اکبر الٰہ آبادی نے دو سو سال پہلے کہا تھا۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
اکبر خوش قسمت تھے کہ ان کے رقیب صرف فرد کی خدا پرستی پر رپٹ لکھواتے تھے۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے یہ صورت حال ہوچکی ہے کہ جماعتیں، قومیں اور ریاستیں تک اسلام کا نام لینے کی وجہ سے رپٹ کی زد میں آجاتی ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اپنی اسلام پرستی کی وجہ سے عالم عرب میں اخوان المسلمون کو دہشت گرد جماعت قرار دیا جاچکا ہے۔ بنگلادیش میں جماعت اسلامی اپنی اسلام پرستی کی وجہ سے کالعدم قرار دے دی گئی ہے۔ طالبان اپنے اسلام کی وجہ سے پوری دنیا کی پابندیوں کا سامنا کررہے ہیں، پاکستان میں صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل افراد پاکستان کے نظریے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے قائداعظم سیکولر تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے۔ کوئی کہتا ہے قائداعظم لبرل تھے اور انہوں نے ایک لبرل ریاست کا خواب دیکھا تھا۔ جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم اس سلسلے میں ایک نئی تھیوری لے آئے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے نظریہ افراد کا ہوتا ہے ریاستوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے جنرل عاصم منیر کو مشورے دیتے ہوئے اپنے کالم میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
’’کچھ لوگ حسب روایت جنرل صاحب کے پاس جا کر اُن کو مفروضہ نظریاتی سرحدوں کا محافظ بھی ثابت کریں گے اور ان کو باور کرائیں گے کہ ان سرحدوں کی حفاظت ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ انہیں ایسے لوگوں سے خبردار رہنا ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ کسی ملک کی کوئی نظریاتی سرحد نہیں ہوتی۔ نظریہ افراد کا ہوتا ہے ملکوں کا نہیں۔ یہ انفرادی ہوسکتا ہے اور اجتماعی بھی۔ اس کی حفاظت افراد کی ذمے داری ہے اور وہ صدیوں سے یہ کام کرتے آئے ہیں۔ اس کے لیے سماجی ادارے بنائے جاتے ہیں۔ خاندان، مکتب، مدرسہ، عبادت گاہیں، سب یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور یہ انہی کے کرنے کا کام ہے۔ ہمارے ہاں حکومت بھی یہ کام کرتی ہے اگرچہ یہ اس کے فرائض میں شامل نہیں۔ فوج تو ریاست کا ادارہ ہے، اس کو ایسے معاملات میں الجھانے والے اس کے خیر خواہ نہیں‘‘۔ (روزنامہ دنیا۔ یکم دسمبر 2022ء)
قرآن کہتا ہے کہ یہ پوری کائنات ایک مسلم کائنات ہے۔ سورج، چاند، ستارے اپنے رب کو جانتے ہیں اور اسے سجدہ کرتے ہیں۔ قرآن کے مطابق بعض پتھر ایسے ہیں جو خوف خدا سے گر جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظریہ تو پتھروں کا بھی ہوتا ہے مگر خورشید ندیم کا دعویٰ یہ ہے کہ ریاستوں یا ملکوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔
تو کیا ریاست پتھروں سے بھی گئی گزری کوئی شے ہے؟ مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ مسئلہ دنیا کا ہو یا آخرت کا۔ وہ یا تو قرآن کی طرف دیکھتے ہیں یا احادیث مبارکہ اور رسول اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ کی طرف۔ قرآن و احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کی ریاست کو بھی مسلمان ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں رسول اکرمؐ کا اسوئہ حسنہ پوری امت کے لیے حجت ہے۔ رسول اکرمؐ نے ریاست مدینہ قائم کی تو اس کے ہر جزو کو اسلام کے تابع کیا۔ رسول اکرمؐ نے جنگ کی تو اسلام کے مطابق، امن قائم کیا تو اسلام کے تحت، رسول اکرمؐ نے عدل کا نظام وضع کیا تو اسے آسمانی ہدایات کے مطابق چلایا۔ معیشت قائم کی تو خدا کے حکم کے مطابق اسے سود سے پاک کیا۔ رسول اکرمؐ نے شادی کا ادارہ قائم کیا تو ربانی ہدایت کے مطابق، طلاق اور خلع کی صورت گری کی تو اسلام کے احکامات کو اصول بنایا۔ غرضیکہ ریاست اور معاشرے کے تمام معاملات کو اسلام کے تابع رکھا۔ چناں چہ مسلمانوں کی ماڈل ریاست وہی ہے جو ریاست مدینہ کی پیروی کرے۔ زیربحث موضوع کے اعتبار سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی کوئی بھی ریاست اپنی روح اور اپنی اصل میں اسلامی نظریے سے ہم آہنگ ہوتی ہے اور وہ ہر اعتبار سے ایک نظریاتی ریاست کہلانے کی مستحق ہوتی ہے۔
دیکھا جائے تو اس کائنات اور اس دنیا میں معنی کی خالق دو ہی ہستیاں ہیں۔ ایک خدا اور دوسرا انسان۔ ریاست کے سلسلے میں خدا اور اس کے رسول کا منشا یہ ہے کہ ریاست کو اسلام سے پوری طرح ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی انسان مابعد الطبیعیات اور غیر مابعدالطبیعیات میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کرتا بلکہ اس کا انتخاب یا تو اچھی مابعدالطبیعیات ہوتی ہے یا بری مابعداطبیعیات۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ دنیا کا ہر انسان نظریاتی ہوتا ہے، خواہ وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اتفاق سے پوری دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دنیا کی ہر ریاست کسی نہ کسی اعتبار سے نظریاتی ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے ابتدائی زمانے میں موجود روم اور ایران کے لوگ قوم پرست تھے اس لیے روم اور ایران کی ریاستوں کا نظریہ قوم پرستی تھا۔ روس میں سوشلزم کی بنیاد پر انقلاب آیا تو روس کی ریاست سوشلسٹ ہوگئی۔ چین میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو چینی ریاست کمیونسٹ ہوگئی۔ یورپ جب تک عیسائی تھا اس کی ریاست عیسائی تھی۔ یورپ سیکولر ہوا تو اس کی ریاستیں بھی سیکولر ہوگئیں۔ اسرائیل کی تخلیق یہودیت کے تصور پر ہوئی چناں چہ یہودیت اور بڑی حد تک صہیونیت اسرائیل کا نظریہ ہے۔ بھارت آئینی طور پر سیکولر ملک ہے مگر عملاً ہندوتوا اس کا نظریہ بن چکا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ قوموں کی بدلتی ہوئی مابعدالطبیعیات یا ان کا بدلتا ہوا نظریاتی تشخص ریاستوں کے نظریے کا تعین کرتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ کہنا ایک بے معنی اور لغو بات ہے کہ ریاستوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔
جہاں تک پاکستان اور نظریے کے باہمی تعلق کا معاملہ ہے تو اس سلسلے کی بنیادی بات یہ ہے کہ اس دائرے میں ریاست نے نظریہ خلق نہیں کیا بلکہ نظریے نے ریاست کو وجود بخشا ہے۔ یعنی پاکستان کا نظریہ نہ ہوتا تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔ چناں چہ پاکستان میں تو یہ بات کہی ہی نہیں جاسکتی کہ ریاست یا ملک کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ بعض لوگ دو قومی نظریے کو بیسویں صدی سے منسلک کرتے ہیں مگر دوقومی نظریہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا قدیم خود اسلام ہے۔ رسول اکرمؐ نے اعلان نبوت فرمایا تو نہ رسول اکرمؐ پر ایمان لانے والوں اور آپ کا انکار کرنے والوں کی نسل بدلی، نہ زبان تبدیل ہوئی، نہ جغرافیہ بدلا، مگر چوں کہ رسول اللہؐ پر ایمان لانے والوں کا نظریہ بدل گیا اس لیے ان کا سب کچھ بدل گیا۔ رسول اللہؐ پر ایمان لانے والے اہل ایمان کہلائے اور رسول اکرمؐ کا انکار کرنے والے کافر اور مشرک کہلائے۔ یہ معاملہ برصغیر میں مجدد الف ثانی اور جہانگیر کی کشمکش کے وقت بھی موجود تھا۔ جہانگیر کے زمانے تک آتے آتے بادشاہت ہندوازم کے زیر اثر ایک قومی نظریے کی عکاس بن گئی تھی۔ دربار میں اسلام کا مذاق اُڑایا جارہا تھا۔ نمازوں اور روزوں کو ترک کیا جارہا تھا، ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے گائے کے ذبیحے پر پابندی لگائی جارہی تھی۔ بادشاہ کو خدا کا سایہ قرار دے کر اس کے آگے سجدہ کیا جارہا تھا۔ چناں چہ مجدد الف ثانیؒ نے اسلام اور مسلمانوں کے جداگانہ مذہبی، مابعد الطبیعیاتی، تہذہبی اور تاریخی تشخص پر اصرار کرتے ہوئے جہانگیر کو چیلنج کیا۔ اورنگ زیب اور داراشکوہ کی کشمکش کو بھی لوگ اقتدار کی جنگ تصور کرتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب اور داراشکوہ کی کشمکش بھی ایک قومی نظریے اور دوقومی نظریے کی کشمکش تھی۔ اورنگ زیب اس کشمکش میں اسلام کی علامت تھا اور داراشکوہ ہندوازم کا استعارہ تھا۔ اس لیے کہ دارا ہندو ازم سے مرعوب تھا۔ وہ گیتا کو قرآن سے برتر کتاب قرار دیتا تھا۔ اس تناطر میں دیکھا جائے تو پاکستان پیدائشی طور پر نظریاتی ریاست ہے۔ اس ریاست نے اپنی تخلیق کے بعد نظریہ نہیں گھڑا بلکہ نظریے نے اس ریاست کو وجود بخشا۔ چناں چہ پاکستان میں بیٹھ کر جو شخص یہ کہتا ہے کہ نظریہ افراد کا ہوتا ہے ریاست کا نہیں اس سے بڑا دورغ گو اور کوئی نہیں۔
خورشید ندیم صاحب نے یہ بھی لکھا کہ کسی ملک کی کوئی نظریاتی سرحد بھی نہیں ہوتی۔ یہ بات بھی کئی اعتبار سے محل نظر ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کسی ریاست کا نظریہ ہوگا تو اس کی نظریاتی سرحد بھی ہوگی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب روس اور چین میں سوشلسٹ انقلاب آیا تو مساجد پر تالے ڈال دیے گئے تھے، قرآن کی تعلیم موقوف کردی گئی تھی، مردوں کے ڈاڑھی رکھنے اور عورتوں کے پردہ کرنے پر پابندی لگادی گئی تھی۔ اس لیے کہ سوشلسٹ ریاست کی ’’نظریاتی سرحدوں‘‘ کے دفاع کا یہی تقاضا تھا۔ آج ہم فرانس اور یورپ کے کئی اور ملکوں میں دیکھ رہے ہیں کہ سیکولر ریاست کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرتے ہوئے مسلم خواتین کو برقع اوڑھنے اور اسکارف لینے سے روکا جارہا ہے۔
مساجد کی تعمیر پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ مساجد کے میناروں کو میزائلوں سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ مسلمان بچوں کی مذہبی تعلیم کو ناممکن بنایا جارہا ہے۔ اسکولوں میں مسلمان بچوں کو حلال گوشت فراہم نہیں کیا جارہا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یورپ کی سیکولر ریاستیں اپنی ریاستوں کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرسکتی ہیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کیوں نہیں ہوسکتا؟ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلامی ریاست میں کسی بھی شخص، گروہ یا جماعت کو سیکولر اور لبرل ایجنڈا آگے بڑھانے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ چوں کہ فوج اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک ادارہ ہے اسی لیے فوج پر بھی لازم ہے کہ وہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لیے جو ممکن ہو کرے۔ بدقسمتی سے فوج کے دائرے سے ایسے فوجی آمر سامنے آتے رہے ہیں جنہوں نے ملک کے نظریاتی تشخص کو شدید نقصان پہنچایا۔ جنرل ایوب ایک سیکولر جرنیل تھے اور انہوں نے ملک و قوم کو سیکولر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جنرل پرویز مشرف لبرل تھے اور انہوں نے پاکستان پر لبرل ازم مسلط کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مارے۔ صرف ایک جنرل ضیا الحق ایسے جرنیل تھے جو اسلام کی بات کرتے تھے لیکن انہوں نے اسلام کو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ بہرحال ملک کے نظریاتی تشخص کو دیکھا جائے تو پاک فوج کے اعلیٰ اہلکار کیا پاک فوج کا عام فوجی بھی ملک کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کا مکلف ہے۔ ایسا نہ کرنا ملک کے نظریے سے غداری کے مترادف ہے۔