مسلم معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مسلمانوں کے امکانات سے مایوس ہیں۔ مسلمانوں سے مایوسی کے اسباب ہیں۔ مسلمان ایک خدا کو مانتے ہیں مگر درجنوں دنیاوی خدائوں کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ مسلمان رسول اکرمؐ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں مگر رسول اکرمؐ کی سیرت پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ فضیلت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے تقوے کو اور علم کو۔ لیکن مسلمان نہ تقویٰ اختیار کرتے ہیں نہ علم میں کمال حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چناں چہ مسلمانوں سے مایوسی ایک حد تک قابل فہم ہے مگر بدقسمتی سے مسلمانوں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو خود اسلام کے امکانات سے بھی مایوس ہیں۔ ایسے لوگ کھل کر اسلام سے مایوسی کا اظہار نہیں کرتے مگر ان کی تحریریں اور گفتگوئیں اس بات کی چغلی کھاتی ہیں کہ ان کو اب اسلام سے بھی کوئی امید نہیں۔ ان کی امید وابستہ ہے تو سیکولرازم سے، لبرل ازم سے، سرمایہ دارانہ نظام سے، مغرب کے مجموعی بندوبست سے۔ جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ وہ گاہے گاہے ملفوف انداز میں مسلمانوں اور اسلام دونوں سے مایوسی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں خورشید ندیم کا ایک حالیہ کالم کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کالم میں خورشید ندیم نے کیا فرمایا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ خورشید ندیم لکھتے ہیں۔
’’ایران میں عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر ہے۔ احتجاج کی ایک لہر ہے جو ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی ہے۔
آسان راستہ یہ ہے کہ اسے شیطانِ کبیر‘ امریکا کی سازش قرار دے کر‘ داخلی کردار بری الذمہ ہو جائیں۔ احتجاج کو ریاستی قوت سے کچل ڈالا جائے اور جو شہری اس کی نذر ہو جائیں‘ ان کے کفن پر ’فسادی‘ اور ’استعمار کے ایجنٹ‘ کا لیبل لگا اکر انہیں سپردِ خاک کر دیا جائے۔ ایرانی حکومت نے یہی راستہ چنا ہے۔ ایران میں برسر اقتدار مذہبی طبقے کے حامیوں اور مداحوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں بھی بستی ہے۔ ایران کا انقلاب فرقہ وارانہ تقسیم سے ماورا‘ اہل ِ پاکستان کی ایک بڑی تعداد کے لیے بھی طویل عرصہ باعث ِ کشش رہا۔ ایک طبقہ اب بھی موجود ہے جو اس انقلاب کے ساتھ ایک رومانوی تعلق رکھتا اور دل میں یہ خواہش لیے ہوئے ہے کہ ایران جیسا انقلاب پاکستان میں بھی آنا چاہیے۔ یہ طبقہ خیال کرتا ہے کہ ہمارے مسائل کا حل ایران جیسی ’اسلامی ریاست‘ کے قیام میں ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ان واقعات کا تجزیہ کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ یہ تجربہ ہمارے لیے کیا سبق لیے ہوئے ہے۔
یہی طبقہ ہے جو افغانستان میں طالبان کی حکومت کو بھی مثالی سمجھتا اور ایران کے بعد‘ اسے ایک دوسری نظیر کے طور پر پیش کرتا ہے جہاں اسلام نافذ ہو چکا۔ اس سے پہلے ایک گروہ سعودی عرب کے نظام کو بھی ہمارے لیے بطورِ مثال پیش کرتا رہا ہے‘ جہاں ان کے خیال میں ’اسلام‘ نافذ ہے۔ ان تینوں تجربات کا مشترک نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ ’ہمارے مسائل کا حل اسلام کا نفاذ ہے اور ہمیں بھی اسی کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے‘۔ لہٰذا ہمارے لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ان تینوں کا باہمی تعلق کیا ہے؟
میں ان تین جہتوں کو جوہری طور پر ایک سمجھتا ہوں۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ایک مذہبی حکومت ملک و قوم کو درپیش معاشی‘ سماجی اور سیاسی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی۔ ریاست مذہبی ہو یا غیر مذہبی‘ اس کے بنیادی مسائل یکساں ہوتے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ مسئلہ مذہب کے نفاذ کا نہیں‘ گورننس کا ہے۔ اگر کسی گروہ کے پاس گورننس کی صلاحیت نہیں ہے تو مذہب بھی اس کے کام نہیں آتا۔
انقلاب‘ ایک رومانوی فضا میں جنم لیتا اور تلخ زمینی حقائق کے بھنور میں دم توڑ دیتا ہے۔ 1979ء میں جب ایران میں انقلاب آیا تو یہ شہنشاہیت کے جبر کے خلاف احتجاج تھا۔ عوام نے خیال کیا کہ مذہبی پیشوا انہیں اس جبر سے نجات دلا دیں گے۔ معلوم ہوا کہ شہنشاہ کے شخصی جبر سے نکل کر لوگ ایک سنگین تر جبر کا شکار ہو گئے ہیں جو مذہب کے لبادے میں ہے۔ مذہب کے مابعد الطبیعیاتی تصورات‘ جبرکی شدت کو دوچند کر دیتے ہیں۔ خمینی صاحب جیسی شخصیت کی طبعی سادگی اور وقار بھی اس کو روک نہیں سکتے۔
ہم خلافت ِ راشدہ کی مثال پیش کرتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ ایک الٰہی فیصلہ تھا‘ واقعات کی شہادت یہ ہے کہ اس حکومت نے عوام کے مسائل حل کیے۔ یہ جبر سے آزاد ایک حکومت تھی جس میں سب کے لیے آسودگی تھی۔ خلافت ِ راشدہ مذہبی طبقے کی حکومت ہرگز نہیں تھی۔ وہ اچھی گورننس کی ایک صورت تھی جو رہتی دنیا تک ایک مثال رہے گی۔
بعد میں آنے والوں نے یہ سمجھا کہ خلافت ِ راشدہ یا اسلامی حکومت سے مراد مذہبی طبقے کی حکومت ہے۔ اسی کو ’خلافت‘ اور ’ولایت ِ فقیہ‘ کے عنوان سے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ یہ ایران کے مذہبی پیشوا ہوں یا افغانستان کے طالبان‘ سب کا فہم ِ اسلام یہ ہے کہ عورتوں پر پردے کے مخصوص اورگروہی تعبیر پر مبنی احکام نافذکرنے سے‘ نفاذِ اسلام کا تقاضا پورا ہو جاتا ہے۔ رہی عوام کی معاشی خوش حالی اور سیاسی و شخصی آزادی تو یہ اسلامی ریاست کے مسائل نہیں ہیں۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ عوام اس نظام کے خلاف احتجاج پر مجبور ہوگئے۔
سعودی عرب میں تیل کی وجہ سے وسائل کی فراوانی رہی اور ریاست نے ان وسائل کو عوام پر بھی خرچ کیا۔ اس سے وہ اضطراب پیدا نہ ہوا جو افغانستان یا ایران میں ہوا؛ تاہم چونکہ یہ نظام بھی اصلاً جبر پر قائم تھا‘ اس لیے اس کے خلاف عوام میں بے چینی بڑھ رہی تھی۔ سعودی عرب کی موجودہ حکومت نے اس کا بروقت ادراک کر لیا اور ریاستی و مذہبی جبر کی بیڑیوں کو کم کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایران میں اٹھنے والی احتجاج کی یہ لہر بتا رہی ہے کہ ایران کی قیادت کو بھی اس کا ادراک کرنا ہوگا۔ مذہبی طبقے کی حکومت اب ماضی کی داستان ہے۔ تاریخ آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کی گردش کو معکوس کرنے کی ہر کوشش کا انجام ناکامی ہے۔ افغانستان کے طالبان کو بھی یہ بات سمجھانا ہوگی۔ جو حکومت عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں کر سکتی‘ ختم ہو جاتی ہے‘ چاہے اس کی بنیاد کسی مقدس تصور ہی پر کیوں نہ ہو۔ (روزنامہ دنیا، 14 اکتوبر 2022)
کارل مارکس نے کہا تھا کہ فلسفے نے اب تک زندگی کی تعبیر مہیا کی ہے مگر مسئلہ زندگی کی تعبیر مہیا کرنے کا نہیں ہے۔ مسئلہ زندگی اور دنیا کو بدلنے کا ہے۔ چناںچہ مارکس نے سوشلزم کو ایک فلسفے کی حیثیت سے پیش کرنے کے بجائے اسے ایک انقلابی فکر کے طور پر پیش کیا۔ کارل مارکس نہ خدا پر ایمان رکھتا تھا نہ مذہب کو مانتا تھا۔ اس کے برعکس اس نے مذہب کو عوام کی افیون کہا ہے اور بلاشبہ عیسائیت اور یہودیت کے مذہب پیشوائوں نے عیسائیت اور یہودیت کو عوام کی افیون بنادیا تھا مگر اسلام پہلے دن سے ایک انقلابی دین ہے۔ وہ ایک جانب فرد کی زندگی میں انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب وہ پورے معاشرے اور ریاست کو مشرف بہ اسلام کرنا چاہتا ہے اور تیسری جانب وہ اپنے انقلاب کو عالمگیر بنانے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ مگر خورشید ندیم نے اسلام کے انقلاب کو صرف خلافت راشدہ تک محدود کردیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ خلافت راشدہ ایک الٰہی فیصلہ یا الٰہی منصوبہ تھا اسے اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل تھی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ خورشید ندیم کے نزدیک اسلام ایک وقتی انقلاب تھا جو رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین کے عہد میں آکر رہ گیا مگر اب دنیا میں اسلامی انقلاب کا کوئی امکان نہیں کیوں کہ اب کسی مسلم گروہ کو الٰہی تائید حاصل نہیں ہے۔ خورشید ندیم یہ بات کہتے ہوئے بھول گئے کہ اسلام ایک ’’وقتی انقلاب‘‘ نہیں ہے وہ ایک ’’دائمی انقلاب‘‘ ہے۔ وہ عہد رسالتؐ کے لیے بھی تھا اور خلافت کے لیے بھی اور بعد کے زمانوں کے لیے بھی۔ اقبال نے کہا ہے۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
اقبال کہہ رہے ہیں کہ اصل مسئلہ ایمان ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ کے ایمان نے نمرود کی آگ کو گلزار بنادیا تھا لیکن یہ معجزہ صرف سیدنا ابراہیمؑ کی ذات اور زمانے کے لیے خاص نہیں تھا آج بھی اگر کوئی سیدنا ابراہیمؑ کے ایمان جیسا ایمان پیدا کرے تو اس کے لیے بھی آگ گلزار بن سکتی ہے۔ یہاں اقبال کا ایک اور شعر یاد آیا۔ اقبال نے کہا ہے۔
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اس شعر سے معلوم ہوا کہ اصل بات تو رسول اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ کی کامل پیروی ہے۔ مسلمان آج بھی اسوئہ حسینہ کی کامل پیروی کرنے لگیں تو خدا مسلمانوں کا ساتھ دے گا۔ وہ نہ صرف یہ کہ انہیں پوری دنیا کی حکومت عطا فرما دے گا بلکہ انہیں لوح و قلم کا مالک بھی بنادے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اسلام کے معجزے کو عہد خلافت تک محدود کرتا ہے وہ جھوٹا، مکار اور جاہل ِ مطلق ہے۔ اس کو اسلام کے ’’دائمی انقلاب‘‘ ہونے کی حقیقت معلوم نہیں۔ چناں چہ اِسے اسلام اور مسلمانوں کے حال اور مستقبل پر کلام کرنے کا بھی حق نہیں۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں۔ بیسویں صدی کے اوائل میں مغرب کے دانش ور کہا کرتے تھے کہ اسلام اب ماضی کا قصہ ہے۔ وہ انسانیت کو جو کچھ دے سکتا تھا دے چکا، اب اس کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اب اسلام صرف عقاید، عبادات اور اخلاقیات تک محدود ہوگا۔ اس کا ریاست و سیاست، معاشیات اور انسانی تقدیر کے معاملات سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ مگر مغرب کے دانش ور جب یہ بات کہہ رہے تھے تو اسی زمانے میں اقبال کی انقلابی شاعری تخلیق کے مختلف مراحل طے کررہی تھی۔ اقبال مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اقبال کی نظم 1907ء اس سلسلے میں معرکہ آرا ہے۔ اس کے چند شعر یہ ہیں۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
سفینۂ برگِ گل بنالے گا قافلہ مورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہوگا
اقبال کی یہ آواز انقلاب کی آواز تھی۔ یہ ایک نئے عالمی منظرنامے کی تخلیق کی اطلاع دینے والی آواز تھی۔ اس آواز کے ساتھ ساتھ برصغیر کے علمی منظرنامے میں مولانا مودودیؒ کی شخصیت طلوع ہورہی تھی۔ مولانا پورے اعتماد سے کہہ رہے تھے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب سوشلزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی اور لبرل ازم لندن اور پیرس میں بے یارومددگار ہوگا۔ مولانا ایک عزم سے کہہ رہے تھے کہ مسلمانو! قرآن کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو۔ مولانا مودودیؒ کی شخصیت نے اپنی جدوجہد کے دائرے میں فکرو عمل کو ایک کردیا تھا۔ دوسری طرف عالم عرب میں حسن النبا اخوان المسلمون کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ اسلام کی انقلابیت کا ایک پہلو یہ تھا کہ برصغیر کے دائرے میں اسلام دو قومی نظریے کا بانی بن کر ابھرا اور اس کی بنیاد پر پاکستان کے نام سے دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست وجود میں آئی۔ 1979ء میں ایران میں انقلاب برپا ہوگیا۔ اس انقلاب کو خواہ کچھ بھی کہا جائے اس کی بنیاد اسلام تھا۔ اسلام کی قوت نے سیدنا عمرؓ کے ’’عہد ِ خلافت‘‘ میں وقت کی دوسپر پاورز کو منہ کے بل گرا دیا تھا اور عام خیال یہ تھا کہ مسلمان اور اسلام اب کبھی یہ کارنامہ دوبارہ رونما نہیں کرسکیں گے۔ بلکہ 20 ویں صدی میں تو یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ جہاد کا ادارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معدوم ہوگیا مگر سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تو جہاد کا پورا ادارہ اس طرح بحال ہوا جیسے وہ کہیں گیا ہی نہیں تھا۔ اس دور میں نہ صرف یہ کہ جہاد کا ادارہ اور اس کی روح بحال ہوئی بلکہ جہادی عمل نے وقت کی سپرپاور سوویت یونین کو افغانستان میں منہ کے بل گرادیا۔ لیکن اسلام اور مسلمانوں کی اس بے مثال کامیابی کو امریکا اور یورپ کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ چناں چہ جب امریکا اور اس کے 48 اتحادی افغانستان میں داخل ہوئے تو عام خیال یہ تھا کہ اب قیامت تک افغانستان میں وہی ہوگا جو امریکا چاہے گا مگر اسلام اور اس کے جہاد کی طاقت نے امریکا اور اس کے 48 اتحادیوں کو افغانستان میں بدترین شکست سے دوچار کیا۔ اس طرح مسلمانوں نے اپنے ’’عہد ِ زوال‘‘ میں سیدنا عمرؓ کے بہترین زمانے کی تاریخ کو دہرا دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کیا مسلمانوں نے بھی مایوس ہونے کا کوئی جواز نہیں۔ مسلمان اسلام کی طاقت سے میدان جنگ میں دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرا سکتے ہیں تو مسلمان اسلام کو اختیار کرکے ریاست و سیاست، معیشت و ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی عظیم الشان کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔
خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ تاریخ آگے بڑھ رہی ہے اور اس کی گردش کو معکوس نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی اسلام اور مسلمانوں کے غلبے کا عہد واپس نہیں آسکتا۔ لیکن خورشید ندیم کا تصور تاریخ غلط ہے۔ وہ تاریخ کو خط ِ مستقیم کی صورت میں آگے بڑھنے والی چیز سمجھتے ہیں جیسا کہ مغرب نے انہیں سکھایا ہے مگر اسلام کا تصورِ تاریخ ’’دائروی‘‘ یا Cyclic ہے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید نے صاف کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے نور کا اتمام کرکے رہیں گے خواہ یہ بات کافروں اور مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ معلوم ہو۔ قرآن مجید کی یہ آیت مستقبل میں اسلام کے عالمی غلبے کا اعلان ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث شریف بھی ہمیں یاد رکھنی چاہیے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے میرا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد خلافت ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا دور رہے گا جب تک اللہ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کو پسند ہوگا، لیکن اس کے بعد خلافت علی منہاج النبوہ کا زمانہ آئے گا۔ اس حدیث شریف سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا انقلاب وقتی اور زمانی نہیں بلکہ وہ دائمی اور لازمانی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا اسلام کے عالمگیر غلبے کے لیے کسی مذہبی طبقے، گروہ، قوم یا ملت کا محتاج نہیں۔ پیدائشی مسلمان اپنا فرض ادا نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ کافروں اور مشرکوں میں سے وہ لوگ پیدا کرے گا جو اسلام کے عالمگیر غلبے کو ممکن بنائیں گے۔