سرسید کے معجزات کے انکار کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ خدا کو ’’قادرِ مطلق‘‘ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا اصرار ہے کہ خدا اپنے بنائے ہوئے فطری قوانین کا پابند بلکہ معاذ اللہ ’’قیدی‘‘ ہے اور وہ ان قوانین کے خلاف کچھ نہیں کرتا۔ غور کیا جائے تو یہ بات بھی سرسید کے ساتھ ایک رعایت ہے۔ اس لیے کہ سرسید اصل میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خدا فطری قوانین کو توڑ نہیں سکتا۔ چوں کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا اس لیے معجزات کا کوئی وجود ہی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ایک تحریر میں معجزہ کہلانے والی شے کی جڑیں انسانی وجود میں تلاش کی ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’انسان میں ایک ایسی قوت ہے کہ اس کے ذریعے سے قوائے متّخیلہ کی طرف توجہ کرتا ہے اور پھر اس میں خاص قسم کا تصرف کرتا ہے اور ان میں طرح طرح کے خیالات اور گفتگو اور صورتیں جو کچھ اس کو مقصود ہوتی ہیں، ڈالتا ہے۔ پھر دیکھنے والے ایسا ہی دیکھتے ہیں کہ گویا وہ خارج میں موجود ہے، حالاں کہ وہاں کچھ نہیں ہوتا‘‘۔ (تفسیر القرآن۔ صفحہ225۔ بحوالہ افکار سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ80)
مذکورہ بالا تحریر میں سرسید نے انسان میں ایک ایسی قوت دریافت کی ہے جو دوسرے انسانوں پر اثرانداز ہوکر انہیں وہ کچھ دکھاتی ہے جو موجود نہیں ہوتا۔ لیکن انہیں انسان کے خالق کے بارے میں یہ یقین نہیں ہے کہ اس کے ایک ذرا سے اشارے سے قوانینِ فطرت معطل ہوسکتے ہیں یا بدل سکتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں وہ معجزہ ہوسکتا ہے جو دنیا کے تمام ادیان اور تمام انبیا و مرسلین کی مشترک میراث ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سرسید کا تصورِ انسان بہتر اور تصورِ رحمن ہولناک حد تک ناقص ہے۔ ہم اپنے گزشتہ ہفتے کے کالم میں دکھا چکے ہیں کہ سرسید نے سیدنا عیسیٰؑ کی پیدائش اور اُن کے گہوارے میں کلام کرنے کے قرآنی حقائق کا کس ڈھٹائی اور بے شرمی سے انکار کیا ہے۔ آئیے آج اس سلسلے میں سرسید کی کچھ اور گمراہیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
قرآن مجید میں دوسرے انبیا کی طرح سیدنا موسیٰؑ کے معجزات بھی بیان ہوئے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ سیدنا موسیٰؑ فرعون کے دربار میں پہنچے تو وہاں سیدنا موسیٰؑ اور فرعون کے درمیان ایک مکالمہ ہوا اور پھر دو معجزات ظاہر ہوئے۔ ان امور کا بیان خود قرآن مجید میں اس طرح ہوا ہے:
’’موسیٰؑ نے کہا: مشرق و مغرب اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے سب کا ربّ، اگر آپ لوگ عقل رکھتے ہیں۔ فرعون نے کہا: اگر تُو نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو تجھے بھی اُن لوگوں میں شامل کردوں گا جو قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ موسیٰؑ نے کہا: اگرچہ میں تیرے سامنے ایک صریح چیز لے آؤں۔ فرعون نے کہا: اچھا تو لے آ اگر تُو سچا ہے‘‘۔
’’ (اس کی زبان سے بات نکلتے ہی) موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک صریح اژدھا تھا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ (بغل سے) کھینچا اور وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہا تھا‘‘۔
(ترجمۂ قرآن مع حواشی۔ از سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ صفحہ939)۔
سیدنا موسیٰؑ کے معجزے کی مزید تفصیل قرآن مجید میں اس طرح بیان ہوئی ہے:
’’جب جادوگر میدان میں آئے تو انہوں نے فرعون سے کہا ’’ہمیں انعام تو ملے گا اگر ہم غالب رہے؟‘‘ اس نے کہا ’’ہاں، اور تم تو اسی وقت مقربین میں شامل ہوجاؤ گے‘‘۔ موسیٰؑ نے کہا ’’پھینکو جو تمہیں پھینکنا ہے‘‘۔ انہوں نے فوراً اپنی رسّیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے ’’فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے‘‘۔ پھر موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا تو وہ یکایک ان کے چھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جارہا تھا۔ اس پر تمام جادوگر بے اختیار سجدے میں گر پڑے اور بول اُٹھے کہ ’’مان گئے ہم ربّ العالمین کو۔ موسیٰؑ اور ہارونؑ کے ربّ کو‘‘۔
(ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی۔ از سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ صفحہ941)۔
سیدنا موسیٰؑ کا ایک اور معجزہ وہ ہے جب آپؑ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بنی اسرائیل کو لے کر نکلے اور ان کے سامنے بحر یا سمندر آگیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰؑ کے ساتھی چیخ اُٹھے کہ ’’ہم پکڑے گئے‘‘۔ موسیٰؑ نے کہا ’’ہرگز نہیں، میرے ساتھ میرا ربّ ہے، وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا‘‘۔ ہم نے موسیٰؑ کو وحی کے ذریعے حکم دیا کہ ’’مار اپنا عصا سمندر پر‘‘۔ یکایک سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہوگیا۔ اسی جگہ ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے۔ موسیٰؑ اور اُن سب لوگوں کو جو اُن کے ساتھ تھے، ہم نے بچالیا اور دوسروں کو غرق کردیا‘‘۔
(ترجمۂ قرآن، مع مختصر حواشی۔ از سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ صفحہ 943)۔
اب ان معجزات کے سلسلے میں سرسید کی شرمناک توجیحات ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں: ’’اس قصے میں جو کچھ بیان ہے وہ نفسِ انسانی کی قوت کا ظہور ہے اور اس وجہ سے کہ اُس زمانے کے کافر اس کو بھی سحر سمجھتے تھے، قرآن مجید میں اس پہ لفظ سحر کا اطلاق ہوا ہے ورنہ درحقیقت وہ امور جو فرعون کے ساحروں نے کیے اور جو امر کہ سیدنا موسیٰؑ نے کیا، وہ ظہور قوتِ انسانی کا تھا، مگر چوں کہ انبیا علیہم السلام میں ازروئے خلقت کے وہ قوت اقویٰ ہوتی ہے اس لیے سیدنا موسیٰؑ سحرِ فرعون پر غالب آئے‘‘۔ (تہذیب الاخلاق۔ از سرسید۔ صفحہ354 بحوالہ افکارِ سرسید از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ88)۔
ایک اور مقام پر سرسید نے فرمایا: ’’درحقیقت وہ لاٹھیاں اور رسّیاں سانپ یا اژدھے نہیں ہوگئی تھیں بلکہ بسب تاثیر قوتِ نفسِ انسانی کے، جو ساحروں نے کسب سے حاصل کی تھی، وہ رسّیاں اور لاٹھیاں لوگوں کو سانپ اور اژدھے معلوم ہوتی تھیں۔‘‘
ایک اور جگہ سرسید نے یدِ بیضا کے حوالے سے لکھا: ’’قرآن مجید کے الفاظ سے۔۔۔ پایا جاتا ہے کہ لاٹھیاں اور رسّیاں اسی قوتِ متخیلہ کے سبب سانپ یا اژدھے دکھائی دی تھیں تو یدِ بیضا کا مسئلہ ازخود حل ہوجاتا ہے، کیوں کہ اس کا بھی لوگوں کو اسی طرح پر دکھائی دینا اسی قوتِ نفسِ انسانی، تصرفِ قوتِ متّخیلہ کا سبب تھا، نہ یہ کہ وہ کوئی معجزہ مافوق الفطرت تھا اور درحقیقت سیدنا موسیٰؑ کے ہاتھ کی ماہیت بدل جاتی تھی‘‘۔
(مذکورہ بالا دونوں حوالوں کے لیے دیکھیے افکارِ سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ88)۔
انبیا و مرسلین کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان سے کافروں اور مشرکین نے ایمان لانے کے لیے معجزے طلب کیے۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے معجزہ دیکھا اور ایمان لے آئے، اور ان میں سے بعض ایسے تھے جنہوں نے معجزہ دیکھا اور اسے جادو قرار دے کر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ آخرالذکر لوگوں کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ جادو سے بڑی کسی حقیقت کو پہچاننے کے قابل نہ تھے۔ سرسید کا معاملہ بھی ایسے ہی منکرین والا ہے۔ وہ یہ تو مانتے ہیں کہ انسان اپنی قوتِ متخیلہ کے ذریعے دوسروں پر اثرانداز ہوسکتا ہے، اور وہ یہ بھی تسلیم کررہے ہیں کہ سیدنا موسیٰؑ کے زمانے کے ساحر انسان کی اس قوت کو سحر کہتے تھے، مگر وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ معجزہ کوئی حقیقت ہے۔ سیدنا موسیٰؑ کے واقعے سے صاف ظاہر ہے کہ جادوگروں کا جادو پٹ گیا تو انہیں معلوم ہوگیا کہ موسیٰؑ کے عصا نے جو کچھ کیا ہے وہ جادو سے بڑی چیز ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اس بڑی قوت کو سیدنا موسیٰؑ سے منسوب نہیں کیا بلکہ اسے موسیٰؑ کے ’’ربّ العالمین‘‘ سے منسوب کیا اور کہا کہ ہم موسیٰؑ کے رب پر ایمان لائے۔ عصرِ حاضر کی زبان و بیان کو اختیار کیا جائے تو کہا جائے گا کہ جادوگروں نے جو کچھ کہا وہ ماہرانہ رائے یا expert opinion تھی۔ مگر سرسید خدا کو قادرِ مطلق ہی نہیں مانتے تو وہ expert opionion کو کیا مانیں گے! انہیں بھروسا ہے تو اپنے شرمناک علم پر، اپنی شرمناک عقل پر، اپنے شرمناک فہم پر۔۔۔ اس علم، اس عقل اور اس فہم پر جو قرآن مجید کے شفاف بیان کے مقابل خم ٹھونکے کھڑا ہے۔ تفسیر کی پوری روایت کو جھٹلا رہا ہے۔ یہاں کہنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہزاروں سال پہلے جس معجزے کو فرعون نے جھٹلایا، ہزاروں سال بعد اسی معجزے کو قرآن کے واضح، دوٹوک اور شفاف بیان کے باوجود سرسید جھٹلا رہے ہیں۔ مگر مسلمانوں کے نزدیک فرعون، فرعون ہے۔ راندۂ درگاہ ہے۔ اور سرسید ’’عظیم شخصیت‘‘ ہیں۔ مصلح ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کے ’’محسن‘‘ ہیں۔ لیکن ابھی ہمیں سیدنا موسیٰؑ کے معجزات کے حوالے سے یہ بھی دیکھنا ہے کہ سرسید نے بحر یا سمندر سے بنی اسرائیل کے پار اور فرعون کے غرق ہونے کے حوالے سے کیا فرمایا ہے۔ سرسید لکھتے ہیں:
’’بہت سے لوگوں نے یہ غلطی کی ہے جو یہ سمجھے ہیں کہ سیدنا موسیٰؑ نے دریائے نیل سے عبور کیا تھا۔ یہ بالکل غلط ہے بلکہ انہوں نے بحر احمر کی ایک شاخ سے عبور کیا تھا۔ تمام مفسرین سیدنا موسیٰؑ کے عبور اور فرعون کے غرق ہونے کو بطور ایک ایسے معجزے کے قرار دیتے ہیں جو خلافِ قانونِ قدرت واقع ہوا ہو۔ جس کو انگریزی میں سپر نیچرل (super natural) کہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ سیدنا موسیٰؑ نے سمندر پر اپنی لاٹھی ماری، وہ پھٹ گیا اور پانی مثل دیوار یا پہاڑ کے اِدھر اُدھر کھڑا ہوگیا اور پانی نے بیچ میں خشک راستہ چھوڑ دیا اور سیدنا موسیٰؑ اور تمام بنی اسرائیل اس راستے سے پار اتر گئے۔ فرعون بھی اسی راستے میں دوڑ پڑا اور پھر سمندر مل گیا اور سب ڈوب گئے۔ اگر درحقیقت یہ واقعہ خلافِ قانونِ قدرت واقع ہوا تھا تو خدا تعالیٰ سمندر کے پانی ہی کو ایسا سخت کردیتا کہ مثل زمین کے اس پر سے چلے جاتے۔ خشک راستہ نکلنے ہی سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ یہ واقعہ یا معجزہ، جو اس کو تعبیر کرو، مطابق قانونِ قدرت کے واقع ہوا تھا، جو مطلب مفسرین نے بیان کیا ہے وہ مطلب قرآن مجید کے لفظوں سے بھی نہیں نکلتا‘‘۔ (تفسیر القرآن۔ ازسرسید۔ صفحہ71، بحوالہ افکارِ سرسید، ازضیا الدین لاہوری، صفحہ89)
سرسید نے سیدنا موسیٰؑ کے اس معجزے پر ایک اور جگہ کلام فرمایا ہے، لکھتے ہیں:
’’جب فرعون نے مع اپنے لشکر کے بنی اسرائیل کا تعاقب کیا تو راتوں رات سیدنا موسیٰؑ بنی اسرائیل سمیت بحر احمر کی بڑی شاخ کی نوک میں سے پار اتر گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت بسبب جوار بھاٹے کے، جو سمندر میں آتا رہتا ہے، اس مقام پر کہیں خشک زمین نکل آتی تھی اور کہیں پایاب رہ جاتی تھی، بنی اسرائیل پایاب اور خشک راستے سے راتوں رات بہ امن اتر گئے۔ صبح ہوتے ہی فرعون نے جو دیکھا کہ بنی اسرائیل پار اتر گئے تو اُس نے بھی ان کا تعاقب کیا اور لڑائی کی گاڑیاں اور سوار و پیادے غلط راستے پر سب دریا میں ڈال دیے اور وہ وقت پانی کے بڑھنے کا تھا۔ لمحہ لمحہ میں پانی بڑھ گیا، جیسا کہ اپنی عادت کے مطابق بڑھتا ہے، اور دباؤ ہوگیا جس میں فرعون اور اس کا لشکر ڈوب گیا‘‘۔
(تفسیر القرآن۔ ازسرسید، صفحہ71، بحوالہ افکارِ سرسید، ازضیا الدین لاہوری، صفحہ89)
قرآن مجید اور سرسید کے بیانات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ ہولناک حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ سرسید جس چیز کو مفسرین کا بیان قرار دے کر رد کررہے ہیں وہ خود قرآن مجید کا بیان ہے۔
باقی صفحہ11نمبر1
شاہنواز فاروقی
مثلاً پانی پر عصا مارنے کا حکم قرآن کا بیان ہے، مفسرین کا بیان نہیں۔ عصا مارنے سے پانی کے پھٹ جانے کا بیان بھی قرآن کا ہے، مفسرین کا نہیں۔ پانی پھٹ کر پہاڑوں کی طرح کھڑا ہوگیا یہ بیان بھی قرآن کا بیان ہے، مفسرین کا بیان نہیں۔ سرسید نے ان تمام بیانات کو رد کردیا ہے۔ چناں چہ انہوں نے مفسرین کی رائے کو مسترد نہیں کیا بلکہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے بیان کو مسترد کیا۔ سرسید کہہ رہے ہیں کہ سیدنا موسیٰؑ اور بنی اسرائیل نے رات کے وقت بحر احمر عبور کیا اور فرعون نے صبح کے وقت ایسا کیا۔ قرآن کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل آگے تھے اور فرعون اور اُس کا لشکر ان کے پیچھے تھے۔ اتنا پیچھے کہ بنی اسرائیل فرعون کے لشکر کو دیکھ کر چیخے کہ ہم پکڑے گئے۔ اس پر سیدنا موسیٰؑ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں، میرا ربّ میرے ساتھ ہے۔ مگر سرسید قرآن مجید کے بیان کو دیکھ ہی نہیں رہے۔ وہ تاثر دے رہے ہیں کہ قرآن یہ نہیں کہتا، یہ تو مفسرین کہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرسید منکرِ قرآن ہی نہیں کذاب بھی ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ بنی اسرائیل نے بحر احمر کو اُس وقت عبور کیا جب اس میں جوار بھاٹا یا طغیانی کی کیفیت نہیں تھی، اور فرعون نے اُس وقت بحر احمر عبور کیا جب دریا میں پانی چڑھنا شروع ہوچکا تھا۔ یہ بات نہ قرآن میں ہے، نہ حدیث میں ہے، نہ تفسیر میں ہے۔ یہاں تک کہ اسرائیلیات تک میں نہیں ہے۔ چناں چہ سرسید سے پوچھا جانا چاہیے تھا کہ آپ سیدنا موسیٰؑ کے حوالے سے جو کچھ فرما رہے ہیں وہ آپ کس علمی بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟ سرسید کے ان بیانات سے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ کوئی اخباری رپورٹر ہیں، اور یہ رپورٹر ہزاروں سال پہلے بحر احمر پر خود موجود تھا اور اس نے آنکھوں دیکھا حال اپنی تفسیر اور دیگر کتب میں لکھ ڈالا۔ اللہ اکبر۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ سرسید کی ان گمراہیوں پر دو ڈھائی لوگوں کے سوا ہماری پوری علمی روایت خاموش ہے۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔