پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے روزنامہ جنگ کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کے اس دعوے یا الزام کی تردید کی ہے کہ ان کی حکومت کی تبدیلی میں امریکا کا کوئی ہاتھ ہے۔ ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ اس الزام میں کوئی صداقت نہیں اور ایسے نظریات افسوس ناک ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سفارت کاری ریاستی مفادات کے تحفظ کا آرٹ تھا مگر اب یہ جھوٹ کا فن بن چکی ہے۔ بدقسمتی سے امریکی جھوٹ کے فن کے ماہر ہیں۔ یقینا ڈونلڈ بلوم نے بھی ایک جھوٹ تراشا ہے اور اسے پاکستانی قوم کے سر پر دے مارا ہے۔
نوم چومسکی امریکی بھی ہیں اور یہودی بھی۔ اس کے باوجود وہ امریکا کو ’’بدمعاش ریاست‘‘ کہتے ہیں۔ نوم چومسکی صرف امریکا کو بدمعاش ریاست کہہ کر نہیں رہ جاتے وہ امریکی بدمعاشیوں کی تاریخ بھی بیان کرتے ہیں۔ نوم چومسکی امریکا کے حوالے سے جو کچھ کہتے ہیں اس کا لب لباب قرآن کی اصطلاح میں یہ ہے کہ امریکا نے بحروبر میں فساد برپا کردیا ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ عالمی سیاست کو کنٹرول کررہا ہے بلکہ عالمی معیشت بھی اس کی مٹھی میں ہے۔ وہ جہاں چاہتا ہے اپنی مرضی کی حکومت لے آتا ہے۔ جہاں چاہتا ہے حکومت کے خلاف بغاوت کرادیتا ہے۔
جہاں تک حکومتیں گرانے کا تعلق ہے تو امریکا نے پوری دنیا کو اپنی چراگاہ بنایا ہوا ہے۔ امریکا نے 1954ء میں ایران کے صدر مصدق کی حکومت کو گرایا۔ مصدق کا جرم یہ نہیں تھا کہ انہوں نے امریکا کے ٹوئن ٹاورز گرادیے تھے یا لندن پر حملہ کردیا تھا۔ مصدق کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ملک میں تیل کی صنعت کو قومیا لیا تھا اور اس سے امریکا اور برطانیہ کے کئی ملٹی نیشنلز کے مفادات پر زک پڑتی تھی۔ چناں چہ امریکا نے لاکھوں ڈالر خرچ کرکے ایران میں مصدق کے خلاف مظاہرے کرائے۔ کسی پاکستانی اخبار کے مطابق نہیں امریکا کے ممتاز روزنامے واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر کے مطابق امریکا نے 1947ء سے 1989ء تک دنیا کی 72 حکومتوں کو گرانے کی سازشیں کیں۔ ان سازشوں میں 66 سازشیں خفیہ تھیں جب کہ 6 بار امریکا نے کھل کر حکومتیں گرانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکا کی 66 خفیہ سازشوں میں سے 26 کامیاب اور 40 ناکام ہوئیں۔ امریکا نے مختلف ممالک کی حکومتوں کو گرانے کے لیے فوجی بغاوتوں کا سہارا لیا۔ ان میں 14 میں سے 9 بغاوتیں کامیاب ہوئیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ امریکا نے 16 ممالک میں خفیہ سرمائے اور پروپیگنڈے کے ذریعے انتخابی عمل میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور ان کوششوں میں سے 25 کوششیں کامیاب ہوئیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک اور خبر کے مطابق امریکا نے 1954ء میں گوئٹے مالا میں جیکب آربینز کی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت منظم کی۔ اس سلسلے میں امریکی سی آئی اے نے مرکزی کردار ادا کیا۔ سی آئی اے کی بغاوت کی یہ مہم اتنی موثر تھی کہ جیکب آربینز اقتدار پر گرفت قائم نہ رکھ سکے۔ 1981ء میں امریکی سی آئی اے نے نکارا گوا کی منتخب حکومت کو اقتدار سے محروم کیا۔ امریکا کے فارن پالیسی میگزین کے مطابق امریکی سی آئی اے نے ایک دھماکے خیز سگار کے ذریعے کیوبا کے انقلابی رہنما فیدرل کاسترو کو ہلاک کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ 1960ء میں امریکی سی آئی اے نے کانگو کے پہلے منتخب وزیراعظم پیٹر سی لوامبا کو برطرف کردیا۔ سی آئی اے نے اس سلسلے میں کانگو کے صدر جوزف کاسا بُوبُو کو استعمال کیا۔ 1963ء میں امریکا نے ویت نام میں نگوڈن ڈیم کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کرادی۔ امریکا نے 1964ء میں برازیل میں جاوا کولاٹ کی حکومت کو گرادیا۔ کولاٹ کی حکومت کا جرم یہ تھا وہ چین کے کمیونسٹ انقلاب سے متاثر تھی اور اس کے مطابق برازیل کی ترقی چاہتی تھی۔
مسلم دنیا میں حکومتیں بنانے اور گرانے کا امریکی کھیل بہت پرانا ہے۔ شاہ فیصل کو اگرچہ ان کے بھتیجے نے شہید کیا مگر باخبر لوگوں کی عظیم اکثریت کا خیال ہے کہ شاہ فیصل کی شہادت کی پشت پر امریکی سی آئی اے موجود تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شاہ فیصل نے تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے پوری مغربی دنیا کو ہلا دیا تھا۔ شاہ فیصل کہنے کو بادشاہ تھے مگر ان میں دینی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ انہوں نے ایک دن امریکا کے سفیر کو دوپہر کے کھانے یا ظہرانے پر مدعو کیا۔ شاہ فیصل نے ظہرانے کے لیے صحرا میں خیمہ نصب کردیا۔ انہوں نے امریکی سفیر کو ظہرانے میں کھجوریں اور قہوہ پیش کیا اور کہا کہ ہمارے آبائو اجداد کی زندگی اتنی قلیل غذا پر بسر ہوتی تھی اور ہم اپنے بزرگوں کے وارث ہیں۔ چناں چہ مغربی دنیا ہمیں اس بات سے نہ ڈرایا کرے وہ ہمارے تیل پر قبضہ کرلے گی۔ اس سے پہلے کہ مغربی دنیا ہمارے تیل پر قبضہ کرلے ہم تیل کے کنوئوں کو خود آگ لگادیں گے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہمیں کھانے کے لیے جو کھجوریں اور پینے کے لیے جو قہوہ درکار ہے وہ ہم تیل کے بغیر بھی پیدا کرلیں گے۔ البتہ مغربی دنیا کو سوچنا چاہیے کہ جب تیل نہیں رہے گا تو اس کی ترقی و خوشحالی کا کیا بنے گا؟ شاہ فیصل کی یہ فکر انقلابی تھی اور امریکا اسے کیسے برداشت کرسکتا تھا۔ چناں چہ امریکا کے لیے شاہ فیصل کو راستے سے ہٹانا ناگزیر ہوگیا۔ بھٹو صاحب کا جرم یہ تھا کہ وہ کہا کرتے تھے ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ بھٹو کا خیال تھا کہ اگر پاکستان کا ایٹم بم اور عربوں کا پیٹرو ڈالر مل جائیں تو مسلم دنیا ایک بڑی طاقت بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کے وزیر خارجہ ہینری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی دی تھی کہ ہم تمہیں ایک عبرت ناک مثال بنادیں گے۔ جنرل ضیا الحق افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کے وقت امریکا کے اتحادی تھے مگر بعدازاں وہ امریکا سے آزاد ہو کر سوچنے لگے۔ انہوں نے کشمیر میں جہادی عمل کو آگے بڑھایا۔ امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ بروس ریڈل کے بقول جنرل ضیا الحق نے امریکی امداد کا ایک حصہ جہاد کشمیر پر صرف کیا۔ چناں چہ امریکا جنرل ضیا الحق کی جان کے درپے ہوگیا۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے طیارے کے حادثے سے پہلے ملک کے اندر اپنی نقل و حمل محدود کی ہوئی تھی۔ مگر امریکا نے اسٹیبلشمنٹ میں نقب لگا کر جنرل ضیا الحق کے طیارے کو اڑا دیا اور اپنے سفیر رابن رافیل کی قربانی دے دی۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امریکا نے مصر میں صدر مرسی کی حکومت کو گرانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا نے جنرل سیسی کے اقتدار پر قبضہ کو مارشل لا گرداننے سے انکار کردیا۔ کیوں کہ امریکا جنرل سیسی کے اقتدار پر قبضے کو مارشل لا کہتا تو پورے مصر پر پابندیاں عائد کرنی پڑتیں۔ ترکی کے صدر اردوان کے خلاف فوجی بغاوت میں بھی امریکا ملوث تھا۔ حکومتوں کو گرانے کے حوالے سے امریکا کی اس تاریخ کو پیش نظر رکھا جائے تو ممکن ہے کہ امریکا عمران خان کی حکومت کو گرانے میں بھی ملوث ہو۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ڈونلڈ بلوم کا یہ دعویٰ جھوٹ کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی میں امریکا ملوث نہیں ہے۔
امریکا کے سفیر نے اپنے انٹرویو میں ایک اور بہت بڑی غلط بیانی کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ امریکا کے پاکستان کے ساتھ طویل اور انتہائی اہم تعلقات ہیں اور ہم ایک آزاد، خوشحال اور مضبوط پاکستان چاہتے ہیں۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی سفیر کی یہ تینوں باتیں بھی سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے کہ امریکا آزاد، خوشحال اور مضبوط پاکستان نہیں ایک غلام، بدحال اور کمزور پاکستان چاہتا ہے۔ پاک امریکا تعلقات کی تاریخ 75 سال پرانی ہے اور اس تاریخ میں امریکا نے ہمیں ہر اہم مرحلے پر اپنا غلام بنانے کی سازش کی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا نے جنرل ایوب کی آمریت کی حمایت کی، امریکا نے جنرل ضیا الحق کی آمریت کو دوام بخشا، امریکا نے جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے گلے میں ہار پھول ڈالے۔ جنرل یحییٰ خان سقوط ڈھاکا کے ذمے دار تھے اور حمودالرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ جنرل یحییٰ کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔ مگر بھٹو صاحب نے پاکستان کے ممتاز صحافی آصف جیلانی کو ایک بار بتایا کہ یہ امریکا تھا جس نے جنرل یحییٰ کا کورٹ مارشل نہ ہونے دیا۔ امریکا نے کہا کہ جنرل یحییٰ نے امریکا چین تعلقات کی استواری میں اہم کردار ادا کیا ہے اس لیے انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ آخر امریکا کو پاکستان میں فوجی آمریت اتنی پسند کیوں ہے؟ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جنرل پرویز نے نائن الیون کے بعد امریکی غلامی میں آخری حدوں کو چھو لیا۔ وہ اس سلسلے میں امریکی صدر جارج بش کے اتنے غلام بنے کہ مغربی ذرائع ابلاغ انہیں صدر بش کی نسبت سے ’’مشرف‘‘ کے بجائے ’’بشرف‘‘ کہنے لگے۔ جنرل پرویز ایک اوسط درجے کی ذہنی صلاحیت رکھنے والے شخص تھے مگر انہوں نے امریکی غلامی کو اتنا بڑھا دیا کہ مغرب کے رہنما انہیں ’’مدبر‘‘ کہتے ہوئے پائے گئے۔ وہ مغرب کے لیے اتنے اہم تھے کہ اسرائیل کا صدر رات کو سونے سے پہلے جنرل پرویز مشرف کی صحت اور طویل العمری کے لیے روز دعا کرتا تھا۔ امریکی سفیر کا یہ دعویٰ بھی جھوٹا ہے کہ امریکا پاکستان کو خوشحال دیکھنا چاہتا ہے۔ امریکا کے ساتھ ہمارے معاشی تعلقات کی تاریخ 60 سال پر محیط ہے اور اس تاریخ کے تناظر میں ہمارا حال یہ ہے کہ پاکستان میں دس سے بارہ کروڑ افراد خط غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ پاکستان کی 70 فی صد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ پاکستان کی 70 فی صد آبادی بیمار پڑتی ہے تو اسے ماہر ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوتا۔ ہمارے ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر کھڑے ہیں۔ ملک 120 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ پاکستان ایک سال میں اگر سو روپے کماتا ہے اور 50 روپے صرف قرضوں اور ان کی سود کی ادائیگی پر صرف پر جاتے ہیں۔ کیا یہ ہے وہ خوشحالی جو امریکا نے ہمیں عطا کی ہے؟ رہی پاکستان کی مضبوطی تو امریکا نے نہ 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی مدد کی اور نہ 1971ء کی جنگ میں اس نے ہمارا ساتھ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آدھا ملک ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔