اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کفر یا لا مذہبیت کی مارکٹنگ کے امکانات کتنے ہیں؟ پاکستان کے انگریزی اور اردو اخبارات کو توجہ سے پڑھنے والا ہر شخص اس سوال کا ایک ہی جواب دے گا اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کفر یا مذہبیت کی مارکٹنگ کے روشن امکانات موجود ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ قبل جیو کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں حسن نثار نے صاف کہا کہ پردے کے احکامات صرف امہات المومنین کے لیے تھے۔ یعنی عام مسلمان خواتین پر ان احکامات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اصول ہے قرآن کے جزو کا انکار کُل کا انکار ہے اور قرآن کے جزو اور کل دونوں کا انکار کفر ہے۔ ابھی چند ماہ قبل بھارت کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دیا تو روزنامہ ڈان کراچی میں ریما عمر کا پورے صفحے کا مضمون شائع ہوا۔ ریما عمر اور پاکستان سمیت علاقے کے تمام ملکوں کی اعلیٰ عدالتوں کے لیے ایک نظیر قرار دیا۔ یہ پاکستان میں ایک بار پھر قرآنی احکامات کی کھلی توہین تھی۔ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جاوید چودھری نے بھی اپنے ایک کالم میں کفر کی مارکٹنگ کر ڈالی ہے۔
جاوید چودھری کو مقامات مقدسہ سے خاص انس ہے۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے انبیا و مرسلین کے روضہ ہائے اقدس پر حاضری دی تو انہوں نے ایک روحانی فضا کے ساتھ اپنی حاضریوں کا ذکر فرمایا۔ لیکن جاوید چودھری کا زیر بحث کالم پڑھ کر بے ساختہ یہ کا شعر یاد آگیا۔ شاعر نے جاوید چودھری جیسے لوگوں کے لیے کہا ہے۔
مکے گیا، مدینے گیا کربلا گیا
جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آ گیا
لیکن جاوید چودھری کے کالم میں کفر کی مارکٹنگ کا قصہ کیا ہے؟۔
جاوید چودھری نے اپنے ایک حالیہ کالم ’’خواہ کچھ بھی ہوجائے‘‘ میں لکھا۔
’’رابرٹ ایٹ اینگر 1918ء میں نیوجرسی میں پیدا ہوا۔ وہ نسلاً یہودی تھا لیکن بعدازاں لادین ہوگیا۔ وہ سائنس کو خدا سمجھنے لگا۔ فزکس اور ریاضی میں ایم ایس سی کیا اور یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کردیا۔ وہ عمر بھر دائمی زندگی پر کام کرتا رہا۔ اُس کا خیال تھا سائنس سو سال میں انسان کو ہزار سال تک زندہ رکھنے کا فارمولا ایجاد کرلے گی۔ جس کے بعد موت راز نہیں رہے گی۔ رابرٹ نے تحقیق سے ثابت کیا انسان دل بند ہونے کے فوری بعد نہیں مرتا۔ انسانی دماغ موت کے پندرہ منٹ بعد تک زندہ بھی رہتا ہے اور یہ خلیات کو سگنل بھی دیتا ہے۔ تاہم خلیات کو تازہ خون اور آکسیجن کی سپلائی بند ہوجاتی ہے۔ جس سے اِن کی حرکت ماند پڑجاتی ہے اور یہ گلنا سڑنا شروع ہوجاتے ہیں اور یوں انسان مٹی میں مٹی ہو کر ختم ہوجاتا ہے۔ رابرٹ کا خیال تھا ہم اگر حرکتِ قلب رُکنے کے دو منٹ بعد انسانی جسم کو منجمد کردیں اور یہ گلنے سڑنے کے عمل سے پہلے محفوظ کرلیا جائے تو انسان کو دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم رابرٹ کا خیال تھا کہ سائنس ابھی اس مقام تک نہیں پہنچی۔ لیکن یہ بڑی تیزی سے اِس طرف دوڑ رہی ہے اور بہت جلد وہاں پہنچ جائے گی جہاں ہم مُردوں کو دوبارہ زندہ کرلیں گے۔ رابرٹ کا کہنا تھا کہ اگر ہم آج مُردوں کو محفوظ کرلیں تو یہ سو سال بعد زندہ ہوسکیں گے۔ چناں چہ 1960ء میں مشی گن میں مُردوں کو محفوظ کرنے کا طریقہ ایجاد کیا اور 1976ء میں مُردوں کو منجمد کرنے کا ادارہ بنادیا۔ رابرٹ ایٹ اینگر کا طریقہ cryonice کہلاتا ہے۔ اُس نے cryonice کی مناسبت سے اپنے ادارے کا نام crynics institute رکھا۔ رابرٹ نائٹروجن کے ذریعے مُردوں کو منجمد اور محفوظ کرتا تھا۔ یہ حرکت قلب بند ہونے کے دو منٹ بعد جسم کا 60 فی صد پانی نکال کر انسانی نسوں میں کیمیکل بھردیتا تھا۔ یہ کیمیکلز خلیات کی حرکت بھی روک دیتے تھے اور گلنے سڑنے کا عمل بھی بند کردیتے تھے۔ یہ اس کے بعد لاش کو منفی 196 ڈگری سینٹی گریڈ پر ٹھنڈا کرتا تھا۔ پھر اسے مائع نائٹروجن سے بھر کے کنٹینر میں بند کردیتا تھا۔ یہ کنٹینر cryostats کہلاتے ہیں۔ رابرٹ کی والدہ ریحہ ایٹ اینگر 1977ء میں فوت ہوئی۔ اُس نے اُسے بھی محفوظ کرلیا۔ اُس کی پہلی بیوی 1988ء میں فوت ہوئی یہ بھی محفوظ کرلی گئی اور یہ خود بھی 2011ء میں انتقال کرگیا۔ اس کے شاگردوں نے اس کی لاش بھی نائٹروجن کے کنٹینر میں محفوظ کردی۔ رابرٹ کا دعویٰ تھا وہ سو سال بعد دوبارہ زندہ ہوجائے گا۔ یہ تیس سال لوگوں کو بتاتا رہا آپ آج کے زمانے کو سو سال پیچھے لے جا کر دیکھیں۔ آپ 1910ء میں بیٹھ کر آج کے زمانے کی سہولتوں کا اندازہ نہیں کرسکیں گے۔ آپ اگر اس وقت کو سو سال آگے لے جائیں اور خود کو اگر 2110ء میں رکھ کر دیکھیں تو آپ کو 2010ء پس ماندہ ترین سال لگے گا۔ رابرٹ کا کہنا تھا سائنس دو تین دہائیوں میں انسانی عقل کو حیران کردے گی۔ جس کے بعد کڈنی، ہارٹ اور لیور ٹرانسپلانٹ کی طرح مُردوں کو زندہ کرنا معمولی واقعہ ہوجائے گا۔ آپ اگر اس دور میں دوبارہ زندہ ہونا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اپنے آپ کو اس دور تک محفوظ رکھنا ہوگا۔ (14جون 2019ء، روزنامہ ایکسپریس)
ہم جاوید چودھری کے کالم کا اتنا طویل اقتباس پیش کرنے کے لیے معذرت چاہتے ہیں مگر اس کے بغیر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کفر کی وہ مارکٹنگ ’’Establish‘‘ نہیں ہوسکتی تھی جو جاوید چودھری کی شخصیت کا ایک امتیازی وصف بن کر اُبھری ہے۔
جاوید چودھری کے اس کالم سے ظاہر نہیں ثابت ہے کہ وہ اسلام کے خدا، اسلام کی کتاب اور اسلام کے پیغمبر پر ایمان نہیں رکھتے۔ رکھتے تو وہ یہ کہہ ہی نہیں سکتے تھے کہ انسان، انسان کو زندہ کرسکتا ہے۔ اسلام اور اہل اسلام کا ابھی تک یہی عقیدہ ہے کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر جاوید چودھری نے زندگی اور موت کے معاملات کو خدا کے ہاتھ سے چھین کر انسان اور سائنس کے ہاتھ میں پکڑا دیا ہے۔ ہمیں جاوید چودھری پر مذہبی اعتبار سے تین اعتراضات ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایک اسلامی ملک کے بڑے اخبار میں اسلام کے بنیادی عقیدے کو پامال کررہے ہیں۔ ہمیں دوسرا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے رابرٹ ایٹ انگر کی طرح مذہب کو ترک کرکے سائنس کو خدا بنالیا ہے تو وہ اعلان کریں کہ میں اسلام کے خدا، اسلام کی کتاب اور اسلام کے پیغمبر پر یقین نہیں رکھتا۔ ایمان اور کفر ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ جاوید چودھری اسلام ترک کرکے کفر اختیار کرنا چاہیں تو یہ ان کی مرضی۔ ہمیں جاوید چودھری پر تیسرا مذہبی اعتراض یہ ہے کہ وہ پاکستان کے کم علم افراد کو گمراہی و ضلالت میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ مذہب دشمنی ہی نہیں بے ایمانی بھی ہے۔ پاکستان کے لوگ جاوید چودھری کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ چناں چہ وہ ان کی زیر بحث تحریر کو ایک کافر یا لامذہب شخص کی تحریر کے طور پر نہیں پڑھیں گے۔ جاوید چودھری اعلان کردیں گے کہ میں محمدؐ کے خدا کو نہیں سائنس کے خدا کو مانتا ہوں تو پھر لوگ جاوید چودھری کی تحریروں کو واضح ذہن کے ساتھ اور صحیح تناظر میں پڑھ سکیں گے۔
سائنسی اعتبار سے بھی جاوید چودھری کے کالم پر کئی اعتراضات کیے جاسکتے ہیں۔ سائنس میں ایک چیز سائنسی نظریہ یا Scientific Theory ہے اور ایک چیز Scientific Fact یا ’’سائنسی حقیقت‘‘ ہے۔ مثلاً تقریباً ایک صدی قبل جب آئن اسٹائن نے اپنا نظریہ اضافیت یا Theory of Relativity پیش کی تو اس نے اسے نظریہ یا Theory کہا۔ ’’Fact‘‘ یا حقیقت نہ کہا۔ اب لیکن بعض سائنسی مشاہدات و تجربات ایسے ہوتے ہیں جن کے باعث نظریہ اضافیت کو ’’سائنسی حقیقت‘‘ کا درجہ حاصل ہونے لگا ہے۔ بدقسمتی سے جاوید چودھری نے رابرٹ ایٹ اینگر کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے اسے ’’سائنسی حقیقت‘‘ یا Scientific Fact کے طور پر پیش کیا ہے۔ حالاں کہ زیر بحث بات Scientific Fact کیا Scientific Theory بھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اسے ’’سائنسی افواہ‘‘ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ اسے صرف ’’افواہ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ مگر غضب خدا کا جاوید چودھری نے اسے اپنے لاکھوں قارئین کے سر پر ’’سائنسی حقیقت‘‘ کے طور پر دے مارا ہے۔ نظریہ سازی انسانی ذہن کی اعلیٰ ترین استعداد ہے کیوں کہ نظریہ سازی کے ذریعے انسان کسی ایک یا چند اصولوں کے ذریعے پوری زندگی اور کائنات کو سمجھتا اور بیان کرتا ہے۔ آئن اسٹائن کی Theory of Relativity اتنی گہری بات تھی کہ پوری دنیا میں اسے آئن اسٹائن کے سوا آٹھ دس افراد ہی پوری طرح سمجھ سکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں زماں و مکاں کے تصورات بھی شامل ہیں۔ مگر جاوید چودھری نے اپنی ذہنی صلاحیت کی وجہ سے رابرٹ ایٹ اینگر کی ’’افواہ‘‘ کو ایک نظریہ بلکہ ایک سائنسی حقیقت بلکہ ایک ’’سائنسی عقیدہ‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ سائنس میں ایک چیز Pure Science ہوتی ہے اور ایک چیز اطلاقی سائنس یا Applied Science ہوتی ہے۔ خالص سائنس یا Pure Science کے دائرے میں انسان شواہد کے بغیر نظریہ پیش کرسکتا ہے مگر اطلاقی سائنسی یا Applied Science میں وہ ٹھوس شہادت کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا رابرٹ ایٹ اینگر نے اس بات کی کوئی سائنسی شہادت پیش کی ہے کہ انسان کیسے 100 سال تک لاش رہنے کے بعد اچانک ایک بار پھر سے زندہ ہوجائے گا؟ کیا دنیا کی لاکھوں یا ہزاروں سال کی تاریخ میں کبھی کوئی مردہ انسان زندہ ہوا ہے؟ آپ کہیں گے کہ حضرت عیسیٰؑ قم باذن اللہ کہہ کر مُردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے۔ بلاشبہ ایسا ہی تھا مگر حضرت عیسیٰؑ معاذ اللہ خود مُردوں کو زندہ کرنے کے دعویدار تھے نہ وہ مُردوں کو زندہ کرنے کے لیے کوئی ’’سائنسی طریقہ کار‘‘ استعمال کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتے تھے۔ چناں چہ جاوید چودھری کا فرض تھا کہ وہ مُردوں کے مستقبل میں زندہ ہونے کے حوالے سے کوئی ’’سائنسی مشاہدہ‘‘ یا ’’سائنسی تجربہ‘‘ پیش کرتے۔ پوری سائنس ’’مشاہدے‘‘ اور ’’تجربے‘‘ پر کھڑی ہوئی ہے اور ان دونوں کے بغیر وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جاوید چودھری نے صرف اسلام، اس کے خدا، اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی توہین ہی نہیں کی بلکہ انہوں نے جدید سائنس کو بھی مذاق بنا کر پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح جاوید چودھری مذہب اور اس کی روح سے ناواقف ہیں اسی طرح وہ جدید سائنس کو بھی نہیں جانتے۔
انسان کے ذہن پر جدید سائنس نے ایک بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ جدید سائنس کے عروج سے پہلے ’’ممکن‘‘ اور ’’ناممکن‘‘ کے درمیان ایک ناقابل عبور دیوار تھی۔ جدید سائنس نے اس دیوار کو منہدم کردیا ہے اور زندگی کے کئی دائروں میں اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناممکن کا وجود نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مذہب کی گہرائی اور اس کے مقابلے پر سائنس کی سطحیت کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ زندگی کے کچھ دائروں میں ممکن اور ناممکن کے درمیان ایک دیوار ہمیشہ حائل رہے گی۔ انسان نہ کبھی خدا تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ خدا ازلی و ابدی ہے، انسان فانی ہے۔ خدا لامحدود ہے، انسان محدود ہے۔ انسان خلاق ہے تو اسے خدا ہی نے خلاق بنایا ہے مگر خدا خود خلاق اعظم ہے۔ ذرے اور سورج کے فرق کو کبھی عبور نہیں کیا جاسکتا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ تو بچوں کو بھی نظر آتی ہیں مگر سائنس اور ٹیکنالوجی نے جو بحران پیدا کیا ہے اس کے ذکر سے مغرب کے دانش وروں کی درجنوں کتابیں بھری ہوئی ہیں۔ مگر جاوید چودھری پڑھ کر لکھنے والوں میں سے تھوڑی ہیں۔ ان کا معاملہ تو کاتا اور لے دوڑی والا ہے۔
بلاشبہ کالم میں کچھ بھی زیر بحث آسکتا ہے۔ ایمان بھی، کفر بھی، شرک بھی، زہر بھی، تریاق بھی، ادب بھی، فلسفہ بھی۔ مگر جو کچھ زیر بحث ہو لکھنے والے کا فرض ہے کہ اس کا تشخص واضح کرے۔ اسے ایمان کی پیکنگ میں کفر فروخت نہیں کرنا چاہیے۔ بہرحال ہمیں توقع ہے کہ اب ہم جلد ہی جاوید چودھری کے حوالے سے یہ خبر ملاحظہ کریں گے کہ انہوں نے دوبارہ زندہ ہونے کے لیے اپنی لاش کو محفوظ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔