منشی پریم چند کا اردو افسانہ عیدگاہ”

منشی پریم چند کو اردو افسانے کا بنیاد گزار کہنا غلط نہ ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو میں افسانے کو نہ صرف یہ کہ شکل و صورت فراہم کی بلکہ افسانے کا دریا بھی بہادیا۔ مگر… پریم چند کی مشکل یہ تھی کہ وہ حقیقت نگار تھے اور ترقی پسند بھی۔ یعنی کریلا اور نیم چڑھا۔ ادب میں حقیقت نگاری کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی ایک مادی اور سماجی حقیقت ہے، اس کی کوئی مابعدالطبیعاتی یا ماورائی جہت نہیں ہے۔ ترقی پسندوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے حقیقت نگاری کے تصور کو معاشیات تک محدود کردیا اور کہا کہ انسان کے تمام رشتے اپنی اصل میں معاشی ہیں اور معاشیات زندگی کی تعریف متعین کرنے والی واحد حقیقت ہے۔ منشی پریم چند پر ان تصورات کا گہرا اثر تھا۔ ان کا سب سے مشہور افسانہ ’’کفن‘‘ ہے۔ اس افسانے میں پریم چند نے دکھایا ہے کہ غربت کچھ اور کیا انسانی فطرت کو بھی فتح کرکے مسخ کردیتی ہے، اور انسان کو اتنا بے حس بنادیتی ہے کہ انسان حیوان کی سطح سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ افسانے کے مرکزی کردار گھیو اور مادھو ہیں۔ گھیو باپ ہے اور مادھو اس کا بیٹا۔ دونوں نچلی ذات کے ہندو ہیں اور بے انتہا غریب۔ افسانے کے ایک منظر میں مادھو کی بیوی کمرے میں دردِ زہ سے تڑپ رہی ہے اور باپ بیٹا کمرے کے باہر آلو بھون کر کھا رہے ہیں۔ گھیو مادھو سے کہتا ہے کہ جا اندر جاکر بیوی کو دیکھ آ۔ مگر مادھو کو خوف ہے کہ وہ اندر گیا تو اس کا باپ سارے آلو کھا جائے گا۔ چنانچہ وہ کمرے میں نہیں جاتا اور باپ بیٹے آلو کھاکر کمرے سے باہر مزے سے سوجاتے ہیں، اور مادھو کی بیوی کمرے میں اکیلے تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے۔ گھیو اور مادھو کو صبح جب اس المناک واقعے کا علم ہوتا ہے تو وہ اس کے کریا کرم یعنی کفن دفن کے لیے گائوں کے امیر لوگوں سے رقم جمع کرنے نکلتے ہیں، اور تھوڑی ہی دیر میں ان کے پاس اچھی خاصی رقم جمع ہوجاتی ہے۔ رقم لے کر دونوں کفن لینے بازار پہنچتے ہیں، مگر کفن خریدنے کے بجائے شراب خانے میں گھس کر آدھی سے زیادہ رقم کھانے پینے اور شراب میں اڑادیتے ہیں اور بالآخر شراب خانے میں نشے سے بے ہوش ہوکر گرپڑتے ہیں۔ پریم چند کا یہ افسانہ اپنے زمانے میں ہی نہیں آج بھی ’’تہلکہ خیز‘‘ سمجھا جاتا ہے، اور اسے اردو کے ترقی پسند ادب میں غربت کے سماجی و نفسیاتی اثرات پر ایک بڑی تخلیقی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔

[shahnawazfarooqi.com]


کفن کے مقابلے پر پریم چند کے افسانے ’’عیدگاہ‘‘کو زیادہ اہم نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عیدگاہ اپنی معنویت کے اعتبار سے کفن سے کہیں زیادہ بڑا افسانہ ہے۔ عیدگاہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں تخلیق کا وفور پریم چند کے مارکسزم اور ان کی ترقی پسندی کو اس طرح پھلانگ گیا ہے کہ افسانے میں مابعدالطبیعات در آئی ہے اور اس میں ایک ماورائی جہت پیدا ہوگئی ہے۔ دوسری جانب ’’عیدگاہ‘‘ میں غربت کا اثر الٹ کر رہ گیا ہے۔ پریم چند کے دوسرے افسانوں میں غربت انسانوں کو بے حس اور کند ذہن بناتی ہے، مگر عیدگاہ میں غربت نے افسانے کے مرکزی کردار کو انتہائی حساس، ذہین اور خوددار بنادیا ہے۔ عیدگاہ کی کہانی یہ ہے کہ حامد ایک گائوں میں اپنی غریب دادی امینہ کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کے ماں باپ کا انتقال ہوچکا ہے۔ عید آگئی ہے اور امینہ کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ وہ حامد کے لیے کپڑے بناسکے اور جوتے خرید سکے۔ حامد عیدگاہ جانے کی ضد کرتا ہے تو وہ اسے عیدی کے طور پر تین پیسے دیتی ہے۔ حامد کے تمام دوستوں کے پاس عیدی کے کافی پیسے ہیں۔ حامد اپنے دوستوں کے ساتھ عیدگاہ کے بازار میں پہنچتا ہے تو وہاں کھانے پینے کی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ سب بچے کچھ نہ کچھ کھانے پینے لگتے ہیں، حامد کا دل بھی کچھ نہ کچھ کھانے کو چاہتا ہے، مگر اس کے پاس صرف تین پیسے ہیں۔ اس کی یہ محرومی اسے دلیل ایجاد کرنے پر مائل کرتی ہے، وہ خود کو سمجھاتا ہے کہ فلاں چیز سے پیٹ خراب ہوجاتا ہے اور فلاں شے کھانے سے چٹورپن کی عادت پڑجاتی ہے۔ حامد کو بچے کیا بڑے بھی جھولے جھولتے نظر آتے ہیں، اور بعض بڑے حامد کو جھولا جھلانے کی پیشکش کرتے ہیں، مگر وہ سوچتا ہے کہ میں کسی کا احسان کیوں لوں؟
حامد کے دوست کھلونے خریدنے لگتے ہیں، حامد کا دل بھی کھلونے خریدنے کو چاہتا ہے، مگر اچانک اسے خیال آتا ہے کہ اس کی دادی امینہ کے پاس دست پناہ یعنی چمٹا نہیں ہے، وہ چولہے پر روٹیاں پکاتی ہیں تو ان کا ہاتھ جل جاتا ہے۔ چنانچہ وہ فیصلہ کرتا ہے کہ کھلونے نہیں خریدے گا بلکہ چمٹا خریدے گا، اور وہ بالآخر چمٹا خرید لیتا ہے۔ وہ چمٹا خرید کر اپنے دوستوں کے پاس پہنچا تو وہ اس کا مذاق اڑانے لگے، کہنے لگے کہ حامد نے کھلونے کے بجائے چمٹا خریدا ہے۔ مگر حامد نے چمٹے کی تعریف میں ایسی تقریریں کیں کہ چمٹا دیکھتے ہی دیکھتے ’’ولن‘‘ سے ’’ہیرو‘‘ بن گیا، اور تمام بچوں کو اپنے کھلونے چمٹے کے سامنے حقیر نظر آنے لگے۔ حامد چمٹا لے کر گھر پہنچا تو امینہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے چار سال کے پوتے نے کیسی نفس کشی کی ہے اور اسے اپنی دادی سے کیسی محبت ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ اس افسانے میں مابعدالطبیعاتی یا ماورائی جہت کہاں ہے؟ پریم چند نے ’’عیدگاہ‘‘ کا آغاز اس طرح کیا ہے:
’’رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد آج عید آئی ہے۔ کتنی سہانی اور رنگین صبح ہے… بچے کی طرح پُرتبسم۔ درختوں پر کچھ عجیب ہریاول ہے، کھیتوں میں کچھ عجیب رونق ہے، آسمان پر کچھ عجیب فضا ہے۔ آج کا آفتاب کتنا پیارا ہے، گویا دنیا کو عید کی خوشی پر مبارک باد دے رہا ہے۔‘‘
پریم چند ہندو ہیں اور مارکسسٹ ہیں مگر عید کو رمضان سے منسلک کیا ہے، اور رمضان روحانیت کی علامت ہے، مابعدالطبیعات کا استعارہ ہے۔ پھر پریم چند نے عید کے اثر کو پورے ماحول بلکہ پوری کائنات پر مرتب ہوتے دکھایا ہے۔ درخت، کھیت، آسمان اور آفتاب طبیعات کا حصہ ہیں، مگر عید نے انہیں ’’کچھ اور‘‘ بنادیا ہے۔ یہ ’’کچھ اور‘‘ ہی ماورائی جہت ہے۔ پریم چند نے عیدگاہ اور اس میں ہونے والی نماز کی جو منظرکشی کی ہے اس کی روحانی اور ماورائی جہت اور معنویت بھی واضح ہے۔ پریم چند لکھتے ہیں:
’’وہ عیدگاہ آئی، جماعت شروع ہوگئی ہے۔ اوپر املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے، نیچے کھلا ہوا پختہ فرش ہے جس پر جاجم بچھا ہوا ہے اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے بعد دوسری خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جاجم بھی نہیں۔ کئی قطاریں کھڑی ہیں، جو آتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں کوئی رتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب انسان برابر ہیں۔ دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہوگئے۔ کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے۔ لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں، اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہورہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہوجائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا پُراحترام رعب انگیز نظارہ ہے، جس کی ہم آہنگی اور وسعت لاتعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت طاری کردیتی ہے، گویا اخوت کا ایک رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کیے ہوئے ہے۔‘‘
تجزیہ کیا جائے تو پریم چند نے اس منظر میں عیدگاہ اور نماز کو روحانیت کی علامت بنادیا ہے۔ پریم چند کے فلسفۂ حیات میں اصل مساوات معاشی مساوات تھی، مگر انہوں نے اس منظر میں جو مساوات دکھائی ہے وہ اپنی اصل میں ’’روحانی مساوات‘‘ ہے۔ پریم چند نے نمازیوں کو ’’بجلی کی بتیوں‘‘ سے تشبیہ دی ہے اور روشنی روحانیت کی علامت ہے۔ پریم چند کے بقول نماز کا منظر دلوں پر ’’وجدانی کیفیت‘‘ طاری کرتا ہے اور وجدانی کیفیت ’’ماورائ‘‘ کا استعارہ ہے۔
پریم چند نے ’’عیدگاہ‘‘ میں غربت اور محرومی کو جس طرح افسانے کے مرکزی کردار کی طاقت اور ذہانت بنایا ہے اور اس کے نتیجے میں حامد کا چمٹا جس طرح ہیرو بنتا ہے اُس کا بیان بھی کم اہم اور کم معنی خیز نہیں۔ حامد چمٹا خرید کر دوستوں کے پاس لوٹتا ہے۔
’’محسن نے ہنستے ہوئے کہا: ’’یہ دست پناہ (چمٹا)لایا ہے، احمق اسے کیا کرے گا؟‘‘
حامد نے دست پناہ کو زمین پر پٹخ کر کہا ’’ذرا اپنا بہشتی زمین پر گرادو، ساری پسلیاں چور چور ہوجائیں گی‘‘۔
محمود: ’’تو یہ دست پناہ کوئی کھلونا ہے؟‘‘
حامد :’’کھلونا کیوں نہیں ہے! ابھی کندھے پر رکھا بندوق ہوگیا، ہاتھ میں لیا فقیر کا چمٹا ہوگیا، چاہوں تو اس سے تمہاری ناک پکڑلوں، ایک چمٹا دوں تو تم لوگوں کے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے، تمہارے کھلونے کتنا ہی زور لگائیں اس کا بال بیکا نہیں کرسکتے۔ میرا بہادر شیر ہے دست پناہ۔‘‘
اس طرح کے مکالموں کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑی ہی دیر میں تمام بچے حامد کے چمٹے کو اس طرح دیکھنے لگے جیسے وہ کوئی ’’ہیرو‘‘ ہو۔ حامد کے تمام دوستوں نے ایک ایک کرکے چمٹے کو ہاتھ میں لیا، اس کا معائنہ کیا اور اپنے کھلونے حامد کو دکھائے، حالانکہ اس سے پہلے وہ حامد کو اپنے کھلونے دکھانے کے لیے تیار نہ تھے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو پریم چند نے ایک ’’بے جان چمٹے‘‘ کو افسانے کا جیتا جاگتا ’’انسانی کردار‘‘ بنادیا ہے۔ یہاں بھی طبیعات کو مابعدالطبیعات میں ڈھالنے کے عمل کو بروئے کار دیکھا جاسکتا ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے کہ پریم چند کے سب سے مشہور افسانے ’’کفن‘‘ میں جو غربت اور محرومی انسان کو کند ذہن اور انتہائی بے حس بنارہی تھی، اُسی غربت اور محرومی نے ’’عیدگاہ‘‘ میں ایک چار سال کے بچے کو انتہائی حساس، باشعور اور ذہین بنادیا۔ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ کفن اور عیدگاہ کے مرکزی کرداروں کی تہذیب میں روحانیت یا ماورائیت مؤثر یا Functional نہیں رہی، اور عیدگاہ کے کردار کی تہذیب میں روحانیت مؤثر یا Functional ہے؟ یا اس کا سبب یہ ہے کہ پریم چند ہندو ہونے کے باوجود اسلامی تہذیب سے اتنے متاثر تھے کہ یہ تہذیب ’’عیدگاہ‘‘ میں پریم چند کے مارکسی شعور اور تناظر کو منہدم کرکے پوری شدت سے کلام کرتی نظر آتی ہے۔

, , ,

Leave a Reply