میر نے کہا تھا:
سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا
پاکستان کے حکمران طبقے نے ملک میں ایک ایسی معاشی صورتِ حال پیدا کردی ہے کہ میر کے شعر کو اس طرح بھی لکھا جاسکتا ہے۔
سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہب قرض اختیار کیا
قرض کو مذہب بنانے کی بات مذاق نہیں۔ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے قرض کو پہلے ’’ضرورت‘‘ بنایا۔ پھر اسے ’’فلسفے‘‘ میں ڈھالا اور بالآخر اس کو ’’مذہب‘‘ بنا کر رکھ دیا۔ ضرورت سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔ فلسفے کو فراموش کیا جاسکتا ہے مگر مذہب کو ایک لمحے کے لیے بھی ترک نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ایوب سے میاں نواز شریف اور عمران خان تک تمام حکمرانوں نے قومی زندگی کو قرض سے کبھی دور نہیں ہونے دیا۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اس ایک حدیث مبارکہ سے قرض کا پورا فلسفہ اور پورا مذہب رد ہوجاتا ہے۔ مگر پاکستان کی بدقسمتی دیکھیے پاکستان کا حکمران طبقہ قرض کا جشن مناتا نظر آتا ہے۔ روایتی دانش کہتی ہے کہ چادر دیکھ کر پائوں پھیلائو مگر ہمارے حکمران قرض دیکھ کر پائوں پھیلاتے ہیں۔ قرض حکمرانوں کی معاشی شکست کا اعلان ہے مگر ہمارے حکمران قرض کو پھولوں کا ہار بنائے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے پاکستان کو معاشی خودکشی کی جانب دھکیل دیا ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ 1980ء کی دہائی میں پاکستان بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر اپنے بجٹ کا 15 سے 17 فی صد صرف کرتا تھا۔ رواں مالی سال میں پاکستان نے بیرونی قرضوں کی مد میں بجٹ کا 40 فی صد سے زیادہ صرف کیا ہے اور اندیشہ ہے کہ آئندہ پانچ سے سات سال میں ہم بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر 66 فی صد خرچ کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف نے قرضوں کے بوجھ کو 96 ارب ڈالر تک پہنچادیا تھا۔ عمران خان اس وقت آئی ایم ایف سے جو بیل آئوٹ پیکیج لے رہے ہیں اس کی مجموعی مالیت 6 ارب ڈالر ہے۔ یعنی اس پیکیج کے بعد پاکستان کے قرضوں کا حجم بڑھ کر 102 ارب ڈالر ہوجائے گا۔ لیکن اگر عمران خان کی حکومت مزید چار سال برقرار رہی تو وہ آئندہ چار سال میں مزید 38 ارب ڈالر کے قرضے لینے والے ہیں۔ اس بات کا انکشاف خود آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آئندہ پانچ چھ سال میں پاکستان کے بیرونی قرضے بڑھ کر 140 ارب ڈالر ہونے والے ہیں۔ ایسا ہوگیا تو پھر ہم اپنے بجٹ کا 66 فی صد بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کریں گے۔ آپ پاکستان کے بجٹ کے بارے میں فرض کیجیے کہ وہ 100 روپے پر مشتمل ہے۔ اس رقم میں سے 66 روپے بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہوگئے۔ اب ہمارے پاس 34 روپے رہ گئے۔ ان میں سے 20 روپے دفاع کی ناگزیر مد میں صرف ہوگئے۔ چناں چہ ہمارے پاس صرف 14 روپے باقی جائیں گے۔ ان 14 روپے میں سے ہم سرکاری ملازمین کی ’’تنخواہ‘‘ بھی ادا کریں گے اور ’’ترقیاتی کام‘‘ بھی کریں گے۔ یہ پاکستان کو معاشی خودکشی پر مجبور کرنا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟۔
پاکستان کا مسئلہ صرف قرض نہیں ہے بلکہ قرض کی ’’شرائط‘‘ بھی ہیں۔ اب مثال کے طور پر خود آئی ایم ایف کی رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ آئی ایم ایف کی ایک شرط یہ ہے کہ پاکستان ہر تین ماہ بعد بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرے گا۔ اگر ایسا ہوگا تو ایک سال میں بجلی کے نرخ چار بار بڑھیں گے۔ فرض کیجیے ایک اضافہ اگر 10 فی صد ہوا تو ایک سال میں بجلی کے نرخوں میں 40 فی صد اضافہ ہوجائے گا اس سے پیدا واری لاگت بڑھے گی، پیداواری لاگت بڑھنے سے ایک طرف ملک میں مہنگائی کا طوفان آئے گا دوسری جانب بین الاقوامی منڈی میں ہماری مصنوعات مہنگی ہوجائیں گی اور وہ دوسرے ممالک کی مصنوعات سے مقابلے کے قابل نہیں رہیں گی۔ اس کے نتیجے میں ہماری برآمدات یا تو مزید کم ہوجائیں گی یا ایک سطح پر منجمد ہوجائیں گی۔ برآمدات کے منجمد ہونے کا تجربہ ہمیں پہلے ہی سے ہے۔ ہماری برآمدات برسوں سے 24 اور 25 ارب ڈالر سالانہ کے درمیان موجود ہیں۔ برآمدات کے انجماد یا ان میں کمی کا مطلب ہے کہ ہماری قومی آمدنی میں کمی واقع ہوجائے گی۔ قومی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوگا تو ہمیں پھر آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے گا اور ہم پر قرضوں کا مزید بوجھ سوار ہوجائے گا۔ بجلی کے نرخوں میں عام آدمی براہ راست بھی متاثر ہوگا۔ اس کے گھر کے بجلی کے بل میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ ہم تین کمروں کے فلیٹ میں مقیم ہیں۔ ہمارے گھر میں چار پنکھے، ایک ٹی وی، ایک ریفریجریٹر اور تین ٹیوب لائٹس ہیں۔ پانچ سال پہلے ہمارے یہاں ڈیڑھ سے دو ہزار روپے بل آتا تھا۔ اب پانچ سے چھ ہزار کے درمیان بل آئے گا۔ بجلی کے نرخوں میں ہر تین ماہ بعد اضافہ ہوگا تو صرف ڈیڑھ سال میں ہمارا بجلی کا بل بڑھ کر 10 ہزار روپے ماہانہ ہوجائے گا۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے سے ’’عام آدمی‘‘ کے معاشی بوجھ میں کتنا اضافہ ہونے والا ہے۔ یہ بل پاکستان کو معاشی خودکشی کی جانب دھکیلنے کی ایک صورت ہے۔ اس سلسلے میں گیس کے نرخوں میں اضافے کا ذکر بھی اہم ہے۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے سے عمران خان کے زمانے تک جب بھی پٹرول کے نرخوں میں اضافہ ہوا تو حکمرانوں نے ایک ہی بات کہی۔ کیا کریں بین الاقوامی منڈی میں تیل کے نرخ بڑھ گئے ہیں۔ مگر گیس تو ہماری اپنی ہے اس کا کسی بین الاقوامی منڈی سے کوئی تعلق نہیں۔ چناں چہ سوال یہ ہے کہ گیس کے نرخ کیوں بڑھائے جاتے ہیں؟۔ اس سوال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ گیس فراہم کرنے والا ادارہ خسارے میں ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ بہرحال اب یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ گیس کے نرخوں میں اضافے کا سبب بھی آئی ایم ایف ہے۔ پاکستان کے حکمران آئی ایم ایف سے تو سچ بولتے ہیں مگر پاکستانی قوم سے دھڑلے کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ چند روز پہلے ہی کی بات ہے کہ ایف بی آر کے سربراہ شبر زیدی نے کہا تھا کہ ہم نے عوام پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔ لگایا ہو تو اس کی نشاندہی کی جائے۔ اتفاق سے آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں اس جھوٹ کا بھی بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ قوم پر صرف 516 ارب روپے کے محصولات عاید کیے گئے ہیں جب کہ حقیقت میں قوم پر 733 ارب کے محصولات عاید کیے گئے۔ اس طرح حکومت نے قوم سے 217 ارب روپے کے ٹیکس چھپائے۔
حکمرانوں کی ساری اُمید اس خیال سے وابستہ ہے کہ آئی ایم ایف کا بیل آئوٹ پیکیج پاکستان کو معاشی گرداب سے نکال لے گا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کیا ہوگا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے ادارے کمزور قوموں کو معاشی اعتبار سے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے نہیں بنائے گئے بلکہ ان کا مقصد کمزور قوموں کی معیشتوں کو خراب سے خراب تر کرنا اور انہیں مغرب کا معاشی غلام بنانا ہے۔ آئی ایم ایف نے اس وقت بھی صاف کہہ دیا ہے کہ اگر پاکستان نے اس کی اصلاحات کو مکمل طور پر نافذ نہ کیا تو اس کے قرضوں کا بوجھ بڑھ کر اس کے جی ڈی پی کا 60 فی صد ہوجائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام اصلاحات یا مطالبات پر عمل کیا تو پاکستان میں کروڑوں لوگ معاشی اعتبار سے زندہ درگور ہوجائیں گے۔ کیا اس کے نتیجے میں کوئی سیاسی طوفان اُٹھے گا؟۔
گیلپ پاکستان کے ایک سروے کے مطابق عمران خان کی مقبولیت میں 10 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے ایک ٹیلی وژن پروگرام میں تسلیم کیا ہے کہ اس کی وجہ معاشی صورتِ حال ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عوام کو کسی اور چیز سے فرق پڑتا ہو یا نہ پڑتا ہو مگر پیٹ پر لات پڑنے سے فرق پڑتا ہے۔ چناں چہ کہا جاسکتا ہے کہ عوام پر جیسے جیسے معاشی دبائو بڑھے گا عمران خان کی حکومت عوام میں غیر مقبول ہوتی چلی جائے گی۔ شاید اس کے بعد حکمرانوں کو خیال آئے کہ انہوں نے قوم کے معاشی قتل عام کی راہ ہموار کردی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے معاشی طور پر ترقی کی ہے اس نے قرضوں کی معیشت کے تصور سے اتنا ہی فاصلہ رکھا ہے۔ جرمنی، جاپان اور چین اس کی بہت بڑی بڑی مثالیں ہیں۔ جرمنی دوسری عالمی جنگ میں مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا اور یورپ میں اس کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ جاپان امریکا کا غلام بن گیا تھا اور جاپان کے پاس معدنی وسائل تھے ہی نہیں۔ چین گزشتہ 50 سال سے اپنے دروازے دنیا کے لیے بند کیے بیٹھا تھا مگر اپنی اہلیت اور صلاحیت سے تینوں قومیں اُٹھیں اور بڑی معاشی طاقت بن گئیں۔ ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ ان کا ذہن ’’بھیک‘‘ اور قرضوں سے آگے جاتا ہی نہیں۔ کبھی کبھی انسان کو بیساکھیاں بھی استعمال کرنی پڑجاتی ہیں مگر بیساکھیوں کو عارضی طور پر استعمال کرنے اور انہیں ’’عادت‘‘ بنانے میں بڑا فرق ہے۔