جرنیل کسی کے دوست اور محسن نہیں ہوتے

پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی جنرل باجوہ کی حمایت میں چیخ کر بولے ہیں۔ انہوں نے جنرل باجوہ سے متعلق عمران خان کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل باجوہ ہمارے محسن ہیں۔ آپ کے محسن ہیں۔ پی ٹی آئی کے محسن ہیں۔ آپ احسان فراموش نہ بنیں۔ ان کے خلاف بات نہ کریں۔ جنرل باجوہ کے خلاف باتیں برداشت نہیں کریں گے۔ پی ٹی آئی والے خود کو کیا سمجھتے ہیں؟ کیا یہ کوئی اوتار ہیں۔ انہوں نے ہر چیز کو مذاق بنالیا۔ یہ لوگ اپنی اوقات میں رہیں تو بہتر ہے۔ جنرل باجوہ ان لوگوں کو کہاں سے اُٹھا کر کہاں لے گئے۔ اب ان کے خلاف بات کی تو سب سے پہلے میں بولوں گا۔ پرویز الٰہی کا یہ بیان پڑھ کر ہمیں شیفتہ کا مشہور زمانہ شعر یاد آگیا۔
ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
امریکا کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے امریکا کے بارے میں ایک بنیادی بات کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ امریکا کی دشمنی خطرناک اور دوستی جان لیوا ہے۔ پاکستانی جرنیل پاکستان کے مقامی امریکا ہیں۔ ان کی بھی دشمنی خطرناک اور دوستی جان لیوا ہے۔ جرنیلوں کی دوستی اس لیے جان لیوا ہے کہ جرنیل کسی کے دوست اور کسی کے محسن نہیں ہوتے۔ انہیں سیاست اور صحافت میں دوستوں کی نہیں ایجنٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ چناں چہ جو شخص جرنیلوں کا دوست بنتا ہے عزت سادات سے محروم ہوجاتا ہے اور میرتقی میر کا یہ شعر گنگناتا ہوا پایا جاتا ہے۔
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
جرنیلوں کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ جرنیلوں نے کسی اور کا کیا قائداعظم، مادرِ ملت فاطمہ جناح کیا پاکستان کے نظریے کا بھی خیال نہیں کیا۔ قائداعظم کی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد فوجیوں نے قائداعظم کو ملٹری میس میں رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ قائداعظم دعوت پر پہنچے تو قائداعظم کے مرتبے کا لحاظ کیے بغیر ایک جرنیل نے قائداعظم سے کہا۔ آپ نے ایک انگریز جرنیل جنرل گریسی کو فوج کا سربراہ بنادیا، حالاں کہ مقامی فوجیوں میں کئی قابل لوگ موجود تھے۔ قائداعظم یہ سن کر سخت ناراض ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم کی تقدیر کے فیصلے سول قیادت کرے گی جرنیل نہیں۔ اگر آپ کے یہی خیالات ہیں تو آپ کو پاکستان کی فوج کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا۔ قائداعظم نے یہ کہا اور کھانا کھائے بغیر ملٹری میس سے چلے گئے۔ قائداعظم بانی پاکستان تھے۔ وہ بابائے قوم تھے۔ وہ برصغیر کی ملت اسلامیہ کے محسن تھے۔ چناں چہ ان سے ان کے کسی فیصلے پر سوال جواب ہو ہی نہیں سکتا تھا، مگر ہمارے فوجی ثابت کررہے تھے کہ انہیں کسی اور کی کیا قائداعظم کی بھی پروا نہیں ہے۔ وہ کسی اور کے کیا قائداعظم کے بھی دوست نہیں ہیں۔
فاطمہ جناح قائداعظم کی بہن تھیں۔ انہوں نے ساری زندگی قائداعظم کی خدمت کی۔ انہوں نے قائداعظم کی خدمت کی وجہ سے شادی تک نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ پوری قوم انہیں مادر ملت کہہ کر پکارتی تھی۔ مگر جنرل ایوب کے عہد نامبارک میں اخبارات کے اندر نصف، نصف صفحے کے اشتہارات شائع کرائے گئے۔ ان اشتہارات میں مادر ملت کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ جنرل ایوب نے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا تو محترمہ فاطمہ جناح پوری قوم کی خواہش کے احترام میں جنرل ایوب کے مدمقابل آگئیں۔ جنرل ایوب میں ذرا سی بھی حیا ہوتی تو وہ فاطمہ جناح کے مقابلے سے باز رہتے۔ مگر جنرل ایوب نے نہ صرف یہ کہ مادرِ ملت کا مقابلہ کیا بلکہ دھاندلی کے ذریعے انتخابات میں کامیابی بھی حاصل کرلی۔ البتہ مادرِ ملت نے مشرقی پاکستان اور کراچی میں جنرل ایوب کو شکست سے دوچار کیا۔
جرنیلوں کو اپنی حب الوطنی پر بڑا ناز ہوتا ہے اور وہ تاثر دیتے ہیں کہ ان سے زیادہ محب وطن کوئی نہیں ہوسکتا۔ مگر جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضے کے لیے امریکا کے ساتھ ساز باز کی۔ انہوں نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکا کے ساتھ خفیہ رابطہ استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ خفیہ مراسلت کے ذریعے امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاستدان نااہل ہیں اور وہ ملک تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور فوج انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب کو مارشل لا لگانا تھا تو لگا لیتے۔ اس کے لیے امریکا سے سازباز کی کیا ضرورت تھی۔ جنرل ایوب کی امریکا پرستی اتنی بڑھی کہ انہوں نے بڈھ بیر میں امریکا کو خفیہ فوجی اڈا قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ اس اڈے سے امریکا سوویت یونین کی جاسوسی کرتا تھا۔ سوویت یونین کا صدر خورشچیف اس بات پر اتنا ناراض ہوا کہ اس نے پاکستان کے گرد سرخ دائرہ بنادیا۔ جنرل ایوب امریکا پرستی میں اس حد تک مبتلا ہوئے کہ وہ خود اپنی نظر میں گر گئے۔ انہیں لگنے لگا کہ وہ امریکا کے دوست نہیں اس کے غلام ہیں۔ چناں چہ انہوں نے الطاف گوہر سے فرینڈز ناٹ ماسٹرز کے عنوان سے ایک کتاب لکھوا کر یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی کہ وہ امریکا کے غلام نہیں اس کے دوست ہیں۔ لیکن ظفر اقبال نے کہا ہے۔
کہیں چھپائے سے چھپتی ہے بے حسی دل کی
ہزار کہتا پھرے مست ہے قلندر ہے
جنرل ایوب کے اس کردار سے صاف ظاہر ہے کہ وہ کسی اور کے کیا پاکستان کے بھی دوست نہیں تھے۔ انہیں صرف اپنا، اپنے طبقے کا اور فوج کا مفاد عزیز تھا۔ انہیں پاکستان اور پاکستانی قوم کے مفاد سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔
مشرقی پاکستان کی آبادی پاکستان کی کُل آبادی کا 56 فی صد تھی۔ بنگالی وہ لوگ تھے جنہوں نے 1906ء میں مسلم لیگ بنائی تھی۔ بنگالی وہ لوگ تھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ مگر مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے بنگالیوں کے استحصال کی انتہا کردی۔ بنگالی پاکستان کی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر 1947ء سے 1960ء تک فوج میں ایک بھی بنگالی موجود نہ تھا۔ بنگالی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر 1970ء میں سول سروس میں بنگالیوں کی موجودگی چھے سات فی صد تھی۔ 1970ء میں انتخابات ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن کی جماعت عوامی لیگ اکثریتی پارٹی بن کر اُبھری۔ اصولی اعتبار سے اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیا جانا چاہیے تھا مگر مغربی پاکستان کے جرنیلوں نے ایسا کرنے کے بجائے بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا۔ اس موقع پر جنرل نیازی نے بنگالیوں کی تذلیل کرتے ہوئے کہا کہ ہم بنگالی عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ سقوط ڈھاکا ہوا تو پوری قوم پر نکبت و ادبار مسلط ہوگیا مگر میجر صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ جنرل نیازی اس موقع پر بھارتی جرنیلوں کو فحش لطیفے سنا کر ’’محظوظ‘‘ کررہا تھا۔ سقوط ڈھاکا اور اس سلسلے میں جرنیلوں کے کردار سے ثابت ہوتا ہے کہ جرنیلوں کو نہ پاکستان کی فکر تھی نہ سقوطِ ڈھاکا کا غم تھا۔
سقوط ڈھاکا کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ’’مردِ آہن‘‘ بن کر اُبھرے۔ وہ بھارت سے 90 ہزار فوجیوں کو واپس لائے تھے۔ انہوں نے ملک کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی، انہوں نے ملک کو 1973ء کا آئین دیا تھا۔ ان کے دو مشہور زمانہ فقرے تھے۔ ایک یہ کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے، دوسرا یہ کہ ہم بھارت سے ہزار سال تک جنگ کریں گے۔ اس تناظر میں بھٹو جنرل ضیا کے محسن تھے۔ جنرل ضیا جرنیلوں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر تھے۔ وہ پاک فوج کے سربراہ نہیں بن سکتے تھے مگر بھٹو نے انہیں فوج کا سربراہ بنادیا۔ لیکن جنرل ضیا الحق نے موقع ملتے ہی بھٹو صاحب کا تختہ الٹ دیا۔ جنرل ضیا بھٹو کا تختہ الٹ کر رہ جاتے تو بھی غنیمت ہوتا مگر جنرل ضیا بھٹو کو تختہ دار تک لے گئے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ جرنیل کسی کے دوست نہیں ہوتے۔
محمد خان جونیجو کو جنرل ضیا الحق دیہی سندھ سے اُٹھا کر لائے تھے اور محمد خان جونیجو جنرل ضیا کے بغیر ملک کے وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے۔ مگر جونیجو نے افغانستان کے حوالے سے سوویت یونین کے ساتھ جنیوا معاہدے پر دستخط کردیے۔ جنرل ضیا جونیجو کے اس جرم کو معاف نہ کرسکے اور انہوں نے جونیجو کو برطرف کردیا۔ جنرل ضیا الحق نے جونیجو کو برطرف کرکے ثابت کیا کہ جرنیلوں کو سیاست دانوں میں دوستوں کی نہیں ایجنٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
میاں نواز شریف سیاست میں آنے سے پہلے تک کچھ بھی نہیں تھے۔ انہیں جنرل جیلانی اور جنرل ضیا الحق سیاست میں لائے۔ جرنیلوں نے میاں صاحب کو پنجاب کا وزیرخزانہ، وزیراعلیٰ اور بالآخر ملک کا وزیراعظم بنایا۔ مگر جرنیلوں کی نظر میں میاں نواز شریف کی حیثیت یہ تھی کہ وہ انہیں ایک بیرے سے زیادہ کچھ نہ سمجھتے تھے۔ ملک کے ممتاز صحافی ضیا شاہد نے میاں نواز شریف پر اپنی کتاب میں ایک عجیب واقعے کا ذکر کیا ہے۔
ضیا شاہد کے بقول میاں صاحب ایک تقریب میں شریک تھے۔ جنرل جیلانی بھی وہاں موجود تھے۔ اچانک جنرل جیلانی نے ایک بیرے کے سر سے مخصوص ٹوپی اتار کر نواز شریف کے سر پر رکھ دی اور ہنسنے لگے۔ میاں صاحب چاہ کر بھی اپنے سر سے بیرے کی ٹوپی نہ اتار سکے۔
آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب اسپائی کرونیکلز میں لکھا ہے کہ شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ دونوں پنجابوں کو ایک کرنے کے مسئلے پر مذاکرات کررہے تھے۔ یہ ’’غداری‘‘ تھی مگر جنرل اسد درانی اس غداری کو صرف رپورٹ کرکے رہ گئے۔ انہوں نے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہ کی حیثیت سے اس سلسلے میں شریف خاندان کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جنرل اسد درانی شریف خاندان کے تو دوست تھے مگر پاکستان کے دوست نہیں تھے۔
مشرقی پاکستان میں البدر اور الشمس جرنیلوں ہی نے بنائی تھی مگر سقوط ڈھاکا ہوا تو جرنیل اور عام فوجی بھارت کے آگے ہتھیار ڈال کر خود تو بین الاقوامی قوانین کے تحت ’’جنگی قیدی‘‘ بن کر محفوظ ہوگئے مگر انہوں نے البدر اور الشمس کو دشمن کے ہزاروں فوجیوں اور مکتی باہنی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مشرقی پاکستان میں بہاریوں نے فوج کا ساتھ دیا مگر جرنیلوں نے بہاریوں کو بھی تنہا چھوڑ دیا اور آج بھی بنگلادیش میں کئی لاکھ بہاری حیوانوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ طالبان بھی جرنیلوں نے تخلیق کیے تھے اور جرنیلوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے انہیں تسلیم کرانے کے لیے یہ دلیل دی تھی کہ طالبان افغانی نہیں ’’پاکستان کے بچے‘‘ ہیں۔ مگر نائن الیون کے بعد جرنیلوں نے پاکستان کے بچوں کو امریکا کے آگے ڈال دیا۔ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جرنیل ناقابل اعتبار ہیں، وہ نہ کسی کے دوست ہیں اور نہ کسی کے محسن ہیں۔

Leave a Reply