انسان کی فکر اور اس کا عمل ازخود خلق نہیں ہوتے بلکہ ان کی تشکیل و تعمیر میں بہت سی قوتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے وہ ایک کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔ اس پر کچھ بھی لکھا نہیں ہوتا۔ اس کی کوئی شخصیت نہیں ہوتی۔ اس کا کوئی شعور نہیں ہوتا لیکن جیسے جیسے انسان بڑا ہوتا جاتا ہے اس کا شعور، اس کی شخصیت اور اس کی رائے وجود میں آنے لگتی ہے۔ بعض مفکرین کا خیال ہے کہ انسان کے ابتدائی دس سال بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ انسان کو جو کچھ بننا ہوتا ہے دس برسوں میں بن جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسان، انسان کیسے بنتا ہے؟ اس کی شخصیت، اس کی آرا، اس کے رویے اور اس کے رجحانات کن قوتوں کے زیر اثر تشکیل پاتے ہیں؟۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت طاقت کے زیراثر ہوتی ہے۔ رسول اکرمؐ کا زمانہ دنیا کا بہترین عہد ہے۔ رسول اکرمؐ نے اپنی صداقت، محبت، عدالت اور شجاعت کے ذریعے ایسے انسان پیدا کیے جن پر پوری تاریخ کو ناز ہے لیکن رسول اکرمؐ کے زمانہ مبارک میں بھی انسانوں کی کئی اقسام موجود تھیں۔ رسول اکرمؐ کے زمانہ مبارک میں انسانوں کی ایک قسم وہ تھی جسے رسول اکرمؐ کا قرب حاصل تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو رسول اکرمؐ پر آنکھ بند کرکے اعتبار کرتے تھے۔ چناں چہ جیسے ہی رسول اکرمؐ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا لوگ کچھ پوچھے بغیر رسول اکرمؐ پر ایمان لے آئے۔ ان لوگوں میں ایک خدیجتہ الکبریٰؓ تھیں۔ دوسری سیدنا ابوبکر صدیقؓ تھے اور تیسرے سیدنا علیؓ تھے۔ یہ تینوں افراد رسول اکرمؐ کے قریب ترین لوگوں میں سے تھے۔ سیدنا ابوبکرؓ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ ایک شام جب وہ کپڑے کا کام کرکے گھر لوٹے تو کسی نے انہیں اطلاع دی کہ آپ کے دوست محمدؐ نے نبی ہونے کا دعویٰ کردیا ہے۔ سیدنا ابوبکرؓ اسی وقت رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا کہ کیا آپ نے اعلان نبوت کیا ہے؟ رسول اکرمؐ نے ہاں میں جواب دیا تو سیدنا ابوبکرؓ نے ازراہِ تجسس بھی کوئی تفصیل معلوم نہ کی۔ بس اسی وقت رسول اکرمؐ کی نبوت پر ایمان لے آئے۔ رسول اکرمؐ کے عہد مبارک میں انسانوں کی دوسری قسم وہ تھی جو قرآن سے آگاہ ہونے کے بعد رسول اکرمؐ پر ایمان لائی۔ سیدنا عمرؓ اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ سیدنا عمرؓ ایک روز رسول اکرمؐ کے قتل کے ارادے سے نکلے مگر راستے میں کسی نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوگئے ہیں۔ سیدنا عمرؓ بہن کے گھر پہنچے اور انہیں زدوکوب کیا لیکن جب قرآن کی چند آیات سنیں تو قلب ماہیت
ہوگئی۔ آپ کو معلوم ہوگیا کہ یہ انسانی کلام نہیں ہے۔ یہ کلام ربانی ہے۔ چناں چہ سیدنا عمرؓ فوراً رسول اللہ کے پاس پہنچے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ رسول اکرمؐ کے دور مبارک میں انسانوں کی تیسری قسم وہ تھی جس نے رسول اکرمؐ پر ایمان لانے کے لیے معجزہ دیکھنے کا مطالبہ کیا۔ ایسے لوگوں کی دو قسمیں تھیں۔ ان میں کچھ لوگ وہ تھے جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا۔ معجزہ دیکھا اور ایمان لے آئے۔ انسانوں کی دوسری قسم وہ تھی جس نے معجزے کا مطالبہ کیا۔ معجزہ دیکھا اور کہا کہ یہ تو جادو ہے۔ یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ رسول اکرمؐ سے ذاتی تعلق، قرآن مجید فرقان حمید اور معجزے سے بہت کم لوگ مسلمان ہوئے۔ چناں چہ جب ہجرت ہوئی تو چند سو افراد نے ہجرت کی لیکن جب رسول اکرمؐ نے مکہ فتح کرلیا اور آپؐ جزیرہ نمائے عرب کے حاکم بن کر ابھرے تو پھر روز سیکڑوں اور کبھی کبھی ہزاروں لوگ رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایمان لانے لگے۔ یہ سیاسی عسکری اور معاشی طاقت کی بنیاد پر ہونے والی قلب ماہیت تھی۔ ابوسفیان خود اس کی ایک مثال تھے۔ جب مکہ فتح ہوا اور ابوسفیان نے رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کا اعلان کیا تو ابوسفیان کی بیوی ہندہ کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے کہا کیا تم محمدؐ کے پاس جائو گے۔ ابوسفیان نے کہا کہ تم دیکھتی نہیں ہو کہ انہوں نے مکہ فتح کرلیا ہے۔ اب ساری عرب دنیا میں انہی کا سکہ چلے گا۔ مجھے اب محمدؐ کے پاس جانا ہی ہوگا۔ کمال ہے جن لوگوں کو رسول اکرمؐ کی عظیم شخصیت نہ بدل سکی۔ جنہیں قرآن نے تبدیل نہ کیا۔ جنہیں معجزہ نہ بدل سکا۔ انہیں طاقت نے بدل ڈالا۔ رسول اکرمؐ کی ایک حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ جنہیں قرآن نہیں بدل سکتا انہیں سلطان یا ڈنڈا بدل دیتا ہے۔ یہاں اقبال یاد آئے جنہوں نے فرمایا ہے۔
رِشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
اقبال کہہ رہے ہیں کہ گاندھی کے برت یا روزے برہمنوں کے وضع کردہ ذات پات کے نظام کا کچھ نہ بگاڑ سکے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ گاندھی کے پاس ڈنڈے کی طاقت نہیں تھی۔ اقبال کے بقول ڈنڈے کی طاقت نہ ہو تو کلیمی بھی موثر نہیں ہوتی۔
ہم نے اپنے زمانے میں دیکھا ہے کہ امریکا اور سوویت یونین نے سیاسی، عسکری اور معاشی طاقت کے بل پر مرکزیت حاصل کرلی۔ دنیا کی کچھ قوموں نے امریکا کے سائے میں پناہ لی۔ دنیا کی کچھ قومیں سوویت یونین کی چھتری کے نیچے جاکھڑی ہوئیں۔ سوویت یونین فنا ہوا تو اس کا انسانی ساختہ نظریہ بھی مٹ گیا۔ سوویت یونین کے بعد دنیا یک قطبی ہوگئی۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھرا۔ یورپ کی سیاسی عسکری اور معاشی طاقت بے پناہ ہے مگر اس کے باوجود سارا یورپ امریکا کے جوتے چاٹ رہا ہے۔ امریکا اس سے کہتا ہے کہ اپنا دفاعی بجٹ بڑھائو تو یورپ اپنا دفاعی بجٹ بڑھادیتا ہے۔ امریکا یورپ کو حکم دیتا ہے کہ چین سے 5G ٹیکنالوجی نہ لو تو وہ چین سے 5G ٹیکنالوجی لینے سے انکار کردیتا ہے۔ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ چین جب سے ایک بڑی معاشی اور عسکری طاقت بن کر ابھرا ہے دنیا کی بہت سی اقوام چین کی طرف مائل ہورہی ہیں۔ چین نے اپنی طاقت کی بنیاد پر پورے افریقا کو اپنا حلقہ ٔ اثر بنالیا ہے۔ پاکستان کے حکمران امریکا کے ایجنٹ ہیں مگر انہوں نے بھی چین کے ساتھ مل کر سی پیک جیسا منصوبہ شروع کیا ہے۔ بھارت جنوبی ایشا کے ہر ملک کے لیے درد سر ہے مگر چین کے سامنے اس کی گگّھی بندھ جاتی ہے۔ پاکستان کے دائرے میں دیکھا جائے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پاس نہ تقویٰ ہے، نہ علم ہے، نہ قوت ہے، نہ وقار ہے، نہ عظمت ہے، نہ کردار ہے، نہ اخلاص ہے مگر اس کے پاس طاقت ہے۔ اس لیے پورے ملک میں کوئی اس کے سامنے نہیں بولتا۔ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کے جوتے چاٹتی ہے۔ میاں نواز شریف بڑے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن کر ابھرے تھے مگر اب ان کی جماعت اقتدار میں آکر اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔ اس لیے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس طاقت ہے۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے مگر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف وہ ایک لفظ بھی نہیں بولتے۔ اس لیے کہ اسٹیبلشمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہے۔ اس کے سامنے کھڑے ہو کر جو سیاست دان ریل میں سفر کرتے ہیں وہ بعدازاں جیل میں ہوتے ہیں۔
ماحول کا جبر بھی انسانوں پر اثر انداز ہونے والی ایک بڑی قوت ہے۔ اس قوت کی طاقت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ ماحول اتنی بڑی قوت ہے کہ اگر بچوں کے والدین عیسائی ہوں تو بچے عیسائی ہوجاتے ہیں۔ بچوں کے والدین یہودی تو بچے یہودی ہوجاتے ہیں۔ بچوں کے والدین مجوسی ہوں تو بچے مجوسی ہوجاتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کے عہد مبارک میں عربوں کے ماحول پر کفر اور شرک کا غلبہ تھا۔ چناں چہ ہرطرف کفر اور شرک پھیلا ہوا تھا اور یہ کفر اور شرک عربوں کی عظیم اکثریت کو ’’فطری‘‘ نظر آتا تھا۔ اکثر عرب رسول اکرمؐ کی دعوت کے جواب میں کہتے تھے کہ ہم اپنے والدین اور اپنے بزرگوں کے راستے کو نہیں چھوڑ سکتے۔ وہ کفر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے سوال اٹھاتے تھے کہ جب ہم مرنے کے بعد مٹی ہوجائیں گے تو پھر دوبارہ کیسے اٹھائے جائیں گے؟ سیدنا نوحؑ کے زمانے میں کفر اور شرک کا ایسا جبر تھا کہ سیدنا نوحؑ نو سو سال تک تبلیغ کرنے کے باوجود چند درجن افراد کو مشرف بہ اسلام کرسکے۔ یہاں تک کہ عظیم الشان طوفان نے کافروں اور مشرکوں کو گرفت میں لے لیا۔ مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ جن خاندانوں میں والدین اپنے بچوں کو حرام کھلاتے ہیں ان گھرانوں میں بچوں کے اندر حلال اور حرام کی تمیز ہی باقی نہیں رہتی۔ جن گھرانوں کا ماحول مذہبی ہوتا ہے ان کے بچے بھی عموماً مذہبی ہوتے ہیں۔ جن گھرانوں کا ماحول لبرل ہوتا ہے تو ان گھرانوں کے بچے بھی لبرل ہوجاتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں ذرائع ابلاغ ماحول کی تشکیل کا ایک بڑا ذریعہ بن گئے ہیں۔ چناں چہ ذرائع ابلاغ کی فلموں، ڈراموں اور موسیقی کا ماحول ہمارے قومی ماحول پر اثر انداز ہورہا ہے۔ چناں چہ معاشرے میں عریانی، فحاشی اور فیشن کی وبا عام ہورہی ہے۔ عریانی اور فحاشی تو خیر پھر بھی محدود ہیں مگر فیشن کی وبا نے تو اچھے اچھے مذہبی لوگوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے تشکیل کردہ ماحول کے زیر اثر اکثر نوجوان اداکار، گلوکار، ماڈل اور کھلاڑی بننا چاہتے ہیں۔
چوں کہ ماحول میں کہیں علما، دانش وروں، شاعروں، ادیبوں اور سائنس دانوں کی عظمت اور اہمیت کا چرچا نہیں اس لیے کوئی نوجوان عالم، دانش ور، شاعر، ادیب یا سائنس دان نہیں بننا چاہتا۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ طاقت اور ماحول میں ایک ربط باہمی ہوتا ہے۔ مغل بادشاہ اکبر آج کی اصطلاح میں سیکولر تھا۔ اس نے دین الٰہی ایجاد کرلیا تھا۔ اس کے دربار میں علمائے حق کی کوئی پزیرائی نہیں تھی۔ چناں چہ ماحول پر لادینیت چھائی ہوئی تھی۔ اس کے برعکس بادشاہ اورنگ زیب سر سے پائوں تک مذہبی تھا۔ علما کی عزت کرتا تھا، چناں چہ اس کے زمانے میں معاشرے پر مذہب کا گہرا اثر تھا اور علما کی بڑی مان دان تھی۔ ہم نے اپنے زمانے میں دیکھا کہ بھٹو کے لبرل ازم نے معاشرے کو بڑی حد تک لبرل بنادیا تھا۔ شراب اور جوئے خانے عام تھے۔ عریانی اور فحاشی میں کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی تھی۔ اسی کے برعکس جنرل ضیا الحق نماز روزے کے پابند تھے۔ چناں چہ ان کے دور میں معاشرے کے اندر مذہبیت پروان چڑھی۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں نعت نگاری نے اتنا فروغ پایا کہ احمد ندیم قاسمی جیسے ترقی پسند شاعر بھی نعت لکھتے ہوئے پائے گئے۔ بھٹو کے دور میں پردہ تقریباً ختم ہوگیا تھا مگر جنرل ضیا الحق کے دور سے پردے کا رجحان پھر شروع ہوا اور اب معاشرے میں پردہ بجائے خود ایک ماحول بن چکا ہے۔
اسلام ماحول اور اس کے جبر کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ چناں چہ وہ لوگوں کو معاشرے میں برے ماحول کی مزاحمت کی ترغیب دیتا ہے۔ نہی عن المنکر کا پورا تصور اسی بات سے عبارت ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ اگر تم میں طاقت ہے تو قوت سے برائی کو روک دو، یہ ممکن نہیں تو برائی کو زبان سے برا کہو۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے دل میں برا خیال کرو۔ مگر یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ماحول کے جبر کی مزاحمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ علما اور مذہبی طبقات تک عریانی و فحاشی کے آگے ہتھیار ڈالے بیٹھے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ وہ ماحول کی مزاحمت کریں گے تو معاشرے کی بالادست طاقتیں ان سے ناراض ہوجائیں گی۔