آج سے بیس بائیس سال پہلے کی بات ہے برصغیر کے عظیم ترین اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار پاکستان کے دورے پر آئے تو پی ٹی وی نے ان سے ایک طویل پینل انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو میں دلیپ کمار سے ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ کیا آپ کا کوئی خوف بھی ہے؟ دلیپ کمار نے چند لمحے توقف کیا اور پھر کہا کہ میرا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ مرنے کے بعد جب میں خدا کے سامنے حاضر ہوں گا اور خدا کہے گا یوسف ہم نے تمہیں کیا کرنے کے لیے پیدا کیا اور تم دنیا میں کیا کرتے رہے تو میں خدا کو کیا جواب دوں گا۔ فلمی دنیا کی شہرت شعور کو تہہ و بالا کرنے والی ہوتی ہے اور دلیپ کمار نے جس وقت یہ بات کہی وہ صرف مشہور نہیں تھے بلکہ شاعروں کے شاعر کی طرح انہیں اداکاروں کا اداکار کہا جاتا تھا۔ اتفاق سے دلیپ کمار صرف اداکار ہی نہیں ہیں وہ بہت سے دانش وروں سے بڑے دانش ور ہیں۔ آپ ان سے اردو ادب پر بات کرسکتے تھے، ان سے عالمی ادب پر بات کرسکتے تھے، فلسفے پر تبادلہ خیال کرسکتے تھے، مگر ان تمام باتوں کے باوجود دلیپ کمار کا شعور اپنی اصل بنیاد سے بالکل کٹ نہیں گیا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ زندگی ایک دن ختم ہوجائے گی اور وہ ایک صاحب ایمان کی حیثیت سے اپنے خالق کے حضور حاضر ہوں گے اور وہ پوچھے گا تم نے ہماری بخشی ہوئی زندگی، ہماری بخشی ہوئی صلاحیت کے ساتھ کیا کیا؟
اتفاق سے ہمیں دلیپ کمار کا یہ انٹرویو چند روز پیشتر شدت سے یاد آیا۔ اس کی ایک وجہ بھارت کی اداکارہ زائرہ وسیم کی ایک طویل انسٹا گرام پوسٹ ہے۔ اٹھارہ سالہ زائرہ وسیم نے ممتاز بھارتی اداکار عامر خان کی دو فلموں دنگل اور A Secret Super Star سے غیر معمولی شہرت حاصل کی، لیکن زائرہ وسیم نے اپنی پوسٹ سے کروڑوں لوگوں کو حیران اور کروڑوں لوگوں کو پریشان کردیا۔ زائرہ نے اپنی پوسٹ میں اہم ترین بات یہ کہی کہ وہ بالی ووڈ کو چھوڑ رہی ہیں کیوں کہ فلم انڈسٹری میں کام کرنے کی وجہ سے ان کا ایمان خطرے میں پڑ گیا ہے اور ان کا خدا سے تعلق کمزور ہوگیا ہے۔ زائرہ کے بقول انہیں انڈسٹری میں بہت محبت ملی اور لوگوں نے انہیں سپورٹ کیا مگر زندگی نے انہیں جہالت اور گمراہی کے راستے پر ڈال دیا تھا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے خود کو بہت سمجھایا کہ میں جو کچھ کررہی ہوں ٹھیک ہے اور اس کا مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا لیکن حقیقت یہ تھی کہ میری زندگی سے برکت ختم ہوگئی تھی۔ زائرہ کے بقول انہوں نے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی مگر انہیں اطمینان حاصل نہ ہوسکا۔ چناں چہ انہوں نے قرآن سے رجوع کیا اور قرآن کی تلاوت سے انہیں دلی سکون حاصل ہوا۔ انہوں نے لکھا کہ کتنی ہی بڑی کامیابی، شہرت، طاقت، پیسہ اس قابل نہیں ہوسکتا کہ کوئی اپنے ایمان اور سکون کا سودا کرلے۔ حدیث شریف کا حوالہ دیتے ہوئے زائرہ نے لکھا کہ میدان حشر میں انسان انہی لوگوں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا جن سے وہ دنیا میں محبت کرتا ہوگا۔ بلاشبہ انسان سیکھنا چاہے تو اداکاروں سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے ورنہ بہت سے لوگ تو قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ سے بھی کچھ نہیں سیکھ پاتے۔
آپ نے دو اداکاروں اور دو اہل دنیا کی مذہبیت ملاحظہ کی۔ اب چند اہل مذہب کی دنیا پرستی بھی ملاحظہ کیجیے۔ ملک کے ایک ممتاز دانش ور نے ایک بار ہمیں بتایا کہ وہ ایک زمانے میں ملک کے ایک بڑے چینل پر ہفتہ وار پروگرام کررہے تھے کہ ایک روز چار پانچ علما ان سے ملنے ان کے غریب خانے پر حاضر ہوئے۔ وہ سمجھے کہ علما شاید کسی علمی مسئلے پر گفتگو کے لیے آئے ہیں۔ مگر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان علما نے ان سے کہا کہ آپ چوں کہ فلاں چینل پر عرصے سے پروگرام کررہے ہیں اس لیے آپ کی چینل کے پروڈیوسرز سے دوستی ضرور ہوگی۔ چناں چہ آپ ان سے کہہ کر ہمیں بھی چینل پر پروگرام دلا دیں۔
اب ایک بہت ہی بڑے عالم دین کا سچا قصہ بھی سن لیجیے۔ ایک صاحب ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں بتایا کہ وہ اپنے علاقے میں سیرت طیبہؐ پر ایک بڑا پروگرام کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے عالم صاحب سے درخواست کی کہ آپ پروگرام میں تشریف لا کر سیرت طیبہؐ پر ایک گفتگو مرحمت فرمائیں۔ عالم دین انہیں کافی دیر تک ٹالتے رہے مگر جب ان کا اصرار بڑھا تو عالم دین نے ایک شانِ بے نیازی سے فرمایا کہ میں آپ کے پروگرام میں آ تو جائوں مگر آپ مجھے ’’Afford‘‘ نہیں کرسکتے۔ ان صاحب نے لفظ ’’Afford‘‘ کی وضاحت چاہی تو عالم دین نے فرمایا میں سیرت پر ایک پروگرام کے ایک لاکھ روپے لیتا ہوں۔
اب صورت یہ ہے کہ ایک طرف دلیپ کمار ہے جس کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ وہ خدا کے سامنے حاضر ہوگا تو خدا کے سامنے اپنی زندگی کی کیا وضاحت کرے گا۔ دوسری طرف شہرت اور پیسے میں کھیلتی ہوئی صرف اٹھارہ سالہ زائرہ وسیم ہے جو کہہ رہی ہے کہ فن اداکاری اور فلم انڈسٹری کا ماحول اس کے ایمان کے لیے خطرہ بن گیا ہے اور اس کے خدا کے ساتھ تعلق کو کمزور کررہا ہے۔ تیسری طرف دین کا علم رکھنے والے وہ چار پانچ علما ہیں جن کی سب سے بڑی تمنا یہ ہے کہ وہ کسی طرح ٹی وی کی اسکرین پر جلوہ افروز ہوجائیں۔ اس سلسلے میں ان کی بے تابی کا یہ عالم ہے کہ وہ ٹی وی پر آنے والی ایک شخصیت سے درخواست کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ان کے اندر اتنا بھی صبر اور ضبط نہیں کہ وہ اس دن کا انتظار کریں جب کوئی شخص ان کے علم کی شہرت سے متاثر ہو کر ان سے خود رابطہ کرے اور ان سے ٹی وی پر آنے کی درخواست کرے۔ چوتھی طرف وہ ممتاز عالم دین ہیں جو عام مسلمانوں کے لیے ’’Affordable‘‘ ہی نہیں ہیں۔ انہیں یہ تک خیال نہیں کہ سائل ان سے کسی عام موضوع پر نہیں سیرت طیبہؐ پر گفتگو کا طالب ہے اور سیرت طیبہؐ پر گفتگو کرتے ہوئے آدمی کا ایک گھنٹہ کیا پوری زندگی بھی صرف ہوجائے تو یہ سعادت کی بات ہے۔ خواہ آدمی کو پوری زندگی گفتگو کا ایک پیسہ بھی نہ ملے۔ علما کی تین اقسام ہیں۔ علمائے حق، علمائے سُو اور علمائے تھُو۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کالم میں جن علما کا ذکر ہورہا ہے وہ کس درجے میں آتے ہیں۔ جہاں تک علمائے حق کا تعلق ہے انہوں نے پیسے پائی کے لالچ کے بغیر پوری زندگیاں دین کو سمجھنے اور سمجھانے میں بسر کردیں اور آج اگر مسلمانوں میں تھوڑی بہت بھی دین داری پائی جاتی ہے تو وہ انہی علما کی مساعی جمیلہ کا فیض ہے۔ مگر بدقسمتی سے علمائے سُو اور علمائے تھُو بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور طبقہ علما کو بھی بدنام کررہے ہیں اور دین کی بدنامی کا باعث بھی بنے ہوئے ہیں۔
انبیا و مرسلین کی سنت ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تمہیں جو کچھ بتا رہے یا سکھا رہے ہیں اس کا ہمیں تم سے کوئی معاوضہ نہیں چاہیے، کیوں کہ ہمارا صلہ ہمارے رب کے پاس ہے۔ یہ اتنی اہم اور اتنی بڑی بات ہے کہ اس کا اثر سقراط تک پر تھا۔ سقراط صبح سے شام تک گلی کوچوں میں گھوم کر لوگوں کو فلسفہ پڑھاتا تھا اور اس کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا تھا۔ سقراط کے زمانے میں فلسفے کے ماہرین کا ایک گروہ پیدا ہوگیا تھا جو سو فسطائی کہلاتا تھا۔ سقراط کو سو فسطائیوں پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ لوگ اپنا علم ’’فروخت‘‘ کرتے ہیں۔ سو فسطائی طبقہ امرا کے لوگوں کو معاوضہ لے کر فلسفہ پڑھاتے تھے۔ بلاشبہ معاش زندگی کا اہم مسئلہ ہے۔ چناں چہ ہماری تہذیب نے اہل علم کے حوالے سے اس مسئلے کو اس طرح حل کیا کہ بادشاہ بڑی بڑی زمینیں اور جائدادیں علما یا مدرسوں کے لیے وقف کردیتے تھے۔ ان زمینوں اور جائدادوں سے ہونے والی آمدنی سے علم کے مراکز چلائے جاتے تھے اور علما کو اتنی رقم مہیا کی جاتی تھی کہ وہ فکر معاش سے بے نیاز ہوجائیں۔ لیکن معاش کمانا اور سیرت طیبہؐ جیسے مقدس موضوع پر خود کو معاوضے کے حوالے سے ایک ’’Status‘‘ کا حامل بنانا دو مختلف باتیں ہیں۔
زائرہ وسیم کی انسٹا گرام پوسٹ اتنی اہم ہے کہ اس کے حوالے سے ہم آٹھ دس کالم تو لکھ ہی سکتے ہیں۔ لیکن موضوعات کی ایسی یلغار ہے کہ ہر روز کئی موضوعات دامن دل کھینچتے ہیں۔ چناں چہ زائرہ وسیم کی پوسٹ کے دو اہم ترین نکات پر گفتگو تک خود کو محدود کرتے ہیں۔ زائرہ وسیم کی انسٹا گرام پوسٹ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ زائرہ کے لیے مذہب اور خدا سے تعلق زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ اتنی بڑی بات ہے کہ فی زمانہ 99 فی صد سے زیادہ مسلمانوں کا یہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔ بلاشبہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت خدا کو بھی مانتی ہے، نماز روزے کی پابندی بھی کرتی ہے مگر کسی کو یہ خیال مشکل ہی سے آتا ہے کہ اس کے کسی فعل سے خدا کے ساتھ اس کا تعلق کمزور پڑ رہا ہے۔ کروڑوں مسلمان خدا کو مانتے ہیں، روزے نماز کی پابندی کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ جھوٹ بھی بولتے رہتے ہیں، غیبت بھی کرتے ہیں، دھوکا بھی دیتے رہتے ہیں، حرام بھی کھاتے رہتے ہیں اور انہیں ایک لمحے کے لیے بھی خیال نہیں آتا کہ اس کے نتیجے میں خدا کے ساتھ ان کا تعلق کمزور پڑ رہا ہے۔ مگر ایک اٹھارہ سالہ اداکارہ کو یہ خیال آیا ہے کہ اس کا پیشہ خدا کے ساتھ اس کے تعلق کو کمزور کررہا ہے۔ چناں چہ اس نے کہا خدا نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس نے صرف یہ کہا ہی نہیں عملاً اپنا پیشہ بھی چھوڑ دیا۔ ہمارے درمیان کتنے ہی پیشہ ور جھوٹے موجود ہیں، ہمارے وکیلوں کا پیشہ ہی جھوٹ بولنا ہے، ہمارے صحافیوں کی بڑی تعداد جھوٹ لکھتی ہے، ہمارے فرقہ پرست اور مسلک پرست علما دوسرے فرقوں اور مسالک کے بارے میں جھوٹ بھی بولتے ہیں اور ان کے خلاف نفرت بھی پھیلاتے ہیں۔ مگر کسی کو خیال نہیں آتا کہ ان کے فعل سے خدا کے ساتھ ان کا تعلق کمزور پڑ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل مذہب کی بڑی تعداد دنیا کے کتوں میں تبدیل ہوگئی ہے۔ کوئی پیسے کے لیے مرا جارہا ہے، کوئی شہرت کے لیے تڑپ رہا ہے، کوئی عہدے اور منصب پر رال ٹپکا رہا ہے، کوئی طاقت اور اختیارات کو پوج رہا ہے۔ مگر کسی کو خیال نہیں آتا کہ اس کی زندگی مذہب سے دور ہوگئی ہے اور خدا سے اس کا تعلق کمزور ہوا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل مذہب کی عظیم اکثریت خود پسندی بلکہ خود پرستی اور اپنے ظاہری تقوے کی محبت میں مبتلا ہوتی ہے۔ اسے لگتا ہی نہیں کہ اس میں بھی کوئی نقص ہوسکتا ہے۔ مگر دلیپ کمار اور زائرہ وسیم جیسے لوگوں کا مذہب کے حوالے سے کوئی ’’اچھا تصور ذات‘‘ ہی نہیں ہوتا، چناں چہ انہیں خیال آجاتا ہے کہ ان کی زندگی میں ایک بڑا نقص ہے۔
زائرہ وسیم کی انسٹا گرام پوسٹ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے جو کہا شہرت اور کامیابی کے درمیان کہا۔ اگر ان کی کوئی فلم ناکام ہوجاتی اور وہ وہی کچھ کہتیں جو انہوں نے کہا ہے تو لوگ کہتے یہ اس پیشے کے لیے تھی ہی نہیں۔ انہیں آج نہیں تو کل فلم انڈسٹری چھوڑنی ہی تھی۔