حق و باطل اسلام کی بنیادی اصطلاحیں ہیں، لیکن نبی اکرمؐ کے زمانہ مبارک سے آج تک یہ کبھی مجرّد یا Abstract نہیں رہیں۔ حق و باطل کا کوئی مفہوم ہوتا ہے۔ تشخص ہوتا ہے۔ ان کے اجمال کی کوئی تفصیل ہوتی ہے۔ حق و باطل کو اجمال میں پہچاننا اور سمجھنا بھی ضروری ہوتا ہے اور تفصیل میں بھی۔ اس کے بغیر انسان کی آگہی مکمل نہیں ہوتی۔ مگر حق و باطل کو تفصیل میں پہچاننا اور سمجھنا کیوں ضروری ہوتا ہے؟۔
باطل کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ حق کا التباس یا Illusion پیدا کرتا ہے۔ وہ صورتیں بدلنے کی بے پناہ اہلیت رکھتا ہے۔ چناں چہ ممکن ہے کہ ہم خیال، تصور یا Idea کی سطح پر تو اسے پہچانتے اور سمجھتے ہوں مگر جب وہ کوئی اور صورت اختیار کرے تو ہم اسے پہچان اور سمجھ نہ سکیں، پھر انسان کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ تصور، خیال بالخصوص صورت کا عادی بھی ہوجاتا ہے۔ چناں چہ صورت بدلتی ہے تو تفہیم کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ مسئلہ اتنا بڑا اور اہم ہے کہ رسول اکرمؐ نے وہ دعا تعلیم فرمائی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے اللہ مجھے چیزیں ویسی دکھا جیسی کہ وہ ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جو لوگ حق و باطل کی اصطلاحوں کو مجرد معنوں میں ان کا تشخص واضح کیے بغیر استعمال کرتے ہیں وہ شعوری یا لاشعوری طور پر یہ چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ ان کے فہم سے محروم رہے اور جو مقامی و بین الاقوامی کشمکش برپا ہے ہم اس سے الگ رہیں اور مزے کریں۔ یعنی رند کے رند رہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہ جائے۔
رسول اکرمؐ کے زمانہ مبارک میں حق و باطل کی پہچان آسان تھی۔ آپؐ نے جس کو حق کہا وہ حق تھا جس کو باطل کہا وہ باطل تھا۔ خیال کی سطح پر بھی اس صورت کی سطح پر بھی۔ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں بھی یہ معاملات واضح تھے لیکن ہم جیسے جیسے ان مبارک ادوار سے دور ہوتے چلے گئے ان امور کی پہچان اور تفہیم مشکل ہوتی چلی گئی۔ خاص طور پر صورت کی سطح پر۔
اس گفتگو کا رسول اکرمؐ کے عہد مبارک اور ہمارے زمانے سے گہرا تعلق ہے۔ جسے ہمارے انفرادی اور اجتماعی شعور کا حصہ ہونا چاہیے۔
اگرچہ رسول اکرمؐ کے زمانے میں بھی باطل نے اپنی صورتیں اور اپنا نظام پیدا کیا ہوا تھا لیکن اس عہد میں باطل عقیدے، خیال، تصور یا Idea کی سطح زیادہ موثر، پرکشش اور خطرناک تھا اور نظام کی سطح پر کم۔ چناں چہ اس وقت باطل خیال کی سطح پر زیادہ پہچانا جاتا تھا۔ اس عہد میں اس کا نظام پس منظر میں رہتا تھا۔ کم از کم عالم عرب میں اس کی یہی صورت تھی۔ البتہ قیصر و کسریٰ تک آتے نظام بھی ہمیں نمایاں طور پر نظر آنے لگتا ہے مگر یہاں بھی باطل کے خیال کا غلبہ زیادہ ہے۔
امام غزالیؒ ہماری تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں شامل ہیں اور ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے یونان کی باطل فکر کا رد لکھ کر امت مسلمہ کو اس کے بھیانک اثرات سے بچالیا۔ اس کارنامے کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے یونانی فکر کا یہ چیلنج جو کچھ بھی تھا ایک فکری اور ذہنی تشکیل یا mental,Construct کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس فکر کے ساتھ کوئی نظام نہیں آیا تھا۔ گو یہ فکر اپنا نظام پیدا کرسکتی تھی۔
البتہ اسلام جیسے ہی جدید مغربی فکر کے مقابل آتا ہے ہم ایک نئی صورت حال سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ اب ہمارے سامنے صرف ایک فکر نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑا نظام بھی ہے۔ ایسا نظام جس کے اجزا بجائے خود نظام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جمہوری نظام، معاشی نظام، علمی نظام، مالیاتی نظام، ابلاغی نظام… اور ان تمام نظاموں کے باہم مربوط ہونے سے ایک بہت ہی بڑا نظام وجود میں آتا ہے۔ اس نظام کا اپنی فکر یا اپنے Idea سے عجیب رشتہ ہے اور وہ یہ کہ Idea پس منظر میں چلا گیا ہے اور نظام اصل بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔
اس سے مسلم فکریات میں جو بڑے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کا اندازہ بھی دشوار ہے۔ مثال کے طور پر اوّل تو ہم جدید مغربی فکر کو خیال یا نظری سطح پر بھی پوری طرح رد نہیں کرسکے اور اگر کہیں بڑی حد تک فکر رد ہوگئی ہے تو نظام بہرحال باقی رہ جاتا ہے۔ فکر رد ہوگئی اس کا پیدا کردہ نظام باقی رہ گیا۔ یعنی آدھا کام ہوا اور آدھا نہیں ہوا۔
چوں کہ فکر پس منظر میں چلی گئی اور نظام سامنے آگیا۔ چناں چہ اس سے ہماری فکر میں دو مسائل پیدا ہوئے۔ ایک تو یہ کہ ہم فکر کو دیکھنے اور جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ہم صرف نظام کو دیکھتے ہیں اور نظام کی ظاہری چمک دمک ہماری نظروں کو خیرہ کرتی ہے اور اقبال کو تنگ آکر کہنا پڑتا ہے۔
تونے کیا دیکھا نہیں یورپ کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
اس سے دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ ہم فکر اور نظام کو الگ الگ سمجھنے لگے اور مغرب سے ہمارے تعلق کی یہ صورت بنی کہ اس کی فکر بری ہے نظام اچھا ہے۔ یہ تعبیر انتہائی غیر عقلی اور غیر منطقی ہے مگر رائج بھی ہے اور مقبول بھی۔ لیکن غور تو کیجیے لفظ نظام سے آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں نظام کی جو تصویر ہے وہ اصل کی پاسنگ بھی نہیں۔
مغرب کا ’’نظام‘‘ ایک بہت ہی بڑا زندہ، خودکار، خود کفیل، خود مختار، ہمہ گیر، ہم جہت، ہمہ پہلو بند وجود ہے اور اس سے جو خصوصیت منسوب کردی جائے کم ہے۔ اہل مغرب کہتے نہیں ہیں مگر یہ معاذاللہ تقریباً خدا کا تصور ہے۔ گویا مغرب کا نظام، نظام نہیں غیر اعلانیہ خدا ہے۔ بلاشبہ اسے بنایا تو انسانوں نے تھا مگر اب یہ انسانوں کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ سرمائے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تثلیت نے اس کی قوت اتنی بڑھادی ہے کہ اس نے ایک سیارے کی طرح اپنا مدار پیدا کرلیا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی کشش ثقل، اپنے قوانین وضوابط، اپنی حرکیات یا Dynamics پیدا کرلی ہیں۔ اب یہ انسان پر حکم چلا رہا ہے۔ اسے Dictate کررہا ہے اور اس سے مکمل اطاعت کا طالب ہے۔ جو چیز اس نظام سے باہر ہے اس کا وجود ہی نہیں۔ جو اس نظام کا انکاری یہ وہ گویا کافر ہے۔ جو اس کے ساتھ برابری کرنا چاہتا ہے وہ مشرک ہے اور اس کے جو ناقدین ہیں وہ یا تو منافقین ہیں یا پاگل۔ نبوت اور رسالت کی تاریخ کے تناظر میں بات کی جائے تو اس نظام میں نمرودیت بھی ہے اور فرعونیت بھی۔ اس میں شدادیت کے آثار بھی پائے جاتے ہیں اور بولہبی کے مظاہر بھی۔ گویا سیدنا آدمؑ سے لے کر رسول اکرمؐ کی رسالت تک گمراہی اور ضلالت کی جتنی بڑی شکلیں پیدا ہوئی ہیں وہ سب اس نظام میں جمع ہوگئی ہیں۔ اس صورت حال کی جو مذہبی یا مابعدالطبیعات دلیل ہمارے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ نبی اکرمؐ خاتم النبین ہیں۔ آپ پر دین کی تکمیل ہوگئی۔ آپ انسان کامل، محبوب خدا اور سردار الانبیا ہیں۔ چناں چہ آپؐ پر نازل ہونے والی کتاب اور آپؐ کی سیرت طیبہ کا نمونہ پوری انسانی تاریخ کو سمیٹ کر اس میں مرکزی حوالہ ہوگی اور باطل کی تاریخ کے سارے چیلنج آپؐ کی امت کے مقابل یکجا ہوجائیں گے۔ اس سلسلے میں پہلے سے موجود مذہبی دلائل کو بھی ذہن میں تازہ کرلینا چاہیے۔
انسانوں میں سب سے زیادہ شدائد سے جو لوگ گزرے ہیں اور جنہیں سب سے بڑا چیلنج درپیش ہوا ہے وہ انبیا و مرسلین ہیں۔ اور نبیوں میں سب سے زیادہ شدائد سے نبی اکرمؐ گزرے اور سب سے بڑے امتحانات اور چیلنج بھی آپؐ کے سامنے آئے۔ اس لیے کہ آپؐ سردار الانبیا اور خاتم النبیین ہیں۔ احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ دجال سے بڑا چیلنج کسی امت کو درپیش نہیں ہوا اور یہ چیلنج صرف امت مسلمہ کو لاحق ہوگا۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ انسان کا باطن خارج پر اثر انداز ہوتا ہے اور خارج باطن کو متاثر کرتا ہے۔ پوری مذہبی تاریخ میں یہ بات اسی طرح بیان بھی ہوئی ہے اور اسی طرح سمجھی بھی گئی ہے۔ یہ بھی واضح بات ہے کہ باطن اور خارج میں عدم توازن پیدا ہوتا رہا ہے، ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ لیکن مغرب کے نظام نے جو عدم توازن پیدا کیا ہے پوری انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مغربی مفکرین، دانش وروں، شاعروں اور ادیبوں کی کتب اس عدم توازن اس کے مظاہر اور ان کے نتائج سے بھری پڑی ہیں۔ محمد حسن عسکری نے اس ابتری کو ادبی تناظر میں تین نکات میں سمیٹا ہے۔
نٹشے نے کہا خدا مر گیا
مارلو نے کہا انسان مر گیا
لارنس نے کہا انسانی تعلقات کا ادب مر گیا
ٹوائن بی صاحب چلا رہے ہیں کہ مغربی تہذیب مر رہی ہے اور اس کی وجہ ٹیکنالوجی سے اس کا عشق ہے۔ ایلون ٹوفلر نے 20 سال میں تین کتب تحریر کیں۔
Future Shock
Third Wave
Power Shift
یہ تین کتب کم و بیش 1500 صفحات پر مشتمل ہیں۔ یہ کتب مغرب کے انحرافات کی شہادتوں سے بھری پڑی ہیں۔ ٹوفلر نے صاف کہا ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی قوت انسانوں کے ہاتھ سے نکل کر انجانی سمت میں دوڑ رہی ہے۔ مغرب ایک ایسی ریل گاڑی ہے جس کا حادثے سے دوچار ہونا یقینی ہے۔ لیکن اتنی اہم بات کہنے والے ٹوفلر نے فرمایا ہے کہ یہ بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور وہی اس بحران سے مغرب کو نکالیں۔ اس سلسلے میں مغرب کو مذہب کی مدد کی ضرورت نہیں۔ یہ ہے مغرب کا اصل باطن۔ لیکن گفتگو کے اختتام پر مولانا مودودیؒ کا ذکر خیر۔
مولانا ہمارے پہلے مفکر ہیں جن کے یہاں نظام کے تصور اور اس کی تبدیلی پر اصرار نظر آیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تعریف کرنے والے اس حوالے سے مولانا کی تعریف کرتے ہیں اور تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ مولانا کی فکر کا نقص ہے۔ لیکن دعوے کی دلیل نہ یہاں سے آتی ہے نہ وہاں سے آتی ہے بلکہ اب تو سننے میں آرہا ہے کہ مولانا ساختیاتی یا Structuraust مفکر ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس بات کا مفہوم کیا ہے مگر زیر بحث موضوع کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ نظام پر حملہ مولانا مودودیؒ کا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ توفیق الٰہی کے بغیر جس کا ظہور ناممکن ہے۔ آخر اسلام کی فکر ایسے کسی نظام کو کیسے قبول کرسکتی ہے کہ جو اعلان کے بغیر خدائی صفات کا دعویدار نظر آتا ہو اور جس کی قوت کا یہ عالم ہو کہ وہ اپنی بقا اور نشوونما کے لیے اپنی فکر سے بے نیاز ہو کر خود مختار، خود کفیل اور خود مکتفی ہوگیا ہو۔ یہ نظام اتنا خود مختار ہے کہ لوگ چلّارہے ہیں کہ جناب آپ تو آزادی کے تصور کے قائل ہیں۔ مساوات کے قائل ہیں مگر آپ جو کچھ کررہے ہیں ان تصورات کی ضد ہے۔ لیکن چیخنے اور چلانے والوں کو معلوم نہیں کہ اس نظام کی قوت اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب یہ انسانوں کی فکر اور اہداف کا تعین کررہا ہے۔ یہ انسانوں کی خوش فہمی ہے کہ وہ آزادی سے سوچ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ وہی کچھ سوچ رہے ہیں جو نظام چاہتا ہے کہ وہ سوچیں۔ اس نظام کے جادو کے سامنے سامری کی سامریت کچھ بھی نہیں۔ بہرحال اس گفتگو سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نظام اور اس کی تبدیلی کی بحث کتنی اہم اور بنیادی ہے اور اس حوالے سے فکر مودودیؒ کی کیا اہمیت ہے۔