رسول اکرمؐ نے اپنی ایک حدیث مبارکہ میں مسلم تاریخ کے پانچ زمانوں کا ذکر کیا ہے کہ آپؐ کے فرمان کے مطابق پہلا زمانہ خود رسول اکرمؐ کا ہے۔ دوسرا زمانہ خلافت راشدہ کا ہے۔ تیسرا زمانہ ملوکیت کا ہے۔ چوتھا زمانہ کاٹ کھانے والی آمریت کا ہے۔ اور پانچواں زمانہ خلافت علی منہاج النبوہ کا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں جرنیلوں کی آمریت دراصل کاٹ کھانے والی آمریت ہے۔ ملوکیت بلاشبہ رسول اکرمؐ کے عہد مبارکہ اور خلافت راشدہ سے انحراف تھی مگر اس زمانے میں بھی ریاست کا کام قرآن و سنت کے مطابق ہوتا تھا۔ مگر کاٹ کھانے والی آمریت میں تو ہر چیز صرف طاقت مرکز ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ چناں چہ اقتدار اور ریاست پر جرنیلوں کا قبضہ اسلام کے خلاف ہے۔ قبضہ تاریخی تجربے کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے کہ ہمارا عہد جمہوریت کا عہد ہے اور جمہوریت کے دور میں کاٹ کھانے والی آمریت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ان حقائق کے باوجود پاکستان کی 64 سالہ تاریخ جرنیل گردی کی تاریخ ہے۔ جنرل ایوب نے جب 1958ء میں ملک و قوم پر مارشل لا مسلط کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ نہ اسلام کی بالادستی کے قائل ہیں، نہ انہیں قائداعظم کی جمہوری اور عوامی جدوجہد عزیز ہے۔ نہ اس کا واسطہ اقبال کی روحانی جمہوریت سے ہے۔ ان کے لیے کچھ اہم ہے تو جرنیلوں کی بالادستی۔ جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو انہوں نے سیاسی عدم استحکام کو اس کا سبب قرار دیا تھا مگر جب دس سال کے بعد جنرل ایوب اقتدار سے الگ ہوئے تو ملک میں جنرل ایوب کے اقتدار پر قبضے کے وقت سے زیادہ سیاسی عدم استحکام تھا۔ جنرل ایوب خود کو پاکستان پرست کہتے تھے مگر پاکستان کی بنیاد اسلام تھی اور جنرل ایوب کو پاکستان میں اسلام درکار ہی نہیں تھا۔ جنرل ایوب سیکولر ازم کے عاشق تھے اور انہوں نے ملک کو سیکولر بنانے کے لیے دل و جان سے کوششیں کیں۔ انہوں نے سود کو ’’اسلامائز‘‘ کیا۔ قرآن و سنت سے متصادم عالمی قوانین مرتب کیے۔ جنرل ایوب کے عہد
میں قائداعظم کی بہن اور مادرِ ملت فاطمہ جناح کی کردار کشی کی گئی۔ ان کے خلاف اخبارات میں نصف نصف صفحہ کے اشتہارات شائع کرائے گئے۔ جن میں فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ یہ تو اچھا ہی ہوا کہ قائداعظم جنرل ایوب کے زمانے میں زندہ نہیں تھے ورنہ جنرل ایوب ان پر بھی بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کرسکتے تھے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان کے دو دریا جنرل ایوب کے عہد میں بھارت کے حوالے کیے گئے۔ جنرل ایوب کس آمریت کی حد تک کاٹ کھانے والی تھی اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جنرل ایوب نے کالے قانون کے ذریعے صحافت کا گلا گھونٹ دیا۔ جنرل ایوب کے دس سالہ دور میں تنقید کا ایک لفظ بھی اخبارات میں شائع نہیں ہوا اور اگر کسی نے تنقید کی کوشش کی تو اس کی آواز کو دبا دیا گیا۔ جنرل ایوب کی کاٹ کھانے والی آمریت کا ایک پہلو یہ تھا کہ بنگالی ملک کی مجموعی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر 1958ء سے 1962ء تک کوئی بنگالی فوج میں موجود نہیں تھا۔ جنرل ایوب کو بنگالیوں سے اتنی نفرت تھی کہ انہوں نے 1965ء کی جنگ کے ہیرو ایم ایم عالم کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایم ایم عالم نے 1965ء کی جنگ میں دو منٹ میں بھارت کے چار طیارے گرائے تھے۔ جنرل ایوب کو اس کارنامے کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے ایم ایم عالم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ ایم ایم عالم جنرل ایوب سے ملاقات کے لیے پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ ایم ایم عالم بنگالی ہیں۔ ایم ایم عالم کے بقول یہ سنتے ہی جنرل ایوب کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور ایم ایم عالم کے سلسلے میں ان کی ساری گرمجوشی جاتی رہی۔ یہ بات ایم ایم عالم نے انتقال سے ذرا پہلے اے آر وائی کو ایک انٹرویو میں بتائی تھی۔ جنرل ایوب نے اقتدار عوامی نمائندوں سے چھینا تھا۔ چناں چہ ان کا فرض تھا کہ وہ اقتدار عوامی نمائندوں یا سیاست دانوں کے حوالے کرتے۔ مگر ایسا کرنے کے بجائے انہوں نے اقتدار ایک اور جرنیل یحییٰ خان کے حوالے کردیا۔
جنرل یحییٰ شراب اور شباب کے رسیا تھے۔ ان کی آمریت اتنی کاٹ کھانے والی تھی کہ وہ آدھے ملک ہی کو لے ڈوبی۔ جنرل یحییٰ کے زمانے میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر صدیقی تھے۔ انہوں نے کچھ سال پہلے جیو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ جنرل یحییٰ نے شیخ مجیب الرحمن کو انتخابات میں ہرانے کے لیے ان کے خلاف مولانا بھاشانی کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مولانا بھاشانی کی جماعت مشرقی پاکستان کے دیہی علاقوں میں انتہائی مقبول تھی۔ بریگیڈیئر صدیقی کے بقول جنرل یحییٰ نے مولانا بھاشانی کو مجیب کے خلاف استعمال کرنے کے حوالے سے دو کروڑ روپے دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر بالآخر مولانا بھاشانی شیخ مجیب کے خلاف بروئے کار نہ آسکے۔ بریگیڈیئر صدیقی سے انٹرویو کرنے والے نے پوچھا کہ جب بھاشانی کو دو کروڑ روپے دینے کا فیصلہ کرلیا گیا تو انہیں یہ دو کروڑ روپے کیوں نہیں دیے گئے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بریگیڈیئر صدیقی نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل یحییٰ ملک توڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ یہ بات بھی کاٹ کھانے والی آمریت کا حصہ ہے کہ جنرل یحییٰ نے ملک توڑا مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی، حالاں کہ حمودالرحمن کمیشن نے جنرل یحییٰ کا کورٹ مارشل کرنے کی سفارش کی تھی۔ جنرل یحییٰ کا کورٹ مارشل کیوں نہ ہوسکا، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے ممتاز صحافی آصف جیلانی کو بتایا تھا کہ امریکا نے کہا تھا کہ جنرل یحییٰ کو کچھ نہ کہا جائے کیوں کہ انہوں نے امریکا اور چین کے تعلقات کو معمول پر لانے
میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے جرنیلوں کی کاٹ کھانے والی آمریت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ جنرل نیازی نے 1971ء کے بحران میں اس موقع پر کہا تھا کہ ہم بنگالی عورتوں کو اتنے بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ یہ ہر اعتبار سے ایک شرمناک بات تھی۔ اسلام اپنی قوم کیا دشمن کی عورتوں کو بھی ریپ کرنے کی اجازت نہیں دیتا، مگر ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ نے جنرل نیازی کے مذکورہ بالا بیان کے حوالے سے کوئی تادیبی کارروائی نہ کی۔ جنرل میک آرتھر دوسری جنگ عظیم میں امریکا کے ہیرو بن کر اُبھرے تھے۔ ان کی فتوحات کی فہرست طویل تھی اور عام خیال تھا کہ جنرل میک آرتھر ریٹائرمنٹ کے بعد صدارتی انتخاب لڑیں گے اور وہ امریکا کے صدر ہوں گے۔ مگر دوسری عالمی جنگ کے دوران انہیں سیاسی قیادت کی طرف سے حکم ملا کہ وہ جاپان کے خلاف محاذوں پر پیش قدمی روک دیں۔ جنرل میک آرتھر نے اس حکم پر سرِعام گفتگو کر ڈالی اور کہا کہ اگر انہیں پیش قدمی روکنے کا حکم نہ دیا جاتا تو وہ جلد پورا جاپان فتح کرلیتے۔ اتنے سے بیان پر جنرل میک آرتھر کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ مگر جنرل نیازی بنگالی عورتوں کو ریپ کرنے کے بیان کے باوجود اپنے عہدے پر کام کرتے رہے۔
جنرل ضیا الحق کی کاٹ کھانے والی آمریت نے بھٹو کے عدالتی قتل کی راہ ہموار کی۔ بھٹو کے عدالتی قتل نے بھٹو جیسے فسطائی ذہن رکھنے والے شخص کو قوم کا ہیرو بنادیا۔ اس پھانسی کی وجہ سے بے نظیر بھٹو دوبارہ ملک کی وزیراعظم بنیں اور خود بے نظیر کے قتل نے آصف زرداری کو ملک کا صدر بنادیا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں بھارت نے سیاچن پر قبضہ کیا۔ جنرل ضیا الحق کی کاٹ کھانے والی آمریت نے ملک و قوم کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی تباہ کن سیاست کا تحفہ دیا۔ یہ تحفہ گزشتہ 35 برسوں میں 92 ہزار افراد کو نگل گیا۔
جنرل پرویز مشرف کارگل کے ہیرو تھے مگر پھر قوم نے کارگل کے اس ہیرو کو بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ امریکا کی کوششوں سے جنرل مشرف کو آگرہ میں مذاکرات کی بھیک ملی مگر جنرل پرویز مشرف مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کے اصولی حل سے منحرف ہوگئے۔ اس موقع پر جنرل پرویز اور عظیم کشمیری رہنما سید علی گیلانی کے درمیان دہلی کے پاکستانی سفارت خانے میں ملاقات ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف نے گیلانی صاحب سے کہا کہ جارج بش اور ٹونی بلیئر میرے ساتھ ہیں۔ چناں چہ آپ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے میرا ساتھ دیں۔ علی گیلانی نے کہا کہ آپ کے ساتھ بش اور بلیئر ہیں تو ہمارے ساتھ ہمارا خدا ہے۔ چناں چہ ہم کشمیر کاز کے ساتھ غداری میں ہرگز آپ کا ساتھ نہیں دیں گے۔ راویان روایت کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں گیلانی صاحب کو پاگل قرار دیا۔ جنرل پرویز کی کاٹ کھانے والی آمریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اسرائیل کا صدر روز رات کو سونے سے پہلے جنرل پرویز کی سلامتی کے لیے دعا کرتا تھا۔
جنرل باجوہ کی کاٹ کھانے والی آمریت کی کچھ جھلکیاں حامد میر نے اپنے حالیہ کالم میں دکھائی ہیں۔ حامد میر نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’ایکسٹینشن کے بعد باجوہ صاحب کا نشانہ حریت کانفرنس کے رہنما سید علی شاہ گیلانی تھے۔ پاکستان میں ان کے نمائندے عبداللہ گیلانی کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن قصہ مختصر یہ کہ علی گیلانی صاحب حریت کانفرنس سے علیحدہ ہوگئے۔ فروری 2021ء میں پاکستان اور بھارت نے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا اعلان کردیا۔ 23مارچ 2021ء کو نریندر مودی نے یوم پاکستان پر عمران خان کو خط لکھ دیا تو پاکستان کے دفتر خارجہ کے کان کھڑے ہوگئے۔ امریکا میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ کے ذریعہ یہ خبر نکلی کے دبئی میں فیض حمید اور اجیت ڈوول کے درمیان خفیہ بات چیت بہت آگے جا چکی ہے۔ ایک دن باجوہ صاحب وزیر اعظم کے پاس آئے اور بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 9اپریل 2021ء کو پاکستان آئیں گے۔ مودی پہلے تو بلوچستان کے پہاڑی علاقے لسبیلہ میں دریائے ہنگول کے کنارے ہنگلاج ماتا کے مندر جائیں گے اور وہاں ہندوئوں کے سالانہ میلے میں شرکت کریں گے پھر اسلام آباد آئیں گے اور عمران خان کے ساتھ ملاقات میں پاک بھارت تجارت اور کرکٹ میچوں کی بحالی کا اعلان کریں گے۔ عمران خان کو بتایا گیا کہ ہنگلاج ماتا کے مندر کو بلوچستان میں بی بی نانی کی زیارت بھی کہا جاتا ہے اور کرتار پور راہداری کی طرز پر راجستھان اور بلوچستان کے درمیان ہنگلاج راہداری بھی کھولی جا سکتی ہے۔ خان صاحب نے پوچھا کہ مسئلہ کشمیر کا کیا ہوگا؟ فیض حمید نے انہیں بتایا کہ بیس سال تک مسئلہ کشمیر جوں کا توں رہے گا اور بیس سال کے بعد کوئی حل تلاش کریں گے۔ یہ وہ موقع تھا جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خان صاحب کو خبر دار کیا کہ پاکستان میں ایک پارلیمنٹ بھی ہے، ہم وہاں کیا جواب دیں گے؟ ہم نے الیکشن بھی لڑنے ہیں ہم پر کشمیر فروشی کا الزام لگ جائے گا۔ جولائی 2021ء میں آزاد کشمیر میں عام انتخابات ہونے والے تھے۔ خدشہ تھا کہ اگر اپریل میں مودی نے پاکستان کا دورہ کیا تو جولائی میں تحریک انصاف کا آزاد کشمیر سے صفایا ہو جائے گا۔ اس دوران اقتصادی رابطہ کمیٹی بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کا فیصلہ کر چکی تھی لیکن شاہ محمود قریشی نے ناصرف بھارت کے ساتھ بیک چینل مذاکرات سے لاعلمی ظاہر کر دی بلکہ وفاقی کابینہ نے بھارت کے ساتھ تجارت کی بھی مخالفت کردی۔ باجوہ صاحب شدید غصے میں آچکے تھے۔ انہوں نے خان صاحب سے شکایت کی کہ ہم نے جو بھی کیا آپ سے پوچھ کر کیا۔ خان صاحب نے کہا فکر مت کریں ذرا آہستہ چلیں اور اپوزیشن کو اندر کردیں۔ شاہ محمود قریشی نے باجوہ صاحب کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے انہیں دفتر خارجہ بلایا اور بتایا کہ جب تک بھارت 5اگست 2019ء کے اقدامات واپس نہیں لیتا تو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو پاکستان کی شکست سمجھا جائے گا۔ ستمبر 2021ء میں عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سیشن میں کشمیر پر پاکستان کا پرانا روایتی موقف دہرا کر باجوہ کو مایوس کردیا لیکن باجوہ صاحب بیک چینل کے ذریعہ بھارت کو امید دلاتے رہے کہ فکر نہ کریں اپریل 2022ء میں بریک تھرو ہو جائے گا‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 9جنوری 2023ء)
حامد میر کے اس کالم سے ظاہر ہے کہ حریت کانفرنس سے علی گیلانی کو نکلوانے والے جنرل باجوہ تھے۔ مسئلہ کشمیر کو 20 سال کے لیے سرد خانے میں ڈالنے کا منصوبہ بھی جنرل باجوہ کا تھا اور مودی کو پاکستان میں ننگا ناچ نچانے کا منصوبہ بھی جنرل باجوہ کا ترتیب دیا ہوا تھا۔ ان تمام حقائق کے باوجود بھی جرنیلوں کی کاٹ کھانے والی آمریت حب الوطنی میں ڈوبی ہوئی ہے۔