اقبال نے کہا ہے۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح اُمم کی حیات کشمکش انقلاب
فراق نے کہا ہے۔
اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں
کارل مارکس نے کہا ہے۔
فلسفے نے اب تک زندگی کی تشریح و تعبیر کی ہے مگر مسئلہ زندگی کی تشریح و تعبیر نہیں بلکہ زندگی کو بدلنا ہے۔ اقبال مسلمان ہیں اور ان کے یہاں انقلاب ایک روحانی اور اخلاقی تصور ہے۔ فراق ہندو ہیں اور ان کے یہاں انقلاب ایک سماجی و نفسیاتی ضرورت ہے۔ کارل مارکس لادین ہے اور اس کے یہاں انقلاب ایک معاشی خیال ہے۔ مگر انقلاب پر تینوں کا اتفاق ہے۔ جاوید چودھری نے اپنے ایک حالیہ کالم میں ’’انقلاب مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگادیا ہے۔ ان کے کالم کے چند اہم اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
مجھے یہ بھی پتا چلا انقلاب فرانس 1980 یا 1990ء میں نہیں آیا تھا، یہ 1789سے 1799 کے درمیان آیا تھا لیکن یہ انقلاب اتنا خوفناک تھا کہ فرانس آج 220 سال بعد بھی اس کے جھٹکوں سے باہر نہیں آ سکا، آپ کو فرنچ لوگوں کے چہروں پر آج بھی خوف ملے گا۔ یہ آج بھی بااعتماد نہیں ہیں، یہ آج بھی دروازوں کو چھ چھ تالے لگا کر سوتے ہیں، مجھے یہ بھی پتا چلا ایران 1978ء کے انقلاب سے پہلے دنیا کے تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل تھا، ہارورڈ یونیورسٹی نے امریکا سے باہر اپنا صرف ایک کیمپس بنایا تھا اور وہ ایران کے شہر قم میں تھا، 1978ء میں ایک امریکی ڈالر میں 80 ایرانی ریال آتے تھے لیکن پھر انقلاب آیا اور ایران آج 41 سال بعد بھی انقلاب کے برے اثرات سے باہر نہیں آ سکا، آج 42 ہزار 106 ایرانی ریال ایک امریکی ڈالر کے برابر ہیں، ایران آج بھی اپنی سروائیول کی جنگ لڑ رہا ہے اور یہ مغرب سے تعلقات استوار کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے، یہ ایرانی قوم کا صبر، یونٹی اور وسائل ہیں جن کے صدقے ایران 41 سال نکال گیا ورنہ خیال تھا یہ اکیسویں صدی میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ مجھے یہ بھی پتا چلا سوویت یونین اور چین 60 سال تک سرمایہ کاری کے خلاف ڈٹے رہے لیکن پھر کیا ہوا، 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور روس اپنے دروازے سرمایہ کاری کے لیے کھولنے پر مجبور ہوگیا جب کہ چین پوری دنیا کے لیے سرمایہ کاری کی فیکٹری بن گیا، مجھے یہ بھی پتا چلا دُنیا میں ’’اسلامی بھائی چارہ‘‘ نام کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا، دنیا غریب اور امیر دو حصوں میں تقسیم ہے، آپ اگر غریب ہیں تو سعودی عرب ہو یا پھر لیبیا یہ آپ کے لیے کاخ امرا کے درو دیوار بن جائیں گے، یہ آپ کو اپنی سرحد پر قدم نہیں رکھنے دیں گے اور آپ اگر امیر ہیں تو آپ خواہ ہندو ہوں، یہودی ہوں، عیسائی ہوں یا پھر آپ کافر ہوں دنیا ہار لے کر آپ کا استقبال کرے گی، مجھے یہ بھی پتا چلا محمد بن قاسم کو دنیا سے رخصت ہوئے 1304 سال ہو چکے ہیں اور اس کے بعد کسی مسلمان خاتون کی آواز پر کوئی محمد بن قاسم ہندوستان نہیں آیا۔
میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں میں جب اس عمل سے گزر رہا تھا تو عمران خان آیت اللہ خمینی بن کر ابھر رہے تھے اور میں ان صحافیوں میں شامل تھا جنہوں نے اپنے تمام ناآسودہ خواب ان کے قدموں میں بچھا دیے تھے۔ میں ملک کا واحد صحافی ہوں جو عمران خان کو 1996سے جانتا ہے، میں ان کی پہلی پریس کانفرنس میں بھی گیا تھا اور میں 2014 کے دھرنوں تک ان کے ساتھ بھی رہا تھا، یہ مجھ سے اپنے انقلابی ورکروں کو لیکچر بھی دلاتے تھے اور یہ انہیں میرے کالم بھی پڑھنے کے لیے دیتے تھے اور میں بھی انہیں قائداعظم ثانی سمجھتا تھا لیکن پھر 2011 آیا، عمران خان چھٹے گیئر میں آئے اور میں اور میرے جیسے تمام لوگوں کے خواب ٹوٹتے چلے گئے‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 11 جولائی 2019ء)
زندگی کے دو بنیادی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ زندگی کیسی ہے اور دوسرا یہ کہ زندگی کو کیسا ہونا چاہیے؟ حیوانات کو زندگی جیسی ملتی ہے وہ اس پر قناعت کرتے ہیں اور اس میں کسی تبدیلی کے خواہش مند ہوتے ہیں نہ انہیں کبھی زندگی کو بدلنے کے لیے جدوجہد کرتے دیکھا گیا ہے۔ البتہ ’’انسان‘‘ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اگر انحرافات ہوں، ضلالت اور گمراہی ہو، جبر ہو، استحصال ہو، ظلم ہو، عدم مساوات ہو تو انسان زندگی کو بدلنے کا ’’خواب‘‘ دیکھتا ہے۔ خواب کے مطابق انسانی، ذہنی، علمی اور مادی وسائل جمع کرتا ہے اور زندگی کو ویسا بنانے کی تگ و دو کرتا ہے جیسا کہ زندگی کو ہونا چاہیے۔
دنیا میں جتنے پیغمبر آئے انہوں نے کفر اور شرک، ظلم اور ناانصافی کے ’’حاضر و موجود‘‘ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اللہ کے حکم پر انسان کو توحید، آخرت، محبت و اخوت اور انصاف کی طرف بلایا اور نہ صرف بلایا بلکہ ایسا معاشرہ قائم کرکے دکھایا جو توحید مرکز تھا، آخرت مرکز تھا، انصاف مرکز تھا، محبت مرکز تھا، اخوت مرکز تھا اور وحی مرکز تھا۔ صرف وحی کا علم انسان کو بتاسکتا ہے کہ زندگی کتنی مسخ ہوگئی ہے اور زندگی کو کیسا ہونا چاہیے۔ جن لوگوں کے پاس وحی کا علم نہیں ہوتا وہ انسانی ساختہ علم کی بنیاد پر مثالی معاشرے کا تصور پیدا کرتے ہیں جیسا کہ کارل مارکس اور مائو نے کیا۔ اب جاوید چودھری کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ انبیا کی سنت کی پیروی پر آمادہ ہیں نہ انسانی تاریخ کی عظیم شخصیتیں انہیں رہنما محسوس ہوتی ہیں، وہ نہ علم وحی کی روشنی میں ’’نئی دنیا‘‘ پیدا کرنا چاہتے ہیں نہ انسانی ساختہ علم کی روشنی میں ’’نیا اور بہتر معاشرہ‘‘ خلق کرنا چاہتے ہیں۔ حیوانوں کی طرح انہیں جو دنیا مل گئی ہے بس وہ اسی پر قناعت کرنا چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ دنیا صرف حیوانوں کی دنیا بھی نہیں ہے۔ یہ شیطانوں کی دنیا ہے۔ اس دنیا کا حال یہ ہے کہ ساڑھے سات ارب انسانوں میں سے ڈھائی ارب انسانوں کا کوئی خدا اور کوئی مذہب ہی نہیں ہے۔ مزید ڈھائی ارب انسانوں نے خدا کے شریک ایجاد کر رکھے ہیں۔ خود مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان میں سے بیش تر کی زندگی نہ خدا مرکز ہے، نہ رسول مرکز ہے، نہ قرآن مرکز ہے، نہ علم مرکز ہے، نہ تخلیق مرکز ہے، نہ اخلاق مرکز ہے، نہ انصاف مرکز ہے، سیاسی اور معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری دنیا ظلم اور جبر سے بھری ہوئی ہے۔ اس دنیا میں پانچ عالمی غنڈوں یعنی امریکا، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کا غلبہ ہے۔ دنیا کے سو سے زیادہ ملکوں میں امریکا کے فوجی اڈے ہیں، یہ ملک امریکا کی مرضی کے خلاف سانس بھی نہیں لے سکتے۔ جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے مگر جاپان کا وزیراعظم امریکا کے صدر کے سامنے اس طرح بیٹھتا ہے جیسے امریکا کا صدر برہمن ہو اور جاپان کا وزیراعظم شودر۔ امریکا آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ذریعے دنیا کے 75 سے زیادہ ملکوں کی معیشت کو کنٹرول کررہا ہے، یہ ملک امریکا کی مرضی کے بغیر نہ ٹیکس بڑھا سکتے ہیں نہ ٹیکس میں کمی کرسکتے ہیں۔ ہماری دنیا میں ایسی معاشی اور مالی عدم مساوات ہے کہ صرف 8 افراد کی مجموعی دولت ساڑھے تین ارب انسانوں کی مجموعی دولت سے زیادہ ہے۔ ہماری دنیا میں نہ کہیں سیاسی انصاف ہے، نہ معاشی انصاف۔ پاکستان پر جرنیلوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، شریفوں، زرداریوں اور Electables کا قبضہ ہے۔ ملک کی 70 فی صد آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں۔ ہماری 70 فی صد آبادی بیمار پڑتی ہے تو اسے علاج کی مناسب سہولتیں فراہم نہیں ہوپاتیں۔ ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔ ایک کروڑ 70 لاکھ بچے اسکول جاتے ہیں مگر ان کا معیار تعلیم ایسا ہے کہ امریکا کے ایک تحقیقی ادارے کے مطابق کئی سال کی اسکولنگ کے باوجود بہت سے بچے ایک فقرہ بھی ٹھیک سے نہیں پڑھ پاتے۔ ملک میں اعلیٰ تعلیم صرف امیروں کے لیے وقف ہوتی جارہی ہے۔ اس وقت ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کا 60 فی صد پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے۔ ان یونیورسٹیوں کی فیسیں لاکھوں میں ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ علم اب اس کا ہے جس کے پاس دولت ہے، جس کے پاس دولت نہیں وہ اسکول سے کالج تک اور کالج سے یونیورسٹی تک معیاری تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔ جاوید چودھری چاہتے ہیں اس جہنم جیسی دنیا میں کوئی انقلاب نہ آئے بلکہ یہ دنیا اربوں لوگوں کے لیے روحانی، اخلاقی، علمی، سیاسی، سماجی اور معاشی اعتبار سے اسی طرح جہنم بنی رہے۔ جاوید چودھری کو اگر ذاتی سطح پر یہ پسند ہے تو یہ ان کی ذاتی اور آزادانہ پسند ہے۔ ورنہ ہر حساس دل انسان چاہتا ہے کہ انفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں انقلاب برپا ہو تا کہ اربوں لوگ روحانی، اخلاقی، علمی، نفسیاتی، جذباتی، سماجی اور معاشی جہنم سے نکلیں۔
بدقسمتی سے انقلابات کے بارے میں جاوید چودھری کے خیالات بھی سطحی، سرسری اور معمولی ہیں۔ انقلاب فرانس انسانی تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ہے اور اس کی پشت پر روسو اور والٹیئر جیسے مفکروں کی فکر کھڑی تھی مگر جاوید چودھری فرما رہے ہیں کہ انقلاب فرانس اتنا ہولناک تھا کہ انقلاب کے 220 سال بعد بھی اہل فرانس گھروں میں چھ چھ تالے لگا کر سوتے ہیں۔ جاوید چودھری نے یہ بات اس طرح لکھی ہے جیسے فرانس کو ہر سال اربوں تالے جاوید چودھری کے کارخانے سے فراہم ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)