سلیم احمد نے کہا تھا
صرف باتوں سے جیو گے تم بھلا کب تک سلیم
زندہ رہنا ہے تو پیارے کچھ ہنر بھی چاہیے
اس شعر کے تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان باتوں کے بادشاہ ہیں مگر ان کے عمل کا خانہ خالی ہے۔ ان کی باتیں اتنی اچھی ہوتی ہیں کہ وہ ’’تحریک اسلامی‘‘ کے رکن معلوم ہوتے ہیں مگر ان کا عمل اتنا ناقص ہے کہ ان پر ’’تحریک غیر اسلامی‘‘ کا رکن ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی باتیں اور تقریریں بڑی شاندار ہوتی ہیں۔ اس وقت عمران خان سیاسی طوفان میں گھرے ہوئے ہیں اور معلوم نہیں کہ ان سطور کی اشاعت تک وہ ملک کے وزیراعظم بھی رہیں گے یا نہیں۔ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاچکی ہے مگر اس کے باوجود ان کی ایک حالیہ تقریر اتنی غیر معمولی ہے کہ گفتگو کیے بغیر چارہ نہیں۔ میلسی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے روس اور یوکرین جنگ کے سلسلے میں یورپی ممالک کے سفیروں کی جانب سے لکھے گئے خط پر زبردست تنقید کی۔ اس خط میں یورپی ممالک کے سفیروں نے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ روس یوکرین کی جنگ کے حوالے سے روس کی مذمت کرے۔ اس سلسلے میں عمران خان نے کہا کہ میں آج تک کسی کے سامنے نہیں جھکا اور جب تک میں زندہ ہوں میں اپنی قوم کو کسی کے آگے جھکنے نہیں دوں گا۔ عمران خان نے کہا کہ یورپی ممالک کے سفیروں نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ روس کے خلاف بیان دے۔ عمران خان نے کہا کہ میں یورپی ممالک کے سفیروں سے پوچھتا ہوں کہ جو خط آپ نے ہمیں لکھا ہے کیا ویسا ہی خط آپ نے کبھی بھارت کو بھی لکھا ہے۔ عمران خان نے سوال اٹھایا کہ جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں تو کیا یورپ نے بھارت سے رابطہ توڑا؟ اس کے ساتھ تجارت بند کی؟ بھارت پر تنقید کی؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا اور یورپ کا ساتھ دیا۔ اس سے ہمیں کیا ملا؟ ہمارے 80 ہزار لوگوں کی جانیں گئیں۔ ہمیں 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ہمارا قبائلی علاقہ اُجڑ گیا۔ کیا یورپی ممالک کے سفیروں نے ان قربانیوں پر ہمارا شکریہ ادا کیا؟ عمران خان نے مزید کہا کہ افغان جنگ میں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ کیا اہل مغرب نے ہمارا شکریہ ادا کیا؟ آپ نے تو ہمیں اپنی ناکامی کا ذمے دار ٹھیرایا۔ عمران خان نے یورپی سفیروں سے سوال کیا کہ کیا ہم آپ کے غلام ہیں؟ آپ جو بھی کہیں ہم کر ڈالیں؟ عمران خان نے کہا کہ تاریخ میں آج تک یہ نہیں ہوا کہ جو ملک آپ کی مدد کرے اس پر ڈرون حملے کیے جائیں، جس سے بے گناہ افراد جاں بحق ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں میں ہمارے شہری مررہے تھے مگر ماضی کے حکمرانوں کو شرم نہیں آئی۔ وہ اس لیے خاموش تھے کہ ان کی دولت مغربی دنیا کے بینکوں میں پڑی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میرے دور میں ڈرون حملے کیوں نہیں ہوئے؟ انہوں نے کہا کہ اگر میرے دور میں ڈرون حملہ ہوا تو میں پاک فضائیہ سے کہوں گا کہ وہ ڈرون کو مار گرائے۔
پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کی یہ تقریر ہر اعتبار سے ایک انقلابی تقریر ہے۔ اس لیے کہ ہمارے حکمرانوں کی تاریخ مغرب کی غلامی کی تاریخ ہے۔ جنرل ایوب ہمارے بہت سے فوجی اور سیاسی آمروں کے ’’Ideal‘‘ تھے۔ بھٹو صاحب جنرل ایوب کی کابینہ میں تھے اور انہیں ڈیڈی کہتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف سے ایک بار ان کے پسندیدہ حکمران کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جنرل ایوب کا نام لیا۔ لیکن جنرل ایوب ہمیشہ سے امریکا کے آلۂ کار تھے۔ انہوں نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ اس رابطے کے ذریعہ وہ امریکیوںکو بتارہے تھے کہ پاکستان کے سیاسی حکمران نااہل ہیں اور وہ پاکستان کو تباہ کیے دے رہے ہیں۔ جنرل ایوب امریکیوں کو آگاہ کررہے تھے کہ وہ سیاسی رہنمائوں کو ہرگز بھی پاکستان تباہ نہیں کرنے دیں گے۔ جنرل ایوب کا یہ جذبہ بڑا قابل قدر تھا مگر انہیں اس سلسلے میں امریکا کے ساتھ ساز باز کی ضرورت نہیں تھی۔ انہیں مارشل لا لگانا تھا تو انہیں امریکا کو کچھ بتائے بغیر مارشل لا لگا دینا چاہیے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل ایوب نے پاکستان کو امریکا کی کالونی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے پاکستان کے دفاع کو ’’امریکا مرکز‘‘ بنادیا۔ انہوں نے پاکستان کی معیشت پر مغرب کے معاشی اور مالیاتی اداروں کی مہر لگادی۔ انہوں نے سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں کو قبول کرکے پاکستان کو امریکا کی جھولی میں پھینک دیا۔ جنرل ایوب نے اس حد تک امریکا پرستی کا مظاہرہ کیا کہ خود انہیں امریکا کا غلام ہونے کا احساس ہونے لگا۔ ان کا ضمیر انہیں کچھ کہنے لگا تو جنرل ایوب نے فرینڈز ناٹ ماسٹرز کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کرائی۔ اس کتاب کو تحریر کرنے کا مقصد اس تاثر کو عام کرنا تھا کہ ہم امریکا کے ’’دوست‘‘ ہیں اس کے ’’غلام‘‘ نہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوستی مساوی طاقتوں کے درمیان ہوتی ہے یا اعلیٰ ظرف لوگوں اور طاقتوں کے درمیان اور پاکستان امریکا کے مساوی طاقت نہیں تھا نہ ہی امریکا کا ظرف چین کی طرح تھا۔ چناں چہ امریکا اور پاکستان کی دوستی کا راگ الاپنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ جنرل ایوب نے پاکستان کو امریکا کا غلام بنادیا تھا۔ انہوں نے سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے پاکستان کا ایک ہوائی اڈہ امریکا کے حوالے کردیا تھا۔ جنرل ایوب کی غلامانہ ذہنیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ امریکا نے پاکستان کو گندم کی امداد دی تو کراچی میں امریکی گندم کو اونٹوں کے ذریعے بندرگاہ سے گوداموں میں منتقل کی گئی تو اونٹوں کے گلے میں ’’تھینک یو امریکا‘‘ کی تختیاں لٹکادی گئیں۔ یہ امریکا کی غلامی کا ایک شرمناک ترین مظہر تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ’’امریکا پرستی‘‘ کو اور شرمناک بنا دیا۔ انہوں نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ انہوں نے پاکستان کے کئی ہوائی اڈے امریکا کو دے دیے۔ انہوں نے سیکڑوں بے گناہ مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا اور خود ان کے اپنے اعتراف کے مطابق ڈالر کمائے۔ جنرل پرویز مشرف کی امریکا پرستی اتنی بڑھی کہ مغربی پریس ان کی بش نوازی کی وجہ سے انہیں ’’بشرف‘‘ کہہ کر پکارنے لگا۔ جنرل پرویز صرف امریکا ہی میں نہیں اسرائیل میں بھی بے انتہا مقبول تھے۔ یہاں تک کہ اس وقت کا اسرائیلی صدر رات کو سونے سے پہلے جنرل پرویز کی زندگی اور سلامتی کے لیے دعا کیا کرتا تھا۔ ایک وقت تھا کہ امریکا کے صدر بل کلنٹن پاکستان کا دورہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ اسلام آباد آئے بھی تو انہوں نے کہا کہ میں ہوائی اڈے سے باہر نہیں جائوں گا مگر نائن الیون کے بعد جنرل پرویز کی طلب مغرب میں اتنی بڑھی کہ مغرب کے رہنما جنرل پرویز مشرف جیسے معمولی شخص کو ’’مدبر‘‘ کہتے نظر آئے۔
بھٹو صاحب بڑے سیاسی رہنما تھے وہ خود کو سوشلسٹ اور اینٹی امپیریل ازم بھی کہتے تھے۔ مگر بھٹو صاحب بھی کبھی نام لے کر امریکا یا یورپ پر تنقید نہیں کرسکے۔ وہ امریکا کو ’’سفید ہاتھی‘‘ کہا کرتے تھے۔ بلاشبہ بھٹو صاحب نے امریکا اور یورپ کی مرضی کے بغیر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ مگر اس کی وجہ بھٹو صاحب کا تصور ذات اور ان کا اینٹی انڈیا رویہ تھا۔ بھٹو صاحب کا تصور ذات یہ تھا کہ وہ خود کو قائد ایشیا سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر پاکستان کا ایٹم بم اور عربوں کا پٹرو ڈالر ایک جگہ جمع ہوگئے تو انہیں عالمی سطح کا رہنما بن کر ابھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بھٹو اینٹی انڈیا اس لیے تھے کہ پنجابیوں اور مہاجروں میں بھارت کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے تھے۔ چناں چہ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ مگر بھٹو بہرحال کبھی کھل کر مغرب پر تنقید نہ کرسکے۔ بے نظیر بھٹو کو اپنے والد سے شدید محبت تھی۔ ان کو معلوم تھا کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کی پشت پر کہیں نہ کہیں امریکا بھی موجود تھا مگر اس کے باوجود وہ کبھی امریکا مخالف کردار اختیار نہ کرسکیں۔ وہ خود کو ’’دختر ِ مشرق‘‘ کہتی تھیں حالاں وہ الف سے یے تک ’’دختر ِ مغرب‘‘ تھیں۔ وہ امریکا کے دبائو پر جنرل ضیا کے زمانے میں رہا ہو کر باہر گئی تھیں اور بالآخر امریکا کے دبائو پر ہی جنرل ضیا الحق نے انہیں دوبارہ پاکستان آنے دیا تھا۔ وہ مغرب سے لاہور پہنچیں تو ان کا تاریخی استقبال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں نے بے نظیر بھٹو کو اپنے درمیان پایا تو انہوں نے امریکا کے خلاف نعرے لگانے شروع کردیے۔ بے نظیر نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر جیالوں کو ایسا کرنے سے روکا۔
میاں نواز شریف بھی الف سے یے تک امریکا کے آدمی ہیں۔ وہ جنرل پرویز کے دور میں رہا ہو کر سعودی عرب پہنچے تو جنرل حمید گل نے بجا طور پر فرمایا کہ امریکا اپنے آدمی کو نکال کر لے گیا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب پر عمران خان کی تنقید بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس تنقید سے ظاہر ہے کہ عمران خان مغرب سے خوف زدہ ہیں نہ خود کو مغرب کا آلہ ٔ کار سمجھتے ہیں۔ عمران خان امریکا اور یورپ کے خلاف جو کچھ کہہ چکے ہیں اور کہہ رہے ہیں میاں نواز شریف اور بلاول زرداری اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ امر سامنے کی بات ہے کہ یورپی ممالک کے سفیروں نے اپنے خط میں پاکستان کو ہدایت دینے کی کوشش کی تو میاں نواز شریف، شہباز شریف اور بلاول کیا مولانا فضل الرحمن نے ایک لفظ بھی نہ کہا اور عمران خان نے یورپ کے خلاف پوری تقریر کر ڈالی۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان مغرب سے خوف زدہ کیوں نہیں ہیں؟ اس کی ایک وجہ عمران خان کا تصور ذات ہے۔ عمران خان کا تصور ذات ایک Icon اور ایک لیجنڈ کا تصور ذات ہے اس تصور ذات کے آگے امریکا کا صدر بھی کچھ نہیں بیچتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ عمران خان نے لوٹ مار نہیں کی اور ان کی لوٹی ہوئی رقم مغرب کے بینکوں میں پڑی ہوئی نہیں ہے۔