مادیت

مادیت کا تصور اتنا ہی پرانا ہے جتنا روحانیت کا تصور۔ روحانیت اپنی اصل میں اللہ کی محبت کے غلبے اور قرب الٰہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے جتنی محبت کرتا ہے اور اس کی محبت دنیا کی محبت پر جتنی غالب ہے وہ اتنا ہی روحانیت کا علمبردار ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے جتنا قریب ہے وہ اتنی ہی بڑی روحانی شخصیت ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مادیت کی اصطلاح روحانیت کی ضد ہے اور دنیا میں کفر اور شرک کی تاریخ دراصل مادیت ہی کی تاریخ ہے۔ مثال کے طور پر انسانی تاریخ کے سفر میں جس شخص نے یہ کہا کہ خدا موجود نہیں۔ اس نے خدا کے وجود کا انکار کیا لیکن اس کا یہ انکار مجرد یا Abstract نہیں رہا بلکہ اس نے خدا کا انکار کرنے کے بعد مادی کائنات اور مادی زندگی کے اثبات کو ناگزیر خیال کیا۔ اسی طرح انسان نے جب بھی شرک اختیار کیا اس نے خدا کے اختیار میں انسان کو شریک کیا اور انسان چونکہ مخلوق اور ایک مادی وجود ہے اس لیے شرک کا ہر رویہ ایک قسم کی مادیت کے سوا کچھ نہیں۔ تاہم ہمارے زمانے میں مادیت جس طرح ایک فلسفہ اور نظام بن کر ابھری ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
مغربی دنیا میں انسان صرف خدا اور مذہب کا انکار کرکے نہیں رہ گیا بلکہ اس نے جتنی شدت سے خدا اور مذہب کا انکار کیا اتنی ہی شدت سے اس نے مادے پر اصرار کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے مادے کے ساتھ بعض خدائی صفات وابستہ کردیں۔ مثلاً مذہب میں خدا کا تصور یہ ہے کہ خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ البتہ یہ مادی کائنات ہمیشہ سے موجود نہ تھی بلکہ خدا اسے ایک مرحلے پر عدم سے وجود میں لایا۔ جدید مادہ پرستوں نے اس سلسلے میں یہ موقف اختیار کیا کہ خدا تو نہیں ہے البتہ مادہ ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔ اس لیے کہ مادے کو فنا نہیں۔ مادہ صورتیں بدلتا ہے۔ کہیں یہ برف بن جاتا ہے۔ کہیں پانی اور کہیں توانائی۔ اسی طرح مذہب کا تصور یہ ہے کہ خدا ایک صاحب شعور ہستی ہے۔ جدید مادہ پرستوں نے خدا کے انکار کے بعد مادے سے شعور کی صفت بھی منسلک کردی۔ انہوں نے کہا کہ یہ جو دنیا میں زندگی کی لاکھوں اقسام موجود ہیں یہ مادے کے صاحب شعور ہونے کی دلیل ہیں۔ اس طرح جدید مادہ پرستوں نے خدا کے انکارکے بعد مادے کو خدا بنادیا یہاں تک کہ روحانیت کا تصور ماضی کی یادگار اور ذہنی پسماندگی کی علامت بن کر رہ گیا۔ اس مسئلے سے انسانی نفسیات اور انسانی فطرت کے ایک عمیق پہلو کی نشاندہی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ انسان خدا کے تصور کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ اگر ایک حقیقی خدا کو نہیں مانتا تو یہ اسے کوئی مصنوعی خدا ایجاد کرنا پڑتا ہے۔ بقول شاعر۔
خدا ہو یا کہ طلسمِ خیال کا حاصل
جہاں میں کون ہے جس کا کوئی خدا ہی نہ ہو
مغرب کی مادہ پرستی نے خود مغرب اور پوری دنیا کے لیے کئی بڑے نتائج پیدا کیے۔ مثال کے طور پر مغرب کی نوآباد یاتی ذہنیت اس کی حد سے بڑھی ہوئی مادہ پرستی ہی کا ایک شاخسانہ تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فتوحات کے سلسلے میں مغرب اور مسلمانوں کی تاریخ میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن جہاد اور جنگ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جہاد اوّل وآخر ایک روحانی سرگرمی ہے اور جنگ کی نفسیات مادیت میں ڈوبی ہوئی نفسیات ہے۔ جہاد کرنے والا انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت قائم کرنا چاہتا ہے اور جنگ کرنے والا انسانوں پر انسانوں کی حکومت قائم کرکے غلاموں کا استیصال کرنا چاہتا ہے۔ مغربی اقوام نے نوآبادیاتی دور میں یہی کیا۔ مغرب کی مادہ پرستی کا دوسرا نتیجہ قوم پرستی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی دو عالمی جنگیں ہیں۔ قوم پرستی اپنی نسل، اپنے جغرافیے اور اپنی زبان کو پوجنے کی ایک صورت ہے اور قوم پرست کی نفسیات یا تو خدا اور مذہب کا انکار کردیتی ہے یا انہیں غیر موثر بنا دیتی ہے۔ مادہ پرستی انسانی تاریخ میں مقامی جنگ تخلیق کرتی رہی ہے مگر مغرب کی مادہ پرستی نے یکے بعد دیگرے دو عالمی جنگ ایجاد کیں۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکا نے جاپان کے خلاف ایٹم بم استعمال کیا اور ایٹم بم کا استعمال اس امر کا غماز تھا کہ ایٹم بم استعمال کرنے والے انسان کو ’’زی روح‘‘ کیا ’’زی حیات‘‘ بھی نہیں سمجھتے اور ایٹم بم استعمال کرنے والوں کو روحانیت چھْو کر بھی نہیں گزری۔ مغرب کی مادیت نے ایک بڑا نتیجہ یہ پیدا کیا کہ اس نے مادی پیمانوں کو زندگی کا واحد پیمانہ بنا دیا۔ چنانچہ افراد کیا پوری انسانیت کی درجہ بندی مادی پیمانوں کے مطابق ہوگئی۔ ان پیمانوں کی رو سے ایک دنیا ’’ترقی یافتہ‘‘ دنیا ہے۔ ایک دنیا ’’ترقی پذیر‘‘ دنیا ہے اور ایک دنیا ’’پسماندہ‘‘ دنیا ہے۔ روحانی اعتبار سے دیکھا جائے تو ترقی یافتہ دنیا ’’خط غربت‘‘ سے بھی نیچے کھڑی ہے مگر چونکہ اس کے پاس دولت ہے اور مادی چیزوں کی فراوانی ہے اس لیے وہی عزت کے لائق ہے۔ اس کے برعکس اسلامی دنیا روحانی اعتبار سے ’’امیر ترین‘‘ دنیا ہے لیکن چونکہ اس کے پاس دولت اور مادی ترقی کے مظاہر نہیں ہیں اس لیے اس دنیا کو مغربی ممالک ہی نہیں خود مسلمان بھی پسماندہ سمجھتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو فی کس آمدنی، مجموعی قومی پیداوار اور زرمبادلہ کے ذخائر خدا پر ایمان سے کہیں زیادہ اہم ہوگئے۔ یہ مادیت کی انتہا ہے۔
اسلامی دنیا کا جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں میں کفر اور شرک سے برآمد ہونے والی مادیت کبھی راہ نہیں پاسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’مسلم دنیا کا مسئلہ‘‘ کفر اور شرک نہیں ’’نفاق‘‘ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلم دنیا جو کہتی ہے وہ کرتی نہیں۔ یعنی مسلمان قول کی سطح پر جس چیز کو حق کہتے ہیں عمل کی سطح پر اس حق کی شہادت نہیں دیتے۔ سوال یہ ہے کہ اس تناظر میں مسلمانوں میں مادیت کی موجودگی کا کیا مفہوم ہے؟ اس وقت مسلم دنیا میں مادیت کے حوالے سے تین بڑے رحجانات نظر آتے ہیں۔ ایک یہ کہ قول کے سطح پر مسلمان دین کی بالادستی کے قائل ہیں مگر عمل کی سطح پر دنیا کی بالادستی اپنے جلوے دکھا رہی ہے۔ مسلمانوں میں مادیت کی ایک صورت یہ ہے کہ مسلمان دین اور دنیا کے امتزاج کی بات اس طرح کرتے ہیں جیسے دین اور دنیا دو مساوی حقیقتیںہوں۔ حالانکہ دین غالب ہے۔ دنیا مغلوب ہے۔ دین رہنما ہے اور دنیا اس کی مقلد ہے۔ مسلم دنیا کا تیسرا بڑا رجحان یہ ہے کہ دین کا دائرہ الگ ہے دنیا کا دائرہ الگ ہے اور ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ ان بڑے بڑے رجحانات کے نتائج کو دیکھا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ اپنی تمام تر روحانیت کے باوجود مسلم معاشرے کس طرح مادیت کی گرفت میں آتے چلے جارہے ہیں۔
ہماری تہذیب میں علم کے تین بڑے مقاصد تھے۔ ایک یہ کہ وہ طالب علم کو عارف با اللہ بنائے۔ دوسرا یہ کہ وہ طالب علم کو اچھا مسلمان بننے میں مدد دے اور تیسرا یہ کہ وہ طالب علم کی خفتہ تخلیقی صلاحیتوں کو دریافت کرے اور انہیں درجہ بدرجہ ترقی سے ہمکنار کرے۔ لیکن اب مسلم دنیا میں علم کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ یہ کہ علم کے ذریعے بہتر روزگار یا بہترین تنخواہ حاصل کی جائے۔ علم دین بڑی متاع ہے مگر ہمارے ذہین طالب علم اس کی طرف آتے ہی نہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ علم دین کے ذریعے دنیا نہیں کمائی جاسکتی۔ یہاں تک کہ اس سلسلے میں جدید علوم وفنون میں بھی ایک فرق پایا جاتا ہے۔ ہمارے طالب علموں کی عظیم اکثریت ڈاکٹر، انجینئر، بزنس ایڈمنسٹر یٹر یا کمپیوٹر کا ماہر بننا چاہتی ہے۔ انہیں ادب، فلسفہ، عمرانیات اور لسانیات وغیرہ ایک آنکھ نہیں بھاتے اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ ڈاکٹر، انجینئر بن کر وہ مال کمائیں گے اور ادب اور فلسفے سے انہیں مالی اعتبار سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ رزق کے دائرے میں مسلم معاشرے حلال وحرام کے فرق پر کھڑے ہوئے ہیں۔ لیکن اب رزق کے حلال وحرام کا فرق جان لیوا یا دل دہلانے والا نہیں رہا۔
کروڑوں لوگ ہیں جنہوں نے حرام کو ’’ضروری‘‘ یا ’’مجبوری‘‘ سمجھ کر قبول کرلیا ہے بلکہ اب تو مسلم معاشروں میں رزق حرام کے لیے جواز جوئی کرنے والے بھی آسانی کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ مسلم معاشروں میں یہ مادیت کے مختلف درجے ہیں۔ انسانی تعلق کی اصل محبت ہے۔ لیکن دوسرے معاشروں کی طرح مسلم معاشروں میں مادیت انسانی تعلق کی بنیاد کو تبدیل کر دیتی ہے۔ مسلم معاشروں میں ایسے والدین آسانی کے ساتھ تلاش کیے جاسکتے ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو شرافت، نجابت اور علم کی میراث منتقل کی ہوتی ہے مگر اولاد شکوہ کرتی ہے کہ والدین نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ اولاد کا یہ شکوہ مالی تناظر میں ہوتا ہے۔ مسلم معاشروں میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اپنے بچوں میں ان کی معاشی کامیابی کی بنیاد پر فرق کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں ان کے معاشی اعتبار سے کامیاب بچے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ شادی بیاہ کے سلسلے میں لڑکے کی شرافت، نجابت اور علم کے بعد اس کی مالی حالت دیکھی جاتی تھی مگر اب صورت حال یہ ہے کہ اچھے اچھے دین دار گھرانے صرف لڑکے کا مالی مرتبہ دیکھتے ہیں۔ مسرت اپنی نہاد میں ایک روحانی تصور ہے لیکن مادیت کے فروغ نے مسرت کو بھی صرف مادی چیزوں سے منسلک کردیا ہے۔ لوگ بڑے بینک اکائونٹ پر اس طرح خوش ہوتے ہیں۔ جیسے انہیں معراج عطا کردی گئی ہو۔ کسی پوش علاقے میں بڑا سا گھر لوگوں کو اس طرح مسرور کرتا ہے جیسے انہیں جنت مل گئی ہو۔ نئی کار سے لوگ اس طرح خوش ہوتے ہیں جیسے انہوں نے پوری کلیات میر لکھ ڈالی ہو۔ یہاں تک کہ محبت اور تعلق کو بھی اگر مادی اظہار کی صورت فراہم نہ ہو تو وہ مشتبہ اور بے رنگ محسوس ہوتا ہے۔ خالص مذہبی زندگی کے دائرے میں دیکھا جائے تو بعض لوگوں نے تقوے اور دین داری تک کو سماجی مرتبہ بنا دیا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو اپنے تقوے پہ اس طرح اتراتے ہیں جیسے ان کا تقویٰ تقویٰ نہ ہو کوئی سماجی یا معاشی مرتبہ ہو۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسلام کے دائرے میں مسئلہ دولت کا نہیں دولت سے تعلق کا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک پچاس ارب روپے بھی کچھ نہیں ہوتے اور بعض لوگ پچاس روپے کے لیے کسی کی جان لے لیتے ہیں۔ اس منظر نامے میں پچاس روپے والا مادیت میں مبتلا ہے اور پچاس ارب روپے والا مادیت سے بے نیاز ہے۔

Leave a Reply