پاکستان کے ساتھ کون سی عظمت وابستہ نہیں؟ پاکستان دو قومی نظریے کا حاصل ہے۔ دو قومی نظریے کی بنیاد اسلام ہے۔ اسلام سے بڑی طاقت اور اسلام سے بڑی دولت کا تصور ممکن نہیں۔ اقبال کو مصورِ پاکستان کہا جاتا ہے، اور اقبال 20 ویں صدی کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ تحریکِ پاکستان کی قیادت قائداعظم نے کی، جن کے بارے میں مغرب کے ممتاز مؤرخ اور قائداعظم کے سوانح نگار اسٹینلے ولپرٹ نے کہا ہے کہ تاریخ میں ایسے بہت کم لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ تبدیل کیا ہے، ان سے بھی کم لوگوں نے دنیا کا نقشہ بدلا ہے، اور دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ہو جس نے قومی ریاست تخلیق کی ہو۔
قائداعظم محمد علی جناح نے بیک وقت یہ تینوں کام کیے، لیکن اُن کے انتقال کے بعد پاکستان کی قیادت بونوں کے ہاتھ میں آگئی۔ وہ سرزمین جس پر کبھی محمد علی جناح چہل قدمی کرتے تھے اس پر جنرل ایوب نے قبضہ کرلیا۔ جنرل ایوب رخصت ہوئے تو اُن کی جگہ جنرل یحیٰی آگیا جو کسی اور کا کیا خود جنرل ایوب کا سایہ بھی نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو بڑے سیاست دان تھے مگر اُن کی جگہ اُن کی بیٹی بے نظیر نے لے لی جن میں نہ بھٹو جیسی ذہانت تھی، نہ ان کے پاس بھٹو جیسا علم تھا، نہ بھٹو جیسی عوامیت تھی۔ جنرل ضیاء الحق اس اعتبار سے تاریخ ساز ہیں کہ ان کی قیادت میں مجاہدین نے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دی۔
جنرل ضیاء الحق وسیع المطالعہ تھے، دین داری اُن میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، وہ نماز روزے کے پابند تھے۔ اُن کی جگہ اُن کے ’’روحانی فرزند‘‘ میاں نوازشریف نے لی۔ ان کے پاس نہ علم ہے، نہ ذہانت ہے، نہ دین داری ہے۔ انہوں نے کبھی کتاب کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ہوگا۔ ان کا تشخص کھانے پینے کی اشیا ہیں۔ وہ اپنے دل سے نہیں ’’پیٹ‘‘ سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے پاس دولت بہت ہے مگر حرام کی۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ نواز لیگ کیا، پوری حزبِ اختلاف عمران خان کو’’سلیکٹڈ‘‘ قرار دے رہی تھی۔ اس الزام میں بڑا وزن تھا۔ عمران کو پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ’’سلیکٹ‘‘ کیا تھا، مگر پاکستان کی بدقسمتی دیکھیے کہ سلیکٹڈ حکمران رخصت ہوئے ہیں تو ان کی جگہ میاں شہبازشریف کی صورت میں ’’امپورٹڈ حکمران‘‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان پر مسلط ہوگئے ہیں۔
عمران خان سلیکٹڈ تھے تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے، مگر میاں شہبازشریف کے اقتدار پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ امریکہ کی مہر بھی لگی ہوئی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان پر شہبازشریف اینڈ کمپنی کی صورت میں امریکی ایجنٹوں کی حکومت مسلط ہوگئی ہے۔
پاکستان کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ پاکستان کی سیاست پر ہمیشہ سے امریکہ کا غلبہ رہا تھا۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر امریکہ کی چند سال پہلے سامنے آنے والی دستاویز کے مطابق وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو مراسلے لکھ لکھ کر بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کردیں گے لیکن فوج انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ تجزیہ کیا جائے تو جنرل ایوب کا یہ عمل امریکہ کی چاپلوسی اور مارشل لا کے سلسلے میں اُس کی حمایت کے حصول کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ ملک میں پہلا مارشل لا امریکہ کی مرضی سے لگا۔
آج کی اصطلاح میں بات کی جائے تو جنرل ایوب کا مارشل لا امپورٹڈ تھا اور اس پر Made in America کی مہر لگی ہوئی تھی۔ امریکہ پاکستان میں پہلے مارشل لا کی حمایت نہ کرتا تو جنرل ایوب اوّل تو مارشل لا ہی نہ لگاتے، لگاتے تو اُن کا مارشل لا چل نہ پاتا۔ اس کے نتیجے میں بعد میں کسی جنرل ضیاء الحق اور کسی جنرل پرویزمشرف کو مارشل لا، مارشل لا کھیلنے کی جرأت ہی نہ ہوتی۔ لیکن چونکہ امریکہ نے پہلے مارشل لا کی حمایت کی، اس لیے جنرل یحییٰ کو جنرل ایوب کے خلاف سازش کی جرأت ہوئی اور انہوں نے پوری بے خوفی کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کیا۔
ان کی بے خوفی غلط نہ تھی، امریکہ نے جنرل یحییٰ کے فوجی اقتدار کی بھی حمایت کی۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق آئے تو امریکہ اُن کی پشت پر بھی موجود تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی مدد کے بغیر امریکہ بھٹو کو عبرت ناک مثال نہیں بنا سکتا تھا۔ جنرل پرویز نے مارشل لا لگایا تو انہیں اُس وقت امریکی حمایت حاصل نہیں تھی، اُس وقت امریکہ کا اصل آدمی میاں نوازشریف تھے۔ اسی لیے میاں نوازشریف جنرل پرویز سے خفیہ معاہدہ کرکے ملک سے سعودی عرب فرار ہوئے تو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمیدگل نے بجا طور پر فرمایا کہ امریکہ پاکستان سے اپنے آدمی کو نکال کر لے گیا۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز کیا، پوری فوجی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کی ایجنٹ بن کر ابھری۔
جنرل پرویز نے پاکستان کے تین ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کردیے۔ انہوںنے پاکستان کی بندرگاہ امریکہ کو سونپ دی۔ انہوں نے امریکہ کے لیے ملک میں خانہ جنگی برپا کرا دی جو 75 ہزار لوگوں کو نگل گئی اور ہمارے 120 ارب ڈالر کا اقتصادی نقصان ہوا۔ ایک زمانے میں جنرل ایوب اس حد تک امریکی غلام بن گئے تھے کہ اُن کی غلامی اشتہار بن گئی تھی۔ چنانچہ انہوں نے الطاف گوہر سے کتاب لکھوائی جس کا عنوان تھا ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘۔ اس کتاب کے ذریعے جنرل ایوب نے تاثر دیا کہ ہم امریکہ کے دوست ہیں اُس کے غلام نہیں۔ لیکن دوستی مساوی طاقتوں کے درمیان ہوتی ہے اور پاکستان امریکہ کے برابر کی طاقت نہیں تھا۔
چنانچہ جنرل ایوب صرف امریکہ کے غلام تھے۔ جنرل پرویز کے دور میں جنرل پرویز کی غلامی اتنی بڑھی کہ انہیں امریکہ کے صدر بش کی رعایت سے ’’بشرف‘‘ کہہ کر پکارا جانے لگا۔ یہ بات تاریخ کے صفحات کا حصہ ہے کہ جنرل پرویز اور بے نظیر بھٹو کے درمیان این آر او ہوا تو یہ بھی امریکہ نے کرایا۔ امریکہ کی اُس وقت کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈا لیزا رائس نے اپنی کتاب میں اس پر تفصیل سے بات کی ہوئی ہے۔ اس تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو میاں شہبازشریف کے امپورٹڈ اور Made in America ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں ہے۔ شریف خاندان بھارت جیسی چھوٹی طاقت کا غلام ہے تو وہ امریکہ کا غلام کیوں نہیں ہوگا! کیونکہ ان کی ساری لوٹی ہوئی دولت تو مغرب ہی میں پڑی ہوئی ہے۔
پاکستان میں میاں شہبازشریف حکومت کے قیام کی گنجائش سپریم کورٹ کے فیصلے سے پیدا ہوئی۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرے گی، مگر ہم نے کہا تھا: فیصلہ جو بھی ہو اُسے ’’سیاسی‘‘ نہیں ’’قانونی‘‘ ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ نے قانونی فیصلے کے بجائے سیاسی فیصلہ کیا ہے۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد کو آئین کے آرٹیکل 5 کی بنیاد پر مسترد کیا تھا تو عدالت کا فرض تھا کہ وہ امریکہ کی جانب سے عمران خان کی حکومت کو دی گئی دھمکی کی تحقیق کرتی۔ اسے امریکہ میں تعینات پاکستان کے سابق سفیر کو عدالت میں طلب کرنا چاہیے تھا اور اس کی تصدیق کرنی چاہیے تھی کہ امریکہ کی دھمکی حقیقی ہے یا عمران خان کی حکومت اس حوالے سے جھوٹ بول رہی ہے؟ عدالت کو آئی ایس آئی کے سربراہ کو عدالت میں طلب کرکے معلوم کرنا چاہیے تھا کہ دھمکی آمیز مراسلے کو قومی سلامتی کمیٹی نے درست پایا ہے یا نہیں؟ مگر سپریم کورٹ نے مراسلے کی تحقیق کی زحمت ہی نہیں کی۔
امریکہ کی دھمکی پاکستان کی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں، مگر وہ پہلی بار ایک سرکاری دستاویز کی صورت میں قوم کے سامنے آئی تھی اور اس امر کا فیصلہ ضروری تھا کہ امریکہ نے دھمکی دی ہے یا نہیں؟ اور امریکہ تحریک عدم اعتماد کی پشت پر موجود ہے یا نہیں؟ جہاں تک عمران خان کے زوال کا تعلق ہے تو اس کا ایک سبب یہ ہے کہ امریکہ عمران خان کے خلاف ہوگیا اور اس نے اُن کی برطرفی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ مگر عمران خان کے زوال کا ایک سبب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر انحصار بھی ہے۔ امریکہ کے سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے ایک بار کہا تھا کہ امریکہ کی دشمنی خطرناک ہے مگر دوستی جان لیوا ہے۔ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے۔
بدقسمتی سے عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ کا کوئی شعور نہیں۔ 1971ء کے بحران میں جماعت اسلامی نے فوج کی مدد اور پاکستان کی جنگ لڑنے کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں پر مشتمل دو تنظیمیں بنائی تھیں۔ ایک کا نام البدر تھا اور دوسری کا الشمس۔ ان تنظیموں نے فوج کے شانہ بہ شانہ پاکستان کا دفاع کیا۔ یہ دونوں تنظیمیں اسٹیبلشمنٹ کی ’’دوست‘‘ تھیں، مگر بعد میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ فوج نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور فوجی خود متعلقہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ’’جنگی قیدی‘‘ بن کر ’’محفوظ‘‘ ہوگئے، مگر انہوں نے البدر اور الشمس کے ہزاروں کارکنوں کو مکتی باہنی کے درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، اور مکتی باہنی کے درندوں نے انہیں چن چن کر شہید کیا۔ مشرقی پاکستان میں بہاریوں کی آبادی بھی فوج کی حامی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ نے ان بہاریوں کو بھی ’’ترک‘‘ کردیا، اور یہ بہاری 50 سال سے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ ان کی کئی نسلیں تباہ ہوگئیں اور وعدوں کے باوجود انہیں کبھی پاکستان نہ لایا جا سکا۔ 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق نے مقبوضہ کشمیر کی کشمیری قیادت کو پیغام دیا کہ اگر آپ تحریک کو ایک خاص سطح پر لے آئیں تو پاکستان عملاً آپ کی مدد کرے گا۔
کشمیریوں نے اپنی تاریخ میں کبھی مسلح جدوجہد نہیں کی تھی، مگر جنرل ضیاء الحق کے مشورے کی روشنی میں انہوں نے تحریک کو طوفان بنانے کے لیے مسلح جدوجہد کی، اور ایک وقت آیا کہ تحریک اُس سطح پر آگئی جس پر لانے کی بات جنرل ضیاء الحق نے کی تھی۔ جب تحریک اس سطح پر آگئی تو کشمیریوں نے پاکستان سے کہا کہ ہمارے لیے عملاً کچھ کرو، اس پر انہیں پیغام دیا گیا کہ کشمیر کے لیے پاکستان کو دائو پر نہیں لگایا جا سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ طالبان کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ طالبان پاکستان کی تخلیق تھے۔ پاکستان نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے انہیں یہ کہہ کر تسلیم کرایاکہ یہ ہمارے بچے ہیں۔ مگر نائن الیون ہوا تو اسٹیبلشمنٹ نے اپنے بچوں کو امریکہ کے آگے ڈال دیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو بھی ایک وقت تک استعمال کیا اور پھر پھینک دیا۔ اسٹیبلشمنٹ کا نعرہ ہے: استعمال کرو اور پھینکو۔
جہاں تک میاں شہبازشریف کے اقتدار کا معاملہ ہے تو وہ امپورٹڈ تو ہے ہی، مگر اس اقتدار پر شریف خاندان کا سایہ ہے، اور شریف خاندان اسلام اور پاکستان کا غدار ہے۔ شریف خاندان کی اسلام سے غداری کا ایک ثبوت چودھری شجاعت حسین نے اپنی خودنوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارا شریف خاندان سے معاہدہ ہوا تو شہبازشریف قرآن شریف اٹھا لائے اور کہا کہ یہ قرآن اس بات کی ضمانت ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کیے گئے سمجھوتے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے۔ مگر چودھری شجاعت کے بقول بعد میں شریف خاندان نے معاہدے کی کسی بھی شق پر عمل نہ کیا۔ عام مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ بدترین سے بدترین مسلمان بھی قرآن پر قسم کھا کر جھوٹ نہیں بولتا، دھوکا نہیں دیتا۔ مگر شریف خاندان سے متعلق مذکورہ واقعہ بتا رہا ہے کہ شریف خاندان قرآن پر بھی جھوٹ بول سکتا ہے اور اُس کے سیاسی مفادات قرآن سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا خاندان امریکہ کا ایجنٹ نہیں ہوسکتا؟
بدقسمتی سے شریف خاندان پاکستان کا بھی غدار ہے۔ اس کا ایک بہت بڑا اورٹھوس ثبوت جنرل اسد درانی کی تصنیف ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ ہے۔ اس کتاب میں جنرل درانی نے انکشاف کیا ہے کہ ایک وقت تھا جب میاں شہبازشریف بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے منصوبے پر مذاکرات کررہے تھے۔ یہ کسی عام آدمی کی اڑائی ہوئی ’’افواہ‘‘ نہیں ہے، یہ شریف خاندان کے کسی سیاسی ’’دشمن‘‘ کا ’’بیان‘‘ نہیں ہے، یہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا بیان ہے۔ جنرل اسد درانی کی کتاب کو شائع ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں مگر شریف خاندان نے کبھی اپنے اوپر لگائے گئے اس الزام کی تردید نہیں کی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ الزام درست ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو خاندان ’’گریٹر پنجاب‘‘ کا کھیل کھیل رہا ہے وہ پاکستان کا وفادار کیسے ہوسکتا ہے؟ اب صورت یہ بنی کہ شریف خاندان اسلام کا بھی غدار ہے، پاکستان کا بھی غدار ہے، اس کا اقتدار امریکہ سے امپورٹ کیا ہوا ہے۔ اس پر طرہ شریف خاندان کی لوٹ مار اور جھوٹ کی تاریخ ہے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ شریف خاندان نے اربوں روپے کی لوٹ مار کی ہے۔ اس پر مقدمات درج ہیں۔
میاں نوازشریف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہیں وہ ذرائع جن سے برطانیہ کی جائداد خریدی گئی۔ مگر بعد میں وہ اپنی دولت کی ’’منی ٹریل‘‘ دینے میں ناکام رہے۔ مریم نواز نے جیو پر آکر کہا کہ میری برطانیہ میں کیا پاکستان میں بھی جائداد نہیں۔ بعد میں ثابت ہوا کہ ان کی جائداد دونوں جگہ ہے۔ ان حقائق سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شریفوں کے اقتدار کے بعد پاکستان کے لیے کتنی بھیانک صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ عمران خان تو نااہل تھے، شریفوں کی تو نیت اور کردار ہی مشتبہ ہے