بھارتی فلم شری 420 کے گیت کا مکھڑا ہے۔
میرا جوتا ہے جاپانی
یہ پتلون انگلستانی
سر پہ لال ٹوپی روسی
پھر بھی دل ہے ہندوستانی
فلموں کا کام خواب فروخت کرنا ہے، سستے خواب۔ ورنہ علمی حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انسان کا باطن ظاہر پر اثر انداز ہوتا ہے اسی طرح انسان کا ظاہر بھی باطن کو بدلتا ہے۔ چناں چہ جس قوم کا جوتا جاپانی، پتلون انگلستانی اور ٹوپی روسی ہو اس کا دل کبھی ہندوستانی نہیں رہ سکتا۔ خیر ہندوستان نے جوتے، پتلون اور ٹوپی کے سلسلے میں تنوع اختیار کیا۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے تو اپنے سارے انڈے امریکی ٹوکری میں رکھ دیے۔ ہماری ریاست امریکا مرکز، ہماری معیشت America Centric، ہمارا دفاع امریکا میں ڈوبا ہوا۔ ہماری ہر چیز امریکی ہے مگر ہمارے حکمران نعرہ لگاتے ہیں ’’پھر بھی دل ہے پاکستانی!‘‘۔ حالاں کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کے دل پر لکھا ہے امریکی ساختہ۔ ان کے دماغ پر لکھا ہے Made In America۔ ان کے تناظر پر لکھا ہے ’’امریکا میں پالا پوسا گیا‘‘۔
جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ 20 ویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی اور ٹامس مان کی یہ بات سو فی صد درست ثابت ہوئی۔ 20 ویں صدی میں روسی، چینی اور ایرانی انقلابات رونما ہوئے اور انقلاب ایک سیاسی تصور ہے۔ 20 ویں صدی میں دو عالمی جنگیں ہوئیں اور جنگ ایک سیاسی واقعہ ہے۔ 20 ویں صدی میں کئی نوآبادیات نے یورپی اقوام کے تسلط سے آزادی حاصل کی اور یہ ایک سیاسی بات تھی۔ مگر 21 ویں صدی تک آتے آتے انسانی تقدیر معاشی اصطلاحوں میں لکھنے کے عمل کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا یا کوئی عالمی واقعہ انسانی تاریخ کا رُخ بدل کر رکھ دے گا اس بارے میں کچھ بھی کہنا دشوار ہے۔ لیکن سردست معاشی ترقی، مجموعی قومی پیداوار، فی کس آمدنی، درآمدات، برآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر جیسی اصطلاحات قوموں کے حال اور مستقبل کی صورت گری کررہی ہیں۔ اتفاق سے اس عمل کی بنیادیں بھی 20 ویں صدی میں رکھی گئی تھیں۔
دوسری عالمی جنگ سے پہلے امریکا موجود تو تھا مگر عالمی طاقت نہیں تھا لیکن دو عالمی جنگوں نے یورپی طاقتوں کے کس بل نکال کر رکھ دیے اور عالمی سیاست میں ایک خلا پیدا ہوگیا۔ اس خلا کو امریکا نے پُر کیا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا دنیا کا ’’نیا استعمار‘‘ بن کر اُبھرا۔ استعماری طاقتوں کی سیاست اور دفاع میں موجود استعماریت تو آسانی کے ساتھ عیاں ہوجاتی ہے۔ مگر استعمار کی معاشی استعماریت سات پردوں میں چھپی رہتی ہے۔ چناں چہ دنیا کو عرصہ دراز تک معلوم ہی نہ ہوسکا کہ امریکا کا مارشل پلان اپنی اصل میں دنیا کی معاشی ترقی کا منصوبہ نہیں ہے بلکہ امریکا مارشل پلان کے ذریعے کمزورقوموں کو اپنا دست نگر بنانے کی سازش کررہا ہے۔ اس طرح آج بھی بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک نارمل معاشی اور مالیاتی ادارے ہیں۔ حالاں کہ دونوں اداروں کا مقصد تخلیق کمزور قوموں کی معیشتوں کو بحران میں مبتلا کرنا، بحران میں مبتلا رکھنا اور غریب اقوام پر قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ کرکے ان کی سیاسی و معاشی آزادی کو سلب کرنا ہے۔ اس بات کا ایک ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے 70 سے زیادہ ممالک کے لیے معاشی پیکیجز کا اعلان کیا مگر ان ممالک میں سے کسی ملک کی معیشت بھی آج تک بحران سے نہیں نکلی ہے۔ اس کی ایک ٹھوس مثال خود پاکستان ہے۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف اب تک سات پروگرام دے چکا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کا پہلا، دوسرا یا تیسرا پروگرام موثر ہوجاتا تو پاکستان کو مزید چار پروگراموں کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ مگر آئی ایم ایف پر پاکستان کا انحصار کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا گیا۔ پاکستان جب پہلی بار آئی ایم ایف کے پاس گیا تھا تو اس کی معیشت کو زکام کا مرض لاحق تھا۔ آج پاکستان کی معیشت کو سرطان کا مرض لاحق ہے۔ آخر یہ کیا علاج ہے جو مرض کو گھٹانے کے بجائے بڑھاتا جارہا ہے۔ زکام کو سرطان میں ڈھالنے والے ڈاکٹر کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اس کی اہلیت ہی نہیں اس کی نیت بھی خراب ہے۔ مگر جو بات سب کو نظر آرہی ہے نہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو نظر آئی، نہ نواز شریف کی حکومت کو دکھائی دی اور نہ اب عمران خان کی حکومت کو سجھائی دے رہی ہے۔
ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق جب سے عمران خان برسراقتدار آئے ہیں 40 لاکھ پاکستانی خطِ غربت سے نیچے جاچکے ہیں اور آئی ایم ایف کے پروگرام کی تکمیل تک آئندہ تین سال میں مزید ایک کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ ڈاکٹر اشفاق ایک ٹی وی پروگرام میں بتارہے تھے کہ اسٹیٹ بینک کے موجودہ گورنر ڈاکٹر رضا باقر کچھ عرصہ قبل آئی ایم ایف کے نمائندے کی حیثیت سے مصر میں تعینات رہ چکے ہیں اور وہاں ان کے سر پر آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج پر عمل درآمد کی ذمے داری تھی۔ ڈاکٹر اشفاق کے بقول مصر کے لیے آئی ایم ایف کا بیل آئوٹ پیکیج اتنا ہولناک ثابت ہوا کہ پیکیج سے پہلے مصر کی آبادی کا صرف 30 فی صد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہا تھا مگر پیکیج پر عمل درآمد کے بعد مصر کی 60 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے لڑھک گئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 7 کروڑ ہے، یہ تعداد آئی ایم ایف کے پیکیج پر عمل درآمد کے بعد بڑھ کر 8 کروڑ ہوجائے گی۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 1980ء کی دہائی میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی پر بجٹ کا پندرہ سے اٹھارہ فی صد صرف ہوتا تھا مگر اب غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی پر بجٹ کا 44 فی صد خرچ ہورہا ہے۔ اندیشہ ہے کہ پاکستان کے حکمران 30 سے 35 ارب ڈالر کا مزید قرض لینے والے ہیں۔ چناں چہ اندیشہ ہے کہ دو سے چار سال میں ہمارے بجٹ کا 60 سے 65 فی صد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد ہم سیاسی، معاشی اور دفاعی اعتبار سے کتنے آزاد رہ جائیں گے کہ قرضوں کی معیشت کتنی ہولناک چیز ہے اس کا اندازہ یونان اور اٹلی کی مثالوں سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ یونان یورپی اتحاد کا رکن ہے مگر عالمی مالیاتی بحران نے اس کی معیشت کی بنیادیں ہلا دیں۔ چناں چہ یونان 2010ء سے اب تک آئی ایم ایف سے 360 ارب ڈالر کے تین بیل آئوٹ پیکیج حاصل کرچکا ہے مگر اب بھی یونان کی معیشت بحران سے پوری طرح نہیں نکل سکی ہے۔ اٹلی یورپ کا ترقی یافتہ ملک ہے اور وہ G-8 کا حصہ رہا ہے۔ مگر قرضوں نے اٹلی کی معیشت کی چولیں ہلادی ہیں۔ اس وقت اٹلی 2000 ارب ڈالر کا مقروض ہے یہ رقم اٹلی کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار کے مساوی ہے۔ چناں چہ اٹلی کی معیشت مزید بحران کا شکار ہوئی تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کے لیے کتنے بڑے بیل آئوٹ پیکیج کی ضرورت ہوگی۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اس کے بعد بھی اٹلی کی معیشت کے صحت مند ہونے کی کوئی ٹھوس یقین دہانی نہیں کرائی جاسکے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرضوں کی معیشت کا تصور ہی غلط ہے۔
معیشت کے دائرے میں پاکستان کے حکمران طبقے نے قوم سے کئی غداریاں کی ہیں۔ معیشت کا ایک اصول سیدھا سادا ہے۔ اس اصول کے تحت آپ کے خرچ کو آپ کی آمدنی سے کم ہونا چاہیے۔ اگر آپ کی آمدنی سو روپے ہے تو آپ کا خرچ زیادہ سے زیادہ 70 یا 80 روپے ہونا چاہیے۔ 20 روپے آپ کو کسی برے وقت کے لیے بچا کر رکھنے چاہئیں۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے آمدنی سے زیادہ خرچ کی عادت اختیار کی۔ ہماری آمدنی اگر 100 روپے تھی تو پاکستان کے حکمرانوں نے 300 روپے خرچ کرنا شروع کیے۔ چناں چہ اسے 200 روپے قرض لینے پڑے ۔ بدقسمتی سے آمدنی اور خرچ کا فرق بڑھتا ہی چلا گیا اور آج ہماری معیشت 100 ارب ڈالر کے قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ جو لوگ ’’شاہ خرچ‘‘ ہوجاتے ہیں وہ اپنی آمدنی بڑھاتے ہیں۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے قوم سے ایک اور معاشی غداری یہ کی کہ انہوں نے قومی پیداوار کو بڑھایا نہ برآمدات میں اضافہ کیا۔ ہماری برآمدات مدتوں سے 25 ارب ڈالر سالانہ کی سطح پر منجمد ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے تیسری بڑی معاشی غداری قوم سے یہ کی کہ درآمدات کو برآمدات سے بڑھالیا۔ ہماری برآمدات 25 ارب ڈالر کا فرق ہے۔ یہ فرق ہمارا قومی بوجھ ہے۔ اس بوجھ کو کم کرنے کا اصل طریقہ تو یہ ہے کہ ہماری برآمدات میں اضافہ ہو، تاکہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ سکیں۔ لیکن درآمدات اور برآمدات کے فرق کو کم کرنے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ ہم آنکھ بند کر کے ایک سال میں 10 ارب ڈالر کی درآمدات کو کم کرسکتے ہیں۔ ہماری درآمدات کا بڑا حصہ امیروں کے لیے ہے، چناں چہ درآمدات میں کمی سے امیر لوگ ہی ’’متاثر‘‘ ہوں گے۔ مگر حکمران خود امیر ہیں اور وہ امیروں کو ناراض نہیں کرسکتے۔ چناں چہ وہ درآمدات کم کرنے کے بجائے آئی ایم ایف سے مزید قرض لے لیتے ہیں۔ یہ بھی ایک معاشی غداری ہے۔ کہنے کو تو آئی ایم ایف کا پیکیج آگیا ہے مگر اس پیکیج نے تنخواہ دار طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس کا اندازہ لوگوں کو اس وقت ہوگا جب محصولات کا بوجھ ان کی ایک سے ڈیڑھ ماہ کی تنخواہ کو کم کردے گا۔ یہ معاشی ظلم ہی کی ایک صورت ہے۔