پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر تاج حیدر نے انگریزی ماہنامے ’’سائوتھ ایشیا‘‘ کے حالیہ شمارے میں ایک مضمون میں یہ ’’انکشاف‘‘ کیا ہے کہ وہ کسی زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو کو خارجہ پالیسی پر لیکچر دیا کرتے تھے۔ تاج حیدر صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دن وہ بھٹو صاحب کو لیکچر دے رہے تھے اور بھٹو صاحب بڑے صبرو تحمل سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔ تاج حیدر کے بقول انہوں نے اپنی بات مکمل کی تو بھٹو صاحب نے ایک فقرے میں سب کچھ کہہ دیا۔ انہوں نے کہا ’’حیدر بھوکوں ننگوں کی کوئی فارن پالیسی نہیں ہوتی‘‘۔
بھٹو صاحب کی شہرت یہ تھی کہ وہ ’’پڑھاکو‘‘ بھی تھے اور ’’مدبر‘‘ بھی تھے مگر مذکورہ بالا فقرے سے ظاہر ہورہا ہے کہ بھٹو صاحب انسانی تاریخ کی الف ب بھی نہیں جانتے تھے۔ دولت ہر زمانے میں اہم رہی ہے مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے وہ ایک ’’مذہب‘‘ بن گئی ہے۔ جس طرح مذہب کو ایک ضابطۂ حیات اور ہر مشکل کا حل سمجھا جاتا ہے اسی طرح انسانوں کی عظیم اکثریت دولت کو ضابطہ ٔ حیات اور ہر مشکل کا حل سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سو سال سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے زوال کی بنیادی وجہ ان کی معاشی پسماندگی ہے۔ مگر اس سلسلے میں اقبال نے ایک صدی پہلے بالکل صاف اور بنیادی بات کہہ دی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا۔
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندئہ مومن کا بے زری سے نہیں
اس کے معنی یہ نہیں کہ دولت اہم ہی نہیں ہے۔ دولت اہم ہے مگر زندگی میں دولت سے بھی زیادہ اہم چیزیں موجود ہیں۔ اقبال کی بات سنیے کہتے ہیں۔
اگرچہ زر بھی جہاں میں قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میّسر تونگری سے نہیں
اقبال کہہ رہے ہیں کہ بلاشبہ دولت انسان کی بہت سی ضرورت پوری کرتی ہے مگر انسان کو جو کچھ فقر سے میسر آسکتا ہے وہ دولت مندی اسے فراہم نہیں کرسکتی۔ اقبال نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ ان تصورات کا ذکر کیا ہے۔ دو مسلمانوں کے لیے دولت سے کھربوں گنا اہم ہیں۔ اقبال کا مشہور زمانہ شعر ہے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کردے
یہاں سوال یہ ہے کہ جو کام ’’قوت عشق‘‘ اور ’’اسم محمدؐ‘‘ سے ہوسکتا ہے کیا ساری دنیا کی دولت بھی وہ کام کرسکتی ہے؟ اقبال نے ایک جگہ خدا کی زبان سے کہلوایا ہے
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
کسی مسلمان کے لیے اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے کہ خدا اس کا ہوجائے اور وہ لوح و قلم کا مالک بن جائے۔ اقبال کا دعویٰ ہے کہ اگر ہم رسول اکرمؐ سے محبت کریں اور آپؐ کی سیرت کو اختیار کریں تو خدا بھی ہمارا ہوجائے گا اور ہم لوح و قلم کے مالک بھی بن جائیںگے۔ کیا انسانی تاریخ میں بروئے کار آنے والی ساری دولت بھی یہ کام کرسکتی ہے؟ اقبال نے اپنی شاعری میں ایک خاص طرح کے لوگوں کی تصویر پیش کی ہے۔ فرماتے ہیں۔
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تونے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
سوال یہ ہے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں۔ کیا یہ بہت مالدار لوگ ہیں؟ کیا ان کی ہیبت سے بڑی صفت دولت مندی ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ یہ لوگ دنیاوی دولت کی علامت نہیں ہیں اور ان کی صفت مالداری نہیں ہے۔ ان کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ انہیں ’’ذوق خدائی‘‘ عطا کیا گیا ہے؟ کیا خدا ذوق خدائی مسلمانوں کو ان کی دولت دیکھ کر عطا کرتا ہے؟ نہیں۔ اس کا اصول تقویٰ ہے، خدا اور رسول کی محبت ہے، اسلام سے گہری اور شدید وابستگی ہے۔ اقبال کے کچھ اور شعر یاد آگئے۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
اقبال نے مومن کی جو تصویریں پینٹ کی ہیں ان میں کسی تصویر میں بھی کہیں دولت کی موجودگی کا سراغ نہیں ملتا۔ سراغ ملتا ہے تو اللہ کی برہان کا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اللہ کی برہان کو پچاس ہزار ارب ڈالر سے خریدا جاسکتا ہے؟ کیا تو ہزار ارب ڈالر انسان کو چلتا پھرتا قرآن بنا سکتے ہیں؟ سلیم احمد نے اقبال کی نظم لاالہ الااللہ کو اقبال کی شاعری کی سورہ اخلاص قرار دیا ہے اور بلاشبہ یہ نظم اقبال کی شاعری کی پوری روح کو بیان کردیتی ہے۔
خودی کا سرِ نہاں لاالہ الااللہ
خودی ہے تیغ، فساں لاالہ الااللہ
یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لاالہ الااللہ
خرد ہوئی ہے زماں و مکاں کی زناری
نہ ہے زماں نہ مکاں، لاالہ الااللہ
اقبال نے اپنی اس نظم میں دنیا کی ساری دولت اور دنیا کے تمام رشتے ناتوں کو وہم و گمان کے بت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اصل کچھ ہے تو لاالہ اللہ لیکن بھٹو صاحب نے فرمایا ہے کہ بھوکے ننگوں کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہوتی۔
اس سلسلے میں اس کی تاریخ پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ رسول اکرمؐ کے زمانے میں اسلامی ریاست کا رقبہ 10 لاکھ مربع کلو میٹر تک وسیع ہوگیا تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اس عظیم الشان کارنامے کی پشت پر دولت موجود نہیں تھی۔ اس کارنامے کی پشت پر ایمان تھا۔ مسلمانوں کا جذبہ ٔ جہاد تھا، شوق شہادت تھا۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا بیان یہ ہے کہ خیبر کی فتح تک مسلمانوں کی تنگ دستی کا یہ حال تھا کہ وہ کھجوریں کھاتے تھے اور پانی پیتے تھے۔ رسول اکرمؐ کے گھر کا یہ حال تھا کہ اس میں کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ریاست مدینہ کی داخلہ اور خارجہ پالیسی دولت سے نہیں اصول توحید سے متعین ہورہی تھی۔ ایمان سے وضع ہورہی تھی، ایک طرف وہ لوگ تھے جو اہل ایمان تھے، ان سے تعلق کی نوعیت کچھ اور تھی، دوسری طرف وہ لوگ تھے جو کافر اور مشرکین تھے ان سے تعلق کی صورت کچھ اور تھی۔ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں قیصر و کسریٰ وقت کی دو سپر پاورز تھیں۔ ان کے مال و اسباب کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ان کی مادی ترقی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی تھی۔ اس تناظر میں سیدنا عمرؓ ’’فارن پالیسی‘‘ پرامن بقائے باہمی کی ہونی چاہیے تھا۔ مگر سیدنا عمرؓ نے پرامن بقائے باہمی کے بجائے قیصر و کسریٰ کو چیلنج کردیا اور بالآخر انہیں منہ کے بل گرادیا۔ اس عمل کی پشت پر کوئی ’’دولت مرکز‘‘ خارجہ پالیسی نہ تھی۔ سیدنا عمرؓ کی خارجہ پالیسی ’’اسلام مرکز‘‘ تھی، ’’آخرت مرکز‘‘ تھی۔ ’’جہاد مرکز‘‘ تھی، ’’شہادت مرکز‘‘ تھی۔ بلاشبہ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں مسلمان بھی غریب نہیں رہ گئے تھے مگر بہرحال دولت و ثروت میں وہ قیصر و کسریٰ کے ہم پلہ نہ تھے۔
قائداعظم کے زمانے میں پاکستان دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک تھا مگر قائداعظم کی خارجہ پالیسی کے جلال کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر ہندوستان نے مسلم اقلیت کے ساتھ کوئی ظلم کیا تو پاکستان تماشائی بن کر نہیں رہے گا بلکہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے ہندوستان میں فوجی مداخلت کرے گا۔ یہ بات قائد اعظم اس وقت کہہ رہے تھے جب پاکستان کا خزانہ خالی تھا۔ جب پاکستان کے پاس بہترین فوج تھی نہ بہترین عسکری سازوسامان تھا۔ قائداعظم فلسطین میں عرب مسلمانوں کی حالت زار پر بھی سخت مضطرب تھے۔ فلسطین پاکستان کے لیے ’’دور کا منظر‘‘ تھا اور اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی اس سلسلے میں چپ کا روزہ رکھ لیتی تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں تھی مگر قائداعظم نے ایک بیان میں فلسطینیوں پر توڑے جانے والے مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ اگر ہمیں فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے ’’تشدد‘‘ کا راستہ بھی اختیار کرنا پڑا تو ہم ضرور کریں گے۔ قائداعظم کے ان بیانات سے ثابت ہے کہ اگر قائداعظم زندہ رہتے تو پاکستان کی تمام تر غربت کے باوجود پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہوتی یا صرف اسلام کے تابع ہوتی۔ پاکستان نہ امریکی کیمپ کا حصہ ہوتا نہ کمیونسٹ کلب کا حصہ ہوتا۔ بیچارے بھٹو صاحب خود ایک وڈیرے تھے اور وہ دولت کے اسیر تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ قوموں کی خارجہ پالیسی ان کی دینی غیرت اور تہذیبی حمیت سے متعین ہوتی ہے۔ اقبال نے صاف کہا ہے۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا
زیر بحث موضوع کے حوالے کے عصری دنیا کا جائزہ اور تجزیہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جاپان کو ایک معاشی معجزہ قرار دیا جاتا ہے اور اس بات میں کوئی مبالغہ بھی نہیں۔ جاپان دوسری عالمی جنگ میں تباہ ہوگیا تھا مگر اس نے صرف پچاس سال میں خود کو دنیا کا ایک اہم ملک بنالیا۔ جاپان میں مال و دولت کی فراوانی ہے۔ جاپان امریکا اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ مگر جاپان کی خارجہ پالیسی آزاد نہیں۔ جاپان سیاسی اور عسکری اعتبار سے امریکا کا غلام ہے اور اس کی خارجہ پالیسی الف سے یے تک ’’امریکا مرکز‘‘ ہے۔ کئی سال پہلے پاکستان کے ایک سفارت کار سے ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ ہم جاپانی سفارت کاروں سے ملتے ہیں تو بہت محتاط گفتگو کرتے ہیں۔ ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ جاپان کے اکثر اعلیٰ سفارت کار امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔
اس صورت حال کی وجہ یہ ہے کہ جاپان میں ’’غیرت قومی‘‘ یا اقبال کی اصطلاح میں ’’قومی خودی‘‘ پر اصرار کا فقدان ہے۔ کینیڈا رقبے کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اس کی معیشت ترقی یافتہ ہے۔ کینیڈا کی فی کس آمدنی 47 ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر سو ارب ڈالر سے زیادہ ہیں مگر اس کے باوجود کینیڈا کی خارجہ پالیسی آزاد نہیں بلکہ کینیڈا کی خارجہ پالیسی کو عملاً امریکا چلاتا ہے۔ برطانیہ دنیا کے 8 ترقی یافتہ ملکوں میں سے ایک ہے۔ اس کی مجموعی قومی پیداوار ڈھائی ہزار ارب ڈالر ہے مگر برطانیہ کی خارجہ پالیسی کی آزادی کا یہ عالم ہے کہ بش کے زمانے میں برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر کو بش کا کتا یا اس کا پلّا کہا جاتا تھا۔ یورپی یونین یورپ کے 28 ترقی یافتہ ملکوں کا کلب ہے۔ امریکا، چین اور روس کے بعد یورپ معاشی اعتبار سے سب سے امیر ہے۔ مگر پورے یورپ کی حکومت آزاد خارجہ پالیسی نہیں۔ یورپ ہر مسئلے پر امریکا کی طرف دیکھتا ہے۔ امریکا کہتا ہے کہ چین سے تعلقات بہتر بنائو تو یورپ تعلقات کو بہتر بنالیتا ہے۔ امریکا کہتا ہے چین کے ساتھ تعلقات کو سرد کرلو تو یورپ چین کے ساتھ تعلقات کو سرد کرلیتا ہے۔ اس کے برعکس ملاعمر کا افغانستان دنیا کا غریب ترین ملک تھا مگر ملا عمر اور افغان قوم کی دینی غیرت زندہ تھی۔ چناں چہ امریکا، یورپ اور پاکستان کے دبائو کے باوجود ملاعمر نے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ یہ حقائق بتارہے ہیں بھٹو صاحب کا تاریخی شعور کتنا ناپختہ تھا۔