انسانوں کی عظیم اکثریت طاقت کو حیرت و ہیبت سے دیکھتی ہے، اس کو پوجتی ہے، اس کے آگے سر جھکاتی ہے، انسانوں کی اکثریت کو اگر حق اور طاقت میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ حق کو چھوڑ دے گی اور طاقت کو اختیار کرے گی۔ طاقت فرد کی بھی ہوتی ہے۔ گروہوں اور طبقات کی بھی۔ طاقت معاشرے کی بھی ہوتی ہے اور ریاست کی بھی۔ طاقت قوموں کی بھی ہوتی ہے اور نظاموں کی بھی۔ ہمارا عہد سپر پاورز کا عہد ہے۔ امریکا ہمارے دور کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس کی طاقت مقامی نہیں عالمگیر ہے۔ دنیا کے کروڑوں انسان امریکا کو اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح صرف خدا کو دیکھے جانے کا حق ہے۔ رئوف کلاسرا پاکستان کے معروف کالم نگار اور صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں امریکا کو اتنی حیرت اور ہیبت سے دیکھا ہے کہ ہم اسے دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا سب سے بڑی طاقت ہے اور اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ رئوف کلاسرا نے بھی اپنے کالم میں امریکا کو اسی طرح بیان کیا ہے۔ رئوف کلاسرا نے امریکا کے بارے میں کیا لکھا ہے۔ انہی کی زبانی سنیے۔ لکھتے ہیں۔
’’دنیا کی ہر قوم کی کوشش ہوتی ہے وہ امریکا کے ساتھ ٹکر لے اور اسے بتائے کہ وہ کسی سے کم نہیں ہے۔ اگر آپ نوٹ کریں تو جنگ عظیم دوم سے لے کر اب تک کئی قوموں نے امریکا سے یہی سوچ کر ٹکر لینے کی کوشش کی۔ امریکا کا کچھ نہیں بگڑا لیکن وہ قومیں تباہ و برباد ضرور ہوئیں۔ فہرست لمبی ہے۔ آپ لوگ فلم The Emperor ضرور دیکھیں‘ کہ کیسے جاپانیوں نے یہ سمجھ کر امریکا سے ٹکر لی تھی کہ وہ جاپان کی ہزاروں سالہ سمورائی روایات کے امین ہیں اور ان جیسا بہادر اس کرئہ ارض پر پیدا نہیں ہوا۔ شہنشاہ ہیرو ہیٹو کی کابینہ کے چند وزرا نے یہی لائن لی تھی کہ ہم بزدل تھوڑی ہیں‘ ہم کوئی امریکا کے غلام ہیں۔ دو تین وزیروں نے اگر سمجھانے کی کوشش کی تو انہیں غدار اور بزدل سمجھا گیا۔ وہی ہوا‘ امریکا کو سبق سکھانے کا فیصلہ ہوا۔ پرل ہاربر پر جاپانیوں نے حملہ کیا‘ تین ہزار امریکی مار دیے۔ جواباً امریکا نے دو ایٹم بم مارے۔ جرمن بھی خود کو بڑی بہادر قوم سمجھتے تھے۔ پورے یورپ کو آگے لگایا ہوا تھا۔ آج اسی جرمنی میں امریکا کے اڈے ہیں۔ برطانیہ دنیا کی وہ سلطنت تھی جہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ آج وہی برطانیہ سر جھکا کر وہی کچھ کرتا ہے جو اسے امریکی کہتے ہیں۔ تو کیا جاپان‘ جرمنی اور برطانیہ بزدل قومیں ہیں جو امریکا کے آگے جھک جاتی ہیں؟ ہرگز نہیں! ان سب کو اپنا نقصان اٹھانے کے بعد احساس ہوا کہ ان کا سارا مفاد امریکا سے جڑا ہوا ہے۔ مفادات ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ دوستی یا برابری کچھ نہیں ہوتی۔ یہ دوستیاں ہم عام انسانوں کی ہوتی ہیں‘ ملکوں کے مفادات ہوتے ہیں لیکن ہمارے جیسے خطے کے لوگ ملکوں کے درمیان اس طرح دوستی چاہتے ہیں جیسے وہ عام زندگی میں عام لوگوں سے رکھتے ہیں اور اس میں گلی محلے یا اسکول کی دوستی کی طرح ’’کٹی‘‘ کرنے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ امریکا کے ویتنام‘ افغانستان یا عراق میں ناکام جنگی تجربات یا شکستوں کا حوالہ دیں کہ انہیں وہاں عبرتناک شکست ہوئی۔ میں اکثر دوستوں کو کہتا ہوں کہ مجھے بتائو امریکا نے آخری دفعہ کب کسی ملک پر حملہ کر کے وکٹری کا دعویٰ کیا تھا؟ آخری وکٹری جنگِ عظیم دوم میں کلیم کی تھی جب جاپان اور جرمنی کو شکست دی گئی تھی‘ اس کے بعد حالیہ تاریخ میں تین بڑی جنگیں امریکا نے ویتنام‘ افغانستان اور عراق پر مسلط کیں اور جاتے وقت ایک ہی رولا ڈالا ہوا تھا کہ ہم امریکن برباد ہوگئے‘ مر گئے‘ لٹ گئے‘ ہم ہار گئے۔ ہر جنگ کے اختتام پر ہزاروں مقامی لوگوں کو بموں سے مارنے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد ایک ہی نعرہ سننے کو ملتا تھا کہ ہمیں شکست ہوگئی۔ یہ سب امریکی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ ہزاروں لوگوں کو مارنے کے بعد یہ تسلیم کر لینا کہ انہیں شکست ہوگئی‘ ایک طرح سے ان قوموں کو تسلی دینا تھا کہ تم لوگ بالکل پریشان نہ ہونا بلکہ فخر کرنا کہ تم نے امریکا جیسی قوم کو شکست دے دی۔ افغانستان کو ہی دیکھ لیں‘ کیا وہاں امریکا کو شکست ہوئی؟ بیس سال تک وہیں بیٹھے چاند ماری کرتے رہے‘ چین اور روس کی سرحدوں پر جمے رہے‘ دنیا جہاں کا خطرناک اسلحہ وہاں استعمال کیا‘ ہزاروں لوگ مارے لیکن جاتے ہوئے کہہ گئے کہ ہم ہار گئے ان افغانوں سے اور جانے سے پہلے طیارے میں ملابرادر کو بھی قطر سے لا کر قندھار چھوڑ گئے۔ آپ کا کیا خیال ہے امریکی نہ چاہتے تو ملا برادر قندھار پہنچ سکتے تھے یا طالبان کابل کے اندر داخل ہو سکتے تھے؟
اپنی مرضی سے انہوں نے افغانستان چھوڑا۔ اب آپ کہیں گے امریکی فوجی بہت مررہے تھے۔ کچھ اندازہ ہے ان بیس سالوں میں کتنے امریکی فوجی افغانستان میں مرے؟ ڈھائی سے تین ہزار ہوں گے۔ بیس برس کا حساب لگا لیں کہ روزانہ یا ماہانہ کے حساب سے کتنے فوجی مررہے تھے؟ اتنے فوجی تو جنگی مشقوں میں بیس سال کے عرصے میں مر جاتے ہیں۔ ایک امریکی فوجی کو مارنے کے لیے طالبان پچاس معصوم افغانوں کو بم سے اڑا دیتے تھے۔ اسی طرح عراق میں ہوا۔ وہاں مرضی سے امریکا کا جتنا عرصہ دل کیا رہا‘ جاتے وقت وہی پرانی کہانی کہ ہم لٹ گئے‘ برباد ہوگئے‘ ہمیں شکست ہو گئی۔
(روزنامہ دنیا۔ 16نومبر 2022ء)
رئوف کلاسرا نے بڑی مہربانی کی کہ انہوں نے اپنے کالم کے اختتام پر لاالہ الااللہ کی طرح لاالہ الاامریکا کا نعرہ نہیں لگایا۔ وہ یہ نعرہ لگادیتے تو کوئی ان کا کیا بگاڑ لیتا۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہاں اسلام کی توہین عام ہے اور اس کے مضمرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن رئوف کلاسرا کے کالم پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ انسان کی طاقت پرستی تاریخ کے ہر دور میں ظاہر ہوئی ہے۔ ہم نمرود اور فرعون کا ذکر تو بہت کرتے ہیں لیکن ان کے ذکر کے حوالے سے یہ بات کم ہی لوگوں کے شعور کا حد ہوتی ہے، نمرود کی نمرودیت اور فرعون کی فرعونیت کی بنیاد ان کی طاقت تھی۔ دونوں افراد سلطنت کے مالک اور بادشاہ وقت تھے۔ نمرود نے اپنی طاقت کے زعم میں خدائی کا دعویٰ کیا۔ اس نے سیدنا ابراہیمؑ سے کہا کہ تمہارا خدا زندگی اور موت کا مالک ہے تو یہ کام میں بھی کرتا ہوں۔ میں جسے چاہوں زندگی بخش دوں جسے چاہوں موت سے ہمکنار کردوں۔ اس کے جواب میں سیدنا ابراہیمؑ کو کہنا پڑا کہ میرا خدا تو وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو خدا ہے تو ذرا سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا۔ نمرود سے اپنی خدائی کی یہ توہین برداشت نہ ہوئی اور اس نے سیدنا ابراہیمؑ کو آگ میں زندہ جلادینے کا فیصلہ کیا۔ فرعون سیدنا موسیٰؑ کے معجزے کے جواب میں جادو کو لایا۔ یہ بھی ایک طرح سے خدائی ہی کا دعویٰ تھا لیکن جب سیدنا موسیٰؑ کے معجزے نے فرعون کے جادو کو شکست دے دی تو جادوگر ایمان لے آئے مگر فرعون ایمان نہ لایا۔ اس لیے کہ اس کے پاس طاقت تھی۔ اس کے پاس سلطنت تھی۔ اس کے پاس فوج تھی۔
طاقت کی قوت رسول اکرمؐ کی پیدا کی ہوئی تاریخ پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔ جب تک رسول اکرمؐ کے پاس طاقت نہیں تھی آپؐ کو جھوٹا کہا گیا۔ شاعر قرار دیا گیا۔ مجنوں باور کرایا گیا۔ مکی زندگی کے ابتدائی زمانے میں صرف سیدنا ابوبکرؓ، سیدہ خدیجہؓ اور سیدنا علیؓ ایسے لوگ تھے جنہوں نے رسول اکرمؐ کی زبان مبارک سے اپنے نبی ہونے کا ذکر سنا اور وہ ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر آپ پر ایمان لے آئے۔ دوسرے بہترین لوگ وہ تھے جو قرآن کی آیات کو سن کر اور پڑھ کر آپؐ پر ایمان لائے۔ اس لیے کہ قرآن سے انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ یہ کلام انسانی نہیں ہے۔ یہ کلام ربانی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سیدنا عمرؓ تھے۔ وہ رسول اکرمؐ کے قتل کے ارادے سے نکلے تھے مگر راستے میں کسی نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر سیدنا عمرؓ اپنی بہن کے گھر پہنچے اور قرآن کی چند آیات سنیں۔ ان آیات نے سیدنا عمرؓ پر عیاں کردیا کہ رسول اکرمؐ واقعتاً نبی ہیں۔ ایمان لانے والوں کی تیسری قسم وہ تھی جنہوں نے رسول اکرمؐ سے ایمان لانے کے لیے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا۔ ان لوگوں کی دو قسمیں تھیں۔ کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا، معجزہ دیکھا اور ایمان لے آئے، کچھ لوگ وہ تھے جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا معجزہ دیکھا اور کہا کہ یہ تو جادو ہے۔ رسول اکرمؐ نے مکے میں 13 سال بسر کیے مگر ان 13 برسوں میں چند سو افراد مسلمان ہوئے۔ مگر جب رسول اکرمؐ نے مکہ فتح کرلیا اور آپؐ نے سیاسی اور عسکری طاقت حاصل کرلی تو پھر مدنی زندگی کے صرف دس برس میں لاکھوں افراد مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ اس لیے کہ اب دنیا جان چکی تھی کہ اب عالم عرب میں رسول اکرمؐ کا دین اور سکہ چلے گا۔ جب مکہ فتح ہوگیا اور ابوسفیان نے رسول اکرمؐ کے پاس جانے کا اعلان کیا تو ابوسفیان کی بیوی نے اس پر حیرت کا اظہار کیا۔ اس حیرت کے جواب میں ابوسفیان نے جو کچھ کہا اس کا مفہوم یہ تھا کہ کیا تم دیکھ نہیں رہی ہو کہ اب طاقت کا سرچشمہ اسلام اور رسول اکرمؐ کی ذات اقدس ہے۔ اسلامی تاریخ کی یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ جہاں حکمرانوں نے فقہ حنفی کو اختیار کیا وہاں حنفیت پھیل گئی۔ جہاں حکمرانوں نے فقہ شافعی کو پسند کیا وہاں شافعیت عام ہوگئی۔ جہاں حکمرانوں نے امام مالک کی فقہ کو حرزجاں بنایا وہاں مالکیت کو فروغ حاصل ہوا۔ جہاں حکمرانوں نے امام حنبل پر توجہ مرکوز کی وہاں حنبلیت کو غلبہ حاصل ہوگیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ برصغیر میں صوفیا اور علما نے اسلام کو پھیلایا۔ لوگ غلط نہیں کہتے مگر لوگ اس بات کو نظر انداز کرجاتے ہیں کہ صوفیا اور علما کی پشت پر اگر ریاست کی طاقت نہ ہوتی تو ہندو کبھی اسلام کو نہ پھیلنے دیتے۔ اس کی ایک ناقابل تردید مثال ڈاکٹر ذاکر نائیک ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر مکالمے کے آدمی ہیں۔ وہ دولت یا اسلحے کے زور پر لوگوں کو اسلام کی طرف نہیں بلاتے۔ وہ علم کی قوت اور دلائل کے زور سے کام لیتے ہیں۔ مگر چوں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پشت پر ریاست کی طاقت نہیں تھی اس لیے بھارت کے انتہا پسند حکمرانوں نے انہیں بھارت چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ دوسرے مذاہب کے فروغ میں بھی ریاست اور سیاست کی طاقت نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ عیسائیت اس وقت یورپ کا مذہب بن کر ابھری جب سلطنت روما نے عیسائیت اختیار کرلی۔
بھارت میں اشوک جیسا حکمران اگر بدھ ازم کو اختیار نہ کرتا تو ہندوستان میں بدھ ازم فنا ہوجاتا۔ اسی لیے ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ جو کام قرآن نہیں کرپاتا وہ سلطان یا ڈنڈا کردیتا ہے۔ حق اور اس کی روح، اور اس کے جلال و جمال کا ابلاغ چند نفوس تک ہوتا ہے۔ انسانوں کی اکثریت تو طاقت سے متاثر ہوتی ہے۔
ہم جامعہ کراچی میں بی اے آنرز سال دوم کے طالب علم تھے کہ ہمیں بھارت کے ممتاز ماہر غالبیات کمال صدیقی کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ کمال صدیقی ان دنوں کراچی آئے ہوئے تھے۔ ہمیں کمال صدیقی سے انٹرویو کی ذمے داری معروف افسانہ نگار، نقاد اور اردو ادب کے استاد علی حیدر ملک نے دی تھی۔ انٹرویو کی ذمے داری دیتے ہوئے انہوں نے ہمیں خبر دار کیا تھا کہ کمال صدیقی مارکسٹ ہیں اس لیے ان کے سامنے مارکسزم کی برائی نہ کرنا۔ لیکن وہ اسلام پسند ہی کیا جو حق کو حق نہ کہے۔ چناں چہ ہم نے انٹرویو میں کمال صدیقی سے کہا کہ مولانا مودودی نے فرمایا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب کمیونزم یا مارکسزم کو خود روس کے دارالحکومت ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی۔ ہماری بات سن کر کمال صدیقی کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ کہنے لگے ایسا کبھی نہیں ہوگا کیوں کہ مارکسزم ہمیشہ زندہ رہے گا اور اگر کبھی مارکسزم کو ماسکو میں پناہ نہ ملے تو آپ مجھے خط لکھ کر اس کی اطلاع ضرور دیجیے گا۔ کمال صدیقی کا یہ ردِعمل اس لیے تھا کہ مارکسزم کو دنیا کی درجنوں ریاستوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ مارکسزم ایک سیاسی طاقت تھا، ایک نظریاتی قوت تھا، ایک بڑی معاشی حقیقت تھا۔ ایک بڑی عسکری طاقت اس کے پاس تھی، لیکن جیسے ہی سوویت یونین ٹوٹا مارکسزم کے خلاف پوری دنیا میں بغاوت ہوگئی اور آج دنیا میں مارکسزم کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ پاکستان میں جرنیلوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ساری ’’عزت‘‘ ان کی طاقت کی وجہ سے ہے۔
جہاں تک رئوف کلاسرا کے کالم کے طویل اقتباس کا تعلق ہے تو عرض یہ ہے کہ مرغوں کی لڑائی میں بھی کوئی شخص ’’خود‘‘ نہیں ہارتا۔ اس کا مرغا پٹ جاتا ہے تو وہ اپنی ہار قبول کرتا ہے۔ امریکا افغانستان میں ہارنے نہیں فتح یاب ہونے آیا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں تنہا نہیں آیا تھا وہ 48 ممالک کو ساتھ لے کر افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اب افغانستان میں قیامت تک وہی ہوگا جو وہ چاہے گا۔ امریکا کے اس خیال کی بنیاد طالبان اور امریکا کی طاقت کا عدم توازن تھا۔ امریکا کی سیاسی طاقت بے پناہ تھی۔ امریکا کی سیاسی طاقت ایک لاکھ تھی تو طالبان کی سیاسی طاقت صرف ایک تھی۔ امریکا کی معاشی طاقت اگر ایک کروڑ تھی تو طالبان کی معاشی طاقت صرف ایک تھی۔ امریکا کی عسکری طاقت اگر ایک ارب تھی تو طالبان کی طاقت صرف ایک تھی۔ اس کے باوجود امریکا کو افغانستان میں شکست ہوگئی۔ امریکا کی شکست کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ طالبان کو ختم کرنے کے لیے آیا تھا مگر وہ 20 سال تک طالبان کو ختم نہ کرسکا۔ امریکا نے افغانستان میں جعلی جمہوریت کو ساکھ مہیا کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ امریکا نے حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے پالتوں حکمرانوں کو دوام عطا کرنے کی کوشش کی مگر اسے کامیابی نہ ملی۔ یہ امریکا کی مکمل ناکامی کا منظر ہے اور اس ناکامی کا مفہوم یہ ہے کہ افغانستان میں ایمان کی طاقت سیاسی و معاشی قوت اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی طاقت پر غالب آگئی۔