اقبال نے کہا ہے
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اقبال نے اس شعر میں تمام مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ ’’رسول مرکز‘‘ زندگی بسر کرو اور دنیا کیا لوح و قلم کے مالک بن جائو۔ مگر اب مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو ’’خدا مرکز‘‘ زندگی بسر کرنے کا خیال آتا ہے نہ انہیں ’’رسول مرکز‘‘ زندگی بسر کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ انہیں ’’قرآن مرکز‘‘ زندگی متاثر کن لگتی ہے نہ ’’آخرت مرکز‘‘ زندگی انہیں پرجوش بناتی ہے۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی رال ٹپکتی ہے تو ’’ترقی مرکز‘‘ زندگی پر۔ اس سلسلے میں عوام اور خواص کی کوئی تخصیص نہیں۔ مادی ترقی اور دنیا پرستی کا جنون سب پر طاری ہے۔ مسلمان مادی ترقی کے سلسلے میں مغرب کی طرف دیکھتے ہیں اور اس بات کا ماتم کرتے ہیں کہ ہم مغرب کی طرح ’’ترقی یافتہ‘‘ کیوں نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے زمانے میں لفظ ترقی اچھا خاصا مذہب بن کر ابھرا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ممدوح یاسر پیرزادہ تک نے ایک کالم لکھ مارا ہے۔ یاسر پیرزادہ کے کالم کا عنوان ہے ’’مسلم ممالک ترقی کیوں نہیں کرتے‘‘۔ اس کالم میں یاسر پیرزادہ نے کیا فرمایا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’کبھی کبھی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مسلمان ممالک کا مسئلہ آخر ہے کیا؟ انتہائی کوششوں کے باوجود یہ ملک مغربی دنیا سے پیچھے کیوں ہیں؟ ان ملکوں میں ترقی کا وہ ماڈل کیوں نہیں پنپ سکا جو یورپ اور امریکا میں کامیابی سے رائج ہے؟ حالاں کہ یورپی یونین کی طرح مسلمان ملکوں نے بھی اپنا اتحاد بنا رکھا ہے۔ تیل اور معدنیات کے ذخائر ان کے پاس ہیں، تعلیم پر بھی اب ان کی خاص توجہ ہے، جدیدیت کی طرف بھی مائل ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ بات بن نہیں پارہی؟ او آئی سی 1969ء میں قائم ہوئی تھی، اقوام متحدہ کے بعد یہ سب سے بڑی عالمی تنظیم ہے جس میں 57 مسلم ممالک شامل ہیں جن کا جی ڈی پی 28 ٹریلین ڈالر ہے۔ اس کے مقابلے میں یورپی یونین 1993ء میں بنی، 27 ممالک اس کے رکن ہیں اور اس اتحادی کا جی ڈی پی 17 ٹریلین ڈالر ہے۔ اسی طرح تیل اور معدنیات کی دولت سے مالا مال والا سبق تو ہم نے توتے کی طرح اسکول سے رٹا ہوا ہے، مزید روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ تعلیم پر بھی مسلم ممالک خاصے وسائل استعمال کررہے ہیں، قطر نے تو دنیا کی بہترین جامعات کے کیمپس اپنے ملک میں قائم کردیے ہیں جہاں ذہین طلبہ کو وظائف بھی دیے جاتے ہیں۔ شاہ عبداللہ سائنس اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی دنیا کی پہلی پانچ سو جامعات میں سے ایک ہے۔ رہی بات جدیدیت کی تو سعودی عرب جیسے ملک میں سینما گھر کھل رہے ہیں، ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا اور دبئی تو خیر اس سے کہیں آگے ہیں۔ پھر مسئلہ آخر ہے کہاں؟
یاسر پیرزادہ نے لکھا ہے کہ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ ہے عدم جمہوریت، یعنی مسلم ممالک میں جمہوریت موجود نہیں۔
(روزنامہ جنگ، 16 فروری 2022ء)
مسلمانوں کی تاریخ انبیا و مرسلین کی تاریخ ہے۔ دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار پیغمبر آئے مگر کسی پیغمبر نے بھی مادی ترقی کو مثالیہ یا ideal بنا کر پیش نہیں کیا۔ انبیا و مرسلین نے نہ خود مادی ترقی کرکے دکھائی نہ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو مادی ترقی کرنے کا حکم دیا۔ سیدنا عیسیٰؑ کی کل مادی کائنات تین چیزوں پر مشتمل تھی۔ ان کے پاس ایک گدھا تھا، ایک پانی پینے کا پیالہ تھا اور ایک کنگھا تھا۔ سیدنا عیسیٰؑ نے ایک روز ایک شخص کو ہاتھوں کو اوک بنا کر پانی پیتے دیکھا تو انہوں نے پیالے کو ترک کردیا۔ ایک دن انہوں نے ایک شخص کو ہاتھ کی انگلیوں سے بال سنوارتے دیکھا تو کنگھے سے بھی جان چھڑالی۔ اب تماشا یہ ہے کہ سیدنا عیسیٰؑ کی پیروکار مغربی دنیا عہد حاضر میں مادی ترقی اور دنیا پرستی کی علامت اور پیمانہ بنی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید اور رسول اکرمؐ کے ارشادات بھی ہمارے لیے رہنما ہیں۔ قرآن مجید نے صاف کہا ہے کہ یہ دنیا ایک دھوکے کی ٹٹی یا Smoke screen کے سوا کچھ نہیں۔ اصل چیز آخرت ہے۔ جہاں تک رسول اکرمؐ کے ارشادات کا تعلق ہے تو رسول اکرمؐ ایک بار صحابہ کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے، راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ پڑا ہوا تھا رسول اکرمؐ اس بکری کے بچے کے پاس ٹھیر گئے۔ صحابہ بھی کھڑے ہوگئے۔ رسول اکرمؐ نے صحابہ سے پوچھا کہ تم میں کون بکری کے اس مرے ہوئے بچے کو خریدنا چاہے گا۔ صحابہ نے کہا کہ ایک تو یہ بکری کا بچہ ہے اور یہ مرا ہوا ہے اسے تو ہم مفت بھی لینا پسند نہیں کریں گے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا بس یاد رکھو دنیا اس بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔ مسلم دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے کو حاصل کرپارہی ہو یا نہ کر پارہی ہو لیکن بکری کے اس مرے ہوئے بچے کا حصول کم و بیش ہر مسلمان کی آرزو ہے۔ رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ دنیا اگر مچھر کے پر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور مشرکوں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔ یعنی دنیا چوں کہ مچھر کے پر سے بھی زیادہ حقیر ہے اس لیے وہ کافروں اور مشرکوں کو ملی ہوئی ہے۔ مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت مچھر کے پر سے زیادہ حقیر چیز کی دیوانی بنی ہوئی ہے۔ یہ اور بات کہ انہیں اب تک یہ چیز میسر نہیں آسکی۔ یہاں اقبال اور اکبر الٰہ آبادی یاد آگئے۔ اقبال نے کہا ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
اکبر نے فرمایا ہے۔
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
اس شعر سے ایک حدیث مبارکہ یاد آئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہاری بستیوں کے بہترین مقام مسجد اور بدترین مقام بازار ہیں۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ مغرب نے ہماری زندگی کو ’’مسجد مرکز‘‘ نہیں رہنے دیا اس نے ہماری زندگی کو ’’بازار مرکز‘‘ بنادیا ہے۔ ایک مسئلہ تو یہ ہوا۔ لیکن یہ باتیں مادی ترقی کے سلسلے میں مسلمانوں کا ’’اصولی موقف‘‘ ہیں۔ ان باتوں کا مسلمانوں کے حال سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا حال پوری طرح مغرب کے زیر اثر ہے۔ مسلمان مغرب کی طرح بننا چاہتے ہیں مگر نہیں بن پاتے۔
یاسر پیرزادہ کا خیال ہے کہ مسلمان ممالک اس لیے ترقی نہیں کرپاتے کہ وہ ’’جمہوری‘‘ نہیں ہیں۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو پوری انسانیت کے تاریخی تجربے سے آگاہ نہ ہو۔ سیدنا سلیمانؑ عالی شان سلطنت کے مالک تھے۔ جنات ان کے تابع تھے، وہ ہوائوں کو حکم دینے پر قادر تھے۔ وہ پرندوں کیا چیونٹیوں تک کی زبان جانتے تھے۔ ان کے دربار کے عالی شان ہونے کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ملکہ سبا ان سے ملنے ان کے محل میں پہنچی تو وہ محل کے فرش کو فرش کے بجائے پانی سمجھی۔ لیکن سیدنا سلیمانؑ کی اس ساری ’’ترقی‘‘ میں ’’جمہوریت‘‘ کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ہندو تہذیب چھے ہزار سال پرانی تہذیب ہے۔ اس تہذیب کے پاس وید اور گیتا جیسی کتابیں ہیں۔ کرشن اور رام جیسی شخصیات ہیں۔ اس تہذیب کے پاس الٰہیات کا بڑا علم ہے۔ اس تہذیب کا علم طب بہت ترقی یافتہ تھا۔ اس تہذیب کا یوگا آج ہزاروں سال بعد بھی حیران کن نتائج دے رہا ہے اور جدید دنیا میں لاکھوں افراد اس سے استفادہ کررہے ہیں۔ مگر ہندو تہذیب کے ان تمام کمالات کا کسی نام نہاد جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ شری کرشن دیوتا سمجھے جاتے ہیں مگر وہ بادشاہ تھے اور ان کی سلطنت دوار کا میں موجود تھی۔ رام کو اوتار سمجھا جاتا ہے مگر وہ بھی بادشاہ تھے۔ عیسائی تہذیب بھی دو ہزار سال پرانی تہذیب ہے۔ اس تہذیب نے مذہبیات کا بڑا علم پیدا کیا۔ بڑا آرٹ خلق کرکے دکھایا۔ اس تہذیب نے بڑے فاتحین دنیا کو دیے مگر عیسائی تہذیب بھی جمہوری نہیں تھی۔ اسلامی تہذیب دنیا کی عظیم الشان تہذیب ہے۔ اس تہذیب نے ابوبکر صدیقؓ کو جنم دیا۔ عمر فاروقؓ کو وجود بخشا۔ عثمان غنیؓ کو خلق کیا۔ علی مرتضیٰؓ کی صورت گری کی۔ اسلامی تہذیب نے دنیا کا سب سے بڑا مذہبی علم پیدا کیا۔ سب سے بڑی شاعری پیدا کی۔ اس تہذیب نے کئی سو سال تک علوم و فنون میں پوری دنیا کی امامت کی۔ اس تہذیب نے امام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ، ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام حنبلؒ جیسی شخصیات کو پیدا کیا۔ اس تہذیب نے ہزاروں صوفیا کو جنم دیا۔ اس تہذیب نے دنیا کی کسی بھی تہذیب سے زیادہ بڑے فاتحین پیدا کیے۔
مغرب کے معروف دانش ور رابرٹ بریفالٹ اور مائکل مورگن ہملٹن نے اپنی تصانیف میں لکھا ہے کہ مغرب کے پاس ایک علم ایسا نہیں جو اس نے مسلمانوں سے حاصل نہ کیا ہو۔ مگر اسلامی تہذیب کے ان تمام کارناموں کی پشت پر کہیں جمہوریت موجود نہیں۔ مغربی تہذیب کا سب سے بڑا فلسفی افلاطون ہے مغرب کے ممتاز فلسفی وائٹ ہیڈ نے افلاطون کی اہمیت عیاں کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مغرب کا سارا فلسفہ افلاطون کے فلسفے کے فٹ نوٹ یا حاشیے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس بات میں مبالغہ تو ہے مگر اس مبالغے کے بغیر افلاطون کی عظمت کو بیان کرنا ناممکن ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ افلاطون نے اپنی کتاب Republic میں مثالی ریاست کا جو تصور خلق کیا ہے اس تصور میں اصل اہمیت حکمران کی ہے۔ اور حکمران کے بارے میں افلاطون کہتا ہے کہ سیاست کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے یا تو حکمران کو فلسفی بنادو یا فلسفی کو حکمران۔ یہاں کہنے کی دوسری بات یہ ہے کہ افلاطون کے یہاں فلسفے کا مطلب دانش کی محبت یا حکمت ہے۔ یعنی افلاطون کی Republic جدید مغرب کی جمہوریت سے کوسوں دور کھڑی ہے۔ ری پبلک کے جمہوریت سے کوسوں دور کھڑے ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ افلاطون کی ریاست کا سب سے بلند تصور عدل ہے لیکن عدل کے بارے میں افلاطون صاف کہتا ہے کہ عدل کوئی ہنر مندی یا مہارت نہیں بلکہ یہ روح کی صفت اور ذہن کی ایک عادت ہے۔ افلاطون ری پبلک میں لکھتا ہے کہ جس طرح آنکھ کا کمال اچھی طرح دیکھنا اور کان کا کمال اچھی طرح سننا ہے اسی طرح انسانی روح کا کمال ’’حیات طیبہ‘‘ بسر کرکے دکھانا ہے۔ افلاطون کے بقول روح عدل سے محروم ہوجائے تو وہ حیات طیبہ کا تجربہ خلق نہیں کرسکتی۔ ان تمام باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ افلاطون کی مثالی ریاست ہرگز بھی عہد جدید کی جمہوری ریاست نہیں ہے۔ یہ ریاست اس لیے بھی عہد حاضر کی جمہوریت نہیں ہے کہ افلاطون صاف کہتا ہے کہ اس کی ریاست میں دولت نہیں ہوگی کیوں کہ دولت سے امیر اور غریب کی کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مغرب کی جدید جمہوریت سر سے پائوں تک ’’دولت مرکز‘‘ یا Money Centric ہے۔ اس لیے کہ مغربی جمہوریت پر سرمایہ داری کا گہرا اثر ہے۔
دیکھا جائے تو عہد جدید میں مادی ترقی کے لیے کسی جمہوریت کی ضرورت ہی نہیں۔ سوویت یونین وقت کی دو سپر پاورز میں سے ایک تھا اور وہ غیر جمہوری تھا۔ حالیہ برسوں میں چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن کر ابھرا ہے اور وہ بھی غیر جمہوری ملک ہے۔ یاسر پیرزادہ نے اپنے کالم میں اس بات کا اعتراف کیا ہے، مگر ان کا کہنا ہے کہ چین نے مادی ترقی تو کرلی ہے مگر وہ آزاد معاشرہ خلق نہیں کرسکا ہے۔ تو کیا مغرب کی ریاستیں واقعتاً آزاد ریاستیں ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ ایزرا پائونڈ امریکا کا شاعر اعظم تھا۔ وہ بڑے ادبی نقادوں میں سے ایک تھا مگر اس نے موسولینی کی تعریف کردی تھی تو سی آئی اے اس کے پیچھے پڑ گئی اور اس کے شاگردوں نے اسے پاگل قرار دلواکر اس کی جان بچائی۔ اوباما نے اقتدار میں آنے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آگیا تو گوانتاناموبے کی جیل بند کرادے گا مگر وہ آٹھ سال تک امریکا کا صدر رہا اور گوانتا نامو بے بند نہ کراسکا۔ اس لیے کہ گوانتا نامو بے سی آئی اے کا پروجیکٹ ہے۔ جہاں تک مسلم دنیا میں جمہوریت کے نہ ہونے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ بھی مغرب ہے۔ مغرب کو مسلم دنیا میں ’’جمہوری حکمران‘‘ نہیں ’’ایجنٹ حکمران‘‘ درکار ہیں۔ پھر اسے اسلام پر اصرار کرنے والے جمہوری رہنما نہیں چاہئیں بلکہ سیکولر اور لبرل رہنما چاہئیں۔ چناں چہ جیسے ہی کسی مسلم ملک میں کوئی اسلامی تحریک برسراقتدار آتی ہے مغرب اس کے خلاف فوج سے بغاوت کرادیتا ہے۔