غالب نے کہا تھا؎
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولہ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا
غالب کے اس شعر سے استفادہ کیا جائے تو پاکستان کی سیاست کے بارے میں آنکھیں بند کر کے کہا جا سکتا ہے۔
مری تعمیر میں مضمر ہے ہر صورت خرابی کی
میں اک ایسی سیاست ہوں میں اک ایسی سیاست ہوں
دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس کا کوئی نظریہ حیات نہ ہو۔ سوویت یونین کا نظریہ سوشلزم تھا اور اس کی سیاست کیا اس کی معیشت، معاشرت، آرٹ اور کلچر تک پر اس کے نظریے کا اثر تھا۔ سوویت یونین کی سیاست پرپولٹ بیورو اور کمیونسٹ پارٹی کا غلبہ تھا۔ سوشلزم کے زیراثر سوویت یونین کا ایک تصور امت یا تصور ملت بھی تھا۔ دنیا کے جتنے کمیونسٹ ملک تھے وہ سوشلسٹوں کی امت کا حصہ تھے۔ ان کی سیاست ایک تھی۔ ان کی معیشت ایک تھی۔ ان کی تجارت ایک تھی۔ سوویت یونین کے نظریے کا اثر اس کے ادب تک پر تھا۔ سوویت یونین کا ادب صرف ادب نہیں کہلاتا تھا۔ سوشلسٹ ادب کمیونسٹ ادب یا مارکسسٹ ادب کہلاتا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ سوویت یونین کی ریاست سائنس کو بھی صرف سائنس نہیں کہتی تھی وہ اسے ’’سوویت سائنس‘‘ کہتی تھی۔ ریاست اور معاشرے میں نظریے کا غلبہ اس کو کہتے ہیں۔ چین نے معیشت کے دائرے میں سرمایہ داری کے ماڈل کو قبول کر لیا ہے مگر اس کی سیاست آج بھی سوشلزم کے زیر اثر ہے۔ اس کا پورا تعلیمی نظام مارکسسزم سے فراہم ہونے والے خطوط پر استوار ہے۔ چین کی کیمونسٹ پارٹی چین کی پوری سیاست کی نگرانی کر رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ کا نظریہ حیات لبرل ازم اور سیکولر ازم ہے چنانچہ امریکہ اوریورپ کی پوری سیاست پر انہی نظریات کا غلبہ ہے۔ مغربی دنیا کے نظریے کے بڑے بڑے تصورات میں آزادی، جمہوریت، مساوات شامل ہیں۔ امریکہ کی ریاست یا امریکہ کا کوئی حکمران ان نظریات سے انحراف کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس تناظر میں پاکستان کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے اور جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ انہوں نے ایک مرحلے پر اسلامی سوشلزم بھی ایجاد کیا تھا مگر بھٹو صاحب نے اپنی سیاست میں نہ دین کے تقاضے پورے کیے۔ نہ سوشلزم کے تقاضے پورے کیے اور نہ ان سے جمہوریت کے مطالبات پورے ہو سکے کہ اسلامی سوشلزم کی اصطلاح نعرے کی سطح پر اچھی لگتی ہے مگر اسلام اور سوشلزم میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ اسلام خود مرکز تصورحیات ہے۔ سوشلزم میں خدا کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اسلام وحی پر مبنی دین ہے سوشلزم وحی کے تصور کا انکار کرتا ہے۔ اسلام آخرت کو اصل کہتا ہے سوشلزم دنیا کو اصل کہتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اسلام کا نعرہ لگایا مگر ان کا اسلام ان معنوں میں سیاسی تھا کہ وہ اسلام کا نعرہ لگا کر اس سے سیاسی فائدے حاصل کرنا چاہتے تھے اور بس۔ بلاشبہ جنرل ضیاء الحق کی انفرادی زندگی میں اسلام موجود تھا مگر انہوں نے اسلام کو ریاست پر غالب کرنے کے لیے کچھ نہ کیا۔ انہوں نے ملک میں نظام صلوۃ متعارف کرا دیا جو مذاق بن کر رہ گیا۔ انہوںنے بلاسودی بنکاری کا آغاز کیا جو صرف نام کی حد تک بلاسود تھی ورنہ اس کی اصل بھی سود تھا۔ میاں نواز شریف کئی بار فرما چکے ہیں کہ میں ’’نظریاتی‘‘ ہو گیا ہوں مگر ہم انہی کالموں میں کئی بار عرض کر چکے ہیں میاں صاحب ’’نظریاتی شخصیت‘‘ نہیں صرف ’’نظر آتی شخصیت‘‘ ہیں۔ وہ نہ اسلام کے ساتھ کمیٹڈ ہیں۔ نہ سیکولر ازم اور لبرل کے فلسفے کا انہیں کوئی شعور ہے۔ ان کی زندگی بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کا اشتہار ہے۔ ان کا اگر کوئی نظریہ حیات ہے تو وہ لوٹ مارکے ذریعے مال بنانا ہے۔ جنرل پرویز خود کو سیکولر اور لبرل کہتے تھے مگر انہیں سیکولر ازم اور لبرل ازم کی الف ب بھی معلوم نہیں تھی۔ سیکولر ازم اور لبرلزم فرد کی شخصی آزادی کے علمبردار ہیں۔ جنرل پرویز ’’اجتماعی جبر‘‘ کی علامت تھے۔ سیکولر ازم اور لبرل ازم میں جمہوریت کو اساسی اہمیت حاصل ہے۔ جنرل پرویز جمہوریت کے بجائے فوج کی بالادستی کے علمبردار تھے۔ وہ وردی کو وردی نہیں اپنی کھال کہتے تھے۔ عمران خان ایک طرف ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف چین اور اسکینڈی نیویا کے ملکوں کے ماڈلز کو آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نظری طور پر نہ ریاست مدینہ کے فلسفے سے آگاہ ہیں نہ سوشلسٹ اور لبرل ریاست کے فلسفہ حیات کو سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ پاکستان نہ کبھی حقیقی معنوں میں ’’اسلامی‘‘ بن سکا۔ نہ وہ ’’کبھی سوشلسٹ ریاست‘‘ میں ڈھل سکا اور نہ کبھی ’’سیکولر‘‘ اور ’’لبرل‘‘ ریاست کی صورت میں ظاہر ہو سکا۔
پاکستان کی سیاست کی ایک بہت بڑی بیماری اس کا ’’امریکہ مرکز‘‘ یا America centric ہونا ہے۔ امریکہ کے سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر کا مشہور زمانہ قول ہے کہ امریکہ کی دشمنی ’’خطرناک‘‘ ہے اور اور دوستی ’’جان لیوا‘‘۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے امریکہ کے حوالے سے زیادہ خطرناک چیز ایجاد کی۔ یہ تھی ’’امریکہ کی غلامی‘‘۔ امریکہ کی غلامی ایسا زہر ہے جو کسی قوم کو زندہ رہنے دیتا ہے نہ مرنے دیتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں امریکہ کی غلامی ایک جرنیل یعنی جنرل ایوب خان نے ایجاد کی۔ انہوں نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے جوتے چاٹ رہے تھے۔ وہ امریکہ کے سامنے اپنی قوم کے سیاست دانوں کی برائیاں کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستانی سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔ جنرل ایوب امریکہ کو بتا رہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ نہیں کرنے دے گی۔ پاکستان کے سیاست دان اگر نااہل تھے اور ملک کو مارشل لا کی ضرورت تھی تو جنرل ایوب مارشل لا لگا دیتے ۔ اس کے لیے امریکہ کی چاپلوسی کی کیا ضرورت تھی۔ جنرل ایوب نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کی سیاست کو امریکہ مرکز بنایا بلکہ پاکستان کی معیشت اور دفاع کو بھی امریکہ مرکز بنا دیا۔ انہوں نے امریکہ کو ایسا فوجی اڈہ بھی فراہم کر دیا جہاں سے سوویت یونین کی جاسوسی کی جارہی تھی۔ اس وقت پاکستان میں یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ امریکہ نے پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کی سازش اور عدم اعتماد کی تحریک میں کردار ادا کیا مگر امریکہ تو ہمیشہ سے پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی میں کردار ادا کرتا رہا ہے۔ جنرل ایوب 1954ء سے اسی لیے امریکہ کی چاپلوسی کر رہے تھے کہ وہ مارشل لا لگائیں تو امریکہ ان کی حمایت کر ے اور ایسا ہی ہوا۔ امریکہ نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کی بھی پشت پناہی کی۔ جنرل پرویز مشرف اس قدر امریکہ پرست ہو گئے کہ مغربی ذرائع ابلاغ انہیں امریکی صدر بش کی رعایت سے ’’بشرف‘‘ کہنے لگے۔ میاں نواز شریف امریکی دبائو پر ایٹمی دھماکہ کرنے سے گریز کر رہے تھے کہ انہیں ان کے سب سے بڑے صحافتی سرپرست اور نوائے وقت کے مالک مجید نظامی نے دھمکی دی کہ اگر آپ ایٹمی دھماکہ نہیں کریں تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔ میاں صاحب جب جنرل پرویز سے معاہدہ کر کے سعودی عرب فرار ہوئے تو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے کہا کہ امریکہ اپنے آدمی کو نکال کر لے گیا۔ امریکہ نے اس سلسلے میں سعودی عرب کو استعمال کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بے نظیر بھٹو پاکستان آئیں تھیں مگر امریکی دبائو پر۔ جنرل پرویز اور بے نظیر کے درمیان این آر او ہوا تو امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈا لیزا رائس نے اس سلسلے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ جنرل پرویز نے نائن الیون کے بعد پاکستان کوامریکہ کی باج گزار ریاست بنا دیا۔ انہوں نے تین ہوائی اڈے امریکہ کو دے دیے۔ بندرگاہ امریکہ کے حوالے کر دی۔ فوج اور ملکی ایجنسیوں کو امریکہ کی خدمت پر لگا دیا۔ انہوں نے امریکہ کے لیے ملک میں خانہ جنگی کرا دی۔ 75 ہزار پاکستانیوں کی قربانی دے دی۔ امریکہ کے لیے 120 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کر لیا یہ ایک کھلی غداری تھی مگر اس غداری کو انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کی چادر میں چھپا دیا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاک فوج کا تحریک پاکستان یا قیام پاکستان میں کوئی کردار ہی نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس وقت فوج موجود ہی نہیں تھی۔ پاکستان اسلام، قائداعظم اور برصغیر کی ملت اسلامیہ کی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستانی جرنیل طاقت کے بل بوتے پر ملک کے مالک بن کر بیٹھ گئے۔ پاکستان کی عمر 74 سال ہے ان میں سے 34 سال جرنیل برسراقتدار رہے ہیں۔ مگر پاکستان کی آزادی کے باقی برس بھی فوج کے غلبے سے آزاد نہیں ہیں۔ فوج جب خود اقتدار میں نہیں ہوتی تو وہ پردے کے پیچھے سے حکومت کر تی ہے۔ بے نظیر پہلی بار اقتدار میں آئیں تو فوج سے سمجھوتہ کر کے۔ انہیں بتا دیا گیا کہ ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کے سلسلہ میں ان کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ عمران خان کی حکومت بھی گزشتہ ساڑھے تین سال میں خارجہ اور داخلہ پالیسی کے دائرے میں آزادی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ یہاں تک کہ وہ اپنا وزیرخزانہ لانے اور اسے برقرار رکھنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھی۔ بدقسمتی سے جرنیلوں نے فوج کو سیاست دانوں کی نرسری بنا کر رکھ دیا۔ بھٹو جنرل ایوب کی کابینہ میں شامل تھے۔ وہ جنرل ایوب کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ میاں نواز شریف کو جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء الحق نے میاں نواز شریف بنایا۔ الطاف حسین بھی جنرل ضیاء الحق کے بغیر الطاف حسین نہیں بن سکتے تھے۔ پاکستانی سیاست پر جرنیلوں کے غلبے نے پاکستانی سیاست کے ’’ارتقا‘‘ کو روک دیا اور پاکستانی کی سیاست کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گردش کرنے والی چیز بن گئی۔ انسان کو ارتقا کے لیے آزادی کی ضرورت ہوتی ہے مگر پاکستانی سیاست کو ارتقا کے لیے درکار آزادی کبھی میسر نہ آسکی۔ چنانچہ پاکستانی سیاست کا دماغ شاہ دولہ کے چوہے کا دماغ بن کر رہ گیا۔ اس دماغ میں کوئی تخلیقی رو نہیںہے۔ اس دماغ کے پاس کوئی نیا خیال نہیں ہے۔ اس دماغ کو قومی خدمت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں صبح سے شام تک جمہوریت کا راگ الاپتی رہتی ہیں مگر پاکستان کی کوئی بڑی سیاسی جماعت جمہوری نہیں ہے۔ نواز لیگ شریف خاندان کی رکھیل ہے۔ پیپلزپارٹی بھٹو خاندان کے پائوں کا جوتا ہے۔ تحریک انصاف عمران خان کی جیب میں پڑا ہوا رومال ہے۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کے ہاتھ کا میل ہے۔ اے این پی پر ایک خاندان کا قبضہ ہے۔ جمعیت علمائے اسلام پر پہلے مفتی محمود قابض تھے اب ان کے فرزند فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے کرتا دھرتا ہیں۔ وہ نہیں ہوں گے تو ان کا بھائی یا بیٹا جمعیت علمائے اسلام کو چلائے گا۔ ملک میں صرف جماعت اسلامی ہے جسے جمہوری کہا جا سکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کسی بھی چیز کے سلسلے میں قوم کے شعور کو بیدار کرتے ہیں مگر ہمارے ذرائع ابلاغ نے بڑی سیاسی جماعتوں کے غیر جمہوری پن کو قبول کیا ہوا ہے وہ اس سلسلے میں عوام کی تربیت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
پاکستان کی سیاست کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سرمائے کی سیات بن کر رہ گئی ہے۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں سیاست کروڑوں اور اربوں کا کھیل ہے۔ جس کے پاس جتنا سرمایہ ہے وہ اتنا ہی طاقت ور ہے۔ قومی اسمبلی کی ایک نشست پر انتخاب کے لیے لوگ بیس بیس پچیس پچیس کروڑ صرف کر دیتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں نواز لیگ اور تحریک انصاف نے ذرائع ابلاغ میں انتخابی مہم پر دس دس ارب روپے خرچ کیے۔ ظاہر ہے کہ جب سیاست پر اتنا سرمایہ خرچ ہو گا تو پھر سیاست دان سیاست سے مال کمانے کی بھی کوشش کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاست بدعنوانی کی سیاست بن گئی ہے۔ میاں نواز شریف، شہباز شریف اور آصف علی زرداری بدعنوانی کی بڑی بڑی علامت ہیں مگر ان کی بدعنوانی ان کے سیاسی امیج پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں صوبائی اور لسانی عصبیتیں اتنی طاقت ورہیں کہ لوگ صرف ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف جب آئی جے آئی کی سیاست کر رہے تھے تب انہوں نے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا۔ مریم نواز گزشتہ ڈیڑھ دو سال میں کئی بار خود کو ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ قرار دے چکی ہیں۔ بھٹو خاندان کی جیب میں ہمیشہ سندھ کارڈ پڑا رہتا ہے۔ ایم کیو ایم کی پوری سیاست ’’مہاجر ازم‘‘ کے گرد گھومتی ہے۔ اس سے نچلی سطح پر مسلکی عصبیتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ دیوبندی، دیوبندی کو ووٹ دیتا ہے۔ بریلوی، بریلوی کی انتخابی کامیابی کو یقینی بناتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں الیکٹ ایبلز کا بنیادی کردار ہے۔ الیکٹ ایبلز نواز لیگ میں جاتے ہیں تو اسے فتح یاب کر دیتے ہیں۔ تحریک انصاف میں جاتے ہیں تو اسے اقتدار میں پہنچا دیتے ہیں۔ یہ الیکٹ ایبلز عموماً ایجنسیوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور انہی کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔
قومیں بڑے خوابوں سے بڑی بنتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری قومی سیاست کے پاس کوئی بڑا خواب نہیں۔ جو قوتیں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے وجود میں آئی تھیں وہ اسلامی انقلاب کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔ جو لوگ اقبال اور قائداعظم کا نام لیتے ہیں وہ اقبال کے مرد مومن اور اقبال کی خودی کی تخلیق کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ جو لوگ قائداعظم قائداعظم کر رہے ہیں وہ قائداعظم کے خیال کے مطابق پاکستان کو پریمیئر اسلامی ریاست اور اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ ہماری سیاست صرف وقت گزار رہی ہے۔ وہ ایک مہینے سے دوسرے مہینے اور ایک سال سے دوسرے سال تک سفر کے سوا کچھ نہیں کر رہی۔