پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین نے کراچی سے تحریک انصاف کے جلد خاتمے کی پیشگوئی کی ہے اور کہا ہے کہ میں تو ہمیشہ سے ایم کیو ایم ہی میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ جلد ہی کراچی میں ایک بار پھر ایم کیو ایم کا راج ہوگا۔ کراچی کی ایک محفل میں گفتگو کرتے ہوئے عامر لیاقت نے کہا کہ بہت جلد سارے ’’وفا پرست‘‘ ایک چھت کے نیچے ہوں گے۔ ان سے ایک خاتون نے سوال کیا کہ کیا آپ ایم کیو ایم میں ہوں گے؟ اس سوال کے جواب میں عامر لیاقت نے کہا کہ میں تو ہمیشہ سے ایم کیو ایم ہی میں تھا۔ انہوں نے ایک بار پھر ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو اپنا رہنما اور قائد قرار دیا۔ تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی راجا اظہر نے عامر لیاقت کے اس بیان کا بہت بُرا منایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عامر لیاقت کا ذہنی توازن درست نہیں۔ ان کے بقول اگر انہیں جلد صحت کارڈ نہ ملا تو وہ اپنے خرچ پر عامر لیاقت کا ذہنی علاج کرائیںگے۔ انہوں نے کہا کہ عامر لیاقت ایم کیو ایم کے سابق قائد و بانی کے فوبیا میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پارٹی کی قیادت کو خط لکھ دیا ہے اور خط میں کہا ہے کہ عامر لیاقت سے فوری طور پر استعفا لیا جائے، کیوں کہ الطاف حسین کو قائد کہنے والے کے لیے تحریک انصاف میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
عامر لیاقت کے ذہنی و نفسیاتی مریض ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں ہے۔ الطاف حسین کو اپنا رہنما سمجھنے والا کوئی بھی شخص صحیح الدماغ ہو ہی نہیں سکتا۔ ویسے بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی پوری سیاست روحانی و اخلاقی عسرت اور تنگدستی کی علامت ہے لیکن اگر عامر لیاقت حسین نے اپنی گفتگو میں ایک بار پھر ایم کیو ایم میں شمولیت کا عندیہ یا ہے اور الطاف حسین کو اپنا قائد گردانا ہے تو اس کی وجہ ان کا نفسیاتی یا ذہنی مریض ہونا نہیں بلکہ اس کی وجہ برطانیہ کی عدالت کا وہ فیصلہ ہے جس کے تحت الطاف حسین کو دہشت گردی کے دو الزامات سے بری قرار دے دیا گیا ہے۔ اب تک ایم کیو ایم کے بہت سے رہنما اور متاثرین یہ سمجھ رہے تھے کہ خود برطانیہ نے الطاف حسین کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ چنان چہ اب ان کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں۔ پہلے انہیں عمران فاروق کے قتل کے الزام کا سامنا کرنا پڑا پھر ان پر منی لانڈرنگ کا الزام لگا مگر برطانیہ کے نظام انصاف نے الطاف حسین کو کھانے کے بجائے اگل دیا۔ البتہ دہشت گردی کا الزام بڑا سنگین تھا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی پوری سیاست دہشت گردی کا طواف کرنے والی تھی۔ چناں چہ اندیشہ تھا کہ اس بار الطاف حسین سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ لیکن برطانیہ کی عدالت نے ایک بار پھر بتادیا کہ برطانیہ کے لیے انصاف سے زیادہ اہم سیاسی مفاد ہے۔ چناں چہ الطاف حسین کو انصاف کی قربان گاہ پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ برطانیہ کی عدالت میں الطاف حسین کا دفاع کرنے والے وکیل نے یہ کہہ کر الطاف حسین کا دفاع کیا ہے کہ ان کی سیاست ’’سیکولر‘‘ بھی ہے اور ’’لبرل‘‘ بھی۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ الطاف حسین طالبان کے دشمن ہیں۔ چناں چہ برطانیہ کے نظام انصاف نے الطاف حسین کو دہشت گردی کے دونوں الزامات سے بری کردیا۔ برطانیہ کے نظام انصاف نے کہا الطاف حسین ’’معصوم‘‘ ہیں۔ ان کا کسی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس فیصلے نے عامر لیاقت جیسے ایم کیو ایم کے تمام رہنمائوں اور کارکنوں کو یقین دلایا ہے کہ الطاف حسین کا سیاسی کیریئر ابھی ختم نہیں ہوا۔ وہ سیاسی اعتبار سے ابھی زندہ ہیں اور کراچی کی سیاست میں کسی بھی وقت، کسی بھی مہینے، کسی بھی سال ان کی واپسی ممکن ہے۔ چناں چہ الطاف حسین ایک بار پھر عامر لیاقت اور ان جیسے لوگوں کے رہنما ہوگئے ہیں۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ایم کیو ایم اپنی قوت سے وجود میں آنے اور اپنی قوت زندہ رہنے والی جماعت نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کو جنرل ضیا الحق نے خلق کیا۔ جنرل ضیا الحق سندھ میں پیپلز پارٹی اور کراچی میں جماعت اسلامی کو دیوار سے لگانا چاہتے تھے۔ ان کے لیے پیپلز پارٹی کی مقبولیت اور جماعت اسلامی کراچی کی مزاحمت دونوں خطرہ تھیں۔ چناں چہ انہوں نے الطاف حسین کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ کراچی میں مہاجروں اور پٹھانوں کے مفادات کا کوئی تصادم موجود نہیں تھا۔ لیکن کراچی میں ایم کیو ایم کو مقبول بنانے کے لیے مہاجر پٹھان فسادات کرائے گئے۔ کراچی کے علاقے قصبہ کالونی میں نامعلوم پٹھان داخل ہو کر چھے گھنٹے تک قتل و غارت گری کرتے رہے لیکن نہ پولیس نے انہیں روکا نہ رینجرز نے ان کی مزاحمت کی۔ جب نامعلوم دہشت گرد اپنا کام کرچکے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے قصبہ کالونی میں داخل ہوئے۔ اس واقعے نے مہاجر نفسیات میں آگ لگادی اور مہاجروں کی بڑی تعداد اپنے تحفظ کے لیے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوگئی۔ سندھی مہاجر کشمکش پہلے سے موجود تھی مگر ریاستی اداروں نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے ذریعے اسے مزید ہوا دی۔ اس صورت حال نے دیہی اور شہری سندھ کی تفریق کو مزید گہرا کردیا۔ سندھی مہاجر کشمکش کو گہرا کرنے کے لیے زبردست پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی۔ مہاجروں کو سندھیوں کا اور سندھیوں کو مہاجروں کا دشمن نمبر ایک باور کرایا گیا۔ اردو کے ایک بڑے اخبار میں صفحہ اول پر یہ خبر شائع کرائی گئی کہ سندھ نیشنل الائنس کا ایک جلوس کراچی کے علاقے صدر سے گزر رہا تھا کہ ایک مہاجر عورت کی کار جلوس میں پھنس گئی۔ عورت کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا بچہ بھی تھا۔ مگر سندھ نیشنل الائنس کے لوگوں نے عورت کا خیال کیا نہ بچے کو بخشا انہوں نے دونوں کو موقع پر مار دیا۔ سندھی کے ایک بڑے اخبار میں یہ خبر شائع کرائی گئی کہ کراچی کے جناح اسپتال میں 11 سندھی خواتین کی لاشیں لائی گئی ہیں۔ ان لاشوں پر بدترین تشدد کیا گیا تھا، یہاں تک کہ ان کی چھاتیاں بھی کٹی ہوئی تھیں۔ ایک صحافی نے ان دونوں واقعات کی تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ دونوں واقعات سرے سے ہوئے ہی نہیں۔ مگر اس طرح کی خبریں اپنا کام کرچکی تھیں۔ سندھیوں اور مہاجروں کے درمیان خلیج حائل ہوچکی تھی اور ایم کیو ایم کی سیاست مسلسل عروج کا سفر طے کررہی تھی۔
بلاشبہ بالآخر ایم کیو ایم کے خلاف یک کے بعد دیگرے دو آپریشن ہوئے لیکن ان آپریشنوں سے ایم کیو ایم کی قوت کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئی۔ اس لیے کہ ان آپریشنوں نے ایم کیو ایم کو ایک ’’مظلوم تنظیم‘‘ میں ڈھال دیا۔ ہمیں یاد ہے کہ 1992ء کے آپریشن کے پہلے ہی مرحلے میں بریگیڈیئر ہارون نے کراچی میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایم کیو ایم جناح پور کے نام سے ایک آزاد ریاست بنانے کی سازش کررہی تھی مگر اس کا منصوبہ پکڑا جا چکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا اور بہت سنگین الزام تھا۔ اور الزام لگانے والوں کو یا تو الزام لگانا ہی نہیں چاہیے تھا یا الزام کا ٹھوس ثبوت مہیا کرنا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے الزام لگانے والے الزام کا کوئی ٹھوس ثبوت مہیا نہ کرسکے بلکہ بریگیڈیئر ہارون کی نیوز کانفرنس کے اگلے ہی روز بریگیڈیئر ہارون کا تبادلہ کردیا گیا۔ اس سے ایم کیو ایم کو عوام میں مظلوم بننے کا موقع فراہم ہوگیا۔ آپریشن کے تحت عام لوگوں کو سخت پریشانی میں ڈالا گیا۔ ہمارے دوست اور فرائیڈے اسپیشل کے ایڈیٹر یحییٰ بن زکریا سعود آباد میں رہائش پزیر تھے۔ ان کے علاقے کو فوج نے گھیرے میں لے لیا۔ تمام مردوں کو کسی وجہ کے بغیر گھروں سے نکال لیا گیا۔ ان کی قمیصیں اتروا کر ان کی آنکھوں پر بندھوا دی گئیں اور لوگوں کو گھنٹوں تک اسی حال میں بیٹھے رہنے پر مجبور کیا گیا۔ اسی زمانے میں ہم ایک رات اہل خانہ کے ساتھ شادی کی تقریب سے لوٹ رہے تھے۔ فوجیوں نے ہماری کار رکوالی اور اس کی تلاشی لینے لگے۔ ہمارے ساتھ خواتین بھی تھیں مگر فوجیوں کے لیے یہ بات رتی برابر بھی اہم نہیں تھی۔ وہ کار کی تلاشی لیتے رہے۔ انہوں نے ہمیں کار سے اترنے کے لیے کہا اور انہوں نے ہماری جامہ تلاشی لی۔
اس زمانے میں ہم سگریٹ پیتے تھے اور ایک ماچس ہمارے ہاتھ میں تھی۔ ایک فوجی نے کہا اس میں کیا ہے؟ ہم نے چڑ کر کہا اس میں آگ ہے۔ اس طرح کے واقعات نے فوجی آپریشن کے خلاف عوامی ردعمل پیدا کیا۔ یہ امر بھی راز نہیں کہ الطاف حسین ریاستی اداروں کی آنکھ میں دھول جھونک کر ملک سے فرار نہیں ہوسکتے تھے۔ کتنی عجیب بات تھی کہ ریاستی ادارے انہیں دہشت گرد اور ملک دشمن بھی سمجھتے تھے اور انہوں نے الطاف حسین کو اس کے باوجود ملک سے فرار ہونے دیا۔ الطاف حسین نے لندن میں بیٹھ کر 25 سال تک جو تباہ کن سیاست کی وہ سیاست وہ ہرگز بھی ملک میں رہ کر نہیں کرسکتے تھے۔ چناں چہ الطاف حسین کی تباہ کن سیاست کے ذمے دار وہ تمام ریاستی ادارے ہیں جنہوں نے انہیں ملک سے فرار ہونے دیا۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو زندہ رہنے میں مدد دی۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے کسی بھی مرحلے پر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی مزاحمت نہیں کی صرف روزنامہ جسارت اور ہفت روزہ تکبیر نے ایم کیو ایم کی مزاحمت کا حق ادا کیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی مزاحمت آسان نہ تھی مگر لاہور میں بیٹھ کر ایم کیو ایم کی مزاحمت کی جاسکتی تھی۔ مگر پنجاب کے بڑے بڑے صحافی اور کالم نگار الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی تعریفیں کرتے رہے۔ مجیب الرحمن شامی صاحب کو ایم کیو ایم میں بڑا ڈسپلن نظر آتا تھا اور حسن نثار کو ایم کیو ایم میں ’’پڑھی لکھی مڈل کلاس‘‘ کا اُبھار دکھائی دیتا تھا۔ ہم ایک بار لاہور گئے تو ممتاز صحافی ارشاد احمد حقانی سے ملاقات ہوئی۔ ہمارے دوست یحییٰ بن زکریا نے کہا آپ سب موضوعات پر لکھتے ہیں مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر کچھ نہیں لکھتے۔ کہنے لگے میں نے سنا ہے الطاف حسین تنقید کرنے والوں کو مروا دیتا ہے۔ ہم کراچی میں بیٹھ کر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے فاشزم سے لڑ رہے تھے اور ادھر ارشاد احمد حقانی لاہور میں بیٹھ کر الطاف حسین کے خوف سے لرز رہے تھے۔ اس صورت حال نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی طبعی عمر کو بہت بڑھا دیا۔