سیاست انبیا کا ورثہ اور ایک ’’عبادت‘‘ ہے، لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسے ’’غلاظت‘‘ بنادیا گیا ہے۔ امام غزالیؒ نے ’احیاء العلوم‘ میں لکھا ہے کہ سیاست دین کے تابع ہے۔ ابن خلدون نے اپنے مشہورِ زمانہ مقدمے میں فرمایا ہے کہ اسلامی ریاست میں سیاست دین کا حصہ ہے۔ اقبال کا مشہورِ زمانہ شعر ہے:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
عہدِ حاضر کے مجدد مولانا مودودیؒ کی پوری سیاست دین مرکز تھی۔ انہوں نے جماعت اسلامی بنائی تو دین کے غلبے کی جدوجہد کے لیے۔ قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک امت کا تصور پیش کیا ہے، لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، بڑے سیاست دانوں اور بڑی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ پاکستانی قوم کو ’’گٹر سیاست‘‘ کا تحفہ دیا ہے۔ یہ گٹر سیاست 1971ء میں آدھا ملک نگل گئی، اور باقی آدھے ملک کا حال اب گٹر سیاست کی وجہ سے ابتر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست ایک ایسا حمام ہے جس میں سب ننگے ہیں۔
دنیا کی حالیہ تاریخ میں سیاست کسی نہ کسی نظریے کی تابع ہے۔ سوویت یونین اور چین کی سیاست سوشلزم کے تابع تھی اور ہے۔ امریکہ اور یورپ کی سیاست آزادی، جمہوریت اور مساوات کے تابع ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاست کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، اور اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں۔ مگر بھٹو صاحب کی سیاست نہ اسلام کی پابند تھی، نہ بھٹو صاحب نے کبھی اپنی جماعت میں جمہوریت کو داخل ہونے دیا، نہ انہوں نے کبھی سوشلزم سے حقیقی معنوں میں محبت کی اور نہ انہوں نے کبھی عوام کو حقیقی معنوں میں اقتدار کا سرچشمہ خیال کیا۔ وہ ایسا کرتے تو اپنے خلاف برپا ہونے والی عظیم الشان عوامی جدوجہد انہیں نظر آتی اور وہ پی این اے کے ساتھ مذاکرات مذاکرات کا کھیل نہ کھیلتے بلکہ جلدازجلد سمجھوتا کرکے نئے انتخابات کی راہ ہموار کرتے۔
پاکستان کے جرنیلوں کا بھی کوئی نظریہ نہیں۔ جنرل ایوب خان نے سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بناکر اقتدار پر قبضہ کیا تھا، مگر وہ دس سال کے بعد اقتدار سے رخصت ہوئے تو ملک پہلے سے زیادہ سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا۔ جنرل ایوب کو سیاسی جماعتوں سے نفرت تھی۔ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائے رکھی، مگر جب ضرورت پڑی تو کنونشن لیگ بناکر کھڑی کردی۔ جنرل ضیا الحق نے بھی سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بناکر اقتدار پر قبضہ کیا، مگر گیارہ سال کے بعد طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے کے نتیجے میں اُن کا اقتدار ختم ہوا تو ملک میں کہیں سیاسی استحکام نہ تھا۔ جنرل ضیا کو بھی سیاسی جماعتوں سے نفرت تھی، وہ انہیں خلافِ اسلام قرار دیا کرتے تھے، مگر جب ضرورت پڑی تو انہوں نے جونیجو لیگ تخلیق کر ڈالی، مگر وہ اپنی تخلیق کی ہوئی جماعت اور اپنے تخلیق کیے ہوئے وزیراعظم جونیجو کو بھی ہضم نہ کرسکے اور انہوں نے دو ڈھائی سال میں جونیجو کو اقتدار سے برطرف کردیا۔ جنرل پرویز بھی عدم استحکام کی صورتِ حال کو جواز بناکر اقتدار میں آئے تھے اور انہیں بھی سیاسی جماعتیں پسند نہ تھیں، مگر ضرورت پڑی تو انہوں نے بھی قاف لیگ بنا ڈالی۔ میاں نوازشریف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نواز لیگ کے سربراہ ہیں۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ میں اب نظریاتی ہوگیا ہوں، مگر اُن کا نظریہ کیا ہے یہ بات آج تک راز ہے۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ وہ ہرگز بھی ’’اسلامسٹ‘‘ نہیں ہیں، انہوں نے کھل کر اپنے ’’سیکولر‘‘ ہونے کا بھی اعلان نہیں کیا ہے، جیسا کہ ظاہر ہے وہ ’’سوشلسٹ‘‘ بھی نہیں ہیں، اس تناظر میں ہم کئی بار عرض کرچکے ہیں کہ میاں صاحب نظریاتی شخصیت نہیں، صرف ’’نظر آتی شخصیت‘‘ ہیں۔ عمران خان ریاست مدینہ کا دعویٰ لے کر کھڑے ہیں، مگر ان کی پارٹی میں کہیں دین داری موجود نہیں، ان کی پارٹی میں فواد چودھری اور شیریں مزاری جیسے لوگ نمایاں ہیں، اور یہ لوگ اپنے لبرل ازم کو چھپاتے نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کو ان افراد کے لبرل ازم پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔
پاکستان کے تمام بڑے سیاسی راہنما دن رات جمہوریت، جمہوریت کرتے رہتے ہیں، مگر ملک میں جماعت اسلامی کے سوا کسی جماعت میں جمہوریت موجود نہیں۔ بھٹو صاحب جمہوریت کا نعرہ لگاتے تھے۔ وہ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل تھے، مگر بھٹو صاحب جب تک زندہ رہے انہوں نے پیپلزپارٹی میں جمہوریت کو داخل نہیں ہونے دیا۔ بے نظیر بھی جمہوریت کی چیمپئن تھیں، مگر وہ جب تک زندہ رہیں پارٹی میں انتخابات کراکے نہ دیے۔ بلاول اور آصف علی زرداری بھی جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں مگر ان دونوں نے بھی کبھی پیپلزپارٹی میں جمہوریت کو قدم رکھنے نہیں دیا ہے۔ میاں نوازشریف جمہوریت کے ’’عاشق‘‘ ہیں، مگر وہ خود اپنی جماعت میں انتخابات کراکے ووٹ کو عزت دینے کے لیے تیار نہیں۔ انہیں ووٹ صرف وہی اچھا لگتا ہے جو انہیں یا اُن کی بیٹی اور پارٹی کو اقتدار میں لائے۔ عمران خان بھی جمہوریت، جمہوریت کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی جماعت میں انتخابات کرائے اور جسٹس (ر) وجیہ کو نگراں مقرر کیا۔ جسٹس (ر) وجیہ نے انتخابات کو ناقص قرار دیتے ہوئے نئے انتخابات کرانے کی تجویز دی۔ عمران خان نے اُن کی تجویز کو تسلیم کرنے کے بجائے انہیں ہی پارٹی سے نکال دیا۔ ایم کیو ایم پہلے دن سے ایک فسطائی جماعت تھی، وہ آج بھی ایک غیر جمہوری تنظیم ہے اور اس کے جمہوری بننے کا بھی کوئی امکان نہیں۔ جمعیت علمائے اسلام پر پہلے مفتی محمود کی حکمرانی تھی، اب اُن کے فرزند مولانا فضل الرحمن کی حکمرانی ہے۔ وہ نہیں ہوں گے تو ان کے فرزند یا بھائی پارٹی کے سربراہ ہوں گے۔
غور سے دیکھا جائے تو اِس وقت ملک کا جو سیاسی منظرنامہ ہے وہ بھی سیاست کے حمام میں سب کے ننگے ہونے کا اشتہار ہے۔ یہ سیاست کا ایک بنیادی تصور ہے کہ جب ایک حکومت ناکام ہوتی ہے تو صرف ایک حکومت ناکام ہوتی ہے، جب تین چار حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو سیاسی جماعتیں ناکام ہوتی ہیں، مگر جب ہر حکومت ناکام ہونے لگے تو ریاست کے ناکام ہونے کا تاثر پیدا ہوجاتا ہے۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے کو اس بات کی کوئی پروا ہی نہیں ہے۔ ایک وقت تھا کہ ملک کے سیاسی نظام پر 58(2)B کی تلوار لٹکی ہوئی تھی۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کی دو دو حکومتیں آئین کی اسی دفعہ کی نذر ہوگئیں۔ اُس زمانے میں جو حکومت آتی تو لگتا تھا جانے کے لیے آئی ہے۔ بدقسمتی سے اِس وقت عمران خان کی حکومت کا حال بھی یہی ہے۔ اسے آئے ہوئے صرف ساڑھے تین سال ہوئے ہیں مگر لگ رہا ہے کہ وہ 30سال سے ملک پر مسلط ہے۔ 58(2)B ویسے تو آئین کا حصہ تھی مگر اسے آئین کا حصہ جنرل ضیا الحق نے بنایا تھا، اور اسٹیبلشمنٹ نے آئین کی اس دفعہ کو ہمیشہ سیاسی حکومتوں کے خلاف استعمال کیا۔ اس وقت عمران خان کی حکومت جس بحران میں مبتلا نظر آتی ہے وہ بھی ان معنوں میں اسٹیبلشمنٹ کا تخلیق کردہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے خود کو ’’نیوٹرل‘‘ بنالیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عمران خان کے اتحادی رسّا تڑا کر بھاگ رہے ہیں۔ قاف لیگ ہی نہیں ایم کیو ایم بھی حزبِ اختلاف سے مذاکرات کررہی ہے۔ قاف لیگ کے رہنما پرویزالٰہی کہہ چکے ہیں کہ نواز لیگ انہیں پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے کے لیے ووٹ دے گی اور قاف لیگ شہبازشریف کو وزیراعظم بنانے کے لیے ووٹ ڈالے گی۔ اگرچہ پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ ابھی انہوں نے تحریک انصاف کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ان کا حزبِ اختلاف سے کوئی سمجھوتا نہیں ہوا ہے۔ لیکن قاف لیگ کی غیر اصولی سیاست نے عمران خان کی حکومت کی بنیادوں کو ہلا دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان پر کوئی اصولی اعتراض نہیں۔ تمام سیاسی مبصرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان فاصلے اس لیے پیدا ہوئے کہ عمران خان نے آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کے تقرر کے عمل میں مداخلت کی اور انہوں نے پنجاب کے وزیراعلیٰ بزدار کو ہٹانے کے سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کو قبول نہیں کیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کا تقرر آرمی چیف کا اختیار ہے یا وزیراعظم کا؟ اگر یہ اختیار آئین نے وزیراعظم کو دیا ہے تو آرمی چیف اس سلسلے میں وزیراعظم کے اعتراض کو فوج کے معاملات میں مداخلت کس طرح باور کرا سکتے ہیں؟ جہاں تک بزدار کا تعلق ہے تو اُن کا تقرر بھی وزیراعظم کا آئینی اور سیاسی حق ہے۔ ویسے بزدار کا سب سے بڑا عیب یہ نہیں ہے کہ وہ نااہل ہیں، بلکہ ان کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ وہ ’’سرائیکی‘‘ ہیں، اور پنجاب یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ ایک سرائیکی اس پر حکومت کرے۔
موجودہ سیاسی منظرنامے کا ایک پہلو یہ ہے کہ حزبِ اختلاف نے پی ٹی آئی کے دس سے بارہ اراکینِ قومی اسمبلی کو اسلام آباد کے سندھ ہائوس میں پناہ دے دی ہے۔ قاف لیگ کے رہنما پرویزالٰہی نے اس سلسلے میں عمران خان سے کہا ہے کہ وہ پہلے ان اراکین کو بازیاب کرائیں۔ لیکن تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ سندھ ہائوس میں دس بارہ نہیں بلکہ تیس سے زیادہ اراکینِ قومی اسمبلی موجود ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ منتخب لوگوں کے ضمیر کو خریدا جارہا ہے، نوٹوں سے بھری بوریاں سندھ ہائوس لائی گئی ہیں اور ایک ایک رکنِ اسمبلی کو بیس، بیس کروڑ روپے کی آفر کی جارہی ہے۔ دیکھا جائے تو حزب ِاختلاف ہی نہیں، خود عمران خان بھی اس صورتِ حال کے ذمے دار ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ عمران خان کہا کرتے تھے کہ وہ سرمائے اور الیکٹ ایبلز کی سیاست نہیں کریں گے۔ مگر گزشتہ انتخابات سے ذرا پہلے انہوں نے روزنامہ ڈان کراچی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میرا مقصد اقتدار میں آنا ہے، چنانچہ میں سرمائے کی سیاست بھی کروں گا اور الیکٹ ایبلز کی سیاست بھی کروں گا۔ ظاہر ہے کہ سرمائے اور الیکٹ ایبلز کی سیاست کرنے والوں میں ضمیر اور وفاداری نہیں ہوتی، چنانچہ اب تحریک انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی اگر فروخت ہورہے ہیں اور اپنے ضمیر کا سودا کررہے ہیں تو عمران خان کس منہ سے اس بات پر اعتراض کررہے ہیں؟ اگر عمران خان نے اصولی پارٹی بنائی ہوتی، اصولی سیاست کی ہوتی تو آج ان کے سارے منتخب نمائندے ان کے ساتھ ہوتے۔ دوسری طرف حزبِ اختلاف کا معاملہ یہ ہے کہ اگر عمران خان نے حزبِ اختلاف کے اراکین کو توڑ لیا ہوتا تو نواز لیگ، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتا۔ وہ کہہ رہے ہوتے کہ عمران خان نے سیاست کو کرپٹ کردیا ہے، اسے گٹر بنادیا ہے، وہ لوگوں کے ضمیرخرید رہے ہیں، ان کی وفاداری کا سودا کررہے ہیں۔ میاں نوازشریف، شہبازشریف اور مریم نواز ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے رہے ہیں مگر اب وہ تحریک انصاف کے لوگوں کو توڑ کر تحریک انصاف کے ووٹ کم کررہے ہیں اور ووٹ کی تذلیل کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اس عمل میں مولانا فضل الرحمن اپنے اسلام سمیت شامل ہیں۔ معلوم نہیں یہ کون سا اسلام ہے جو لوگوں کے ضمیر خریدنے کو حلال قرار دیتا ہے! اس فضا میں شہبازشریف نے پی ٹی آئی کے بغیر قومی حکومت کے قیام کا نعرہ فضا میں اچھال دیا ہے۔ یہ نعرہ بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا نعرہ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دینے والی نواز لیگ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کی زبان بول رہی ہے۔ موجودہ سیاسی منظرنامے کا ایک پہلو یہ ہے کہ عمران خان نے 27 مارچ کو ڈی چوک میں دس لاکھ لوگ جمع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری جانب حزبِ اختلاف نے 25 مارچ سے لاکھوں لوگوں کو اسلام آباد میں جمع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ کم و بیش وہی صورت حال ہے جو 1977ء میں پیدا ہوئی تھی اور جس کا نتیجہ مارشل لا کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ یہ سطور 17 مارچ 2022ء کو رقم کی جارہی ہیں، اور 17 مارچ کی ایک اطلاع یہ ہے کہ حکومت نے 21 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ اس کا مقصد پی ٹی آئی کے منحرف یا اغوا شدہ اراکین کی رکنیت کو ڈی نوٹی فائی کرنا بتایا جارہا ہے۔ اس پورے منظرنامے میں تمام بڑی سیاسی قوتیں کمزور بن کر ابھر رہی ہیں۔ اس منظرنامے میں صرف ایک قوت فیصلہ کن بن کر ابھر رہی ہے اور وہ سے اسٹیبلشمنٹ۔ اسٹیبلشمنٹ آج بھی عمران خان کی طرف مائل ہوجائے تو حزب ِاختلاف کی تحریکِ عدم اعتماد ناکام بھی ہوسکتی ہے اور واپس بھی لی جاسکتی ہے۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ سیاسی عدم استحکام ملک و قوم اور معیشت کے لیے ضرررساں ثابت ہوگاُ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ ان سطور کی اشاعت تک سیاسی فضا کی گرمی کو کم کرنے کے لیے کردار ادا کرسکتی ہے۔
لیکن یہ بات ان سطور کی تحریر کے وقت محض ایک امکان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت کے سیاسی بحران کا تعلق اسٹیبلشمنٹ ہی سے ہے۔ عامر لیاقت کے ویڈیو بیان سے ظاہر ہے کہ مسئلہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا ہے۔ عمران خان بظاہر جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر آمادہ نہیں اور وہ اُن کی جگہ کسی اور کو لانا چاہتے ہیں، چنانچہ 22 مارچ کی شام تک جس وقت یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں، معاملات ’’معلق‘‘ ہیں۔ امکان ہے کہ جو کچھ ہوگا 25 مارچ اور 27 مارچ کے درمیان ہوگا۔ عمران خان کے اب تک کے مؤقف اور بیانات سے ظاہر ہورہا ہے کہ وہ اگر اقتدار سے محروم کردیئے گئے تو بھی وہ شکست تسلیم نہیں کریں گے اور مزاحمت کرتے ہوئے ’’سیاسی شہید‘‘ کے مرتبے پر فائز ہوں گے۔