انسانی تاریخ میں انسانوں کی عظیم اکثریت ہمیشہ سے ’’غلبہ پرست‘‘ رہی ہے۔ ماحول پر اگر کفر کا غلبہ ہوتا ہے لوگوں کی بڑی تعداد اس کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے۔ ماحول پر اگر شرک چھایا ہوا ہوتا ہے لوگ اس کی پرستش کرنے لگتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سیدنا نوحؑ نو سو سال تک حق کی تبلیغ کرتے رہے مگر لوگوں کی اکثریت کفر کے ساتھ چمٹی رہی۔ سیدنا ابراہیمؑ نے جب نمرود کو چیلنج کیا تو اس کی قوم نمرود کے ساتھ کھڑی رہی۔ سیدنا موسیٰؑ نے فرعون کو چیلنج کیا تو لوگوں کی اکثریت فرعون کے ساتھ وابستہ رہی۔ رسول اکرمؐ کے زمانہ مبارک میں جب تک مکہ فتح نہیں ہوگیا عربوں کی اکثریت کفر اور شرک کا ورد کرتی رہی اور ابوجہل کا ساتھ دیتی رہی۔ سرسید کی انگریز پرستی بدنام زمانہ ہے مگر سرسید کی انگریز پرستی کا سبب بھی یہی تھا کہ انگریز برصغیر میں غالب آگئے تھے اور سرسید کو لگتا تھا کہ جو غالب ہے وہی حق پر ہے اور اگر انگریز حق پر نہ ہوتے تو وہ غالب کیوں ہوتے۔ ہمارا زمانہ مغرب کے غلبے کا زمانہ ہے چناں چہ پوری مسلم دنیا میں کروڑوں افراد مغرب کو پوج رہے ہیں۔ مغرب چوں کہ دنیا پرست، مادہ پرست اور زرپرست ہے اس لیے کروڑوں مسلمان بھی دنیا پرست، مادہ پرست اور زر پرست بنے ہوئے ہیں۔ ملک کے معروف کالم نگار اور اینکر پرسن جاوید چودھری بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جاوید چودھری اگر رسول اکرمؐ کے عہد میں ہوتے تو فتح مکہ تک وہ بھی باطل کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ جاوید چودھری کی دنیا پرستی کا یہ عالم ہے کہ ان کے اکثر کالموں میں دنیا کی محبت بھنگڑا ڈال رہی ہوتی ہے۔ مگر جاوید چودھری نے اپنے ایک حالیہ کالم میں تو حد ہی کردی ہے۔ اس کالم کا خلاصہ اگر ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ اسلام گنوائو مگر ڈالر کمائو۔ اس کالم میں جاوید چودھری نے کیا فرمایا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ہم اگر زائرین کے لیے ویزہ فری کنٹری بن جائیں‘ دنیا بھر سے سکھ‘ ہندو اور بودھ آئیں‘ ائرپورٹ سے دو ہزار ڈالرز دے کر پاکستانی روپے حاصل کریں۔ امیگریشن آفیسر کو رسید دکھائیں اور آن آرائیول ویزہ لے لیں‘ یہ سہولت زمینی سفر کے دوران بھی حاصل ہو تو ہم دو چار بلین ڈالرز آسانی سے کما سکتے ہیں‘ اسی طرح 1947 میں 30 لاکھ خاندان پاکستان سے بھارت گئے تھے‘ ہمارے ملک میں آج بھی ان کی جائدادیں موجود ہیں‘ حکومت ان خاندانوں کو یہ جائدادیں خریدنے کی اجازت دے دے بس دو شرائط ہوں۔ یہ لوگ یہ جائدادیں امریکی ڈالرز میں خریدیں گے اور خریداری کے بعد انہیں فیملی میوزیم میں تبدیل کریں گے یا ریستوران اور ہوٹل بنائیں گے‘ آپ جائدادیں خریدنے والوں کو آمدو رفت کا کارڈ جاری کر دیں تاکہ یہ آتے اور جاتے رہیں‘ ہمیں اس سے بھی کروڑوں ڈالرز مل سکتے ہیں‘ حکومت اسی طرح ہنزہ اور گوادر کو انٹرنیشنل سٹی ڈکلیئر کر دے۔ یہ لبرل سٹی ہوں اور ویزہ فری ہوں اور ان کی ثقافت دبئی‘ استنبول‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا کے سیاحتی جزیرے بالی اور سعودی عرب کے نیوم شہر جیسی ہو تاہم خریدو فروخت کا میڈیم ڈالرز ہونے چاہییں تاکہ ملک کے فارن ایکسچینج ریزروز بہتر ہو سکیں‘ حکومت اسی طرح کسی صحرائی علاقے کو بھی سیاحتی مقام ڈکلیئر کر دے اور انٹرنیشنل کمپنیوں کو وہاں ریزارٹس کی اجازت دے دے‘ اس شہر کے قوانین بھی عالمی ہوں۔ ہمارے پاس 8 ہزار میٹر سے بلند پانچ اور 7 ہزار میٹر سے بلند 36 چوٹیاں ہیں‘ ہم ان علاقوں کو بھی ماؤنٹ ایورسٹ‘ مائونٹ بلیک اور ایلپس کی طرح سیاحتی بنا سکتے ہیں‘ آپ یہ پہاڑی علاقے بھی بین الاقوامی کمپنیوں کو کرائے پر دے دیں اور ان کی کرنسی بھی ڈالر بنا دیں‘ ہمیں رقم آنا شروع ہو جائے گی۔ ہم آخر دنیا سے اتنے دور کیوں ہیں؟ ہم کیوں بھول جاتے ہیں‘ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں سعودی عرب دنیا کا ایک بڑا سیاحتی شہر بنا رہا ہے اور اس شہر میں ’’سب کچھ‘‘ جائز ہو گا‘ ہم ایک ایسی دنیا میں بھی رہ رہے ہیں جس میں دبئی نے پچھلے ہفتے شراب پر ٹیکس بھی واپس لے لیا‘ جس میں ترکی میں شراب‘ شباب‘ کباب اور جواء خانے قانونی ہیں‘ جس میں ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے بڑے اسلامی ملکوں میں کیسینوز‘ بارز‘ ڈسکوز اور مساج پارلرز ہیں۔ جس میں اس ازبکستان میں آج بھی ہر چیز عام ہے جس میں احادیث کی دو بڑی کتابیں لکھی گئی تھیں اور جس میں ویٹی کن سٹی کے سائے میں شراب خانے اور دیوار گریہ سے چند میٹر کے فاصلے پر کلب ہیں جب کہ ہم ہنگلاج‘ راج کٹاس‘ ٹیکسلا اور موہن جودڑو کے زائرین کو ویزہ تک دینے کے لیے تیار نہیں چناں چہ پھر ہمارے پاس ڈالرز کہاں سے آئیں گے؟ میری درخواست ہے آپ اگر اس دنیا میں رہنا چاہتے ہیں تو پھر دنیا کے ساتھ ساتھ چلیں ورنہ کسی دوسرے سیارے پر تشریف لے جائیں‘ یہ زمین پھر آپ کے قابل نہیں ہے‘‘۔ (روزنامہ ایکسپریس 12جنوری 2023ء)
اسلام میں دنیا کی کیا ’’اوقات‘‘ ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ قرآن نے دنیا کو ’’متاعِ قلیل‘‘ قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ دنیا دھوکے کی ٹٹی یا Smoke Screen کے سوا کچھ نہیں۔ اسی سلسلے میں رسول اکرمؐ کے ارشادات بھی ہمارے لیے چشم کشا ہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ دنیا بکری کے مرے ہوئے بچے سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ رسول اکرمؐ کا یہ فرمان بھی ہمارے سامنے ہے کہ اگر دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور مشرکوں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔ رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ میں دنیا کی کوئی اہمیت ہی نہ تھی۔ آپؐ کے گھر میں تین تین دن تک چولہا نہیں جلتا تھا۔ رسول اکرمؐ کھجور کے پتوں کے بستر پر سوتے تھے۔ ایک روز سیدنا عمرؓ آپ سے ملنے پہنچے تو دیکھا کہ رسول اکرمؐ کے جسم اطہر پر کھجور کے پتوں کے نشانات ہیں۔ یہ دیکھ کر سیدنا عمرؓ رونے لگے۔ رسول اکرمؐ نے اس کی وجہ پوچھی تو سیدنا عمرؓ نے کہا قیصر و کسریٰ کے لیے دنیا کی ہر آسائش موجود ہے اور آپؐ کے جسم اطہر پر کھجور کے پتوں کے نشانات ہیں۔ یہ سن کر نبی اکرمؐ نے فرمایا عمرؓ ان کے لیے دنیا ہے اور ہمارے لیے آخرت۔ سیرت سیدنا ابوبکرؓ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک روز آپ کی بیوی نے آپ کے لیے گھر میں کوئی میٹھی چیز بنائی۔ سیدنا ابوبکرؓ نے اپنی شریک حیات سے پوچھا اس کے لیے شکر کہاں سے آئی؟ آپ کی شریک حیات نے بتایا کہ ہمیں ہمارے حصے کی جو شکر ملتی ہے میں اس میں سے کچھ شکر بچاتی رہی اور جب وہ اتنی مقدار میں ہوگئی جس میں میٹھا بنایا جاسکے تو آپ کے لیے میٹھی چیز بنادی۔ سیدنا ابوبکرؓ نے یہ سنا اور اپنے حصے کی شکر کم کرنے کا حکم صادر فرمادیا۔ سیدنا عمرؓ خلیفہ بنے تو آپ نے سیدنا سلمان فارسیؓ سے پوچھا کہ آپ کو میرے طرزِ عمل میں کوئی کمی نظر آئی ہے تو بیان فرمائیے۔ سلمان فارسیؓ نے کہا میں نے سنا ہے آپ کے پاس دو لباس ہیں اور آپ کے گھر دو سالن بنتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ نے کہا آپ نے غلط سنا ہے۔ میرے پاس صرف ایک لباس ہے اور میرے گھر میں صرف ایک سالن بنتا ہے۔ سیدنا عمرؓ کے دور میں مصر فتح ہوا تو اہل مصر نے شہر کی کنجی سیدنا عمرؓ کے حوالے کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چناں چہ مصر کے گورنر نے سیدنا عمرؓ سے مصر آنے کی درخواست کی۔ سیدنا عمرؓ نے اس کام کے لیے طویل سفر کیا۔ آپ شہر کے باہر پہنچے تو گورنر نے آپ کا استقبال کیا اور سیدنا عمر کا گرد آلود لباس دیکھ کر کہا کہ اہل ِ مصر نفاست پسند ہیں۔ اگر آپ لباس تبدیل کرلیں تو اچھا ہو۔ سیدنا عمرؓ نے کہا ہماری عزت اسلام کی وجہ سے ہے لباس کی وجہ سے نہیں۔ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ایک روز سیدہ عائشہؓ نے سیدنا عمرؓ کو طلب کیا اور فرمایا فتح خیبر تک ہم کھجور کھاتے تھے اور پانی پیتے تھے مگر اب آپ کے پاس وسائل کی فراوانی ہے۔ آپ ایک بڑی ریاست کے حکمران ہیں، دوسری ریاستوں کے حکمران اور سفیر آپ سے ملنے آتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر آپ بہتر لباس زیب تن کرنے لگیں۔ سیدنا عمرؓ نے سیدہ عائشہؓ سے فرمایا، میں اپنے دو رفیقوں یعنی رسول اکرمؐ اور سیدنا ابوبکرؓ کے طریقے کو ترک نہیں کرسکتا۔ سیدنا علیؓ کے فقر کا یہ عالم تھا کہ روٹی پانی میں ڈبو کر کھاتے تھے۔ سیدنا عثمان دولت مند تھے مگر انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے اتنی دولت صرف کی کہ آپ غنی کہلائے۔
اقبال مصورِ پاکستان ہیں اور اقبال کی شاعری کا خمیر اسلام سے اُٹھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری میں فقر کی عظمت بیان کرنے کے لیے سیکڑوں شعر کہے ہیں۔ دولت اہم ہوتی تو اقبال پاکستانی معاشرے کو ’’دولت مرکز‘‘ بنانے کا درس دیتے مگر انہوں نے پوری امت مسلمہ بالخصوص برصغیر کی ملت اسلامیہ کو فقر اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں فقر کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر، فقر ہے شاہوں کا شاہ
علم کا مقصود ہے پاکیٔ عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفتِ قلب و نگاہ
علم فقیہ و حکیم، فقر مسیح و کلیم
علم ہے جویائے راہ، فقر ہے دانائے راہ
علم کا موجود اور، فقر کا موجود اور
اشہد ان لا الہ، اشہد ان لا الہ
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پر خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ
٭٭
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
٭٭
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہی
٭٭
جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمزِ غریب
سلطنتِ اہلِ دل فقر ہے شاہی نہیں
٭٭
مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے
یہ آدم گری ہے وہ آئینہ سازی
٭٭
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا
٭٭
تمنا دردِ دل کی ہو تو خدمت کر فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
٭٭
نہ ایراں میں رہے باقی نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر و کسریٰ
٭٭
کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری
مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی
٭٭
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندئہ مومن کا بے زری سے نہیں
٭٭
اگرچہ زر بھی ہے دنیا میں قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر تونگری سے نہیں
٭٭
ہے فکر مجھے مصرعِ ثانی کی زیادہ
اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار
قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے تو مومن
یا خالدِؓ جانباز ہے یا حیدرِ کرارؓ
٭٭
اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقرِ غیور
کھا گئی روحِ فرنگی کو ہوائے سیم و زر
٭٭
لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کِدہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیور
٭٭
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روحِ قرآنی
کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو
کہ تجھ سے نہ ہو سکی فقر کی نگہبانی
٭٭
خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم
عشق ہو جس کا جسور، فقر ہو جس کا غیور
ایک طرف اقبال کی یہ شاعری ہے دوسری طرف جاوید چودھری اپنے کالم میں پاکستانیوں کو یہ پٹی پڑھا رہے ہیں کہ اگر پاکستان میں شراب خانے ہوں تو کوئی بات نہیں۔ اگر پاکستان میں جسم فروشی عام ہوجائے تو گھبرانے کی بات نہیں۔ اگر پاکستان میں مساج پارلروں کا کلچر عام ہوجائے تو فکر نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں فکر ہونی چاہیے تو اس بات کی کہ ہم زیادہ سے زیادہ ڈالر کما سکتے ہیں یا نہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترکی، ملائیشیا اور انڈونیشیا کو ’’ماڈل ملکوں‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ کہنے کو جاوید چودھری بھی ایک ’’مسلمان‘‘ ہیں مگر انہوں نے اپنے مشوروں کے سلسلے میں قرآن و سنت سے ایک مثال بھی پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ انہوں نے اس سلسلے میں اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ سے بھی کوئی مثال پیش نہیں فرمائی۔ ان کی ’’دلیل‘‘ ہے تو موجودہ دنیا۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ پوری دنیا کا جو طرزِ فکر و عمل ہے وہی طرزِ فکر و عمل ہمارا ہونا چاہیے۔ اب موجودہ دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ اس دنیا کی آبادی 7 ارب ہے۔ ان سات ارب انسانوں میں سے ڈھائی ارب انسان خدا اور مذہب ہی کو نہیں مانتے۔ مزید دو ڈھائی ارب انسان ایسے ہیں جنہوں نے شرک ایجاد کیا ہوا ہے۔ اس تناظر میں جاوید چودھری کسی روز پاکستانیوں کو یہ مشورہ بھی دے سکتے ہیں کہ اگر کفر اور شرک سے دولت ہاتھ آسکتی ہے اور دنیا کمائی جاسکتی ہے تو ہمیں کفر اور شرک اختیار کرلینا چاہیے۔ خدا جاوید چودھری پر کبھی برا وقت نہ لائے۔ ورنہ برے وقت میں وہ اپنے بچوں کو مشورہ دے سکتے ہیں کہ جوا کھیلو یا شراب فروخت کرو یا قحبہ گری اختیار کرو بس تم کہیں سے بھی ڈالر یا روپیہ لے کر آئو تا کہ گھر کی معیشت ٹھیک ہوسکے۔