آپ سے اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کارل مارکس روس کے اندر اسلامی انقلاب برپا کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا تو آپ کیا کہیں گے؟ یقینا آپ کہیں گے کہ یہ سفید جھوٹ ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کو یہ بتائے کہ مائوزے تنگ چین میں خلافت کا نظام رائج کرنا چاہتا تھا تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ آپ کہیں گے یہ بکواس ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ عناصر 70 سال سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے اور ان کی زبان پکڑنے والا کوئی نہیں۔ سیکولر یا لبرل اور سوشلسٹ عناصر صرف یہی جھوٹ نہیں بولتے کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم خود بھی سیکولر تھے۔ وجاہت مسعود ایک سابق سوشلسٹ دانش ور ہیں۔ سابق سوشلسٹ ان معنوں میں کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد وہ مشرف بہ مغرب ہوگئے ہیں۔ پہلے وہ انسانیت کی نجات سوشلزم میں ڈھونڈتے تھے اب وہ انسانیت کی نجات مغرب کے لبرل ازم میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ وجاہت مسعود نے اپنے ایک حالیہ کالم میں ارشاد فرمایا ہے کہ اہل پاکستان نے قرارداد مقاصد منظور کرکے قائداعظم سے غداری کی ہے۔ ان کے اصل الفاظ کیا ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں کیا لکھا ہے۔ خود انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’چار مارچ کو قصہ خوانی بازار پشاور کی امامیہ مسجد میں خودکش حملہ آور نے درجنوں عبادت گزار شہید کردیے۔ اب ریاست کے ذمے دار مناصب پر فائز افراد کی بے حسی دیکھیے۔ 12 مارچ کو ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان جلسہ عام میں اس خواہش کا اعلان فرماتے ہیں کہ وہ خودکش بمبار بن کر ملک اور دین کے دشمنوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اشارہ معنی خیز ہے کہ 73 برس قبل 12 مارچ (1949) ہی کے دن ریاست نے بابائے قوم کے طے کردہ نصب العین سے انحراف کرتے ہوئے قرار داد مقاصد کی صورت میں قوم کا تشخص بدل ڈالا تھا۔ قائداعظم نے کسی مذہبی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کی برابری کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ریاست کا حقیقی فرض تمام شہریوں کا معیار زندگی بہتر بنانا ہے۔ قائد کو ادراک تھا کہ کسی خاص مذہب کو ترجیحی درجہ دینا ریاست کی تباہی کا نسخہ ہے کیوں کہ عقیدہ فرد کے ضمیر کا انتخاب ہے، اسے دوسروں پر نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی معاشرے میں انفرادی رنگارنگی کی طرح عقیدوں کی تفہیم میں بھی بے پناہ تنوع پایا جاتا ہے۔ ریاست کا منصب عقاید کی تحکیم یعنی غلط یا صحیح کا فیصلہ کرنا نہیں بلکہ تمام شہریوں کے حق عقیدہ کی حفاظت ہے‘‘۔
(روزنامہ جنگ۔ 14 مارچ 2022ء)
اسلام ایک دائمی حقیقت ہے۔ چناں چہ گزشتہ چودہ سوسال سے مسلمانوں کا تشخص صرف ایک ہے۔ اسلام اگر کوئی اپنے عربی تشخص پر اصرار کرتا ہے تو اسلام کا غدار ہے۔ اگر کوئی عجمی ہونے پر اتراتا ہے تو وہ اسلام کا باغی، اگر کوئی خود کو سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ کہتا ہے تو وہ ایک جھوٹا اور مصنوعی تشخص اختیار کرتا ہے اور اسلام کا انکار کرتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان اسلام کے سوا نہ کچھ تھا نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کا مطالبہ نسل، رنگ، جغرافیہ، زبان، سوشلزم، سیکولرازم اور لبرل ازم کی بنیاد پر نہیں کیا گیا تھا۔ پاکستان کا مطالبہ دوقومی نظریے کی بنیاد پر کیا گیا اور یہ اسلام کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بلاشبہ قائداعظم ایک زمانے میں ’’ایک قومی‘‘ نظریے کے قائل تھے اور وہ کانگریس کے رہنما تھے مگر پھر قائداعظم کا روحانی، ذہنی، نفسیاتی اور سیاسی ارتقا ہوا اور انہوں نے ایک قومی نظریے کو ترک کردیا۔ ایک قومی نظریہ بلاشبہ اسلام کی ضد تھا۔ اس لیے کہ ایک قومی نظریہ مسلمانوں کے تشخص کے سلسلے میں نسل، جغرافیے اور زبان پر اصرار کرتا تھا۔ اس کے برعکس دوقومی نظریہ اول و آخر اسلام تھا۔ ایک بار ایک شخص نے قائداعظم کو یاد دلایا کہ آپ تو کانگریس میں تھے۔ قائداعظم یہ سن کر مسکرائے اور فرمایا کہ میں کبھی ’’اسکول‘‘ میں بھی تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو قائداعظم نے جب ایک قومی نظریے کو ترک کرکے دو قومی نظریے کو اختیار کیا تو انہوں نے اسکول سے سیدھے یونیورسٹی کی جانب چھلانگ لگائی۔ ایک قومی نظریے کا تشخص مصنوعی اور اوڑھا ہوا تشخص تھا۔ دوقومی نظریے کا تشخص قائداعظم کے باطن، ان کی تہذیب اور تاریخ کا تشخص تھا۔ چناں چہ قائداعظم کے بعد 1949ء میں قرار داد مقاصد کی منظوری قائداعظم کے نصب العین سے انحراف نہیں تھا بلکہ قائداعظم کے نصب العین کی طرف پیش قدمی تھی۔
قائداعظم اسلام کے کتنے بڑے علمبردار تھے اس کا اندازہ قائداعظم کی تقریر کے اس اقتباس سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ قائداعظم نے فرمایا۔
’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے۔ وہ رشتہ وہ چٹان، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب، ایک امت‘‘۔
(اجلاس مسلم لیگ۔ کراچی 1943ء)
قائداعظم کی تقریر کے اس حصے کو دیکھیے؟ کیا کوئی سیکولر اور لبرل شخص اس طرح کلام کرسکتا ہے؟ کیا کسی سیکولر اور لبرل شخص کے لیے ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک امت کا تصور اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے؟ قائداعظم کی تقریر کے اس حصے سے قائداعظم کا نام ہٹادیا جائے تو کوئی گمان کرسکتا ہے کہ تقریر کا یہ حصہ کسی عالم دین کی تقریر سے لیا گیا ہے؟ بلاشبہ قائداعظم کا لباس مغربی تھا مگر ان کا باطن اسلامی تھا۔ انہیں وکیل ہونے کے باوجود کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا گیا۔ انہیں سلطنت برطانیہ کی طاقت کبھی مرعوب نہ کرسکی۔ وہ ہندو اکثریت سے کبھی خوف زدہ نہ دیکھے گئے۔ ان کے قول و فعل میں کبھی تضاد نہیں تھا۔ ان کا لباس ان کے ماحول کا جبر تھا۔ ان کی انگریزی بھی ان کے ماحول کے جبر کا حاصل تھی۔ قائداعظم انگریزی کلچر میں ڈوبے ہوئے ہوتے تو وہ کبھی آزادی اور الگ وطن کا نعرہ بلند نہ کرتے۔ وہ کبھی نہ کہتے کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی۔ مغربی لباس تو اقبال نے بھی زیب تن کیا مگر کیا مغربی لباس اقبال سے ان کا مذہبی تشخص چھین لینے میں کامیاب ہوا؟ اقبال نے تو سر کا خطاب قبول کر لیا تھا مگر قائداعظم نے سر کا خطاب لینے سے بھی انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اپنا اصل نام پسند ہے۔ مجھے اس کے آگے سر لگانا اچھا نہیں لگتا۔ آئیے قائداعظم کی تقریر کا ایک اور اقتباس ملاحظہ کرتے ہیں۔ قائداعظم نے ہندوئوں اور انگریزوں سے مخاطب ہو کر فرمایا۔
’’تمہاری تعداد سب سے زیادہ ہوا کرے۔ تم ترقی یافتہ اور تمہاری اقتصادیات مستحکم ہی سہی اور تم سمجھا کرو کہ سروں کی گنتی ہی آخری فیصلہ ہے۔ لیکن میں تمہیں بتادیتا ہوں کہ تم تنہا یا دونوں مل کر ہماری روح کو فنا نہیں کرسکتے۔ تم اس تہذیب کو کبھی مٹا نہ سکو گے۔ اس اسلامی تہذیب کو جو ہمیں ورثے میں ملی ہے، ہمارا نورِ ایمان زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ بیشک تم ہمیں مغلوب کرلو۔ ہم پر ظلم و ستم کرو۔ ہمارے ساتھ بدترین سلوک روا رکھو لیکن ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں اور ہم نے یہ سنگین فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر مرنا ہی ہے تو لڑتے لڑتے مریں گے‘‘۔
(مرکزی اسمبلی سے خطاب۔ 22 مارچ 1939ء)
آپ نے دیکھا قائداعظم اپنی تقریر میں مسلمانوں کی رنگ، نسل، جغرافیے، زبان، اقتصادیات یا مادی ترقی پر فخر نہیں کررہے۔ وہ فخر کررہے ہیں تو مسلمانوں کے ’’نورِ ایمان‘‘ پر۔ کیا کسی سیکولر اور لبرل شخص کے لیے نور ایمان کا کوئی مفہوم ہوسکتا ہے؟ کیا کوئی سیکولر یا لبرل شخص اپنی تقریر میں نورِ ایمان پر اصرار کرکے اپنی سیاسی کشتی کو ڈبونے کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ نورِ ایمان پر فخر وہی کرے گا جو اسلام کو اپنا سب کچھ سمجھتا ہوگا۔ قائداعظم نے اپنی تقریر میں ’’اسلامی تہذیب‘‘ پر بھی فخر کیا ہے کیا کوئی سیکولر اور لبرل شخص اپنی تقریر میں اسلامی تہذیب پہ فخر کرتا ہوا پایا جاسکتا ہے؟ قائداعظم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر مسلمان مریں گے تو لڑتے لڑتے مریں گے۔ یہ الف سے لے کر یے تک ایک جہادی اسپرٹ ہے اور کوئی سیکولر یا لبرل شخص جہادی اسپرٹ کا حامل نہیں ہوسکتا۔ یہاں ہمیں قائداعظم کی ایک اور تقریر یاد آئی۔ قائداعظم نے فرمایا۔
’’اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں بلکہ درحقیقت وہ دو معاشرتی نظام ہیں۔ چناں چہ اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان ایک مشترکہ قومیت تخلیق کرسکتے ہیں۔ یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں، میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد پر ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ بلکہ اکثر متصادم رہتے ہیں۔ ان کے تاریخی وسائل اور ماخذ مختلف ہیں۔ ان کی رزمیہ نظمیں ان کے سربر آوردہ بزرگ اور قابل فخر تاریخی کارنامے سب مختلف اور الگ الگ ہیں۔ ایک قوم کی فتح دوسری کی شکست ہوتی ہے‘‘۔
(اجلاس مسلم لیگ۔ لاہور 23 مارچ 1940ء)
قائد اعظم نے اس تقریر میں بھی مسلمانوں کے تشخص کے سلسلے میں مذہب ہی کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ ان کے بقول مسلمانوں اور ہندوئوں کی تہذیب مختلف ہے تو مذہبی بنیادوں پر، ان کی تاریخ جدا ہے تو مذہبی حوالے سے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی سیکولر اور لبرل شخص مذہب کو اتنی اہمیت دے سکتا ہے؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور بیک وقت اسلام، پاکستان اور قائداعظم کے غدار ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قرارداد مقاصد کی منظوری کے سلسلے میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظم کے ساتھی لیاقت علی خان نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ کیا لیاقت علی خان قائداعظم سے غداری کے بارے میں سوچ بھی سکتے تھے؟ کیا وہ قائداعظم کے نصب العین سے بغاوت کرسکتے تھے اور وہ بھی پاکستان کی تاریخ کے اولین مرحلے میں جب تحریک پاکستان کے اکثر رہنما حیات تھے۔
قائداعظم کے پاکستان میں ’’مقدس چیزوں‘‘ کی کمی نہیں۔ جرنیل پاکستان کی مقدس ہستی ہیں۔ آپ ان کے خلاف کچھ لکھیں گے تو لاپتا ہوجائیں گے۔ پاکستان میں فوج کا ادارہ مقدس ہے۔ آپ اس کے خلاف کچھ تحریر کریں گے تو آپ کا حال اور مستقبل تاریک ہوجائے گا مگر پاکستان کا اسلامی تشخص اتنا غیر مقدس ہے کہ سیکولر لبرل اور سابق اشتراکی عناصر اس پر آئے دن حملہ کرتے رہتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔