افغانستان میں امریکا کی مکمل شکست سے پاکستان کے سیکولر، لبرل، کمیونسٹ، سابق کمیونسٹ عناصر میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ یہاں تک کہ جاوید احمد غامدی کے شاگرد سلیم صافی بھی امریکا کی شکست کے اعلان سے وحشت زدہ ہو گئے ہیں۔ وحشت زدگی میں انہوں نے ایک ایسا کالم لکھ ڈالا ہے جو ان کی کم علمی، کم فہمی کا اشتہار بن گیا ہے۔ یوں تو اس کالم کی ہر سطر شرمناک ہے مگر اس کے مندرجہ ذیل حصے تو کسی کے لیے بھی ناقابل برداشت ہوسکتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔
’’کیا افغانستان میں امن آگیا اور اس امن سے پاکستان بھی مستفید ہونے لگا؟ نہیں۔ کیا افغانستان میں نائن الیون کے بعد بے گناہ شہید ہونے والے افغان یا پھر پاکستان میں ستر ہزار کے قریب شہید ہونے والے بے گناہ پاکستانی دنیا میں واپس آگئے؟ نہیں۔ اچھا تو کیا امریکا افغانستان سے اسی طرح مکمل نکل گیا جس طرح کہ سوویت یونین نکل گیا تھا اور یہاں سے نکلنے کے بعد امریکا کے اسی طرح ٹکڑے ہوگئے جس طرح کہ سوویت یونین کے ہو گئے تھے؟ نہیں۔ تو پھر یہ پاکستان کے مذہبی سیاستدان اور دانشور کس جیت کا جشن منارہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ قطر ڈیل امریکا کی فتح ہے اور نہ طالبان کی۔ فتح وہ ہوتی ہے کہ جس میں اپنے موقف کو آپ منوالیں۔ یہ فتح نہیں بلکہ ڈیل ہے جس میں دونوں فریقوں نے اپنے اپنے حصے کی حقیقت تسلیم کرلی ہے اور دونوں ماضی کے موقف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ (روزناماہ جنگ۔ 4 مارچ 2020ء)
اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کا یہ عجیب پہلو ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی فتح کافروں اور مشرکوں سے کیا بدبخت اور بدباطنی مسلمانوں سے بھی ہضم نہیں ہوتی۔ چناں چہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی فتوحات پہ اس طرح کیچڑ اچھالتے ہیں کہ فتح شکست نظر آنے لگے یا کم از کم فتح فتح دکھائی نہ دے۔ سلیم صافی نے بھی اپنے کالم میں یہی کارنامہ انجام دیا ہے۔
سلیم صافی کا اصرار ہے کہ قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والا امن سمجھوتا نہ امریکا کی فتح ہے نہ طالبان کی فتح ہے یہ تو صرف ایک ’’ڈیل‘‘ ہے۔ سلیم صافی نے کیا امریکا کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور طالبان کو نواز شریف سمجھا ہوا ہے جو ’’ڈیل‘‘ اور ڈھیل کی سیاست کرتے ہیں۔ امریکا وقت کی واحد سپر پاور ہے۔ ساری دنیا اس کی مٹھی ہے، اس کے ایک اشارے پر حکومتیں زیر و زبر ہوجاتی ہیں۔ چین اور روس دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں مگر روس کے صدر پیوٹن اور چین کے صدر زی درجنوں بار کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا سے محاذ آرائی نہیں چاہتے۔ وہ امریکا کے ساتھ ’’ڈیل‘‘ کے خواہش مند ہیں مگر امریکا نے ابھی نہ روس سے ڈیل کی نہ چین سے ڈیل کی۔ سوال یہ ہے کہ ایسی طاقت طالبان جیسی ’’معمولی قوت‘‘ سے کیوں ’’ڈیل‘‘ کرلے گی؟ کیا طالبان کی سیاسی، معاشی اور عسکری طاقت روس اور چین سے بھی زیادہ ہے؟ کیا طالبان امریکا سے بڑی یا اس کی مادی طاقت؟ ارے بھئی حقیقت یہ ہے کہ امریکا کو شکست ہوگئی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں سوویت یونین کو شکست ہوگئی تھی۔ جب تک سوویت یونین کو شکست نہیں ہوئی تھی وہ مجاہدین کے ساتھ لڑتا رہا۔ جب اسے شکست ہوگئی تو سوویت یونین کے آخری صدر گورباچوف نے اعتراف کیا کہ افغانستان ان کے ملک کے لیے رستا ہوا زخم بن گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے حریفوں کے ساتھ جنیوا میں ایک معاہدے پر دستخط کیے اور اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لیں۔ اس وقت امریکا کی بھی یہی پوزیشن ہے۔ امریکا 19 سال تک افغانستان اور طالبان کو فتح کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر بری طرح ناکام رہا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ امریکا کے اتحادی برطانیہ کے مشہور زمانہ چینل بی بی سی نے کچھ عرصہ قبل اپنی رپورٹ میں کہا کہ افغانستان کے 70فی صد علاقے پر یا تو طالبان کا مکمل کنٹرول ہے یا یہ علاقہ طالبان کے زیر اثر ہے۔ کیا یہ بات امریکا کی مکمل شکست کو ظاہر نہیں کرتی؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز امریکا کے اتحادی کو نظر آتی ہے وہ سلیم صافی کو نظر نہیں آتی۔ کیا سلیم صافی کی آنکھوں میں کالا موتیا اُترا ہوا ہے؟ کیا ان کے ’’روحانی کینسر‘‘ نے ان کی بصیرت کو مکمل طور پر ہڑپ کرلیا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ امریکا نے طالبان کو فنا کرنے کے لیے دو ہزار ارب ڈالر صرف کیے مگر امریکا طالبان کو فنا نہ کرسکا۔ کیا یہ امریکا کی شکست نہیں ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ امریکا نے ایٹم بم کے سوا افغانستان میں طالبان کے خلاف ہر ہتھیار استعمال کرلیا مگر طالبان آج بھی زندہ و تابندہ ہیں۔ کیا یہ امریکا کی شکست نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکا نے افغانستان میں جو ڈیڑھ لاکھ نفوس پر مشتمل فوج کھڑی کی وہ تین دن بھی امریکا کے بغیر طالبان کا مقابلہ نہیں کرسکتی؟ کیا یہ امریکا کی شکست نہیں ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکا نے افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ پولیس فورس کھڑی کی ہے مگر یہ پولیس فورس بھی امریکا کی مدد کے بغیر طالبان سے لڑنے کے قابل نہیں۔ کیا یہ امریکا کی شکست نہیں ہے؟ امریکا نے افغانستان میں جمہوریت کا پودا لگایا مگر اس جمہوریت کا یہ عالم ہے کہ حالیہ انتخابات کے بعد اشرف غنی نے فتح کا اعلان کیا تو ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے اس فتح کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ خود امریکا نے بھی اشرف غنی کی ’’جمہوری فتح‘‘ کا ماتھا چومنے سے انکار کردیا۔ کیا یہ امریکا کی شکست نہیں ہے۔
چلیے ہم سلیم صافی کی دلجوئی کی خاطر تسلیم کرلیتے ہیں کہ افغانستان میں امریکا کو شکست نہیں ہوئی بلکہ اس نے طالبان کے ساتھ صرف ایک ڈیل کی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ڈیل ہمیشہ مساوی قوتوں کے درمیان ہوتی ہے۔ چناں چہ اس کے معنی یہ ہوئے کہ امریکا نے طالبان کو اپنے برابر کی طاقت تسلیم کرلیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا یہ امریکا کی شکست نہیں ہے۔ کیا طالبان مساوی معنوں میں امریکا کی مساوی معنوں میں امریکا کی مساوی طاقت ہیں۔ کیا وہ دنیا کی دو سپر پاورز میں سے ایک ہیں؟ امریکا اپنے دفاع پر سالانہ 700 ارب ڈالر صرف کررہا ہے تو کیا طالبان بھی اپنے دفاع پر سالانہ 700 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ امریکا کی معیشت 6 ہزار ارب ڈالر کی معیشت ہے۔ کیا طالبان کی معیشت بھی 6 ہزار ارب ڈالر کی معیشت ہے؟ امریکا کے پاس ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم ہیں۔ کیا طالبان کے پاس بھی ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم ہیں؟ دنیا کے 150 ممالک میں امریکا کے فوجی اڈے ہیں۔ کیا طالبان بھی دنیا کے 150 ملکوں میں فوجی اڈے رکھتے ہیں۔ امریکا آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ذریعے دنیا کی 100 معیشتوں کو کنٹرول کررہا ہے۔ کیا طالبان بھی کسی آئی ایم ایف اور کسی عالمی بینک کے ذریعے دنیا کی 100 معیشتوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ امریکا کی سیاسی طاقت کا یہ عالم ہے کہ وہ مسلم دنیا کی 57 آزاد ریاستوں کے حکمرانوں کو دھمکی دے دے تو 57 ریاستوں کے حکمرانوں کا پیشاب خطا ہوجائے۔ کیا طالبان بھی دھمکی کے ذریعے 57 آزاد ریاستوں کے حکمرانوں کا پیشاب خطا کرسکتے ہیں؟ اس کے باوجود امریکا نے طالبان کے ساتھ سلیم صافی کی اصطلاح میں ’’ڈیل‘‘ کی ہے تو اس سے بڑھ کر امریکا کی شکست کا ثبوت کیا ہوگا؟۔
سلیم صافی کی اخلاقی، علمی، ذہنی اور نفسیاتی بے حیائی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے لکھا ہے کہ کیا امریکا اسی طرح افغانستان سے نکل گیا ہے جس طرح سوویت یونین نکل گیا تھا؟ کیا امریکا اسی طرح ٹوٹ گیا ہے جس طرح سوویت یونین ٹوٹ گیا تھا؟ نہیں تو پھر مذہبی سیاست دان اور دانش ور کس جیت کا جشن منارہے ہیں۔ لیجیے سلیم صافی نے دنیا میں فتح و شکست کا ایک ’’نیا معیار‘‘ متعارف کرادیا۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جب امریکا سوویت یونین کی طرح افغانستان سے نکلے اور سوویت یونین کی طرح ٹوٹے گا تب وہ مانیں گے کہ امریکا کو افغانستان میں شکست ہوگئی ہے۔ یعنی اب دنیا میں جہاں جہاں بھی پہلوان زور آزمائی کریں گے وہاں اس وقت کسی پہلوان کو ’’شکست خورہ‘‘ تسلیم کیا جائے گا جب پہلوان اور اس کی بیوی میں طلاق ہوجائے گی اور ان کا گھر زلزلے سے گر جائے گا۔ واہ فتح و شکست کا کیا ’’عالمانہ معیار‘‘ سلیم صافی نے دنیا کو دیا ہے۔ اس معیار کو درست مان لیا جائے تو جاپان کو آج تک امریکا کے ہاتھوں شکست نہیں ہوئی، اس لیے کہ امریکا آج بھی کسی نہ کسی انداز میں جاپان میں موجود ہے اور جاپان آج سوویت یونین کی طرح ’’ٹکڑے ٹکڑے‘‘ نہیں ہوا۔ سلیم صافی کے معیار فتح و شکست کے اعتبار سے تو امریکا کو کبھی ویت نام میں شکست نہیں ہوئی اس لیے کہ ویت نام سے نکلنے کے بعد امریکا سوویت یونین کی طرح نہیں بکھرا اور وہ آج بھی ویت نام میں سیاسی اور معاشی طور پر موجود ہے۔ غور کیا جائے تو سلیم صافی واقعی عظیم لکھاری ہیں۔ موصوف نے گھر بیٹھے بیٹھے چند فقروں کے ذریعے دنیا میں فتح و شکست کی پوری تاریخ بدل ڈالی۔ البتہ ابھی طے ہونا باقی ہے کہ سلیم صافی کا جسمانی اور روحانی ’’اندھا پن‘‘ ان کی ’’انفرادی اہلیت‘‘ ہے یا یہ جاوید احمد غامدی کی شاگردی کا ’’کمال‘‘ ہے؟۔
سلیم صافی کی تعلیم و تربیت کے لیے عرض ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی پوری تاریخ ’’معجزات کی تاریخ‘‘ ہے۔ یہ تاریخ جنگ بدر سے شروع ہوئی۔ جنگ بدر میں 313 نے ایک ہزار کے لشکر کو ہرایا۔ سیدنا عمرؓ کے دور میں وقت کی دو سپر پاور کو شکست ہوئی۔ طارق بن زیاد نے صرف 18 ہزار فوجیوں کے ذریعے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دی۔ محمد بن قاسم نے صرف 17 ہزار کے لشکر سے راجا داہر کی ایک لاکھ فوج کو ہرایا۔ بابر نے صرف 8 ہزار فوجیوں کے ذریعے ابراہیم لودھی کے ایک لاکھ کے لشکر کو روند ڈالا۔ مٹھی بھر مجاہدین نے افغانستان میں وقت کی سپر پاور سوویت یونین کو منہ کے بل گرا دیا۔ اب طالبان نے وقت کی واحد سپر پاور امریکا کو شکست دے دی ہے۔ یہ فتح مسلمانوں کی تاریخ کے ’’معمول‘‘ کے مطابق ہے۔