آخری حصہ
مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ یہ اتنا بڑا عرصہ ہے کہ اگر مسلمان ریاست اور سرمائے کی طاقت کو تھوڑا سا بھی استعمال کرتے تو آج پورا ہندوستان مسلمان ہوتا۔ یہ وہ زمانہ نہیں تھا جب دنیا ایک عالمی گائوں تھی اور دنیا کے کسی حصے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا تھا۔ لیکن مسلمانوں نے جبر کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ انہوں نے ہندوئوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کی، ان کی عبادت گاہیں کھلی رہیں، وہ آزادی کے ساتھ اپنے تہوار مناتے رہے، انہوں نے اپنا لباس ترک نہیں کیا، انہوں نے اپنی ثقافت کے مطابق زندگی بسر کی، ان کی تمام زبانیں محفوظ رہیں۔ بعض ہندو مورخین نے اورنگ زیب پر الزام لگایا ہے کہ اس نے مندر توڑے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مندروں میں ریاست کے خلاف سازشیں تیار کی جاتی تھیں مگر اب مغربی مورخین اعلان کررہے ہیں کہ اورنگ زیب نے اپنی جیب خاص سے مندر بنوائے۔ اس کے دربار میں کثیر تعداد میں ہندو موجود تھے اور ہندوئوں کی مذہبی زبان سنسکرت بھی درباری زبانوں کا حصہ تھی۔ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور میں ایک مثال بھی ایسی نہیں جس میں ہندوکش فسادات ہوئے ہوں۔ لیکن جیسے ہی اقتدار ہندوئوں کے ہاتھ میں آیا انہوں نے مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کردی۔ ہندوئوں نے 20 ویں صدی کے آغاز ہی میں شدھی کی تحریک شروع کردی جس کے تحت مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنایا جانے لگا۔ یہ مہم آج بھی بھارت میں جاری ہے۔ البتہ اس مہم کا نام اب گھر واپسی ہے۔ ہندوئوں کے رہنما گاندھی نے فارسی اور اردو کو پس منظر میں دھکیلا، اس
لیے کہ یہ دونوں مسلمانوں کی زبانیں سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی جگہ گاندھی نے ہندی کو فروغ دیا۔ پاکستان بنا تو ہندوئوں نے مسلم کش فسادات کراکے دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا۔ مسلمانوں کے خلاف مہم میں 80 ہزار سے زیادہ مسلم خواتین کو اغوا کیا گیا۔ یہاں تک کہ مسلم کش فسادات بھارت کی ایک مستقل روش بن گئے۔ چناں چہ گزشتہ 74 سال میں بھارت میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوئے۔ مسلمانوں نے اپنے ایک ہزار سالہ دور اقتدار میں ہندوئوں کو انسان سمجھا۔ مگر بھارت کے موجودہ وزیراعظم مسلمانوں کو کتے کا پلہ سمجھتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کی موت پر دکھ نہیں ہوتا تو انہوں نے فرمایا کتے کا پلا اگر آپ کی گاڑی کے نیچے آجائے گا تو آپ کو دکھ تو ہوگا۔
مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ میں یہودیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا مگر یہودیوں نے ارض فلسطین پر قبضہ کرکے وہاں اسرائیل کے نام سے ناجائز ریاست قائم کر ڈالی اور یہودی گزشتہ 80 سال سے فلسطینیوں کو قتل کررہے ہیں۔ مسلمانوں نے اقلیتوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا دین انہیں سکھاتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ اسلام کی تعلیم ہے کہ سارے انسان سیدنا آدمؑ کی اولاد ہیں اور پوری انسانیت اللہ کا کنبہ ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ کثیر الثقافتی امت اس روئے زمین پر موجود نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور لسانی تنوع کا جیسا شعور اور ذوق رکھتے ہیں اس کی پوری انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان تنوع کو نہ صرف یہ پسند کرتے ہیں بلکہ وہ اسے مشیت خداوندی کا ایک پہلو سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ مذہبی اقلیتوں کو سینے سے لگایا ہے۔
پاکستان مسلمانوں کی اسی شاندار تاریخ کا تسلسل ہے۔ چناں چہ جاوید چودھری کا یہ کہنا درست نہیں کہ عمران خان قوم سے خطاب فرماتے ہیں تو وہ مذہبی اقلیتوں کو نظر اندز کرتے ہیں۔ اصل میں پاکستان کی مذہبی اقلیتیں اتنی چھوٹی ہیں کہ وہ اجتماعی شعور کا حصہ نہیں بن پاتیں، جب تک مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ تھا ہندو اقلیت پاکستان کی ایک بڑی مذہبی اقلیت تھی۔ وہ مشرقی پاکستان کی اجتماعی زندگی میں اہم کردار اد کرتی تھی۔ اس اقلیت کا تجارت میں سکہ چلتا تھا۔ شعر و ادب اور صحافت میں اس کا نمایاں کردار تھا۔ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں ہندو اساتذہ کی بڑی تعداد موجود تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کی فضا تیار کرنے والوں میں ان اساتذہ کا بھی بڑا کردار تھا۔ لیکن مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد پاکستان میں ہندو اقلیت کا حجم بہت چھوٹا سا ہوگیا۔ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کا حال یہ ہے کہ ہم نے اپنی 40 سالہ شعوری زندگی میں آج تک کسی پاکستانی مسلمان کو ہندوئوں یا عیسائیوں کے خلاف بات کرتے نہیں دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کہیں کسی ہندو مسلمان کا جھگڑا ہوگیا ہو تو ہوگیا ہو لیکن پاکستان میں ہندوکش یا عیسائی کش فسادات کبھی نہیں ہوتے۔
جہاں تک ڈاکٹر عبدالسلام کا معاملہ ہے تو قادیانیوں کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ قادیانی اسلام کے باغی ہیں، وہ ایک جھوٹے پیغمبر کے ماننے والے ہیں۔ اس کے باوجود وہ خود کو مسلمان باور کراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے نے آج تک قادیانیوں کو قبول نہیں کیا ہے۔ جہاں تک عبدالسلام کا معاملہ ہے تو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ڈاکٹر سلام وہ شخص تھا جو امریکا کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں خفیہ معلومات فراہم کرتا تھا۔ اس کے باوجود جاوید چودھری کے لیے وہ بڑے محترم ہیں۔