پاکستانی سیاست دان آٹے میں نمک کے برابر سچ بولتے ہیں اور اگر معاملہ ان کی جماعت کا ہو تو پھر وہ بدترین صورت میں بھی خاموش رہنا پسند کرتے ہیں۔ مگر پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کراچی میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور خود پیپلز پارٹی کے بارے میں سچ بولا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ایوب خان کے زوال کے بعد ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ نے اس سوال کا تجزیہ کیا کہ جنرل ایوب کی طاقت ور حکومت کیوں زوال پزیر ہوئی۔ اس سلسلے میں تین اسباب کی نشاندہی ہوئی۔ ان میں سے پہلا سبب طلبہ کی یونین تھی۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں طلبہ یونین نے جمہوری جدوجہد میں مرکزی کردار ادا کیا۔ چناں چہ ملک میں جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے لیے طلبہ یونین پر پابندی لگانا ضروری سمجھا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ جنرل ایوب کے زوال میں ملک کے کافی ہائوسز نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کافی ہائوسز عوام کو ’’متبادل بیانیہ‘‘ مہیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں کراچی اور لاہور کے کافی ہائوسز کا کردار بنیادی تھا۔ چناں چہ جنرل ضیا الحق کے دور میں کافی ہائوسز کے کلچر کا بھی شعوری طور پر خاتمہ کیا گیا۔ ملک کے خفیہ اداروں نے اس امر کی بھی نشاندہی کی جمہوری جدوجہد کے سلسلے میں مزدور یونینوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ چناں چہ مزدور یونینوں میں نقب لگائی گئی اور انہیں بالآخر غیر موثر کردیا گیا۔ (دی نیوز کراچی، 6 نومبر 2022ء)
دنیا کے کئی ملک ایسے ہیں جہاں ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ملک کی جدوجہد آزادی میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ چناں چہ ان ملکوں میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مرکزیت حاصل ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ مثلاً ترکی میں تمام تر جمہوریت کے باوجود ابھی تک فوج بڑی طاقت ور ہے اور وہ خود کو ملک کے سیکولر آئین اور مصطفی کمال اتاترک کے ’’کمال ازم‘‘ کا پاسبان سمجھتی ہے۔ لیکن پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں فوج کا کوئی کردار ہی نہیں اس لیے کہ اس وقت فوج موجود ہی نہیں تھی مگر اس حقیقت کے باوجود فوج ملک کی مالک بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ فوج کے ملک کا مالک ہونے کی بات مذاق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج ہی ملک کی حکومت ہے، فوجی ہی ملک کا آئین ہے، فوج ہی ملک قانون ہے، فوج ہی ملک کا نظام انصاف ہے۔ یہاں تک کہ فوج ہی بجائے خود ریاست پاکستان ہے۔ یہ کئی سال پرانی بات ہے، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل سے ایک انٹرویوکے سلسلے میں ملاقات ہوئی تو ہم نے ان سے پوچھا کہ جنرل صاحب یہ فرمائیے کہ ملک فوج کے لیے ہے یا فوج ملک کے لیے ہے۔ کہنے لگے میرے پاس تمہارے سوال کا جواب نہیں ہے۔ جنرل حمید گل کے لاجواب ہونے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ عملاً ملک فوج کے لیے ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو جنرل حمید گل چیخ کر کہتے کہ جس طرح دنیا بھر میں فوج ملک کے لیے ہوتی ہے پاکستان میں بھی فوج ملک کے لیے ہے۔ اس صورت حال نے پاکستانی جرنیلوں کو ’’دیوقامت‘‘ بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ بدقسمتی سے جرنیلوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا ’’تصور خدا‘‘ اور تعلق بااللہ انتہائی پست ہے۔ اقبال نے کہا ہے
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اقبال کہہ رہے ہیں کہ جب آدمی خدا کے سامنے جھک جاتا ہے تو اسے دنیا میں کسی اور کے سامنے جھکنے کی ذلت سے نجات مل جاتی ہے۔ لیکن ہمارے جرنیلوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے پہلے دن سے خدا کو صرف تصور بنایا ہوا ہے اور امریکا کو انہوں نے خدا کا درجہ دیا ہوا ہے۔ چناں چہ ہمارے جرنیل جتنا امریکا سے ڈرتے ہیں اتنا خدا سے بھی نہیں ڈرتے۔ ہمارے جرنیلوں کے ذہن میں اس بات کا کوئی تصور موجود نہیں کہ خدا ہمارا خالق و مالک ہے۔ ہم اسی کی طرف سے دنیا میں بھیجے گئے ہیں اور بالآخر ہمیں لوٹ کر اللہ ہی کی طرف جانا ہے۔ ہمارے جرنیلوں کے ذہن میں یہ تصورات ہوتے تو ملک میں اسلام کو نافذ ہوئے 75 سال ہوچکے ہوتے اور ہم امریکا کے شکنجے سے پوری طرح آزاد ہوتے۔ ہمارے ملک میں فوج کی مرکزیت کے حوالے سے آرمی چیف کو ملک کا سب سے طاقت ور آدمی سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ طاقت ور آدمی صرف قوم کے لیے طاقت ور ہے۔ ہمارے جرنیلوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ قوم پر ہتھیار اٹھاتے ہیں اور ہندوستان اور امریکا کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے آرمی چیف کا تقرر ملک کا وزیراعظم کرتا ہے مگر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کی یوٹیوب پر موجود ایک ویڈیو کے مطابق ہمارے آرمی چیف کا تقرر امریکا کرتا ہے۔ جنرل حمید گل نے اس ویڈیو میں صاف کہا ہے کہ جب ان کے زمانے میں آرمی چیف کے تقرر کے لیے چھے سینئر جرنیلوں کی فہرست مرتب کی گئی تو ان کا نام فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور آصف نواز کا نام آخری نمبر پر تھا، مگر انہیں آرمی چیف بنانے کے بجائے جنرل آصف نواز کو آرمی چیف بنادیا گیا۔ جنرل حمید گل کے بقول جب مذکورہ فہرست صدر غلام اسحاق خان کے سامنے پہنچی تو انہوں نے کہا کہ جنرل حمید گل کا نام پہلے نمبر پر ہونا بہت اچھی بات ہے مگر وہ امریکا کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے۔ اس تجربے کی بنیاد پر حمید گل ویڈیو میں یہ کہتے دکھائی دیے کہ ہم امریکا کی مرضی کے بغیر اپنا آرمی چیف بھی مقرر نہیں کرسکتے۔ جنرل حمید گل کے بقول ہمیں ملک تو مل گیا مگر آزادی نہیں ملی۔
آئی ایس آئی کے ایک اور سابق سربراہ جنرل شجاع پاشا کی بھی ایک ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے۔ اس ویڈیو میں جنرل پاشا کہہ رہے ہیں کہ جب فوج عمران خان کو وزیراعظم کے طور پر لارہی تھی تو اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے آدمی کو لارہی ہے جو اس کی زبان بولے گا یعنی امریکا کی زبان بولے گا۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ ہمارے جرنیل جو کچھ کہتے ہیں وہ امریکی ایجنڈے کے عین مطابق ہوتا ہے۔ خود جنرل پاشا کا ماضی میں امریکا کے حوالے سے یہ عالم تھا جب ریمنڈ ڈیوس کو عدالت میں پیش کیا گیا تو جنرل پاشا آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے عدالت میں موجود تھے اور وہ لمحے لمحے کی کارروائی سے فون کے ذریعے امریکی سفیر کو آگاہ کررہے تھے۔ یہ کام آئی ایس آئی کا کوئی چھوٹا موٹا افسر بھی کرسکتا تھا مگر چوں کہ معاملہ امریکا کو خوش کرنے کا تھا اس لیے آئی ایس آئی کا سربراہ بہ نفس نفیس امریکا کے لیے ’’کورٹ رپورٹر‘‘ کا کردار ادا کررہا تھا۔
یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے اکثر بڑے سیاست دان فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کھیت میں کاشت ہوئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کی کابینہ کا حصہ تھے اور وہ جنرل ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ بلاشبہ بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیا الحق کی مزاحمت کی مگر وہ بالآخر دوبار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتا کرکے ہی اقتدار میں آئیں۔ میاں نواز شریف جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی کی مہربانیوں سے قومی رہنما بنے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ ہی نے الطاف حسین کو الطاف حسین بنایا۔ یہ بات طے ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اقتدار میں نہیں آسکتے تھے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں عمران خان کو ’’سلیکٹڈ‘‘ کہا کرتی تھیں۔ آج وہ خود اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ آج ان کی حمایت ترک کردے تو میاں شہباز شریف ایک دن بھی وزیراعظم نہیں رہ سکیں گے۔ اس صورت حال نے ہمارے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو عوام کی نظروں میں بے توقیر کردیا ہے۔ بھٹو صاحب گرفتار ہوئے تو انہوں نے فرمایا مجھے کچھ ہوا تو ہمالہ روئے گا اور سندھ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی مگر بھٹو کو پھانسی ہوئی تو نہ ہمالہ رویا نہ سندھ میں خون کی ندیاں بہیں۔ میاں نواز شریف کو جنرل پرویز نے اقتدار سے محروم کیا تو ان کے پاس دو تہائی اکثریت تھی مگر ان کی برطرفی کے خلاف کہیں اور کیا لاہور میں بھی دس لوگوں نے مظاہرہ نہ کیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن ہوا تو الطاف حسین کا خیال تھا کہ کراچی میں عوامی سیلاب فوجی آپریشن کا راستہ روک لے گا مگر عوامی سطح پر فوجی آپریشن کی کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ اب عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو ایک آدھ جگہ کے سوا کہیں کوئی موثر عوامی احتجاج سامنے نہیں آیا۔ اس کے برعکس مثال رجب طیب اردوان کی ہے۔ ان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی تو اردوان کے ایک پیغام پر ہزاروں لوگ سڑکو پر آگئے۔ وہ ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے، ان پر گن شپ ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ ہوئی مگر عوام نے میدان چھوڑنے سے انکار کردیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسئلہ رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کی اخلاقی ساکھ کا ہے۔ بلاشبہ لوگ بھٹو اور شریف وغیرہ کو ووٹ تو دے سکتے ہیں نوٹ بھی دے سکتے ہیں مگر وہ ان کے لیے لاٹھی اور گولی نہیں کھا سکتے۔ اس صورت حال نے ملک میں اسٹیبلشمنٹ کو اور قوی کردیا ہے۔