ہماری دنیا کا سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ اس میں محبت کا کال پڑ گیا ہے۔ محبت کا یہ کال ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم بار بار محبت کی طرف پلٹیں۔ اسے دیکھیں، سمجھیں اور اس کے بارے میں گفتگو کریں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ محبت کیا ہے؟
ایک فقرے میں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ محبت انسان کا حقیقی پن ہے، اس کی Originality ہے۔ انسان کا ماحول اسے غیر حقیقی بنادیتا ہے۔ محبت انسان کے غیر حقیقی پن کو زائل کرکے اس کا حقیقی پن بحال کردیتی ہے۔ اقبال نے کہا ہے؎
عقل عیّار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملّا ہے نہ زاہد نہ حکیم
اقبال کہہ رہے ہیں کہ عقل کا مسئلہ ظاہر ہے Appearance ہے۔ اسے معلوم ہے کہ انسانوں کی بڑی تعداد کے نزدیک اصل اہمیت ظاہر کی ہے۔ چناں چہ وہ کہیں انسان کو ملّا بنا کر کھڑا کردیتی ہے، کہیں زاہد اور حکیم کا روپ دھارنے پر مجبور کردیتی ہے۔ لیکن اس کے مقابلے پر عشق کا مسئلہ ظاہر نہیں ہے۔ اس کا مسئلہ باطن ہے، اس کی اصلیت ہے۔ چناں چہ محبت اپنی موجودگی اور اظہار میں سادہ ہوتی ہے۔ فطری اور برجستہ ہوتی ہے۔ وہ جو کچھ ہوتی ہے اسے اس کے سوا کچھ اور بننے سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ محبت سوانگ نہیں بھرتی، اداکاری نہیں کرتی، وہ کسی کو مرعوب نہیں کرنا چاہتی۔ وہ ملّا، زاہد یا حکیم ہوسکتی ہے مگر اس کے لیے ان چیزوں کی نوعیت عہدے یا منصب کی نہیں ہوتی۔ اسے ان کرداروں کی سماجیات اور معاشیات سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ محبت کی یہ سادگی ہی انسان کا حقیقی پن ہے۔ محبت کو اپنی یہ سادگی اکثر مہنگی پڑتی ہے۔ سلیم احمد کا ایک شعر ہے ؎
کفن سے دوسروں کے جو سلاتے ہیں لباس اپنا
وہ جذبے ہنس رہے ہیں عشقِ سادا کی لنگوٹی پر
انسان کا ایک جذبہ نفرت ہے، اور یہ جذبہ دوسرے انسان کی موت کی آرزو کرتا ہے۔ انسان کا ایک جذبہ حسد ہے یہ جذبہ دوسرے انسان کے کمال کو زوال میں ڈھلتے دیکھنا چاہتا ہے۔ ان جذبات کی ساری شدت کسی نہ کسی منفی خیال سے ماخوذ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس محبت اپنی قوت اور اپنی توانائی سے زندہ رہتی ہے۔ وہ قرض، ادھار یا لوٹ مار کی روشنی پر گزارا نہیں کرتی۔ چناں چہ منفی جذبے محبت کی یہ سادگی دیکھتے ہیں تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ نفرت کہتی ہے: میرا لباس دیکھو، اس کا ڈیزائن پیرس سے آیا ہے۔ حسد کہتا ہے: میرا لباس ہالی ووڈ کی عطا ہے۔ مگر محبت کے لیے ان باتوں میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔ وہ اپنے آپ سے مطمئن اور اپنے آپ میں مگن ہوتی ہے۔ اس لیے کہ وہ کھوٹی نہیں، کھری ہے۔ بلاشبہ محبت سادہ ہوتی ہے مگر اس کا اظہار ہمیشہ سادہ نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو محبت نہیں ہوتی، انہیں محبت کا دھوکا لاحق ہوجاتا ہے۔
دوستو فسکی نے اپنے معرکہ آرا ناول کرامازوف برادران میں ایک صوفی یا Saint کا ذکر کیا ہے۔ اسے انسانوں سے محبت تھی۔ ایک بار ایک ایسا شخص اس کے پاس آیا جو خستہ حال تھا۔ اس کے ہونٹ پھٹے ہوئے تھے اور ان میں پیپ پڑی ہوئی تھی۔ بھوک اور سردی سے اس کا برا حال ہورہا تھا۔ سینٹ نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے اپنے لحاف میں گھسالیا اور خود سے چمٹا لیا۔ یہاں تک کہ وہ اس کو منہ کے ذریعے اپنی سانس سے حرارت فراہم کرنے لگا۔ دوستو فسکی کے ناول کا ایک کردار یہ واقعہ سنتا ہے تو کہتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے کسی احساس گناہ کی وجہ سے دوسروں سے محبت کرتے ہیں، اسی طرح کچھ لوگوں کے لیے محبت محض ایک فرض اور اس کی ادائیگی ہوتی ہے۔ یہ سن کر دوسرا کردار کہتا ہے کہ تمہاراخیال درست نہیں، سینٹ کی محبت حقیقی تھی۔ خدا یسوع مسیح انسانوں سے ایسی ہی محبت کرتے تھے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کی محبت کی پشت پر واقعتاً کوئی احساس گناہ یا فرض کھڑا ہوسکتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انبیا و مرسلین اور ان کے وارثوں نے انسانوں سے حقیقی محبت کی ہے اور آج بھی ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو انسانوں سے حقیقی محبت کرتے ہیں۔ البتہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو انسانیت سے تو محبت کرتے ہیں مگر فرد سے محبت نہیں کرتے۔ اس کی وجہ ہے۔ انسانیت ایک مجرد تصور ہے اور اس سے محبت آسان ہے۔ اس
لیے کہ اس محبت پر الفاظ کے سوا کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ لیکن فرد کوئی مجرد تصور نہیں، وہ ہمارا ٹھوس مشاہدہ اور تجربہ ہوتا ہے۔ یہ فرد اپنا بھی ہوسکتا ہے اور غیر بھی۔ لیکن یہ جو کچھ ہو، ہوتا بہر حال حقیقی ہے۔ اس کے مطالبات ہوتے ہیں، تقاضے ہوتے ہیں، اس کی خواہشات ہوتی ہیں، اس میں کمزوریاں ہوتی ہیں، وہ تکلیف دیتا ہے، اذیت میں مبتلا کرتا ہے۔ چناں چہ فرد سے محبت کرنا آسان نہیں۔ لیکن جب انسان فرد سے واقعتاً محبت کرنے لگتا ہے تو اس کی محبت کامل ہوجاتی ہے۔ ہماری تاریخ ایسی کامل محبتوں کے قصوں سے بھری ہوئی ہے۔ موت انسان کے سامنے کھڑی ہو تو اسے اپنے سوا کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ لیکن ایک غزوے میں تین صحابہ زخمی ہوگئے اور انہیں شدید پیاس محسوس ہوئی۔ ایک شخص ایک صحابی کو پانی پلانے پہنچا تو دوسرے زخمی نے پانی طلب کیا۔ پہلے صحابی نے پانی پلانے والے سے کہا کہ جائو پہلے انہیں پانی پلادو۔ پانی پلانے والا ان کے پاس پہنچا تو تیسرے صحابی نے پانی کے لیے آواز بلند کی۔ دوسرے صحابی نے پانی پلانے والے سے کہا کہ جائو پہلے انہیں پلادو۔ مگر پانی پلانے والا تیسرے صحابی رسول کے پاس پہنچا تو وہ دار فانی سے کوچ کرچکے تھے۔ پانی پلانے والا پہلے دو صحابہ کی طرف پلٹا تو اس وقت تک وہ بھی شہید ہوچکے تھے۔ جو محبت خود پر دوسروں کو فوقیت دینا سکھاتی ہے وہی حقیقی محبت ہے اور ایسی محبت ہمارے زمانے میں نایاب ہوچکی ہے۔
ہمارے زمانے میں جو محبت ہر طرف اپنا جلوہ دکھا رہی ہے اس کی ایک مثال فیض کی شاعری ہے۔ فیض شاعر ِ رومان ہیں، مگر ان کے رومانس کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے محبوب سے کہا ہے؎
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
یعنی فیض کے لیے محبت کوئی ماورائی حقیقت اور انسان کو اپنی ذات سے بلند کرنے والا جذبہ نہیں۔ چناں چہ ان کے لیے محبوب نا آسودہ خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہے اگر ان کا محبوب اس مقصد کے لیے بروئے کار نہ آئے تو اس کی حیثیت اضافی ہے۔ فیض کی سفاکی کا یہ حال ہے کہ انہوں نے محبت کو اپنی تکمیل کا پردہ قرار دے دیا ہے۔ فیض کا یہ رویہ صرف اس شعر تک محدود نہیں۔ انہوں نے اپنی ایک مشہور زمانہ نظم میں اپنے محبوب سے صاف کہا ہے کہ چوں کہ دنیا میں محبت کے سوا اور بھی غم ہیں اس لیے تُو اب مجھ سے پہلی سی محبت طلب نہ کر، اس نظم کا لب لباب یہ ہے کہ فیض کے لیے محبت اور انقلاب دو مختلف چیزیں ہیں، اور ایسا اس لیے ہے کہ محبت فیض کی شخصیت کا مرکزی حوالہ نہیں، وہ ان کے لیے زندگی کا واحد تناظر نہیں۔ ان کی نگاہ میں محبت اور انقلاب ایک وحدت، ایک اکائی نہیں بن سکتے۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ شاعر رومان کو نہ محبت کا شعور ہے نہ انقلاب کا۔ اس لیے کہ محبت انقلاب کی ضد نہیں بلکہ وہ انقلاب کو بھی محبت بنادیتی ہے۔ کسی انسان کے لیے بھلا اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے لیے محبت انقلاب اور انقلاب محبت بن جائے۔ مگر اس حقیقت کو انسان، محبت کیے بغیر سمجھ ہی نہیں سکتا۔ لیکن فیض کا مسئلہ صرف فیض کا مسئلہ نہیں، ہمارے عہد کا مسئلہ ہے۔ چناں چہ فیض کی نفسیات کئی اور شاعروں میں ملتی ہے۔ مثال کے طور پر ناصر کاظمی کا ایک شعر ہے؎
اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
اس شعر میں دوست، محبت اور ضرورت کی تثلیت اس امر کی علامت ہے کہ شاعر کی محبت کبھی ’’ضرورت‘‘ سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ بلاشبہ ضرورت زندگی کا حصہ ہے، مگر ناصر نے اس لفظ کو جس تناظر میں استعمال کیا ہے اس کی وجہ سے ضرورت تاجرانہ نفسیات کی علامت بن کر رہ گئی ہے۔ عبیداللہ علیم کا ایک شعر ہے؎
عزیز اتنا ہی رکھّو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
اس شعر میں محبت سانس کی طرح ناگزیر حقیقت نہیں محض ایک نمائشی چیز ہے۔ ایسی چیز جس کی مقدار اور معیار میں اضافہ انسان پر ناقابل برداشت بوجھ بن سکتا ہے۔ اسی طرح اطہر نفیس کا ایک شعر ہے؎
اک صورت دل میں سمائی ہے، اک شکل ہمیں پھر بھائی ہے
ہم آج بہت سرشار سہی، پر اگلا موڑ جدائی ہے
اس شعر میں محبت کھیل بن گئی ہے اور محبت کے بارے میں ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کا تاجرانہ اور نمائشی نفسیات اور کسی کھیل تماشے سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن محبت کے تجزیے کے کچھ اور پہلو بھی ہیں۔
انسان کی زندگی میں دوسروں کو معاف کرنے کا تجربہ ایک بہت بڑے تصور کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ دوسرے کو معاف کرنے کے لیے بڑی اخلاقی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ایک اعتبار سے معاف کرنا آسان بھی ہے کیوں کہ معاف کرنے والا ایک بلند سطح پر کھڑا ہو کر کسی کو معاف کرتا ہے۔ چناں چہ معاف کرنے والوں کو اکثر کہتے سنا جاتا ہے کہ ہم تکلیف پہنچانے والے کی تکلیف کو معاف تو کرسکتے ہیں مگر اسے فراموش نہیں کرسکتے۔ مگر محبت کی طاقت یہ ہے کہ وہ انسان کے برے تجربے کو اس کے ذہن سے محو کردیتی ہے۔ یعنی محبت انسان سے معاف بھی کرواتی ہے اور برے تجربے کو فراموش بھی کرواتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت انسان کو کسی بلند مقام پر کھڑا کرنے کے بجائے دوسرے انسان کے مساوی بنادیتی ہے۔ زندگی کا عام مشاہدہ ہے کہ والدین اپنے بچوں سے علم بھی زیادہ رکھتے ہیں اور وہ ان سے زیادہ قوی بھی ہوتے ہیں مگر ان کی محبت انہیں بچوں کی سطح پر پہنچا دیتی ہے۔ چناں چہ وہ اپنے بچوں کی کمزوری اور کم علمی کا احترام کرتے ہیں، اس حوالے سے ان کا مذاق نہیں اڑاتے۔ لیکن جہاں محبت نہیں ہوتی وہاں انسان ایک لمحے میں دوسرے کی تحقیر کرنے لگتا ہے، اس کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ لیکن محبت انسانوں کو دوسروں کی کمزوری کا احترام کرنا سکھاتی ہے۔ ہماری دنیا کریہہ جذبات اور ان کے اظہار سے اس لیے بھر گئی ہے کہ ہمارے دلوں میں محبت کے سوتے خشک ہوگئے ہیں۔ چناں چہ انسانوں نے اجنبیوں ہی میں نہیں اپنے پیاروں میں بھی اپنے حریف بلکہ اپنے دشمن ’’دریافت‘‘ کرلیے ہیں۔ یعنی محبت کی قلت نے سائے کو بھی دھوپ بنادیا ہے۔