شریفوں کا شرمناک ماضی‘ شرمناک حال

اسلام میں فضیلتیں صرف دو ہیں۔ تقویٰ اور علم۔ مگر اب متقی انسان کو بے وقوف انسان سمجھا جاتا ہے اور علم کی دکان پر خریداروں کا کال پڑے مدت ہوگئی ہے۔ اب معاشرے میں فضیلتیں صرف دو ہیں۔ طاقت اور دولت۔ جس کے پاس طاقت اور دولت ہو وہ بالشتیہ بھی ہو تو دیوقامت باور کیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں یہ خیال عام ہوتا ہے کہ وہ شریف بھی ہے، نجیب بھی ہے، ذہین بھی ہے، علم والا بھی ہے، مُدبر بھی ہے اور مفکر بھی۔ میاں نواز شریف اپنی اصل میں ایک بالشتیے ہیں بلکہ ان کا پورا خاندان ہی بالشتیوں کا خاندان ہے مگر میاں نواز شریف اور ان کے پورے خاندان سے ایسی ایسی خوبیاں وابستہ کی گئی ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ ہفت روزہ تکبیر 1990ء کی دہائی میں پاکستان کا سب سے بڑا ہفت روزہ تھا۔ تکبیر میاں نواز کا قصیدہ خوان تھا مگر ایک بار تو تکبیر نے حد ہی کردی۔ تکبیر نے سرورق پر میاں نواز شریف کی تصویر ایک شعر کے ساتھ شائع ہوئی۔ شعر یہ تھا۔
ہیں سرنگوں ترے آگے ترے تمام حریف
خدا نواز رہا ہے تجھے نواز شریف
ہم نے اسی زمانے میں اس شعر کا جواب دیتے ہوئے عرض کیا تھا ایک دن وہ آئے گا جب نواز شریف کی حالت اس شعر کی طرح ہوگی۔
ہیں سرخرو ترے آگے ترے تمام حریف
خدا لتاڑ رہا ہے تجھے نواز شریف
اتفاق دیکھیے کہ بعد کے ادوار میں یہی ہوا اور اب بھی یہی ہورہا ہے۔ لیکن یہ صرف نواز شریف کا معاملہ نہیں۔ ذلت مآبی ان کے پورے خاندان کے تعاقب میں ہے۔ لیکن اس سے قبل کے شریفوں کی ذلت مآبی پر گفتگو ہو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شریفوں کی ذلت کے اسباب کیا ہیں؟
چودھری شجاعت حسین نے اپنی خودنوشت سچ تو یہ ہے میں لکھا ہے کہ انہوں نے شریفوں کے ساتھ سیاسی معاہدہ کیا تو شہباز شریف معاہدے کے بعد قرآن شریف اُٹھا لائے اور کہنے لگے کہ یہ قرآن اس بات کا ضامن ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جب شہباز شریف یہ کہہ رہے ہوں گے تو وہاں دوسرے شریف بھی موجود ہوں گے مگر چودھری شجاعت نے لکھا ہے کہ شریفوں نے بعد میں ہمارے ساتھ کیے گئے معاہدے کی کسی شق پر بھی عمل نہ کیا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ شریفوں نے قرآن پر جھوٹ بولا۔ آپ ہی سوچیے جو خاندان قرآن پر جھوٹ بولنے والا ہو اسے حقیقی عزت کیسے میسر آسکتی ہے؟ اتفاق سے شریف خاندان صرف قرآن کا غدار نہیں وہ پاکستان کا بھی غدار ہے۔ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب اسپائی کرونیکلز میں لکھا ہے کہ میاں شہباز شریف بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کو ایک کرنے کے امکان پر خفیہ مذاکرات کررہے تھے۔ یہ پاکستان کے ساتھ صریح غداری تھی اور یہ کام اگر کسی اور نے کیا ہوتا تو اسٹیبلشمنٹ اسے کھا جاتی مگر شریف چونکہ جرنیلوں کے ہم قبیلہ ہیں اس لیے ان کی اس غداری کو نظر انداز کردیا گیا۔ بلاشبہ شریفوں پر جو نکبت وادبار ہے اس میں پاکستان سے غداری کا بھی دخل ہے۔
میاں نواز شریف بالشتیے تھے مگر ان کے صحافتی پرستاروں نے انہیں دیوتا بنا کر کھڑا کیا اور کہا کہ ان کے تمام حریف ان کے آگے سرنگوں کیے کھڑے ہیں۔ مگر یہ بات درست ثابت نہ ہوسکی۔ میاں نواز شریف کے پہلے بڑے حریف جنرل پرویز مشرف تھے۔ میاں نواز شریف نے اپنے اس حریف کو اس کے عہدے سے برطرف کرکے اس کا طیارہ اغوا کرنے کی سازش کی۔ مگر جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی جرنیلوں نے میاں نواز شریف کا کھیل الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل پرویز مشرف نے جس وقت میاں نواز شریف کا تختہ اُلٹا میاں نواز شریف کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ میاں نواز شریف پورے ملک بالخصوص پنجاب میں انتہائی مقبول تھے۔ مگر اس کے باوجود میاں نواز شریف کی برطرفی پر پورے ملک میں کہیں بھی احتجاج نہ ہوا۔ میاں نواز شریف کے گڑھ لاہور تک میں 10 لوگوں نے گھروں سے نکل کر احتجاج نہ کیا۔ میاں صاحب کی برطرفی اور گرفتاری کے ڈیڑھ ہفتے بعد کراچی میں مشاہد اللہ دس بارہ لوگوں کو لے کر ریگل چوک پر آئے مگر پولیس نے ایک منٹ میں انہیں گرفتار کرلیا۔ اس صورت حال نے میاں نواز شریف کو دیو سے بونے میں ڈھال دیا۔ مگر ابھی میاں صاحب کو زوال کی ایک اور منزل طے کرنی تھی۔ منزل جلد ہی آگئی۔ میاں نواز شریف جنرل پرویز سے معاہدہ کرکے ملک سے فرار ہو کر سعودی عرب بھاگ گئے۔ ان کے اس بھگوڑے پن نے انہیں بونے سے بالشتیے میں تبدیل کردیا۔
میاں نواز شریف کو دوسرا بڑا حریف جنرل باجوہ کی صورت میں فراہم ہوا۔ اس زمانے میں پاناما پیپرز کا شور برپا ہوا اور شریفوں کی لوٹ مار قومی سطح پر زیر بحث آگئی۔ قوم کو معلوم ہوا کہ شریفوں نے لندن میں اربوں روپے کی جائداد بنائی ہوئی ہے۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا یہ ہیں وہ ذرائع جن سے ہم نے لندن میں جائداد خریدی مگر میاں صاحب خریدی گئی جائداد کی ’’منی ٹریل‘‘ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ ہمیں یاد ہے کہ اس زمانے میں مریم نواز ایک دن اچانک جیو پر ثناء بچا کے پروگرام میں نمودار ہوئیں اور فرمایا کہ میری لندن میں کیا پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں ہے۔ بعد میں ثابت ہوا کہ ان کی پاکستان میں بھی جائداد ہے اور لندن میں بھی۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ میاں صاحب پر دبائو بڑھا تو میاں صاحب اپنے حریف جنرل باجوہ سے معاہدہ کرکے لندن فرار ہوگئے۔ اس کے لیے یہ ڈراما تخلیق کیا گیا کہ میاں صاحب کے پلیٹ لیٹس کم ہوگئے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ یہ تو میاں صاحب اور دوسرے شریفوں کی ماضی کی شرمناکیاں تھیں، اب حال کی شرمناکیاں ملاحظہ کیجیے۔
شریفوں نے جنرل باجوہ اور امریکا کے ساتھ مل کر عمران خان کی حکومت گرا دی۔ شریفوں کا دعویٰ تھا کہ عمران خان کی حکومت نااہل ہے، اور وہ غلط نہیں کہہ رہے تھے۔ شریفوں کا دعویٰ تھا کہ عمران خان سے معیشت نہیں سنبھل پا رہی اور ان کا خیال درست تھا۔ شریف کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا ہے اور بلاشبہ عمران خان کے زمانے میں مہنگائی کی لہر آئی ہوئی تھی، مگر جو کچھ اس کے بعد ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ عمران خان نے شریفوں کے بیانیے کو پیٹ کر رکھ دیا۔ عمران خان نے کہا میری حکومت کو امریکا اور اسٹیبلشمنٹ نے سازش کرکے ہٹایا ہے۔ عوام نے عمران خان کے اس تجزیے کو صحیح مانا۔ شریفوں کا گڑھ پنجاب بالخصوص وسطی پنجاب تھا مگر عمران خان نے وسطی پنجاب میں بھی نواز شریف کو دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت وسطی پنجاب میں ہونے والے وہ ضمنی انتخابات ہیں جن میں تحریک انصاف نے نواز لیگ کو شکست دی ہے۔ شریفوں کا دعویٰ تھا کہ ہمیں ملک چلانا آتا ہے مگر دس مہینے کا تجربہ بتا رہا ہے کہ شہباز شریف کو ملک چلانے کی الف ب بھی معلوم نہیں۔ عمران خان کے زمانے میں مہنگائی کے جھکڑ چل رہے تھے مگر شہباز شریف کی حکومت نے مہنگائی کو طوفان بنادیا ہے۔ شریفوں کا دعویٰ تھا کہ ہمیں معیشت چلانی آتی ہے مگر شہباز شریف سے نہ مہنگائی کنٹرول ہو رہی ہے نہ ڈالر سنبھل رہا ہے، برآمدات منجمد ہیں، ترسیلات زر 20 فی صد تک کم ہوگئی ہیں۔ شریف خاندان اسحق ڈار کو بڑے طمطراق سے واپس لایا تھا مگر اسحق ڈار بھی مفتاح اسمٰعیل کی طرح کچھ بھی کرنے میں ناکام ہیں۔ اسحق ڈار کہہ رہے تھے کہ وہ ڈالر کے اُبھار کو کنٹرول کرلیں گے مگر ڈالر 228 روپے کا ہوگیا ہے۔ اسحق ڈار کہہ رہے تھے کہ وہ آئی ایم ایف کو سنبھالنے کا گُر جانتے ہیں مگر آئی ایم ایف ان کی ایک بھی سن کر نہیں دے رہا۔ میاں نواز شریف کے بارے میں نواز لیگ چار پانچ مرتبہ کہہ چکی ہے کہ وہ آنے ہی والے ہیں مگر میاں صاحب آ کر ہی نہیں دے رہے۔ شریفوں کا کہنا تھا کہ وہ پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ نہیں لینے دیں گے مگر پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے۔ شریفوں کا دعویٰ تھا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہوگی مگر پنجاب اسمبلی تحلیل ہوچکی ہے۔ اس صورت حال نے شریفوں کے صحافتی کیمپ تک میں بدترین مایوسی پیدا کردی ہے۔ عطا الحق قاسمی شریفوں اور نواز لیگ کے عاشق ہیں مگر انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’مسلم لیگ (ن) کے ایک عاشق جو پارٹی کی خاطر اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر چکے ہیں وہ گزشتہ روز مجھ سے ملنے آئے اور آتے ہی انہوں نے شکایات کا ڈھیر لگا دیا۔ ان شکایات میں سرفہرست مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا معاشی بحران پر قابو نہ پاسکنے کا مسئلہ تھا، اس حوالے سے انہوں نے جو بات کہی اس کا بیان آگے چل کر کرتے ہیں، ان کی ایک بہت جائز شکایت یہ تھی کہ ان کے وزرا اب کسی کا فون تک نہیں سنتے، کسی میسج کا جواب نہیں دیتے، اگر ان کا کوئی چھوٹا موٹا کام ہے تو نہ کرنا تو الگ بات ہے اس کا ذکر ہی گول کردیتے ہیں، اپنے نمایاں بہی خواہوں کی خوشی غمی میں شریک ہونا تو دور کی بات ہے اس حوالے سے رسمی غم کا میسج اور خوشی کے موقع پر مبارک باد تک کا میسج کرتے ان کے ہاتھ دُکھتے ہیں۔
ان باتوں کے علاوہ میرے یہ دوست اس حوالے سے بھی سخت پریشان تھے کہ عمران خان کے دور میں معیشت بہت تیزی سے ڈھلوان کی طرف رواں تھی، مسلم لیگ (ن) حکومت کا دعویٰ تھا کہ ان کے حکومت میں آتے ہی معاشی صورتحال بہت جلد بہتری کی طرف جاتی محسوس ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا، معیشت کا ڈھلوان کی طرف سفر جاری و ساری ہے، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ ٹکے ٹوکری ہوگیا ہے۔ مہنگائی اپنے عروج پر ہے، غریب عوام کے لیے دال روٹی کھانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ وہ بازار میں جاتے ہیں تو ان کے بچے ان کی واپسی کی راہ تک رہے ہوتے ہیں کہ آج وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں گے لیکن ان کے حصے میں وہی اور اتنا ہی ہوتا ہے جو ان کا مقدر بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا سفید پوشوں کی سسکیاں ہر صاحب دل کو سنائی دیتی ہیں سوائے ان کے جن کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں، دوسری طرف شاپنگ مالز میں جائیں تو لگتا ہے کہ ہم کسی اور ہی ملک میں آگئے ہیں، لوگ ہزاروں اور لاکھوں کی خریداری کر رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کے گھروں کے پورچ میں دو دو کروڑ مالیت کی گاڑیاں کھڑی ہیں، میرے دوست بتارہے تھے کہ لوگوں کی زندگیوں میں زمین آسمان کے اس فرق کی وجہ سے ذہنی بیماریوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ غریب مرد اور عورتیں سڑکوں پر کسی قدرے پردے والی جگہ میں بیٹھ کرنشہ کرتے نظر آتے ہیں، ان کے علاوہ ہر سڑک کی کراسنگ پر فقیروں کی ڈاریں کی ڈاریں نظر آتی ہیں ، فقیروں کی اتنی بڑی تعداد اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آتی تھی، انہیں تو اب بھی نظر نہیں آتی ہوگی جو حالات کی سنگینی کو نہیں سمجھ رہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 30دسمبر 2022ء)
حذیفہ رحمن جنگ کے کالم نویس اور شریفوں کے قصیدہ خواہ ہیں۔ مگر انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا۔
’’پورا صوبہ عطا اللہ تارڑ، ملک احمد خان اور بیرسٹر نبیل اعوان کے حوالے کردیا گیا۔ عطا اللہ تارڑ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ میں پنجاب حکومت میں گریڈ 17 کے کنٹریکٹ ملازم تھے۔ پہلے شہباز صاحب اور پھر حمزہ صاحب کے سرکاری اسٹاف افسر کی ذمے داریاں ادا کرتے رہے۔ 2018ء میں پارٹی میں قیادت کا اتنا فقدان ہوا کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی صوبہ پنجاب کی باگ ڈور ایک اسٹاف افسر کے حوالے کردی گئی۔ 2022ء میں حمزہ صاحب کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد انہی لوگوں نے پورے پنجاب کی انتظامیہ کے انٹرویو کیے اور افسران کی ایسی ٹیم لگائی کہ مسلم لیگ (ن) ضمنی الیکشن بدترین انداز میں ہار گئی۔ کہاں شہباز شریف پنجاب کے ڈی سی، ڈی پی او، آر پی او، کمشنر اور چھبیس انتظامی سیکرٹریز کے انٹرویو کرکے لگاتے تھے اور کہاں یہی کام ایک اسٹاف افسر اور ایک ایم پی اے کے سپرد کیا گیا۔ اگر مسلم لیگ (ن) پرویز الٰہی پر تنقید کرتی ہے کہ پورا صوبہ اپنے ذاتی ملازم سے چلوا رہے تھے تو مسلم لیگ (ن) بھی تو صوبہ ایک ذاتی اسٹاف افسر لیول کے بندے سے چلوا رہی تھی۔
تبدیلیاں کریں۔ اگر یہی ناتجربہ کار ٹیم رہی تو آئندہ نتائج اس سے بھی بھیانک ہوں گے اور ’’تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 16 جنوری 2023ء)
روزنامہ جنگ کے کالم نگار محمد بلال غوری بھی شریفوں کے عاشق زار ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں صاف لکھا ہے کہ شہباز شریف نے پاکستان کو دیوالیہ کردیا ہے۔ انہوں نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ہم خیالوں اور خوابوں کا جہان آباد کرتے ہیں، جھوٹ کی آغوش میں منافقت کا تکیہ لے کر فریب کے بستر پر دراز ہیں، قرض کی مے پیتے ہیں اور حالت انکار یعنی State of Denial میں جیتے ہیں۔ ہم ذاتی زندگی اور انفرادی معاملات ہی نہیں اجتماعی زندگی اور امور مملکت میں بھی ایک دوسرے سے تسلسل کے ساتھ یوں دروغ گوئی کرتے ہیں کہ رفتہ رفتہ جھوٹ کے اس سراب پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم نہایت ڈھٹائی سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا۔ ملک کے دانشور یا معاشی ماہرین جو تھوڑا بہت حقیقت پسندی سے کام لیتے ہیں وہ بھی محض یہ کہنے پر اکتفاق کرتے ہیں کہ ملک دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑا ہے حالاں کہ یہ حقیقت کتنی ہی تلخ، ناگوار اور ناپسندیدہ کیوں نہ ہو مگر کڑوا سچ یہی ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 16 جنوری 2023ء)

 

 

Leave a Reply