بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ نشہ صرف شراب اور چرس کا ہوتا ہے۔ نشہ طاقت کا بھی ہوتا ہے، نشہ دولت کا بھی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مسلم دنیا بالخصوص برصغیر میں تو ’’غلامی کا نشہ‘‘ بھی خاص و عام میں بہت مقبول ہے۔ ذرا ملک کے معروف صحافی رئوف کلاسرا کے حالیہ کالم کا یہ حصہ تو پڑھیے، لکھتے ہیں۔
’’گوروں نے ماضی کے حملہ آوروں کے برعکس پہلی دفعہ ہندوستان کو نئی دنیا کا ایکسپوژر دیا۔ جہاں بہت کچھ یہاں سے نکال کر لے گئے، وہیں انہوں نے ہندوستان کو دیا بھی بہت کچھ۔ اگر ہندوستان اور پاکستان کچھ جدید دنیا کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں تو اس میں گوروں کا ڈیڑھ سو سال حکمرانی کا بھی ہاتھ ہے۔ اگرچہ بہت سے تاریخ دان یہ بھی کہتے ہیں کہ انگریزوں نے یہاں بہت ظلم کیے، مقامیوں کا استحصال کیا، ہندوستانی تاریخ کے بدترین قحط کی وجہ انگریز بنے، جس میں لاکھوں ہندوستانی مارے گئے۔ انگریزوں کی تعریف کریں تو کہا جاتا ہے یہ احساس کمتری ہے، غلامی کی فطرت ہے، جو کبھی نہیں جاتی۔ لیکن گوروں کو ہمیشہ ایک Edge رہا ہے کہ انہوں نے اپنی حکمرانی کے دور میں ہندوستانی معاشرے کو بہت کچھ واپس لوٹایا۔ سب سے بڑھ کر اس خطے میں جاری جنگوں کو کنٹرول کیا۔ جمہوریت دی، جس سے کم از کم وہ خونریز لڑائیاں ختم ہوئیں، جو اس سے پہلے ہندوستان میں جاری تھیں۔ انگریزوں ہی نے ہندوستان میں صدیوں سے جاری اس Myth کو ختم کیا کہ بادشاہ مہاراجہ قانون کو جواب دہ نہیں۔ سب ہندوستانیوں کو قانون کے سامنے برابر لاکھڑا کیا۔
انگریزوں کو دوسرے حملہ آوروں پر اس لیے برتری ہے کہ دیگر نے لوٹ مار کی، سامان ہاتھیوں پر لاد ااور چلتے بنے۔ ہندوستان سے افغانستان، سینٹرل ایشیا، ایران اور یونان تک سے حملے ہوئے۔ سب اس ملک سے مال و دولت اکٹھی کرکے لے جاتے، اس خطے کو مزید غریب کرجاتے‘‘۔ (روزنامہ دنیا۔ 16 فروری 2020ء)
ہم نے رئوف کلاسرا کا یہ کالم پڑھا تو اپنا ایک پرانا شعر یاد آگیا۔
پلٹ کر دیکھتے جاتے ہیں زنجیر محبت کو
ہمیں تو ٹھیک سے آزاد ہونا بھی نہیں آیا
رئوف کلاسرا کے کالم کے تناظر میں آپ اس شعر کو یوں بھی پڑھ سکتے ہیں۔
پلٹ کر دیکھتے جاتے ہیں زنجیر غلامی کو
ہمیں تو ٹھیک سے آزاد ہونا بھی نہیں آیا
اقبال نے غلامی کے تجربے کے بارے میں معرکہ آرا شعر کہہ رکھے ہیں۔ فرماتے ہیں۔
غلامی کیا ہے ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے کہ
دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
اقبال کہہ رہے ہیں کہ غلامی کا تجربہ انسان کو حسن و زیبائی کے ذوق سے محروم کردیتا ہے۔ آپ اندازہ تو کریں کہ اگر انسان کی زندگی سے حسن کا احساس رخصت ہوجائے تو زندگی کتنا بڑا جہنم بن جاتی ہے۔ غلامی چوں کہ انسان کو داخلی اور خارجی حسن سے محروم کردیتی ہے، اس لیے غلامی کا تجربہ دنیا ہی میں جہنم کے تجربے سے کم نہیں۔ اقبال بجا طور پر اصرار کررہے ہیں کہ غلامی کے نشے میں مبتلا شخص بصیرت سے یکسر محروم ہوجاتا ہے۔ اس لیے غلاموں کی بصیرت پر بھروسا خطرناک ہے۔ ہمیں بھروسا کرنا چاہیے تو صرف ’’آزاد انسان‘‘ کی بصیرت پر۔ اس لیے کہ آزاد انسان ہی زندگی کو معروضی طور پر یا Objectively دیکھ سکتا ہے۔ مگر غلامی کے بارے میں اقبال کا سب سے ہولناک شعر یہ ہے۔
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اکثر لوگ غلامی کو صرف ’’سیاسی تجربہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ غلامی صرف سیاسی تجربہ نہیں بلکہ یہ اتنی ہولناک چیز ہے کہ یہ افراد کیا قوموں کے ضمیر تک کو بدل دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں غلاموں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی شخصیت میں عیب ہی عیب نظر آنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ اسے اپنا ہنر بھی عیب دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس کے برعکس اسے ’’آقائوں‘‘ کا ’’ناخوب‘‘ بھی ’’خوب‘‘ محسوس ہونے لگتا ہے۔ برصغیر میں ضمیر کی تبدیلی کی سب سے بڑی علامت سرسید اور ان کی پیدا کردہ ’’مخلوق‘‘ ہے۔ غلامی کے تجربے سے پہلے وہ ایک عام مسلمان کی طرح تھے مگر غلامی کے تجربے نے ان کی ہر چیز کو بدل دیا۔ انہوں نے قرآن کے تمام معجزات کا انکار کرکے قرآن کا انکار کردیا۔ انہوں نے احادیث کا انکار کردیا۔ یہاں تک کہ انہیں صحیح مسلم اور صحیح بخاری بھی ’’مشتبہ‘‘ نظر آنے لگیں۔ انہوں نے فقہ کی پوری روایت کو مسترد کردیا۔ تفسیر کی پوری روایت پر خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ انہوں نے اجماع کے اصول کا انکار کردیا۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ عربی، فارسی اور اردو میں کیا رکھا ہے۔ سیکھنی ہے تو انگریزی اور فرانسیسی سیکھو۔ اقبال کا شعر پھر پڑھ لیجیے۔
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
رئوف کلاسرا کہہ رہے ہیں کہ انگریزوں نے ماضی کے حملہ آوروں کے برعکس ہندوستان کو پہلی بار ’’نئی دنیا‘‘ کا ’’Exposure‘‘ دیا۔ ان فقروں میں ’’غلامی کا نشہ‘‘ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ان فقروں کا پہلا نقص یہ ہے کہ ان میں ’’نئی دنیا‘‘ سے ’’تعارف‘‘ کو صرف انگریزوں سے منسوب کیا گیا ہے، حالاں کہ مسلمان بھی ہندوستان میں ’’نئی دنیا‘‘ لے کر آئے تھے۔ ہندوئوں کی آسمانی کہلانے والی کتب میں ’’توحید‘‘ کا تصور موجود ہے مگر ہندو اس تصور کو یکسر بھول گئے تھے اور شرک میں مبتلا تھے۔ مسلمانوں نے ہندوئوں کو توحید کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ ہندوئوں میں ذات پات کا نظام موجود تھا۔ مسلمانوں نے ہندوئوں کو ذات پات سے بلند ہونا سکھایا۔ مسلمانوں نے ہندوستان کو ایک نہیں تین زبانوں یعنی عربی، فارسی اور اردو کا تحفہ دیا۔ ان زبانوں کے علوم و فنون بالخصوص شاعری نے ہندوستان کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ فارسی اور اردو کی روایت کے زیر اثر ہندوئوں میں سیکڑوں شاعر، ادیب اور انشا پرواز پیدا ہوئے۔ یہ تمام لوگ ہندوئوں کی ’’تہذیبی کائنات‘‘ میں نہیں مسلمانوں کی ’’تہذیبی کائنات‘‘ میں سانس لیتے تھے۔ مسلمانوں نے ہندوستان کو نیا فن تعمیر دیا۔ اس کا سب سے بڑا مظہر تاج محل ہے۔ آج بھی مغرب کے درجنوں رہنما بھارت آتے ہیں تو وہ ہندوئوں کے مندروں کا نہیں ’’تاج محل‘‘ کا دورہ کرتے ہیں۔ یعنی آج بھی فن تعمیر کے دائرے میں بھارت کا تعارف ’’ہندو ہندوستان‘‘ نہیں ’’مسلم ہندوستان‘‘ ہے۔ مسلمانوں نے ہندوستان کو مصوری کے نئے اسالیب سے روشناس کرایا۔ مثلاً Miniatiure Painting کی پورے ہندوستان کو مسلمانوں کی عطا ہے۔ مائیکل مورگن ہملٹن نے اپنی تصنیف The Lost History میں مسلم ہندوستان کو اس سائنس کا اہم مرکز قرار دیا ہے جو مسلمانوں سے مغرب پہنچی۔ مسلمانوں نے بھارت میں باغبانی کو ایک ’’فن‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری نے کہیں لکھا ہے کہ مسلمانوں نے برصغیر کی موسیقی میں اتنا کام کیا کہ انہوں نے موسیقی کا فن ہندوئوں سے چھین لیا اور ان کے استاد بن کر کھڑے ہوگئے مگر غلامی کے نشے میں ڈوبے ہوئے رئوف کلاسرا کو بھارت میں مسلمانوں کی ’’نئی دنیا‘‘ تو نظر نہیں آتی۔ انہیں نظر آتی ہے تو انگریز کی ’’نئی دنیا‘‘۔
اس دنیا کی ’’اصل روح‘‘ کو بھی جان لیجیے۔ انگریز ہندوستان میں ’’جدید علوم‘‘ کو اس لیے نہیں لائے تھے کہ برصغیر کے لوگ بھی ان کی طرح ’’جدید‘‘ اور ’’طاقت ور‘‘ ہوجائیں۔ وہ جدید علوم و فنون برصغیر کے لوگوں کو غلام بنانے اور انہیں ان کے مقامی علوم سے کاٹنے اور ان کے پورے تہذیبی تجربے سے کاٹ دینے کے لیے لائے تھے۔ انگریز دانش ور ڈاکٹر ولیم ہنڑ نے صاف لکھا ہے کہ مغرب کے علوم ایسے ہیں کہ مقامی لوگ ان کے زیر اثر آتے ہی اپنے مذہب سے دور ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کی گواہی ’’بابائے جدیدیت‘‘ سرسید احمد خان نے اپنی ایک تحریر میں دی ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر ہنڑ ہی کو کوٹ کیا ہے۔ بلاشبہ انگریزوں نے برصغیر میں ریل اور ڈاک اور تار کا نظام متعارف کرایا لیکن اس کا اصل مقصد برصغیر کو جدید بنانا نہیں بلکہ برصغیر کے وسائل کی لوٹ مار کو آسان بنانا اور برصغیر پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنا تھا۔ ہمارا مذہب بتاتا ہے کہ انسان کا فعل بھی اہم ہوتا ہے مگر فعل کی ’’نیت‘‘ فعل سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ عمل کا انحصار ’’نیت‘‘ پر ہے۔ بلاشبہ انگریزوں نے برصغیر کو ’’نئی دنیا‘‘ سے روشناس کرایا مگر ان کی نیت خراب تھی۔ اس کے برعکس مسلمانوں نے ہندوستان کو جس ’’نئی دنیا‘‘ کا تحفہ دیا اس کی پشت پر آقا اور غلام کی کوئی نفسیات موجود نہ تھی۔ مغرب جدید علوم و فنون کو فروغ دینے کا جتنا شوقین ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ امریکا اور یورپ اپنی جدید ٹیکنالوجی چند ہی قوموں کو منتقل کرتے ہیں۔ حالاں کہ علم و فن تو پوری انسانیت کی میراث ہے۔ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے کسی دور میں بھی اپنے علوم و فنون اور اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی کو دوسری قوموں سے نہیں چھپایا۔ جس نے جو چاہا مسلمانوں سے لے گیا۔ مگر مغرب اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی پر سانپ بن کر بیٹھا ہے۔ وہ مسلمانوں کو کیا لامذہب اور سیکولر چین کو بھی اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ چناں چہ یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ انگریز برصغیر کو جدید اور طاقت ور بناانے کے لیے یہاں اپنے علوم و فنون اور اپنی ٹیکنالوجی لائے ہوں گے۔
رئوف کلاسرا کے ذہن پر ’’غلامی کے نشے‘‘ کا ایک اثر یہ ہے کہ انہوں نے مسلم حملہ آوروں کو تو ’’ڈاکو‘‘ باور کرایا ہے اور انگریزوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ انہوں نے ہندوستان کو بہت کچھ واپس لوٹایا۔ ایک تحقیق کے مطابق انگریز ہندوستان سے صرف 45 ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے مگر رئوف کلاسرا کو اتنی بڑی ’’ڈکیتی‘‘ کی اطلاع ہی نہیں۔ مگر دوچار مسلم حملہ آور چھوٹا موٹا مال و اسباب لے گئے تو رئوف کلاسرا کو خیال آیا کہ انہوں نے تو بھارت کو غریب کردیا۔
اُتسا پٹنائک بھارت کی ایک ممتاز محقق ہیں۔ وہ اتفاق سے ہندو بھی ہیں۔ ان سے ایک بار پوچھا گیا کہ بھارت کے مسلمان حکمرانوں اور انگریزوں میں کیا فرق ہے؟ کیا ہمیں مسلم حکمرانوں کو بھی انگریزوں کی طرح سمجھنا چاہیے؟ اُتسا پٹنائک نے کہا مسلم حکمرانوں کا معاملہ انگریزوں سے مختلف ہے۔ مسلم حکمرانوں نے جو کچھ کمایا بھارت ہی میں خرچ کردیا مگر انگریز بھارت کی ساری دولت لوٹ کر برطانیہ لے گئے۔ اُتسا پٹنائک ’’ہندو‘‘ ہیں اور وہ مسلم حکمرانوں کو ’’معصوم‘‘ اور انگریزوں کو ’’ڈاکو‘‘ قرار دے رہی ہیں۔ رئوف کلاسرا ’’مسلمان‘‘ ہیں اور وہ مسلمانوں کو ’’ڈاکو‘‘ اور انگریزوں کو ’’معصوم‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ اُتسا پٹنائک کا ذہن ’’غلامی کے نشے‘‘ سے سرشار نہیں اس کے برعکس رئوف کلاسرا غلامی کے نشے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اسی لیے اقبال نے کہا ہے:
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردان حُر کی آنکھ ہے بینا
انگریزوں نے ہندوستان کو جس طرح جدید اور ترقی یافتہ بنایا اس کا احوال ممتاز مغربی مورخ ولیم ڈیل ریمپل نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’دی انارکی‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ ولیم نے لکھا ہے کہ مغلوں کا ہندوستان عالمی پیداوار یا عالمی GDP کا 25 فی صد پیدا کرتا تھا مگر جب انگریز ہندوستان سے رخصت ہوئے تو ہندوستان عالمی پیداوار یا عالمی GDP کا صرف ساڑھے چار فی صد پیدا کر رہا تھا۔ اس کے باوجود حسن نثار، جاوید چودھری اور رئوف کلاسرا جیسے لوگ مغلوں کے ہندوستان کو ’’پسماندہ‘‘ اور انگریزوں کے ہندوستان کو ’’ترقی یافتہ‘‘ باور کراتے ہیں۔
غلامی کے نشے کے عادی انگریزوں کے قانون انصاف کا بھی بہت تذکرہ کرتے ہیں۔ رئوف کلاسرا نے لکھا ہے کہ انگریزوں نے سب کو قانون کے سامنے برابر کردیا۔ انگریزوں کے قانون و انصاف کاعالم یہ تھا کہ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر سے ہندوستان چھینا اور پھر بہادر شاہ ظفر پر ’’بغاوت‘‘ کا مقدمہ چلا کر اسے جلاوطن کردیا۔ انگریزوں نے 1857ء کی جنگ آزادی میں ایک کروڑ ہندوستانیوں کو قتل کیا۔ صرف دہلی میں 25 ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو مار ڈالا۔ پانچ ہزار علما کو شہید کیا۔ انہوں نے جنگ آزادی کے متوالوں کو گولیوں سے نہیں توپوں سے اُڑایا۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ بتارہا ہے کہ انگریز ’’قانون اور انصاف‘‘ کو کتنا پسند کرتے تھے۔