یورپی اقوام کے تسلط نے اگرچہ ایشیاء اور افریقہ کی اکثر اقوام کو اپنا غلام بنایا، مگر برصغیر میں غلامی کے تجربے نے سیاست اور سماجیات کو جو دانشورانہ بنیادیں فراہم کیں اس کی م…ثال نہیں ملتی۔ 1857ء کی جنگ آزادی اگرچہ منصوبہ بندی کے ساتھ شروع ہوئی نہ منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھی، مگر اس جنگِ آزادی کو مسلمانوں نے جہاد کا رنگ دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو جہاں جہاں جزوی کامیابی حاصل ہوئی وہ اس جہادی تناظر ہی کا حاصل تھی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے خلافتِ عثمانیہ کے تحفظ کے لیے تحریکِ خلافت چلائی۔ اس تحریک کی پشت پر مذہبی‘ تہذیبی‘ تاریخی اور سیاسی تناظر پوری شدت کے ساتھ موجود تھا۔ تحریکِ خلافت نے ثابت کیا کہ برصغیر کے مسلمان غلامی میں بھی امت کے تصور کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ برصغیر کے مسلمانوں نے انگریزوں سے عسکری محاذ پر شکست کھائی ہے‘ تاہم ان کی تہذیبی روح اور تاریخی شعور میں بڑا دم خم ہے۔ اگرچہ تحریک خلافت اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوئی اور اس کی کامیابی کا کوئی امکان بھی نہ تھا، مگر اس تحریک نے مسلمانوں کو منظم‘ متحد اور متحرک کیا اور انہیں بتایا کہ اپنے مقاصد کے لیے نظریہ سازی کیسے کی جاتی ہے اور بڑی تحریک کس طرح برپا ہوتی ہے۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد اگرچہ ہندو انگریزوں کے اتحادی بن گئے، اور کانگریس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے قیام میں انگریزوں کا ہاتھ تھا، مگر گاندھی جی نے اپنی سیاست کو دانشورانہ اور اخلافی بنیادیں فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ گاندھی جی کو معلوم تھا کہ ہندوئوں کی قوتِ عمل کو ایک ہزار سال کی غلامی نے شل کردیا ہے اور وہ انگریزوں سے براہِ راست تصادم کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ تاہم انہوں نے اپنے عدم تشدد کے فلسفے کو ایک اخلاقی اور علمی نظریے میں ڈھال دیا اور ہندو معاشرے کی نفسیات پر اس کا گہرا مثبت اثر مرتب ہوا۔ ہندو سماج کی نفسیاتی اور سماجی کمزوری ’’اخلاقی طاقت‘‘ بن کر سامنے آئی۔ سبھاش چندر بوس انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے حامی تھے، مگر گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفے نے ہندو سماج کو اتنا متاثر کرلیا تھا کہ سبھاش چندربوس گاندھی سے زیادہ ذہین اور متحرک ہونے کے باوجود سیاسی اثر کے حوالے سے کبھی گاندھی جی کے برابر نہ آسکے۔ ہندو آج بھی سبھاش چندربوس کو ’’نیتا جی‘‘ کہتے ہیں مگر گاندھی جی کو انہوں نے ’’باپو‘‘ اور ’’مہاتما‘‘ کا خطاب دیا ہے جس کے سامنے ’’نیتا جی‘‘ کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ گاندھی نے سماجی اور معاشی دائرے میں ’’مقامیت‘‘ پر اصرار کیا۔ انہیں معلوم تھا کہ ہندو سماج میں غریبوں کی اکثریت ہے، چنانچہ انہوں نے ’’غربت‘‘ کو ’’سادگی‘‘ کے تصور کے ذریعے عقلی بنیاد فراہم کی، یعنی اسے Rationalize کرکے دکھادیا۔
سرسید انگریزوں سے بے انتہا مرعوب تھے اور وہ انگریزوں کے انگریزوں سے زیادہ وفادار تھے۔ مرعوبیت اور وفاداری اندھی ہوتی ہیں اور انہیں کسی خارجی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مگر سرسید نے اپنی مرعوبیت اور وفاداری کو عام کرنے اور انہیں جواز سے آراستہ کرنے کے لیے پورا علم کلام پیدا کرکے دکھادیا۔ انہوں نے زندگی کے تمام اہم شعبوں میں فکری کام کیا۔ سرسید نے اپنے غلط مؤقف کی حمایت میں اتنا لکھا ہے کہ اسے پڑھنے کے لیے ایک عمر چاہیے۔ سرسید غلط تھے تب انہوں نے اتنا کام کیا، وہ اگر درست ہوتے تو نہ جانے ان کی دانشورانہ کاوشوں کا کیا عالم ہوتا! حالی‘ سرسید سے متاثر تھے اور وہ سرسید کی طرح مختلف جہتوں میں کام کرنے کی استعداد نہیں رکھتے تھے۔ ان کا میدان شعر و ادب تھا۔ چونکہ وہ مغربی ادب سے متاثر ہوگئے تھے اس لیے انہوں نے صرف اپنی شاعری کے زمین و آسمان بدلنے پر اکتفا نہ کیا، بلکہ انہوں نے ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کے عنوان سے تنقید کی ایک ایسی کتاب لکھی جس کی بنیادیں غلط ہیں، مگر اس کتاب کی فکری سطح کا یہ عالم ہے کہ اس جیسی کوئی کتاب اردو تنقید میں آج بھی موجود نہیں حالانکہ اس کتاب کو شائع ہوئے ایک صدی ہوگئی ہے۔ سرسید اور حالی کی یہ فکری کاوشیں غلامی کو ’’مدلل‘‘ بنانے کے لیے تھیں، چنانچہ انہیں کسی بھی اعتبار سے سراہا نہیں جاسکتا، تاہم ان کی علمی اور دانش ورانہ بنیادوں سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔
اکبر الہ آبادی اپنے تناظر میں سرسید کی ضد تھے، اور ان کی شخصیت غلامی کے تجربے سے اتنی متاثر ہوئی کہ ان کی شاعری کا منہاج‘ اس کا اسلوب اور اس کی فکری سطح بدل کر رہ گئی۔ کہنے کو اکبر کی شاعری طنز و مزاح کا خزانہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکبر نے اپنی شاعری کو ’’تہذیبی لشکر‘‘ بنادیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اکبر نے اپنی شاعری میں توحید اور رسالت سے لے کر زندگی کے چھوٹے چھوٹے مظاہر تک میں اسلامی اور مغربی تصورات کی کشمکش دکھائی ہے اور اسلامی تہذیب کی مغربی تہذیب پر برتری ثابت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکبرکی شاعری ڈیڑھ سو سال سے مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ اکبر کی شاعری کی اہمیت یہ ہے کہ وہ تہذیبوں کے موازنے اور کشمکش کو بیان کرنے والے دنیا کے سب سے اہم شاعر ہیں۔ زیربحث موضوع کے حوالے سے اکبر کی شاعری کی اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے غلامی کے تجربے کو اوڑھنے کے بجائے اسے ایک تخلیقی لہر میں ڈھال دیا اور عسکری میدان میں ہاری ہوئی بازی کو شاعری کے میدان میں جیت کر دکھادیا۔
اقبال ایک ایسے شاعر اور شخصیت ہیں، صدیاں جس کا انتظار کرتی ہیں۔ لیکن اکبر کی طرح اقبال کی عظمت بھی تہذیبی کشمکش سے نمودار ہوئی۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال نے ایک بڑی تہذیبی جنگ لڑنے کے لیے اپنی فکر میں اکبر سے کہیں زیادہ بڑی سطح پر نظریہ سازی یا Theorizationکا عمل برپا کرکے دکھایا۔ اس عمل نے ایک جانب مسلمانوں کے ماضی کو حال سے مربوط کرکے نئے مستقبل کی تشکیل کی بنیاد رکھی، دوسری سطح پر اس عمل کا اثر ہماری سیاست اور ہماری اجتماعی نفسیات پر بھی مرتب ہوا۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کی نظری اور عملی زندگی کو جس طرح مربوط کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے ایک جانب نیا علم کلام پیدا کیا اور دوسری جانب جماعت اسلامی قائم کرکے اسلام کے مثالیوں یا Idealsکو حقیقت بنانے کی کوشش کی۔ مولانا نے طویل سیاسی زندگی بسر کی اور ان کی سیاست کا کوئی گوشہ اسلام کی بالادستی کے تصور کے دائرے سے باہر نہ تھا۔ انہوں نے اپنی طویل عملی جدوجہد کے ذریعے سیاست کو اقدار‘ اخلاق اور کردار سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ۔ ان کی سیاست بلاشبہ مقامی تھی مگر اس کا تناظر آفاقی اور عالمگیر تھا، اور اس تناظر کی جڑیں گہری علمیت میں پیوست تھیں۔
برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کی صورت میں ایک نئے ملک کا مطالبہ کیا تو یہ مطالبہ بھی مجرد یا صرف سیاسی نہ تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے کہا کہ ہم ہندوئوں سے الگ قوم ہیں۔ اور قومیت کی تعریف انہوں نے اپنے مذہب سے برآمد کی اور اسے ایک وسیع تہذیبی‘ تاریخی اور علمی تناظر میں بیان کیا۔ چنانچہ قیام پاکستان کی جدوجہد دیکھتے ہی دیکھتے ایک تہذیبی اور دانش ورانہ جدوجہد بن گئی۔ ایسا نہ ہوتا تو برصغیر کے مسلمان اپنے تمام اختلافات فراموش کرکے نہ ایک قوم بن سکتے تھے اور نہ پاکستان کے قیام کا معجزہ رونما ہوسکتا تھا۔
ان حقائق کی اہمیت یہ ہے کہ غلامی کا تجربہ صرف برصغیر کے لوگوں کا تجربہ نہیں تھا۔ دنیا کی کئی اور اقوام اس تجربے سے دوچار ہوئیں، لیکن ان کی تاریخ میں سیاست اور سماجیات کو ویسی دانش ورانہ بنیادیں فراہم نہ ہوسکیں جیسی برصغیر کے لوگوں کی سیاست اور سماجیات کو ہوئیں۔ مثال کے طور پر الجزائر میں فرانس کے خلاف آزادی کی ایک بڑی جدوجہد ہوئی۔ اس جدوجہد میں الجزائر کے پندرہ لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ مگر یہ جدوجہد صرف ایک سیاسی جدوجہد تھی اور اس کی جڑیں قومیت کے تصور میں پیوست تھیں۔ مزاحمت کے حوالے سے افغانیوں کا کوئی ثانی نہیں۔ انہوں نے برطانوی سامراج کی کامیاب مزاحمت کی، روسی سامراج کو شکست دی اور اب وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ہزیمت کا مزہ چکھا رہے ہیں۔ مگر ڈیڑھ سو سال کی اس جدوجہد میں ان کی سیاست اور مزاحمت نے کبھی کوئی اکبر‘ اقبال اور مولانا مودودی پیدا نہیں کیا۔ اہلِ افغانستان کی ساری توانائی عسکری مزاحمت پر صرف ہوگئی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر برصغیر کے لوگوں میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ وہ سیاست کو بھی صرف سیاست نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے بھی ایک فکری تناظر مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟
برصغیر کے مسلمانوں کے حوالے سے اس سوال کا جواب واضح ہے، اور وہ یہ کہ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کے لیے اسلام پہلے دن سے ایک تہذیبی قوت تھا… ایسی قوت جو انسان کے پورے وجود کو متاثر کرتی ہے اور اس کی پوری اجتماعیت پر غالب آجاتی ہے۔ چنانچہ برصغیر کے مسلمانوں نے برصغیر پر صرف ایک ہزار سال تک حکومت نہیں کی، بلکہ ان کے اجتماعی شعور نے اردو تخلیق کی، شاعری کی عظیم الشان روایت پیدا کی، بے مثال فنِ تعمیر کو جنم دیا، باغِ ارم کے تصور کی بنیاد پر ’’باغات‘‘ کا کلچر خلق کیا، سیکڑوں کھانے ایجاد کیے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیر کے مسلمانوں نے زندگی کے ہر شعبے میں کوئی نہ کوئی کارنامہ انجام دیا، اور یہی بات اس چیز کی علامت ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کو محض عقیدہ‘ نظامِ عبادات اور تصورِ اخلاق نہ رہنے دیا بلکہ اس کو ایک تہذیبی قوت میں ڈھال دیا۔ برصغیر میں سیاست و سماجیات کو دانش ورانہ بنیادیں اسی قوت سے فراہم ہوئیں۔ گاندھی جی کے یہاں سیاست کو دانش ورانہ بنیادیں فراہم کرنے کا عمل اسلامی تہذیب ہی کا ایک اثر تھا۔ اس روایت کا اثر ذوالفقار علی بھٹو تک پر پڑا ہے۔ ان کا نام نہاد ’’اسلامی سوشلزم‘‘ سیاست میں نظریہ سازی کی ایک کوشش تھی، مگر اس کوشش کا کوئی مفہوم نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھٹو کا مسئلہ نہ اسلام تھا، نہ سوشلزم… ان کا مسئلہ صرف اقتدار تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اسلام کیا سوشلزم سے بھی مخلص ہوتے تو وہ سیاست میں زیادہ سنجیدہ نظریہ سازی کی طرف جاسکتے تھے۔ برصغیر کی سیاست میں اِس وقت صرف جماعت اسلامی سیاست میں نظریہ سازی یا Theorizationکی علامت ہے۔ اور صرف اسی کے اندر اسلام کو ایک تہذیبی قوت بنانے کا امکان موجود ہے۔