پاکستان کا ہولناک تعلیمی بحران بین الاقوامی تحقیق کا موضوع بن کر دنیا بھر میں ہمارے قومی وقار کی دھجیاں اُڑا رہا ہے۔
امریکا کے تحقیقی ادارے ولسن سینٹر کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بہت سے بچے کئی سال کی تعلیمی زندگی کے باوجود ایک فقرہ بھی نہیں پڑھ پاتے۔ چناں چہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں اب زور ’’تعداد‘‘ پر نہیں ’’معیار‘‘ پر ہونا چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق تعلیمی اعتبار سے پاکستان کا اصل مسئلہ وہ بچے نہیں ہیں جو اسکول نہیں جاپاتے بلکہ پاکستان کا اصل مسئلہ وہ بچے ہیں جو اسکول جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایسے بچوں کی تعداد ایک کروڑ 70 لاکھ ہے اور ان بچوں میں سے کئی بچے کئی سال کی اسکولنگ کے باوجود ایک فقرہ پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے۔ رپورٹ میں مشورہ دیا گیا ہے کہ بچوں میں تعلیمی مواد کی تفہیم پیدا کرنا ضروری ہے۔ رپورٹ کے مطابق نصاب کو بچوں کی سطح کے مطابق بنانا ناگزیر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تعلیم کو معیاری اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے مادری زبان میں تعلیم دینا ناگزیر ہے۔ اعلیٰ تعلیم کو کثیر اللسان یا Multilingual ہونا چاہیے مگر یہ حقیقت عیاں ہے کہ انگریزی کی موجودگی طلبہ کی اکثریت کو نصاب سے کاٹ دیتی ہے اور طلبہ کی ذہانت ان کے کام نہیں آپاتی۔ چوں کہ طلبہ اور اساتذہ انگریزی میں خیالات کے اظہار پر قادر نہیں ہوتے اس لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تحقیق کے میدان میں اِدھر اُدھر سے تحقیقی مواد چرانے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انگریزی سائنس کی زبان ہے لیکن اگر طلبہ کو مقامی زبان میں اظہار کے مواقعے دستیاب ہوں گے تو وہ تحقیق و تخلیق کے دائروں میں بہتر نتائج پیدا کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے برٹش کونسل کے ایک سروے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ سروے کے مطابق پنجاب کے 94 فی صد انگریزی میڈیم اسکولوں میں اساتذہ انگریزی نہیں بولتے۔ (ڈان۔ کراچی۔ 16 جولائی 2019ء)
یہ رپورٹ پڑھ کر خیال آتا ہے کہ گزشتہ پچاس سال کے دوران اقتدار میں آنے والے تمام پاکستانی حکمرانوں کو اس الزام کے تحت پھانسی پر لٹکا دیا جانا چاہیے کہ انہوں نے قوم کی تعلیمی زندگی کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کثر اُٹھا نہیں رکھی۔ اس سلسلے میں فوجی اور سول حکمرانوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور ایم کیو ایم میں کوئی فرق نہیں۔
دنیا میں آج تک کسی قوم نے علم میں کمال حاصل کیے بغیر نہ بہتر انسان پیدا کیے ہیں، نہ بہتر معاشرہ تخلیق کیا ہے، نہ بہتر ریاست کو وجود بخشا ہے، نہ مادی ترقی کی ہے اور نہ عالمگیر غلبہ حاصل کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا حکمران علم اور اس سے پیدا ہونے والے شعور سے خوف کھاتا ہے، کیوں کہ علم اور شعور سے آراستہ انسانوں کو نہ غلام بنایا جاسکتا ہے، نہ انہیں دھوکے میں رکھا جاسکتا ہے اور نہ انہیں جانوروں کی طرح کسی خاص سمت میں ہانکا جاسکتا ہے۔ چناں چہ ہمارے حکمران طبقے نے ملک میں آج تک فروغ علم اور فروغ تعلیم کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بلاشبہ طلبہ تنظیموں پر پابندی جنرل ضیا الحق نے لگائی تھی مگر جنرل ضیا الحق کے بعد آنے والے کسی بھی حکمران نے اس پابندی کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ چناں چہ اس دائرے میں ملک کے تمام حکمران ہی جنرل ضیا الحق ثابت ہوئے ہیں۔ جیسا کہ ظاہر ہے طلبہ تنظیموں پر پابندی اس لیے لگائی گئی کہ طلبہ میں سیاسی اور سماجی شعور پیدا نہ ہو۔ طلبہ میں سیاسی اور سماجی شعور پیدا ہوگا تو وہ حکمرانوں کے لیے مسائل کھڑے کریں گے۔ شعور اور علم سے خوف ہی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں صحافت اور آزادی اظہار پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ آپ پاکستان میں اسلام کے خلاف سازش کرسکتے ہیں کوئی نہیں پوچھے گا، آپ پاکستان میں توہین رسالت کرسکتے ہیں کوئی آپ کی گردن نہیں مروڑے گا، آپ پاکستان کی تاریخ پر حملہ کریں گے کوئی نہیں پوچھے گا، آپ اقبال کو دہشت گرد شاعر کہیں گے اور قائد اعظم کو سیکولر قرار دیں گے کسی کے کان پر جوں نہیں رینگے گی، مگر آپ مصنوعی اور حقیقی حکمرانوں پر تنقید کریں گے تو آپ کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ ہمارے اسکولوں میں موجود ایک کروڑ 70 لاکھ بچوں میں سے بہت سے بچے ایک فقرہ بھی ٹھیک طرح نہیں پڑھ سکتے۔ کئی سال پہلے ہونے والے ایک سروے میں اس حقیقت کا اظہار ہوا تھا کہ ہمارے اسکولوں کے بچوں کی اکثریت ریاضی کے عام سوالات حل نہیں کرسکتی۔
اساتذہ کسی بھی تعلیمی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اچھا اسکول، اچھا کالج اور اچھی جامعہ وہ نہیں ہے جو مہنگی ہے، جہاں وال ٹو وال کارپٹ بچھے ہوئے ہیں۔ جہاں ائرکنڈیشن لگے ہوئے ہیں بلکہ اچھا تعلیمی ادارہ وہ ہے جہاں اچھے اساتذہ موجود ہیں۔ ہمارے اسکولوں میں اساتذہ کی حالت کیسی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سندھ کے وزیر تعلیم نے ایک ڈیڑھ ماہ قبل سندھ اسمبلی میں کھڑے ہو کر انکشاف کیا کہ سندھ کے اسکولوں میں موجود ایک لاکھ 34 ہزار اساتذہ میں ایک لاکھ اساتذہ ایسے ہیں جنہیں ’’استاد‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حزب اختلاف ہنگامہ آرائی نہ کرے اور حکومت پر دبائو نہ ڈالے تو حکومت سندھ ان ایک لاکھ نااہل اساتذہ کو ملازمتوں سے برطرف کرنے کے لیے تیار ہے۔ آپ اندازہ کریں جس صوبے کے ایک لاکھ 34 ہزار اساتذہ میں سے ایک لاکھ اساتذہ اتنے نااہل ہوں کہ انہیں بھرتی کرنے والی حکومت خود انہیں نااہل قرار دے تو اس صوبے کے بچوں کی تعلیمی نااہلیت کا کیا عالم ہوگا۔ اس صورتِ حال سے آپ اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں کہ سندھ کے باقی ماندہ 34 ہزار اساتذہ اہلیت کا قطب مینار ہوں گے، ایسا نہیں ہے۔ آپ ان اساتذہ کو گزارے کے لائق سمجھیں۔ بدقسمتی سے یہ صرف سندھ کی صورتِ حال نہیں ہے۔ دوسرے صوبوں کی صورتِ حال سندھ کی صورتِ حال سے تھوڑی بہت ہی بہتر ہوگی۔ قوم جب عروج کی طرف جاتی ہے تو پوری قوم عروج کی طرف جاتی ہے۔ چناں چہ زوال بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ پوری قوم کو دبوچتا ہے۔ بدقسمتی سے کالجوں اور جامعات کے اساتذہ کی اکثریت بھی نااہلوں پر مشتمل ہے۔ چناں چہ بدقسمتی اسکول سے جامعہ تک طلبہ کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔
ظاہر ہے کہ اسکولوں کا معیار تعلیم پست ہوتا ہے تو کالجوں کے طلبہ کہاں سے اچانک ’’قابل‘‘ ہوجائیں گے ، اس لیے کہ طلبہ میٹرک کے بعد ہی کالجوں میں آتے ہیں۔ کالجوں کے طالب علم فہم و فراست سے محروم ہوتے ہیں تو جامعہ کے طلبہ کہاں سے علامہ اقبال یا آئن اسٹائن ہو سکتے ہیں اس لیے کہ انٹر کر کے ہی طلبہ جامعات میں داخلہ لیتے ہیں۔ اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری ساری زندگی اپنے دو اساتذہ فراق گورکھ پوری اور ادیب صاحب کا ذکر کرتے رہے۔ عسکری کے شاگرد سلیم احمد ساری زندگی عسکری عسکری اور کرار حسین، کرار حسین کرتے رہے۔ سراج منیر جب تک زندہ رہے سلیم احمد، سلیم احمد کرتے رہے۔ احمد جاوید کسی سے ملتے ہیں تو دس منٹ کے بعد اپنے استاد سلیم احمد کا ذکر نکال لیتے ہیں۔ ہماری حسرت ہی رہی کہ ہم بھی اپنے کسی استاد کو صبح و شام یاد کرتے۔
تعلیم کے سلسلے میں زبان کا مسئلہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دنیا کی ہر اہم قوم نے جو بھی علمی عظمت پیدا کی اپنی زبان میں پیدا کی۔ ’’اپنی زبان‘‘ کا ایک مطلب ’’مادری زبان‘‘ ہے۔ ’’اپنی زبان‘‘ کا دوسرا مطلب ’’مذہب کی زبان‘‘ ہے۔ ’’تہذیب کی زبان ہے۔ ’’مشترک تاریخی تجربے کی زبان‘‘ ہے۔ ماحول کی زبان ہے۔ علامہ اقبال کی مادری زبان پنجابی تھی مگر انہوں نے اردو اور فارسی میں عظیم الشان شاعری تخلیق کی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اردو اور فارسی اقبال کی مذہبی زبانیں تھیں۔ تہذیبی زبانیں تھیں۔ مشترک تاریخی تجربے کو بیان کرنے والی زبانیں تھیں اور ماحول کی زبانیں تھیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم موجودہ پاکستان میں اپنی مادری زبانوں میں بھی بنیادی تعلیم کا اہتمام کرسکتے ہیں اور صرف اردو کو بھی اس مقصد کے لیے بروئے کار لاسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو ہماری مذہبی زبان ہے، اردو ہماری تہذیبی زبان ہے، اردو ہمارے مشترکہ تاریخی تجربے کو بیان کرنے والی زبان ہے اور اردو ہمارے ماحول کی زبان ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان پر جو حکمران مسلط ہیں وہ مغرب زدہ ہیں۔ چناں چہ انہوں نے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر انگریزی کو مسلط کیا ہوا ہے۔ حالاں کہ انگریزی نہ ہمارے مذہب کی زبان، نہ انگریزی ہماری تہذیب کی زبان، نہ انگریزی ہمارے مشترک تاریخی تجربے کو بیان کرتی ہے۔ یہاں تک کہ انگریزی ہمارے ماحول کی زبان بھی نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انگریزی نے پوری قوم کو گونگا اور تخلیقی صلاحیت سے عاری قوم بنادیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارا حکمران طبقہ صرف سیاسی اور معاشی دائرے میں مغرب کا ایجنٹ نہیں ہے بلکہ وہ لسانی دائرے میں بھی مغرب کا ایجنٹ ہے۔ یہ طبقہ فوج میں بھی ہے۔ بیورو کریسی میں بھی، نواز لیگ میں بھی ہے، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں بھی۔ یہاں تک کہ عدلیہ اور ذرائع ابلاغ میں بھی۔ یہ طبقہ سیاسی اور معاشی دائروں میں قوم کا مستقبل تباہ کرچکا ہے۔ یہ طبقہ لسانی اور تعلیمی دائرے میں بھی قوم کے مستقبل کو تباہی اور بربادی سے دوچار کررہا ہے۔ اس طبقے سے نجات حاصل کیے بغیر پاکستان کو ’’تخلیقی پاکستان‘‘ اور ’’عظیم پاکستان‘‘ نہیں بنایا جاسکتا۔