کارل مارکس ایک منکر خدا تھا۔ وہ مذہب کو عوام کی افیون کہتا تھا۔ کارل مارکس کی فکر کے زیر اثر دنیا میں جتنے بھی کمیونسٹ اور سوشلسٹ پیدا ہوئے انہوں نے اپنے اپنے معاشروں میں اس خیال کو عام کیا کہ مذہب عیسائیت ہو یا یہودیت، ہندوازم ہو یا اسلام وہ ایک نشہ ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ کمیونزم کی تحلیل اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد کم از کم مسلم معاشروں میں اس بات کی گردان ختم ہوجائے گی کہ مذہب ایک افیون ہے۔ ایک نشہ ہے۔ لیکن کہیں اور کیا اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی سابق کمیونسٹ اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ مذہب ایک نشہ ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت زاہدہ حنا کا حالیہ کالم ہے۔ زاہدہ حنا نے معروف ترقی پیشہ ادیب سجاد ظہیر کی بیٹی نور ظہیر کی کتاب ’’میرے حصے کی روشنائی‘‘ کا اقتباس پیش کرنا ضروری سمجھا۔ نور ظہیر نے سجاد ظہیر کے حوالے سے لکھا۔
’’مذہب ابا کی نظروں میں وہ نشہ تھا جس کی لت سماج کو اس لیے لگائی جاتی ہے تا کہ وہ اپنی حالت کی اصلی وجہ ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرے، کیوں کہ جو کہیں اسے وجہ مل گئی تو وہ اسے مٹانے کی کوشش کرے گا اور اس کوشش میں جو اس کے حق کی لڑائی ہے وہ سرمایہ داروں، سامراج وادی طاقتوں کا تختہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ یہ ان کا اپنا عقیدہ تھا جسے انہوں نے زندگی بھر قائم رکھا‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس، 4 ستمبر 2022ء)
مذہب اپنی پوری تاریخ میں سب سے بڑی انقلابی قوت رہا ہے اور اس نے وقت کی باطل اور غالب قوتوں کو للکارا ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ کے پاس نہ حکومت تھی، نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ کوئی سیاسی جماعت تھی، اس کے باوجو انہوں نے وقت کے بادشاہ نمرود کی خدائی اور اس کے غلبے کا انکار کیا۔ سیدنا موسیٰؑ اور ان کے بھائی سیدنا ہارونؑ کے پاس بھی کوئی حکومت، ریاست، فوج اور پارٹی نہ تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے وقت کے بادشاہ فرعون کی فرعونیت کا انکار کیا۔ رسول اکرمؐ نے نبوت کا اعلان کیا تو ہر طرف کفر اور شرک کا غلبہ تھا۔ کفر اور شرک کے پاس مالی طاقت بھی تھی اور عسکری قوت بھی۔ اس کے پاس قیادت بھی تھی اور شرافت اور نجابت کی سند بھی۔ اس کے برعکس رسول اکرمؐ کے پاس کوئی مادی طاقت نہ تھی مگر انہوں نے کفر اور شرک کی قوتوں کو للکارا۔ کوئی اور کیا خود مسلمان بھی اسلام کے بنیادی کلمے لاالہ الااللہ، پر غور نہیں کرتے۔ اس سے زیادہ انقلابی کلمے کا تصور محال ہے۔ یہ کلمہ لا سے شروع ہوتا ہے۔ یہ کلمہ کہتا ہے نہیں ہے کوئی خدا سوائے اللہ کے۔ اس طرح یہ کلمہ اپنے پہلے حصے میں دنیا کے تمام جھوٹے خدائوں کا انکار کردیتا ہے۔ خواہ وہ جھوٹا خدا کوئی بادشاہ ہو، کوئی ریاست ہو، کوئی سردار ہو، کوئی طبقہ ہو، کوئی گروہ ہو، یہ کلمہ دولت کی خدائی کا بھی منکر ہے اور طاقت کی خدائی کا بھی۔ یہ انا کی خدائی کا بھی انکار کرتا ہے اور نفس کی خدائی کا بھی۔ اس لیے کہ قرآن صاف کہتا ہے کہ انسانوں کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کو خدا بناکر پوجتی ہے۔ مذہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ مذہب نے قیصر کی خدائی کو تسلیم کیا نہ کسریٰ کی خدائی کے آگے سر جھکایا۔ اس نے نہ سوویت یونین کی خدائی کو تسلیم کیا نہ امریکا کی خدائی کے آگے سجدہ کیا۔ کیا اتنے بڑے بڑے کام انسان نشے کی حالت میں کرسکتا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ مذہب نشہ نہیں شعور ہے۔ مذہب افیون نہیں سب سے بڑا اور سب سے برتر علم ہے۔ مذہب انسان کو سلاتا نہیں بیدار کرتا ہے، مذہب نہ ہوتا تو انسانی تہذیب کا وجود ہی نہیں ہوتا۔
کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں نے کبھی مذہب کی عطا پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ مذہب کی سب سے بڑی عطا ایک خدا کا تصور ہے۔ مذہب نہ ہوتا تو انسان کبھی اپنے خالق، مالک اور رازق کو نہیں جان سکتا تھا۔ خدا چوں کہ کائنات کی سب سے بڑی اور سب سے اہم حقیقت ہے اس لیے اسے نہ جان سکنا انسان کا سب سے بڑا نقصان ہے۔ سب سے بڑا خسارہ ہے۔ ہندوازم کا ایک فرقہ ایسا ہے جو کہتا ہے کہ خدا کو جاننے کے لیے کسی باضابطہ مذہب کی ضرورت نہیں، خدا کی موجودگی اتنی ظاہر ہے کہ اسے کسی باضابطہ مذہب کے بغیر بھی جانا جاسکتا ہے۔ خدا کا ہونا واقعتاً کائنات کی ہر چیز سے ظاہر ہے۔ اسی لیے خدا نے کائنات کے مختلف مظاہر کو اپنی آیات یا اپنی نشانیاں قرار دیا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر انسان کسی باضابطہ مذہب بالخصوص اسلام کے بغیر خدا کو جان بھی لے تو وہ اس کی مرضیات کو نہیں جان سکتا۔ اسے معلوم نہیں ہوسکتا کہ خدا پر ایمان کس طرح لایا جاسکتا ہے؟ خدا پر ایمان کی کیا اہمیت ہے۔ وہ اسلام کے بغیر نہیں جان سکتا کہ خدا کن چیزوں سے خوش اور کن چیزوں سے ناخوش ہوتا ہے۔ وہ اسلام کے بغیر نہیں جان سکتا کہ جنت کی طرف جانے والا راستہ کون سا ہے اور جہنم کی طرف لے جانے والی راہ کون سی ہے۔ اسلام کے بغیر انسان نہیں جان سکتا کہ خدا کی عبادت کس طرح کی جاتی ہے؟ اس سے دعا کیسے مانگی جاتی ہے؟ وہ اسلام کے بغیر اس بات پر بھی مطلع نہیں ہوسکتا کہ خدا نے کن چیزوں کو حلال اور کن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ خدا کو جاننے اور اس پر ایمان لانے کی بات معمولی نہیں ہے۔ اقبال نے ایمان کی اہمیت کو عیاں کرتے ہوئے کہا ہے۔
ولایت، پادشاہی علمِ اشیاء کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
اقبال کہہ رہے ہیں کہ خدا اگر انسان کو اپنا ولی یا اپنا دوست بناتا ہے تو ایمان کی وجہ سے۔ اسے دنیا کی حکمرانی عطا کرتا ہے تو ایمان کے سبب سے۔ اسے علم اشیاء کی جہانگیری سے نوازتا ہے تو ایمان کی بدولت۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایمان سے زیادہ قیمتی چیز کوئی نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے کمیونسٹ اور سوشلسٹ ایمان کو بھی نشہ سمجھتے ہیں۔ تو کیا زندگی میں انقلاب برپا کرنے والا ایمان بھی نشہ ہے؟۔
مذہب کی ایک عطا قرآن ہے۔ قرآن صرف کتاب ہدایت نہیں وہ کتاب انقلاب بھی ہے۔ قرآن فرد اور معاشرے اور پوری تہذیب کو خدا مرکز بناتا ہے۔ وہ معاشرے اور تہذیب کو عدل کی میزان پر استوار کرتا ہے۔ قرآن کا علم ادنیٰ کو اعلیٰ میں ڈھالنا ہے۔ اسلام صرف انسان کی سماجیات، معاشیات اور سیاسیات کو نہیں بدلتا وہ انسان کے باطن کو بھی منقلب کرتا ہے۔ اسلام میں تزکیے کا تصور نفس امارہ کو نفس لوامہ میں تبدیل کرتا ہے اور نفس لوامہ کو نفس مطمئنہ میں ڈھالتا ہے۔ اسلام بتاتا ہے کہ زندگی میں اہمیت طاقت اور دولت کی نہیں بلکہ تقوے اور علم کی ہے۔ کیا کوئی نشہ انسان کے ظاہر و باطن میں اتنی بڑی تبدیلیاں پیدا کرسکتا ہے؟۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ اسلام نے دنیا کو ایک ایسی تہذیب عطا کی جو تقویٰ مرکز ہے اور علم مرکز ہے۔ اس کے تقوے کا یہ عالم ہے کہ جیسی انسانی شخصیات اسلامی تاریخ میں نمودار ہوئیں پوری انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ دنیا کی کون سی تہذیب اور کون سا معاشرہ ایسا ہے جس کے پاس رسول اکرمؐ جیسی شخصیت موجود ہے۔
دنیا کی کون سی تہذیب کے پاس ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ جیسے انسان ہیں۔ رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ میں ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کرام موجود تھے اور رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں تم جس کی پیروی کرو گے فلاح پائو گے۔ کیا انسانی تاریخ میں صحابہ کے سوا ایسا کوئی گروہ گزرا ہے جس کے بارے میں یہ بات کہی جاسکے کہ تم ان میں سے جس کی پیروی کرو گے فلاح پائو گے؟ مسلم تہذیب نے سیکڑوں بڑے صوفیا پیدا کیے ہیں۔ ان صوفیا کے کروڑوں انسانوں کو مشرف بہ اسلام کرکے ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا۔ کیا کسی اور تہذیب میں ایسے صوفیا گزرے ہیں جیسے صوفیا علم تہذیب نے پیدا کیے۔ کیا کسی غیر مسلم معاشرے اور غیر مسلم تہذیب کے پاس کوئی جنید بغدادی ہے؟ کوئی محی الدین ابن عربی ہے؟ کوئی مجدد الف ثانی ہے؟ کوئی علی ہجویری ہے؟ کیا جن صوفیا نے کروڑوں انسانوں کو بدلا وہ نشے کے عادی تھے؟
مسلم تہذیب نے قرآن و سنت کی بنیاد پر علم کا سمندر تخلیق کیا۔ دنیا میں عظیم آسمانی اور غیر آسمانی کتب بہت ہوئی ہیں۔ مگر مسلمانوں نے چودہ سو سال میں جتنا بڑا علم تفسیر خلق کیا اس کی کوئی مثال کہیں موجود نہیں۔ دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیا آئے سیکڑوں بڑے مفکرین پیدا ہوئے لیکن جیسا علم حدیث مسلمانوں نے پیدا کیا ویسا علم حدیث کسی تہذیب اور کسی معاشرے کے پاس نہیں۔ مسلمانوں نے شاعری کی اتنی بڑی روایت پیدا کی کہ اگر مسلمانوں کے صرف ایک شاعر مولانا روم کا کلام ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دنیا کے سو عظیم شاعروں کا کلام دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو کیفیت اور معنویت کے اعتبار سے مولانا کی شاعری کا پلڑا بھاری ہوگا۔ پہلے جدید علوم و فنون کے سلسلے میں مغرب مسلمانوں کی فوقیت اور برتری تسلیم نہیں کرتا تھا مگر مغرب میں اب ایسے دانش ور موجود ہیں جنہوں نے اپنی کتب میں لکھا ہے کہ آج مغرب کے پاس جتنے علوم ہیں وہ انہوں نے مسلمانوں سے حاصل کیے ہیں۔ فلسفہ مسلمانوں نے مغرب کو دیا۔ طبعیات مسلمانوں نے مغرب کو سکھائی۔ منطق میں مسلمان مغرب کے استاد تھے۔ فلکیات کا علم مغرب نے مسلمانوں سے سیکھا۔ بصریات میں مغرب بالکل کورا تھا، مسلمانوں نے مغرب کو بصریات کا علم عطا کیا۔ کیمیا کا علم مغرب نے مسلمانوں سے لیا۔ ریاضی بھی مغرب نے مسلمانوں سے سبقاً سبقاً پڑھی۔ مغرب کے دانش ور کہتے ہیں کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ مسلمانوں نے کوئی آئن اسٹائن اور نیوٹن پیدا نہیں کیا مگر مغرب کے دانش وروں کے بقول مسلمانوں کے بغیر مغرب بھی آئن اسٹائن اور ٹیوٹن پیدا نہیں کرسکتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ سارے علمی کارنامے نشے کی حالت میں انجام دیے؟۔
مسلمانوں کی عسکری فتوحات کی تاریخ بھی حیران کن ہے۔ مسلمانوں نے سیدنا عمرؓ کے زمانے میں وقت کی دو سپر پاورز یعنی قیصرو کسریٰ کو منہ کے بل گرایا۔ محمد بن قاسم نے 17 ہزار کے لشکر کے ذریعے راجا داہر کی ایک لاکھ فوج کو ہرایا۔ طارق بن زیاد نے 18 ہزار فوجیوں کے ذریعے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دی، بابر کے پاس صرف 8 ہزار فوجی تھے اور اس کے سامنے بھی ایک لاکھ کا لشکر تھا مگر بابر نے 8 ہزار فوجیوں کے ذریعے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دے کر ہندوستان فتح کیا۔ عام خیال یہ تھا کہ سیدنا عمرؓ کا زمانہ کبھی خود کو دہرائے گا نہیں۔ یعنی مسلمان ایک قلیل مدت میں وقت کی دو سپر پاورز کو نہیں ہراسکیں گے مگر بیسویں صدی کے افغانستان میں مجاہدین نے پہلے وقت کی واحد سپر پاور سوویت یونین کو منہ کے بل گرایا۔ لیکن اس عظیم الشان کارنامے پر اسلام دشمن طاقتوں نے حرف گیری کی۔ انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کی فتح اسلام اور جہاد کی فتح تھوڑی ہے۔ یہ کارنامہ تو امریکا اور یورپ کی پشت پناہی سے انجام پایا ہے۔ مگر امریکا اور اس کے 48 اتحادیوں کے خلاف طالبان کی فتح تو خالصتاً اسلام، جہاد اور طالبان کی فتح ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکا اور طالبان کی قوت میں کہیں ایک اور ایک لاکھ کی نسبت تھی۔ کہیں ایک اور ایک کروڑ کی نسبت تھی۔ کہیں ایک اور ایک ارب کی نسبت تھی۔ مگر اس کے باوجود امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شکست ہوگئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مذہب کا نشہ کرنے والے اتنا بڑا کارنامہ انجام دے سکتے ہیں؟۔