور امریکا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے بلکہ وہ پاکستان کو اس بات کی آزادی دیتا ہے کہ وہ امریکا اور چین میں سے جسے چاہے منتخب کرلے۔ تاہم ڈیرک شولے نے اس کے ساتھ ہی یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ جو ملک چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرتے ہیں اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ (روزنامہ ڈان کراچی، یکم ستمبر 2022ء)
پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو استوار ہوئے 75 سال ہوگئے ہیں اور یہ 75 سال پاکستان کی آزادی کے سال نہیں ہیں پاکستان کی غلامی کے سال ہیں۔ ان برسوں میں امریکا نے کبھی پاکستان کی آزادی کا دفاع نہیں کیا۔ اسے کبھی بھی آزادی کا جشن نہیں منانے دیا۔ جنرل ایوب خان نے مارشل لا 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ رابطہ استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ امریکیوں کو خفیہ مراسلوں میں بتارہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب امریکیوں کو آگاہ کررہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ہرگز ملک تباہ نہیں کرنے دے گی۔ امریکا جمہوریت کا چمپئن تھا چناں چہ اسے جنرل ایوب کو منہ نہیں لگانا چاہیے تھا۔ ایک جمہوریہ کی حیثیت سے امریکا کا فرض تھا کہ وہ جنرل کو بتاتا کہ ملک چلانا جرنیلوں کا نہیں سیاست دانوں کا کام ہے۔ مگر امریکا نے جنرل ایوب کو مارشل لا لگانے کی جرأت عطا کی۔ اس نے جنرل ایوب کی فوجی آمریت کا خیر مقدم کیا۔ ان کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے، امریکا کو پاکستان کی آزادی عزیز ہوتی تو وہ پاکستان کو سیٹو اور سینٹو کا رکن بننے پر مجبور نہ کرتا۔ سیٹو اور سینٹو کمیونسٹ دنیا کے خلاف وضع کیے گئے بندوبست تھے اور سیٹو اور سینٹو کا رکن بننے والا ملک امریکا کا اتحادی یا غلام بن جاتا تھا۔ امریکا نے پاکستان کی آزادی پر ایک اور حملہ اس طرح کیا کہ اس نے سوویت یونین کی نگرانی کے لیے جنرل ایوب سے بڈھ بیر کا ہوائی اڈہ مانگ لیا۔ جنرل ایوب کی اس حرکت پر سوویت یونین پاکستان سے اتنا ناراض ہوا کہ سوویت یونین کے صدر نے بڈھ بیرکے گرد سرخ نشان بنادیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ سوویت یونین کسی بھی وقت بڈھ بیر پر حملہ کرکے ہوائی اڈے کو تباہ کردے گا۔ جنرل ایوب کے دو چہرے تھے۔ ان کا ایک چہرہ اپنی قوم کے لیے تھا۔ اس چہرے میں جنرل ایوب مرد آہن نظر آتے تھے۔ جنرل ایوب کا دوسرا چہرہ امریکا کے لیے تھا۔ اس چہرے سے جنرل ایوب امریکا کے غلام دکھائی دیتے تھے۔ جنرل ایوب کو بھی اس بات کا احساس تھا۔ چناں چہ انہوں نے الطاف گوہر سے ایک کتاب لکھوائی جس کا عنوان تھا ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ اس کتاب کو لکھوانے کا مقصد اس خیال کو عام کرنا تھا کہ ہم امریکا کے دوست ہیں اس کے غلام نہیں۔ مگر انسان اپنے دعوے سے نہیں اپنے عمل سے پہچانا جاتا ہے اور جنرل ایوب کا ہر عمل بتاتا تھا کہ وہ امریکا کے دوست نہیں اس کے غلام ہیں۔ کیا اس منظرنامے میں امریکا پاکستان کی آزادی کا احترام کرتا نظر آتا ہے یا اس کی آزادی کے پرخچے اُڑاتا دکھائی دیتا ہے۔ امریکا نے پاکستان کو سیٹو اور سینٹو کا رکن بنوا کر اس کے دفاع کی ذمے داری اپنے سر لی تھی۔ مگر جب 1965ء میں سوویت یونین کے اتحادی بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا اور پاکستان نے امریکا سے مدد مانگی تو امریکا نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کی مدد کرنے سے انکار کرکے اس کی آزادی اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا اس نے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کردی جس کی وجہ سے پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ بندی پر مجبور ہوا۔ 1971ء کی جنگ میں تو امریکا نے حد ہی کردی۔ 1971ء میں پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑی تو پاکستان نے امریکا سے مدد مانگی۔ امریکا نے وعدہ کیا کہ وہ اپنا چھٹا بحری بیڑہ مشرقی پاکستان بھیج رہا ہے مگر سقوط ڈھاکا ہوگیا اور امریکا کا بحری بیڑہ پاکستان نہ پہنچ سکا۔ اس لیے کہ یہ بحری بیڑہ کبھی پاکستان کے لیے روانہ ہی نہیں ہوا تھا۔
امریکا مغربی دنیا کا رہنما ہے اور مغربی دنیا کے لیے جمہوریت ایک بہت بڑی قدر ہے۔ مگر پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ امریکا نے ہمیشہ پاکستان میں فوجی آمروں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ امریکا نے جنرل ایوب کے مارشل لا کو پال پوس کر بڑا کیا۔ اس کا خیر مقدم کیا۔ اس کو تحفظ مہیا کیا۔ اس کو ساکھ فراہم کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنرل ایوب پوری بے خوفی کے ساتھ دس سال تک پاکستانی عوام کی جمہوری آزادی سے کھیلتے رہے۔ ان کا دھڑن تختہ ہوا تو ان کی جگہ ایک اور جرنیل جنرل یحییٰ نے لے لی۔ امریکا نے جنرل یحییٰ کی آمریت کو بھی بھرپور تحفظ فراہم کیا۔ جنرل یحییٰ سقوط ڈھاکا کے ذمے داروں میں سے ایک تھے اور حمودالرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ کے کورٹ مارشل کی تجویز دی تھی۔ مگر امریکا نے جنرل یحییٰ کا کورٹ مارشل نہ ہونے دیا۔ امریکا نے پاکستان سے کہا کہ جنرل یحییٰ نے امریکا اور چین کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں مدد کی ہے اس لیے ان کا کورٹ مارشل لا نہ کیا جائے۔ یہ بات ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے ممتاز صحافی آصف جیلانی کو ایک ملاقات میں بتائی تھی۔ امریکا نے صرف جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ ہی کی پشت پناہی نہیں کی۔ اس نے جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت کو بھی تقویت فراہم کی۔ ایک وقت تھا کہ امریکا نے صدر بل کلنٹن نے جنرل پرویز کے دور میں پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کردیا تھا مگر نائن الیون کے بعد جنرل پرویز امریکا کے ’’ڈارلنگ‘‘ بن کر اُبھرے۔
امریکا پاکستان کی آزادی کا کتنا احترام کرتا ہے اور اسے انتخاب کی کتنی آزادی فراہم کرتا ہے۔ اس کا اندازہ نائن الیون کے بعد کی صورت حال سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ امریکا نے نائن الیون کے بعد پاکستان سے کہا یا تو آپ ہمارے ساتھ ہو یا پھر ہمارے خلاف ہو۔ امریکا نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر تم نے ہمارا ساتھ نہ دیا تو ہم پاکستان کو پتھر کے زمانے میں واپس بھیج دیں گے۔ اس منظرنامے میں پاکستان کی آزادی اور انتخاب کی آزادی میں سے کچھ بھی موجود نہ تھا۔ اس منظرنامے میں صرف امریکا کا جبر تھا۔ صرف امریکا کا قہر تھا۔ صرف امریکا کی دھونس تھی کہ صرف امریکا کی فرعونیت تھی۔
یہ بات بھی پاک امریکا تعلقات کی تاریخ کا حصہ ہے کہ پاکستان نے مریکا سے ایف 16 طیارے خریدنے کا سودا کیا تھا اور اس سلسلے میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم پیشگی کے طور پر ادا کردی تھی مگر امریکا نے بارہ سال تک نہ پاکستان کو ایف 16 طیارے دیے، نہ پاکستان کی رقم لوٹائی۔ امریکا نے بارہ سال کے بعد پاکستان کو کچھ دیا تو سویابین آئل۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں پاکستان کی آزادی کا کتنا احترام پایا جاتا ہے اور امریکا نے اس تجارتی سروے کے دائرے میں پاکستان کو دوچیزوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کی کتنی آزادی مہیا کی؟ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک جانب تو ڈیرک شولے نے یہ کہا ہے کہ پاکستان امریکا اور چین میں سے کسی ایک کے انتخاب میں آزاد ہے اور دوسری جانب انہوں نے پاکستان کو اس بات سے ڈرایا ہے جو ملک چین سے قریبی تعلق استوار کرتا ہے اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ کہہ کر ڈیرک شولے نے پاکستان پر اس بات کے لیے دبائو بڑھایا ہے کہ وہ امریکا اور چین میں سے صرف امریکا کا انتخاب کرے۔
ڈیرک شولے نے اپنے انٹرویو میں امریکا چین تعلقات پر بھی تبصرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ امریکا چین کے ساتھ مقابلے سے خوف زدہ نہیں ہے مگر ہم چین کے ساتھ منصفانہ مسابقت کے خواہش مند ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ بیان سو فی صد جھوٹ پر مبنی ہے۔ مغربی دنیا مقابلے اور مسابقت میں انصاف پر یقین نہیں رکھتی۔ مغربی دنیا نے 11 ویں صدی میں اسلام اور مسلمانوں سے مقابلے کے لیے صلیبی جنگیں ایجاد کیں اور اس وقت کے پوپ نے کہا کہ اسلام معاذاللہ ایک شیطانی مذہب ہے اور مسلمان ایک شیطانی مذہب کے پیروکار ہیں۔ یہ بیان ایک ہزار فی صد جھوٹ تھا۔ مغرب نے 20 ویں صدی میں کمیونزم کے خلاف جنگ لڑی اور ہر قدم پر جھوٹ بولا۔ سوویت یونین میں سو فی صد خواندگی تھی، ہر شخص برسرروزگار تھا۔ ہر شخص کے پاس گھر تھا، ہر شخص کو مفت علاج کی سہولت فراہم تھی مگر مغرب کا پروپیگنڈہ یہ تھا کہ سوویت یونین انسانوں کا جہنم ہے۔ اب مغرب کو چین کے ساتھ مقابلہ درپیش ہے اور امریکا مغرب کے رہنما کی حیثیت سے چین کے خلاف دروغ گوئی میں مصروف ہے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ مغرب نے جو ترقی ڈیڑھ سو سال میں کی چین نے 40 سال میں کرکے دکھا دی ہے۔ چناں چہا مریکا چین سے حقیقی معنوں میں خوف زدہ ہے۔ چین معاشی طور پر دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن گیا ہے اور وہ آئندہ اس سال میں امریکا سے بڑی معاشی طاقت بن جائے گا۔ لیکن امریکی اس امکان سے ہراساں ہیں۔