سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی میگزین ’دی اٹلانٹک‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اسرائیل کو دشمن ملک کے طور پر نہیں بلکہ ایک اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم اور اسرائیل مل کر مشترکہ مفادات حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فلسطین اور اسرائیل کا تنازع جلد حل ہوجائے گا۔ سعودی ولی عہد نے الزام لگایا کہ شدت پسندوں نے ہمارے مذہب کو ہائی جیک کیا اور اسے اپنے مفادات کے لیے تبدیل کیا، اس سے شیعہ اور سنی دونوں گروہوں میں دہشت گردوں کی تخلیق ہوئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب ہم اصل اسلامی تعلیمات کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ (روزنامہ جسارت کراچی، 5 مارچ 2022ء)
مغرب کے دانش ور بیسویں صدی کے اوائل میں فرمایا کرتے تھے کہ اسلام دنیا کو جو کچھ دے سکتا تھا اس نے دے دیا، اب اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں، چنانچہ اسلام کا نہ کوئی حال ہے نہ مستقبل۔ لیکن 20 ویں صدی کا سفر جیسے جیسے آگے بڑھا، اسلام دنیا کے نقشے پر ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا۔ 20 ویں صدی کے اوائل میں حسن البنا نے اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی اور اسے ایک احیائی تحریک میں ڈھال دیا۔ اخوان کے احیائی کردار نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم عرب کو اپنے حصار میں لے لیا۔ 20 ویں صدی کے آغاز میں برصغیر انگریزوں کا غلام تھا اور مغربی تہذیب کی مزاحمت کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا، مگر اس فضا میں اکبر الٰہ آبادی کی توانا اور مزاحمتی آواز بلند ہوئی:
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اُڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے
……٭٭٭……
ہم ایسی کُل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
……٭٭٭……
نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جنابِ ڈارون کو حضرتِ آدم سے کیا مطلب
……٭٭٭……
خدا کی ہستی پہ شبہ کرنا اور اپنی ہستی کو مان لینا
پھر اس پہ طرہ اس ادعا کا کہ ہم ہیں اہلِ شعور ایسے
اکبر کی عظمت یہ ہے کہ اقبال جیسی شخصیت نے اُن کے انتقال کے بعد اُن کے بیٹے کے نام جو خط لکھا اس میں کہاکہ پورے ایشیا میں آپ کے والد کی طرح کی کوئی دوسری شخصیت موجود نہیں۔ یہ اکبر کی پوری تعریف نہیں تھی، اس لیے کہ اکبر کی شاعری کی مثال پورے عالمی ادب میں کہیں موجود نہیں۔ اکبر کی شاعری کا خمیر تہذیبوں کے موازنے بلکہ تہذیبوں کے تصادم سے اٹھا تھا، اور اکبر کا کمال یہ تھا کہ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ جو جنگ میدانِ جنگ میں ہار گئی تھی اکبر نے وہ جنگ اپنی شاعری میں جیت کر دکھا دی۔ انہوں نے عقائد سے لے کر نظریات تک، نظریات سے لے کر سماجیات تک، اور سماجیات سے لے کر اشیا تک مغربی تہذیب پر اسلامی تہذیب کی برتری کو ثابت کیا ہے۔
اکبر کے بعد برصغیر کے تخلیقی افق پر اقبال کا ظہور ہوا۔ اقبال نے اپنی ظریفانہ شاعری میں اکبر کا طالب علمانہ تتبع کیا۔ مگر اقبال کا تخلیقی وفور صرف ظریفانہ شاعری تک محدود نہ رہا، ان کی شاعری دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی عظمت کا پرچم بن کر ابھری۔ اقبال نے مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اس سلسلے میں اقبال کی نظم ’1907ء‘ ایک معرکہ آرا نظم ہے:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہو گا
کبھی جو آمادۂ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا
سفینۂ برگِ گل بنا لے گا قافلہ مورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا کے پار ہو گا
اقبال یہ باتیں اُس وقت کررہے تھے جب پورا عالمِ اسلام غلام تھا اور مغربی تہذیب کا سورج نصف النہار پر تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال کا وژن ٹھیک تھا، اسلام کے احیا کا سفر بیسویں صدی میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھا۔
اقبالؒ کے بعد برصغیر میں مولانا مودودیؒ منظرعام پر طلوع ہوئے۔ انہوں نے عہدِ غلامی میں مسلمانوں سے باآوازِ بلند کہا ’’قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو‘‘۔ مولانا مودودیؒ نے کمیونزم اور مغربی تہذیب کے غلبے کے عہد میں کہا ’’ایک وقت آئے جب کمیونزم ماسکو میں تنہا ہوگا۔ ایک وقت آئے گا جب مغرب کے لبرل ازم کو لندن اور پیرس میں پناہ نہیں ملے گی‘‘۔ اقبالؒ ایک فرد تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں One Man Army بنادیا۔ مولانا مودودیؒ بھی صرف ایک فرد تھے مگر وہ بھی One Man Army بن کر ابھرے۔ مولانا نے اپنی دنیا آپ پیدا کرکے دکھائی۔ ان کی کوئی جماعت نہیں تھی، انہوں نے اپنی جماعت خلق کی، ان کا کوئی لٹریچر نہیں تھا، انہوں نے اپنا لٹریچر پیدا کیا۔ ان کے لٹریچر کے قاری نہیں تھے، مولانا نے اپنے لٹریچر کے کروڑوں قاری پیدا کیے۔ مولانا کے تقویٰ، علم، اخلاص اور خدا پرستی نے مولانا کے علم میں برکت پیدا کی، اور مولانا کی کتب دنیا کی 75 زبانوں میں ترجمہ ہوکر پوری دنیا میں پھیل گئیں۔ ان تمام حقائق نے ثابت کیا کہ اسلام آج بھی ایک زندہ قوت ہے اور وہ دنیا کو بدل دینے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ امر بھی بیسویں صدی ہی کا حصہ ہے کہ برصغیر میں اسلام کے نام پر پاکستان کے نام سے ایک عظیم الشان مملکت وجود میں آئی۔ دو عالمی جنگوں نے یورپ کی استعماری طاقتوں کے کس بل نکال دیئے اور وہ اپنے مقبوضات پر قبضے کو برقرار رکھنے کے قابل نہ رہیں، چنانچہ بیسویں صدی درجنوں مسلم ریاستوں کی آزادی کی صدی بن گئی۔ اس وقت دیکھا جائے تو امتِ مسلمہ ایک شاندار اور طاقت ور ترین امت ہے۔ اس امت کے پاس 57 آزاد ریاستیں ہیں۔ اس امت کی آبادی ایک ارب 80 کروڑ ہے۔ اس امت کے پاس تیل کے معلوم ذخائر کا 60 فیصد اور گیس کے معلوم ذخائر کا 70 فیصد موجود ہے۔ اس امت کے پاس اہم ترین بندرگاہیں ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس امت کے پاس وہ دین ہے جس کے جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت نے بیسویں اور اکیسویں صدی میں وقت کی دو سپر پاورز کو بدترین شکست سے دوچار کیا ہے، لیکن اس کے باوجود روئے زمین پر امتِ مسلمہ کا کوئی وزن نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اس صورت حال کی وجہ امتِ مسلمہ پر مسلط حکمران ہیں۔ یہ حکمران اسلام اور امتِ مسلمہ دونوں کے غدار ہیں۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ امت ِ مسلمہ کے پاس 57 آزاد ریاستیں ہیں مگر ان ریاستوں میں سے کسی میں اسلام غالب نہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا، اور پاکستان کا آئین اسلامی ہے، مگر ریاست کے کسی بھی شعبے میں اسلام غالب حقیقت نہیں ہے۔ اسلام سود کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ قرار دیتا ہے اور پاکستان میں سودی نظام جاری و ساری ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں کہیں اسلام موجود نہیں، ہمارے تعلیمی نظام میں ابھی تک اسلام کو مرکزیت حاصل نہیں، ہمارے ذرائع ابلاغ پر عریانی و فحاشی کا سیلاب آیا ہوا ہے، رشوت ہمارے قومی وجود میں خون بن کر دوڑ رہی ہے، بدعنوانی نے ہمارے پورے سیاسی نظام کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما چور اور ڈاکو ہیں۔ کہنے کو ہم آزاد ہیں، مگر ہمارا دفاع امریکہ مرکز ہے، ہماری معیشت آئی ایم ایف کی مٹھی میں ہے، ہم اپنا بجٹ بھی خود نہیں بنا سکتے، ہمارا اسٹیٹ بینک امریکی اشاروں پر چل رہا ہے اور اس کا سربراہ ایک ’’درآمدی شے‘‘ ہے۔
سعودی عرب مسلم دنیا کا اہم ترین ملک ہے۔ سعودی عرب میں مکہ ہے، مدینہ ہے۔ مگر سعودی ولی عہد کا مکے اور مدینے کے تصور سے کوئی علاقہ نہیں۔ وہ اسرائیل کو ’’دشمن‘‘ کے بجائے ’’اتحادی‘‘ قرار دے رہے ہیں، حالانکہ اسرائیل صرف سعودی عرب کا نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا دشمن ہے۔ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، اس نے 75 سال میں لاکھوں فلسطینیوں کو قتل اور جلاوطن کیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بنادیا ہے۔ اس نے غزہ کا بجلی اور پانی کا نظام تک تباہ کردیا ہے۔ حد یہ ہے کہ اس نے نکاسیِ آب کے نظام کو بھی محفوظ نہیں رہنے دیا۔ مگر سعودی عرب کے ولی عہد کی ہمدردیاں مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ نہیں بلکہ ظالم اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ وہ انہیں سعودی عرب کیا، پورے عالم عرب کا اتحادی نظر آرہا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اخوان المسلمون عالمِ عرب کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھتی ہے اور وہ دہشت گردی کی ایک واردات میں بھی ملوث نہیں، مگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اسے ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے دیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے پہلا شاہ فیصل ایوارڈ حاصل کیا تھا، مگر اب سعودی عرب میں مولانا کی کتب پر پابندی لگادی گئی ہے۔ حد یہ ہے کہ تبلیغی جماعت جس کا ریاست و سیاست اور جہاد سے کوئی تعلق نہیں، وہ بھی پابندیوں کی زد میں آگئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ پوری عرب اور مغربی دنیا نے یاسر عرفات کو مجبور کیا کہ وہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو تسلیم کرلیں۔ یاسر عرفات نے اپنے ماضی کو پسِ پشت ڈال کر فلسطین کے دو ریاستی حل کو تسلیم کرلیا۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ اوسلو میں امن سمجھوتے پر دستخط کردیئے، مگر اسرائیل نے صرف ایک سال میں اوسلو سمجھوتے کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اُس نے یاسر عرفات کو تین سال تک اپنے محاصرے میں رکھا اور انہیں زہر دے کر مار ڈالا، مگر اس کے باوجود محمد بن سلمان فرما رہے ہیں کہ اسرائیل دشمن نہیں، سعودی عرب کا اتحادی ہے۔ اقبال کا شعر یاد آیا:
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
سعودی عرب کے ولی عہد کا یہ بیان بھی درست نہیں کہ اسلام کو انتہا پسندوں نے ہائی جیک کرلیا۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام کو مسلم دنیا کے بادشاہوں، جرنیلوں اور سول آمروں نے ہائی جیک کیا ہوا ہے۔ انہوں نے ایسا اس لیے کیا ہے کہ اسلام میں نہ بادشاہت کی گنجائش ہے، نہ فوجی اور سول آمریت کی۔ اسلام آئے گا تو نہ بادشاہت رہے گی نہ فوجی اور سول آمریت کا سکہ چلے گا۔ چنانچہ مسلم دنیا کے حکمران اسلام کے امکانات پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسلام اور امتِ مسلمہ سے مسلم حکمرانوں کی غداری کی ایک وجہ یہ ہے۔ اسلام اور امتِ مسلمہ سے مسلم حکمرانوں کی غداری کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کا ہر حکمران امریکہ یا یورپ کا آلۂ کار ہے۔ اس سلسلے میں بادشاہ، فوجی آمر اور سول آمر کی کوئی تخصیص نہیں۔ مغرب بظاہر جمہوریت کی بات کرتا ہے، مگر اُس نے گزشتہ 70 سال میں کبھی عرب بادشاہوں کی بادشاہت پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسلم دنیا کی اسلامی تحریکیں انتخابات میں فتح یاب ہوتی ہیں تو مغرب ان کی فتح کو قبول ہی نہیں کرتا۔ الجزائر میں اسلامی فرنٹ کی دوتہائی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ترکی میں نجم الدین اربکان کی حکومت کو ایک سال میں گرا دیا گیا۔ فلسطین میں حماس کی انتخابی کامیابی کو قبول نہیں کیا گیا۔ مصر میں صدر مرسی کے خلاف جنرل سیسی سے بغاوت کرادی گئی۔ اس کا سبب مغرب کا یہ خوف ہے کہ کہیں اسلامی تحریکیں ان کے ایجنٹوں کا ’’متبادل‘‘ نہ بن جائیں، کہیں وہ عالمِ اسلام کو اس کی کھوئی ہوئی عظمت واپس نہ دلادیں، کہیں وہ عالم اسلام کو مغرب کے ناپاک اثرات سے پاک نہ کردیں۔