ہندوستان کے انتہا پسند ہندوئوں نے بھارت کے مسلمانوں کو مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کا باشندہ بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ بھارت میں کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب مسلمانوں کے خلاف کچھ نہ کچھ ہوتا نہ ہو۔ ابھی مسکان کا قصہ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے رکن اسمبلی رگھو ویندر سنگھ نے دھمکی دی ہے کہ ہم بھارت کے مسلمانوں کو ٹوپی اتار کر ماتھے پر تلک کا نشان بنانے پر مجبور کردیں گے۔ رگھو ویندر کا تعلق اترپردیش سے ہے اور اس نے صاف کہا ہے کہ اگر میں دوبارہ منتخب ہوگیا تو بھارتی مسلمانوں کو مجبور کروں گا کہ وہ ٹوپی اتاریں اور ماتھے پر تلک کا نشان بنائیں۔ رگھو ویندر سنگھ کی دھمکی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو انہیں ایک ٹی وی پروگرام میں مدعو کیا گیا رگھو ویندر نے پوری بے خوفی کے ساتھ اپنی دھمکی کو قبول کیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا مقابلہ اسی طرح کیا جاسکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی ریاست کرناٹک میں اسکولوں کو چند روز بند رکھنے کے بعد کھول دیا گیا ہے مگر مسلم طالبات کو برقع اوڑھ کر اسکول پہنچیں تو انہیں اسکول میں داخلے کی اجازت نہیں ملی۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق کرناٹک میں مسلم طالبات کو برقعے کے ساتھ امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہ دی گئی۔ چناں چہ طالبات پرچہ چھوڑ کر گھر چلی گئیں۔
یہ فروری 2020ء کا زمانہ ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت میں اس وقت مسلمانوں کی دشمنی عروج پر ہے۔ لیکن یہ خیال سرسری اور سطحی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں کبھی ایسا وقت نہیں گزرا جب بھارت میں مسلم دشمنی موجود نہ رہی ہو۔ ہم 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت سے ذرا پہلے بھارت گئے تھے۔ ہماری اہلیہ اور دو ماہ کی بچی بھی ہمارے ساتھ تھی۔ ہمیں اترپردیش کے ضلع مظفرنگر کے قصبے بگھرہ جانا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ہماری اہلیہ برقع نہیں اوڑھتی تھیں جب کہ بگھرے میں ہمارے عزیزوں کا مسئلہ تھا کہ وہ بے پردگی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ چناں چہ ہم نے دہلی میں اپنے عزیزوں سے ایک عدد برقع اُدھار لیا اور ہماری بیگم صاحبہ یہ برقع اوڑھ کر بگھرہ پہنچیں۔ ہمیں اپنی آمد لکھوانے کے لیے بگھرے سے مظفرنگر جانا پڑا جو بگھرے سے گیارہ کلو میٹر دور تھا۔ اس وقت اترپردیش میں بابری مسجد کے خلاف فضا گرم تھی اور بی جے پی بابری مسجد کو شہید کرنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے تھی۔ مظفرنگر میں جگہ جگہ بی جے پی کے کیمپ لگے ہوئے تھے جن میں لائوڈ اسپیکر پر ہندوئوں سے اپیل کی جارہی تھی کہ وہ بابری مسجد کے خلاف مہم میں بی جے پی کا ساتھ دیں۔ اس وقت بی جے پی کوئی بڑی سیاسی قوت نہیں تھی۔ مگر مظفر نگر کی فضا میں ایک اشتعال تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ مظفر نگر میں مسلمانوں کی آبادی 40 فی صد ہے مگر اس کے باوجود ہمیں گلیوں، بازاروں اور شاہراہوں پر کوئی برقع پوش خاتون نظر نہیں آرہی تھی۔ لوگ چونک چونک کر، رک رک کر اور گھوم گھوم کر ہماری بیگم صاحبہ کے برقع کو دیکھ رہے تھے۔ اس ماحول میں کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ اس کے بعد کسی شخص نے انہیں رک کر یا گھوم کر نہ دیکھا۔ ہم آپ کو ایک بار پھر یاد دلاتے ہیں کہ یہ 2022ء کا زمانہ نہیں تھا۔ 1992ء کا سال تھا۔ مگر اس کے باوجود مسلم تشخص کی علامت برقع ایک ایسے شہر میں بڑا مسئلہ ہوا تھا جس کی 40 فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی دوچار فی صد ہوگی ان علاقوں میں مسلمانوں کے مذہبی تشخص کا کیا حال ہوگا۔
مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے۔ یہ اتنا بڑا عرصہ ہے کہ اتنے بڑے عرصے میں اگر مسلمان چاہتے تو ہندو ازم کو فنا کردیتے۔ مسلمان جبر اور لالچ کو اختیار کرتے تو پورا بھارت مسلمان ہوچکا ہوتا اور بھارت میں کوئی ہندو مسلم مسئلہ موجود نہ ہوتا۔ لیکن مسلمانوں نے ہندوازم کو ہاتھ نہ لگایا۔ مسلمانوں نے ہندوئوں کی زبانوں سنسکرت اور ہندی کو پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ رہنے دیا۔ سنسکرت اگر بھارت میں مری تو اس کے ذمے دار مسلمان نہیں خود ہندو ہیں۔ سنسکرت ہندوئوں کی مذہبی زبان ہے مگر ہندوئوں نے اس زبان کے علم کو صرف برہمنوں کے لیے چھوڑ دیا اور ہندوئوں کی عظیم اکثریت سنسکرت سے لاتعلق ہوگئی۔ برصغیر پر ایک ہزار سال تک حکومت کے اور ان مسلمانوں نے فارسی اور اردو کو اختیار کیا لیکن مسلم دربار میں سنسکرت کی بھی بڑی مان دان تھی۔ ہندوئوں میں ذات پات کا نظام وحشیانہ ہے۔ اس نظام نے کروڑوں شودروں اور دلتوں کو چھے ہزار سال سے حیوانوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ مسلمان چاہتے تو اس ذات پات کے نظام کو ختم کردیتے یا شودروں اور دلتوں کو اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے خلاف کھڑا کردیتے۔ مگر مسلمان ایسا کرتے تو وہ ہندوئوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرتے۔ چناں چہ مسلمانوں نے ہندوئوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ اسلام میں ساتر لباس پر بہت زور دیا گیا ہے، ساڑھی اور دھوتی کو مشکل ہی ہے ساتر لباس کہا جاسکتا ہے مگر مسلمانوں نے ہندوئوں کے لباس کو بھی جوں کا توں رہنے دیا۔ ہندو سماج میں تہواروں کی بھرمار ہے مگر مسلمانوں نے ہندوئوں کے تہواروں پر کبھی اعتراض نہ کیا۔ ہندوئوں کی عظیم اکثریت گوشت خور نہیں ہے سبزی خور ہے۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال میں ہندوئوں کو کبھی گوشت خور بنانے کی کوشش نہ کی۔ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور میں ہندوئوں کی معاشی حالت بڑی مستحکم رہی۔ ہندوئوں میں لاکھوں لوگ زمیندار تھے، لاکھوں لوگ تاجر تھے، دربار میں ہندو اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ اورنگ زیب کو ہندوئوں کا دشمن قرار دیا جاتا ہے مگر اب مغرب کے مورخین اور دانش ور مستند حوالوں سے ثابت کررہے ہیں کہ اورنگ زیب وسیع المشرب تھا۔ اس کے دربار میں بہت سے ہندو اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ یہاں تک کہ اس فوج میں بھی کئی اعلیٰ عہدے ہندوئوں کے پاس تھے۔ اورنگ زیب کے دربار میں سنسکرت کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ کئی ہندو ادیبوں نے اردو ادب میں بڑا مقام حاصل کیا اور مسلمانوں نے کبھی ان کے بارے میں ہندو مسلم کا سوال نہیں اٹھایا۔ منشی پریم چند اردو افسانے کے بنیاد گزار ہیں اور مسلمانوں نے ہمیشہ انہیں بڑا مقام دیا ہے۔ کرشن چندر اردو کے بڑے افسانہ نگاروں میں ہمیشہ شمار ہوتے رہے اور اگر وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت میں کمی ہوئی تو اس کے اسباب ادبی تھے مذہبی یا سیاسی نہیں۔ راجندر سنگھ بیدی سکھ ہیں مگر اشفاق احمد جیسے ادیب نے ان کے بارے میں یہ رائے دی ہے کہ وہ اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار ہیں اور منٹو ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچتے۔ فراق بھی ہندو تھے اور ہم نے اردو ادب کے دو بڑے نقادوں یعنی محمد حسن عسکری اور سلیم احمد کو ہمیشہ فراق کی شاعرانہ اور تنقیدی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے پایا ہے۔
اس کے برعکس ہندوئوں نے صرف سو سال میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیا۔ انہوں نے سب سے پہلا حملہ مسلمانوں کے دین و ایمان پر کیا۔ ہندوئوں نے 20 ویں صدی کے اوائل میں شدھی کے نام سے ایک تحریک شروع کی جس کے تحت مسلمانوںکو زبردستی ہندو بنایا جاتا تھا۔ یہ تحریک اتنی ہولناک تھی کہ مولانا محمد علی جوہر تک نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ انہوں نے کہا کہ ہندو مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنارہے ہیں اور گاندھی انہیں کچھ نہیں کہتے۔ ہندوئوں نے مسلمانوں کی غلامی سے آزاد ہوتے ہی فارسی اور اردو پر حملہ کیا۔ اس حملے کی پشت پر گاندھی اور ان کی کانگریس موجود تھی۔ گاندھی نے منشی پریم چند جیسے ادیب کے ذہن میں بھی ہندو مسلم کی نفرت بھر دی چناں چہ ایک زمانے میں پریم چند اردو ترک کرکے وہ ہندی میں افسانے لکھنے لگے۔ اس وقت بھی بی جے پی گھر واپسی کے عنوان سے ایک تحریک چلائے ہوئے ہے جس کے تحت مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنایا جاتا ہے۔ خود بھارت کے صحافی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ بھارت کے مختلف علاقوں سے سیکڑوں مسلم لڑکیوں کو اغوا کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں سے کردی گئی ہیں۔
اب ہندو رہنما کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ اذان پر پابندی لگنی چاہیے کیوں کہ اس سے ہندو سادھو سنتو کی عبادت میں خلل پڑتا ہے۔ مسلمانوں کو کھلے علاقوں میں نماز جمعہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ نئی مساجد کی تعمیر کو ناممکن بنایا جارہا ہے۔ ہندو رہنما صاف کہہ رہے ہیں کہ مسلمان مردوں سے ان کی ٹوپی چھین لی جائے گی اور ان کے ماتھے پر تلک لگادیا جائے۔ دوسری طرف مسلم خواتین سے حجاب چھینا جارہا ہے اور حجاب لینے والی طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔ بھارتی ریاست نے طلاق کے معاملے پر مسلم پرسنل لا میں مداخلت کی ہے اور وہ اس سلسلے میں ایک فریق بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ نہرو نے زمینداری ختم کی تھی تو اس کی وجہ مسلمانوں کی سیاسی اور معاشی طاقت کمزور کرنا تھا ایک وقت تھا کہ مسلمان بھارت کے مختلف محکموں میں کہیں پندرہ فی صد تھے کہیں دس فی صد تھے مگر اب وہ کسی محکمے میں بھی دو فی صد سے زیادہ نہیں ہیں۔
اس صورت حال میں بھارت کے مسلمانوں کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اور مزاحمت کے لیے بھارت کے مسلمانوں کا اتحاد ضروری ہے۔ اس اتحاد کے سلسلے میں مسلمانوں کو فرقوں، مسالک اور جماعتوں کے تعصبات سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ مسلمان متحد ہوگئے تو ہندو 25 کروڑ مسلمانوں کو مٹانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ بھارت کے مسلمان روہنگیا مسلمانوں کی طرح مٹھی بھر نہیں ہیں۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ قائداعظم بھارتی مسلمانوں سے خصوصی محبت کرتے تھے۔ وہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے سلسلے میں اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے کردار کو مینارئہ نور کہا کرتے تھے اور انہوں نے بھارت کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے مسلمانوں کے ساتھ برا سلوک کیا تو پاکستان خاموش نہیں رہے گا۔ بلکہ بھارت میں فوجی مداخلت کرے گا۔ پاکستان کے مسلمانوں کی تقدیر ایک ہے۔ بھارت اپنے مسلمانوں کو کھا گیا تو پاکستان کے مسلمان بھی اس کا لقمہ سے بچ نہیں سکیں گے۔