مغرب کے دانش وروں کو ہندوستان کیا دنیا کے کسی بھی ملک کے مسلمانوں کی بقا و سلامتی سے کوئی دلچسپی نہیں، اس کے باوجود اب مغرب کے کئی دانش ور چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان میں ہندو انتہا پسندی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور بھارت کے مسلمان نسل کشی سے صرف ایک قدم کے فاصلے پر کھڑے ہوئے ہیں۔ یعنی ہندوستان میں اچانک کسی بھی دن ایک واقعہ ہوگا اور مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوجائے گا۔ ہندو انتہا پسند اس سلسلے میں اعداد و شمار سے کھیل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک ہی ہلّے میں بھارت کے 20 لاکھ مسلمانوںکو مارد یا جائے تو بھارت کے مسلمان پھر کبھی ہندوئوں کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی نسل کشی دو وجوہ سے ممکن نظر آرہی ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے اندیشے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہندوئوں کی وہ نفرت جو کبھی ایک طبقے تک محدود تھی اب ایک ’’عوامی چیز‘‘ بن گئی ہے۔ اس نفرت کے درجنوں مظاہر اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ بھارت میں ایک ہزار سال سے اذان دی جارہی ہے مگر اب ہندو انتہا پسند کم از کم لائوڈ اسپیکر پر اذان کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بھارت میں مسلم خواتین ایک ہزار سال سے پردہ کررہی ہیں مگر بھارت کے انتہا پسند ہندو مسلم خواتین کے پردے کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں۔ انہوں نے پردہ کرنے والی مسلم طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کرنا شروع کردیے ہیں۔ ہندو انتہا پسند آئے دن مساجد کے دروازوں پر جے شری رام اور جے ہنومان کے نعرے لکھ جاتے ہیں۔ وہ نماز کے وقت مساجد کے باہر شور کرتے ہیں۔ ہندو آبادی نے مسلمان سبزی فروشوں سے سبزی لینی بند کردی ہے۔ ہندوئوں نے مسلم کاری گروں سے فاصلہ پیدا کرلیا ہے۔ ہندوستان کی فلم انڈسٹری کے مسلم اداکاروں کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق ہی نہیں مگر اس کے باوجود مسلم اداکاروں کی فلموں کا بائیکاٹ شروع کردیا گیا ہے۔ عامر خان کی فلم لعل سنگھ چڈھا صرف 100 کروڑ روپے کما سکی ہے۔ بھارت کے فلم ڈائریکٹر مہیش بھٹ کبھی کبھی مسلمانوں کے حق میں بول پڑتے ہیں۔ چناں چہ ان کے سلسلے میں بھارت کی ایک اداکارہ کنگنا رناوت نے یہ مہم شروع کررکھی ہے کہ مہیش بھٹ خفیہ مسلمان ہے اور اس نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ مسلمانوں سے نفرت کے یہ مظاہر بتارہے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی اب کوئی نعرہ یا دعویٰ نہیں ہے بلکہ یہ نسل کشی ایک قوی امکان ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کی نسل کشی کے قوی امکان ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اگرچہ بھارت کے مسلمانوں کی آبادی 25 کروڑ ہے مگر ان کی آبادی بکھری ہوئی ہے۔ کہیں مسلمان ہندو آبادی کا صرف ایک فی صد ہیں، کہیں دو فی صد، کہیں پانچ اور دس فی صد۔ بھارت کے کم علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمان آبادی کا چالیس یا پچاس فی صد ہیں۔ جہاں مسلمانوں کی آبادی چالیس پچاس فی صد ہے وہاں مسلمان آسانی سے ہندوئوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ لیکن ان علاقوں میں بھی مسلمانوں کو یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ پولیس اور نیم فوجی دستے جب مسلم کش فسادات کو بند کرانے کے لیے آتے ہیں تو وہ بھی مسلمانوں ہی پر ظلم کرتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کرتے ہیں اور ان کے خلاف بڑے پیمانے پر مقدمات قائم کرتے ہیں۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو بھارت کے 25 کروڑ مسلمانوں کی بقا و سلامتی حقیقی معنوں میں سنگین ترین خطرات سے دوچار ہوچکی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر بھارت کے انتہا پسند ہندو مسلمانوں کے خلاف کیوں ہیں؟ وہ ان سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ وہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے کیوں ہیں؟۔
تجزیہ کیا جائے تو ہندوستان کے انتہا پسند ہندوئوں کا غصہ ایک ہزار سال پرانا ہے۔ ہندوئوں کو اس بات پر غصہ ہے کہ مسلمانوں نے باہر سے آکر ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ لیکن یہ اس مسئلے کا سرسری بیان ہے۔ اس مسئلے کو گہرائی میں اُتر کر دیکھا جائے تو ہندوئوں کا اصل مسئلہ نفسیاتی ہے۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل ہندوئوں کا ’’تصورِ ذات‘‘ یا Self Image بہت بلند تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی تہذیب دنیا کی سب سے برتر تہذیب ہے، ہندوئوں کا خیال تھا کہ ان کے پاس ویدوں اور گیتا جیسی کتب ہیں، ان کے پاس کرشن اور رام جیسے انسانی کردار ہیں، ان کے پاس ارجن اور ابھی منیو جیسے بہادر ہیں، ان کے پاس چھے ہزار سال پرانا علم طب ہے، ان کے پاس یوگا کی روحانی، نفسیاتی اور جسمانی صلاحیت ہے۔ چناں چہ ان کا خیال تھا کہ انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ ان پر کوئی حکومت نہیں کرسکتا۔ لیکن مسلمانوں نے ہندوئوں کے اس تصورِ ذات کے پرخچے اُڑا دیے۔ مسلمانوں نے بہت کم فوجی طاقت کے ساتھ ہندوستان کو فتح کیا اور اس پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ محمد بن قاسم کے پاس صرف 17 ہزار فوجیوں کا لشکر تھا، ان کے مقابلے پر راجا داہر ایک لاکھ افراد کی فوج لیے کھڑا تھا۔ لیکن محمد بن قاسم کے چھوٹے سے لشکر نے راجا داہر کے لشکر کا بھرکس نکال دیا۔ بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس کے پاس صرف 8 ہزار فوجی تھے۔ اس کے مقابلے پر بھی ایک لاکھ کا لشکر تھا، مگر بابر کا لشکر ایک لاکھ پر غالب آگیا۔ اس طرح بابر نے صرف آٹھ ہزار فوجیوں سے پورا ہندوستان فتح کرلیا۔ بابر نے جس وقت ہندوستان کو فتح کیا ہندوستان کی آبادی 15 کروڑ سے زیادہ تھی۔ مگر پندرہ کروڑ ’’بہادر ہندو‘‘ بابر کے 8 ہزار فوجیوں کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اس طرح مہا بھارت کے ورثے کا امین بھارت کا تصور ذات بکھر کر رہ گیا۔ اتفاق سے مسلمان بھارت فتح کرنے کے بعد کبھی واپس نہ گئے۔ وہ ایک ہزار سال تک بھارت پر حکومت کرتے رہے اور ’’عظیم بھارت‘‘ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ مسلمانوں کا کچھ بگاڑا تو انگریزوں نے، جن کے پاس برتر فوجی سازو سامان تھا، ان کے پاس تلوار کے مقابلے پر بندوق تھی، تیر کے مقابلے پر توپ تھی۔ لیکن یہ اور ہی قصہ ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے بہت کم قوت کے ساتھ بھارت کو فتح کیا اور اس پر ایک ہزار سال تک حکومت کی۔ ہندو نفسیات اپنی اس شکست کو کبھی فراموش نہ کرسکی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہندو اب مسلمانوں سے اپنی ایک ہزار سالہ نامردی کا حساب برابر کررہے ہیں۔ ہندو بہادر ہوتے تو مسلمان ان پر ایک ہزار سال تک حکومت تھوڑی کرسکتے تھے۔
ہندوازم کی تاریخ یہ ہے کہ بھارت کے جغرافیے میں جتنے مذاہب ابھرے ہندو ازم نے انہیں اپنے اندر جذب کرلیا۔ بدھ ازم براہمن ازم کے خلاف ایک بغاوت تھا۔ مگر اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے مہاتما بدھ کو عظیم مان کر نہ دیا۔ انہوں نے مہاتما بدھ کو کہیں عظیم کہا بھی ہے تو انہیں ملیچھ اوتار یا ناپاک پیغمبر قرار دیا ہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے برہمن ازم کو کبھی یوپی میں قدم نہ جمانے دیے۔ انہوں نے بدھسٹوں کو ہندوستان کے مضافات میں دھکیل دیا۔ چناں چہ بدھ ازم کے مراکز پاکستان کے صوبوں کے پی کے اور افغانستان میں پائے جاتے ہیں۔ اس وقت بدھ ازم کی صورت شکل کو دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ ہندو ازم کی کوئی شاخ ہے۔ سکھ ازم بھی بھارت میں نمودار ہوا مگر ہندوئوں نے سکھ ازم کو بھی ہندوازم میں جذب کرلیا۔ چناں چہ سکھوں کے ناموں اور ہندوئوں کے ناموں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ سکھ ہندوئوں کے تمام تہوار ہولی، دیوالی اور دسہرہ مناتے ہیں۔ لیکن ہندو ازم ایک ہزار سال میں بھی اسلام کو جذب کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ بلکہ اس کے برعکس اسلام نے بھارت کا روحانی نقشہ بدل ڈالا۔ اس نے کروڑوں ہندوئوں کو مسلمان کیا۔ آج جنوبی ایشیا میں 60 کروڑ مسلمان موجود ہیں اور ان مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے آبائو اجداد کبھی ہندو تھے۔ ہندو اس منظرنامے کو دیکھتے ہیں تو ان کا خون کھولتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ مسلمانوں نے صرف ہندوستان پر سیاسی غلبہ ہی حاصل نہیں کیا انہوں نے ہندوستان پر روحانی غلبہ بھی حاصل کیا۔
پاکستان بھارت کے مسلمانوں سے ہندوئوں کی نفرت کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اہم بات یہ ہے کہ پاکستان پنجاب، سندھ، کے پی کے، بلوچستان اور بنگال میں بن رہا تھا اور تحریک پاکستان دلی، یوپی اور سی پی میں چل رہی تھی۔ بھارت کے مسلمانوں کو معلوم تھا کہ وہ کبھی پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے مگر پاکستان کو اسلام کا قلعہ بننا تھا اور بھارت کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کا مذہبی شعور بے انتہا قوی تھا۔ چناں چہ وہ کسی مشکل اور کسی خطرے کو خاطر میں لائے بغیر پاکستان کی تحریک کا ہر اول دستہ بنے رہے۔ بھارت کے ہندوئوں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسے اپنے شعور میں جذب کیا اور جیسے ہی انہیں اقتدار حاصل ہوا انہوں نے بھارت کے مسلمانوں پر ظلم کا آغاز کردیا۔ پاکستان میں یہ خیال عام ہے کہ بھارت میں مسلمانوں سے نفرت میں بی جے پی کی پیدا کردہ ہے۔ لیکن یہ خیال جتنا عام ہے اس سے زیادہ غلط ہے۔
مسلمانوں، ان کی تہذیب اور ان کی زبانوں سے نفرت کا آغاز گاندھی کے زمانے ہی میں ہوگیا تھا۔ ہمارے سامنے مولانا محمد علی جوہر کی ایک تقریر رکھی ہوئی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر نے یہ تقریر 1930ء میں کی تھی۔ اس تقریر میں مولانا نے فرمایا کہ ہندو شدھی کی تحریک کے ذریعے مسلمانوںکو زبردستی ہندو بنارہے ہیں مگر گاندھی نہ شدھی کی تحریک کی راہ روکتے ہیں نہ مسلمانوںکو زبردستی ہندو بنانے والے ہندوئوں کا ہاتھ پکڑتے ہیں۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ فارسی اور اردو بالخصوص اردو انگریزوں کی آمد سے پہلے پورے ہندوستان کی زبان تھی۔ لیکن گاندھی نے فارسی اور اردو کی بیخ کنی کی اور ان کے مقابلے پر ہندی کو آگے بڑھایا۔ چناں چہ سرسید نے اسی بنیاد پر مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اگر انہیں مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو وہ کانگریس میں نہ جائیں بلکہ ایک الگ پلیٹ فارم سے اپنے حقوق کی جدوجہد کریں۔ گاندھی ویسے تو ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک قوم کہتے تھے مگر جب نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کی تو گاندھی بہت ناراض ہوئے۔ انہوں نے وجے لکشمی پنڈت سے کہا کہ کروڑوں ہندوئوں میں تمہیں ایک لڑکا بھی اس قابل نہ مل سکا جس سے تم شادی کرتیں۔ انہوں نے یہ کہا اور وجے لکشمی پنڈت کی شادی ختم کرادی۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قیام پاکستان کے وقت جو مسلم کش فسادات ہوئے وہ بی جے پی نے نہیں کانگریس نے کرائے تھے۔ ان فسادات میں 10 لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ سقوط ڈھاکا کی ذمے دار اندرا گاندھی تھیں نریندر مودی نہیں۔ دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کرنے کی بات بھی مودی نے نہیں اندرا گاندھی نے کی تھی۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ بابری مسجد کانگریس کے دور حکومت میں شہید ہوئی۔ بلاشبہ اس سلسلے میں بی جے پی نے مرکزی کردار ادا کیا لیکن اگر کانگریس کے وزیراعظم نرسہما رائو چاہتے تو بابری مسجد کو آسانی سے بچایا جاسکتا تھا۔ اس سلسلے میں بی جے پی کا کردار یہ ہے کہ اس نے مسلم دشمنی کے مرض کو وبا بنادیا ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی ہر ہندو جماعت مسلمانوں کی دشمن ہے۔ اس سلسلے میں بی جے پی اور دوسری جماعتوں میں فرق یہ ہے کہ بی جے پی خود بے جے پی نمبر ایک ہے، کانگریس بی جے پی نمبر دو ہے اور باقی ہندو جماعتیں بی جے پی نمبر تین۔