وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عورت مارچ سے ہمارے معاشرے کا ’’ثقافتی تضاد‘‘ سامنے آگیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں رائج مختلف نظام ہائے تعلیم مختلف کلچر پیدا کررہے ہیں۔ اسی لیے ہم ملک میں ایک نصاب تعلیم رائج کرنا چاہ رہے ہیں۔
عمران خان کیا ہمارے یہاں تو بڑے بڑے دانش وروں کو بھی یہ بات معلوم نہیں کہ اسلامی تہذیب میں کلچر سے مذہب پیدا نہیں ہوتا بلکہ مذہب سے کلچر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مغرب کا ایک بنیادی تصور یہ ہے کہ مذہب خود کلچر کی پیدا وار ہے۔ اسی بات کو عمران خان نے مختلف انداز میں دہرایا ہے۔ اس تناظر میں عمران خان کا یہ خیال درست نہیں کہ عورت مارچ سے ہمارے معاشرے کے ثقافتی تضادات سامنے آئے ہیں۔ اس کے برعکس مارچ سے ہمارے ثقافتی تضادات نہیں ’’نظریاتی‘‘ یا ’’مذہبی تضادات‘‘ سامنے آئے ہیں۔ بلاشبہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم بہت اہم ہے مگر نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی بحث بھی اس بات سے متعلق ہے کہ ہمارے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو ہمارے ’’مذہب‘‘ کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہماری ’’الٰہیات‘‘ یعنی خدا کی ذات و صفات کے مطابق ہو نی چاہیے۔ہمارے ’’تصور انسان‘‘ کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہمارے ’’شعورِ زندگی‘‘ کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہمارے ’’تصور علم‘‘ کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہمارے ’’تصور اقدار‘‘ کے مطابق ہونا چاہیے۔
جب تک ہمارے معاشرے میں مغرب زدگان موجود نہ تھے اس وقت مرد اور عورت کے تعلق کی بحث ہماری ’’داخلی بحث‘‘ تھی۔ اس بحث کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ مرد ہو یا عورت اس کی زندگی کو خدا مرکز، مذہب مرکز، اخلاق مرکز اور علم مرکز ہونا چاہیے تا کہ وہ صنف مخالف کے ساتھ محبت، تعلق اور انصاف کے تقاضے پورے کرسکے۔ مگر مغرب زدگان کی وجہ سے اب مرد اور عورت کے تعلق کی بحث ایک ’’خارجی بحث‘‘ اور تہذیبوں کے تصادم کا ’’استعارہ‘‘ بن گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب زدگان کی الٰہیات ہماری الٰہیات کی ضد ہے۔ ان کا تصور انسان اسلام کے تصور انسان کا حریف ہے۔ ان کا تصور علم ہمارے شعور علم کو مسترد کرتا ہے۔ ان کا تصور زندگی ہمارے تصور زندگی سے ہم آہنگ نہیں۔ ان کی اقدار ہماری اقدار سے متصادم ہیں۔ ہمارا ایمان ایک خدا پر ہے۔ مغرب اور مغرب زدگان ایک سطح پر مادے کو خدا بنائے ہوئے ہیں۔ دوسری سطح پر وہ انسان کو خدا بنا کر پوج رہے ہیں اور وہ بھی صرف مغرب کے انسان کو۔ ہماری تہذیب میں سب سے برتر علم وحی کا علم ہے۔ مغرب اور مغرب زدگان وحی کے قائل ہی نہیں۔ چناں چہ وہ وحی کے علم کو سرے سے علم ہی تسلیم نہیں کرتے۔ ہماری تہذیب کا انسان ’’شعورِ بندگی‘‘ سے پہچانا جاتا ہے۔ مغرب اور مغرب زدگان کا تصور انسان یہ ہے کہ انسان صرف ایک سماجی، معاشی، حیاتیاتی یا جبلّی وجود ہے۔ ہمارا مذہب کہتا ہے اخلاقی تصورات اور اخلاقی اقدار دائمی ہیں اور کبھی نہیں بدلتیں۔ مغرب اور مغرب زدگان کہتے ہیں کہ اخلاقی تصورات اور اقدار دائمی نہیں بلکہ وہ سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کے بدلنے سے بدل جاتی ہیں۔ کل جو غلط تھا آج صحیح ہوجاتا ہے اور آج جو صحیح ہے وہ آنے والے کل میں غلط ہوجائے گا۔ یعنی حلال و حرام بدلتے رہتے ہیں۔ کل مغرب میں ہم جنس پرستی ممنوع تھی آج پورے مغرب میں کروڑوں ہم جنس پرست موجود ہیں اور ریاست ان کے ’’حقوق‘‘ کا تحفظ کررہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عورت مارچ سے ہمارے ’’ثقافتی تضادات‘‘ نہیں ہمارے ’’نظریاتی تضادات‘‘ سامنے آئے ہیں۔ ایک طرف معاشرے کے 98 فی صد لوگ ہیں جن کی الٰہیات، تصور انسان، تصور زندگی، تصور علم اور تصورِ حیات اسلام سے نمودار ہورہا ہے۔ دوسری طرف معاشرے کی ایک چھوٹی سی اقلیت ہے جس کی الٰہیات، تصورِ زندگی، تصورِ انسان، تصورِ علم اور تصور اقدار مغرب کے فکر و فلسفے سے برآمد ہورہا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب زدگان ہمارے مذہب، ہماری تہذیب، ہماری معاشرت اور ہماری اقدار کے لیے ’’اجنبی‘‘ ہیں اور انہیں کسی بھی سطح اور دائرے میں برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا کوئی انسان اور کوئی معاشرہ جانتے بوجھتے زہر نہیں پیتا۔ کوئی انسان اور کوئی معاشرہ اپنے اندر ’’درندوں‘‘ کو در آنے کی اجازت نہیں دیتا۔ دنیا کا کوئی معاشرہ کسی کو ’’نظریاتی انتشار‘‘ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ جو مسلم معاشرہ عورتوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں حقوق نہیں دیتا وہ ظلم کرتا ہے اور اس ظلم کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ مگر ہمارا معاشرہ صرف عورتوں کے ساتھ ظلم نہیں کرتا، یہ تو کروڑوں غریب اور کمزور مردوں کو بھی جوتے کی نوک پر رکھے ہوئے ہے۔ مولانا روم نے فرمایا ہے: اصل تہذیب ’’احترام آدمیت‘‘ ہے۔ ’’آدمیت‘‘ میں مرد بھی شامل ہیں اور عورتیں بھی۔ بوڑھے بھی شامل ہیں اور بچے بھی۔ دولت مند بھی شامل ہیں اور غریب بھی۔ ہم ایسے درجنوں مردوں کو جانتے ہیں جنہوں نے اپنی خواتین کی زندگی عذاب بنائی ہوئی ہے مگر ہم ایسی درجنوں خواتین سے بھی آگاہ ہیں جنہوں نے اپنے شوہروں کی زندگی کو جہنم بنایا ہوا ہے۔ چناں چہ ’’ظلم کی بحث‘‘ اپنی اصل میں ’’مرد مرکز‘‘ ہے نہ ’’عورت مرکز‘‘ یہ ’’انسان مرکز‘‘ ہے اور جب تک انسان ’’خدا مرکز‘‘ زندگی بسر نہیں کرے گا وہ کسی مرد یا عورت کے ساتھ کیا خود اپنے ساتھ بھی انصاف نہیں کرسکے گا۔ یہ اس بحث کا سب سے اہم نکتہ ہے اور اس نکتے کو مغرب زدگان کیا اسلام پرست بھی نہیں سمجھتے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے ’’مغرب زدگان‘‘ کو ’’معاشرے کا حصہ‘‘ سمجھنے کا رجحان عام ہے۔ ہم نے عورت مارچ کے حوالے سے ٹیلی وژن کے کئی مذاکروں میں دیکھا کہ ہماری بہن سمیحہ راحیل قاضی کہہ رہی ہیں کہ ہم تو خواتین کے حقوق کے لیے ’’سب کو‘‘ ساتھ لے کر جدوجہد کررہے ہیں۔ اطلاعاً عرض ہے کہ جدید مغرب مولانا مودودی کے الفاظ میں ’’باطل‘‘ ہے۔ ’’جاہلیت خالصہ‘‘ ہے۔ ’’تخم خبیث‘‘ ہے‘‘۔ ’’شجر خبیث‘‘ ہے۔ چناں چہ مسلم معاشرے کا ہر مغرب زدہ باطل، جاہلیت خالصہ، تخم خبیث اور شجرِ خبیث کا عکس ہے اور وہ ’’ہمارا‘‘ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہمارا ’’غیر‘‘ ہے۔ چناں چہ اس کے ساتھ ’’مل کر‘‘ خواتین کے حقوق کی جدوجہد نہیں ہوسکتی۔ اسلام حق و باطل کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے تصور کی نفی کرتا ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ نمرود کو ’’مشترکہ جدوجہد‘‘ یا ’’پرامن بقائے باہمی‘‘ کی ’’دعوت‘‘ دینے نہیں گئے تھے۔ وہ اسے یہ بتانے گئے تھے کہ تو ’’باطل‘‘ ہے۔ سیدنا موسیٰؑ نے فرعون کو ’’اشتراک کار‘‘ یا ’’پرامن بقائے باہمی‘‘ کے فلسفے کا درس نہیں دیا تھا۔ انہوں نے خدا کے حکم کے مطابق فرعون کو ’’باطل‘‘ قرار دے کر اُسے چیلنج کیا۔ رسول اکرمؐ کو مکے کے مشرکین نے پیشکش کی کہ آپؐ ہمارے خدائوں کو بُرا نہ کہیں، ہم آپؐ کے خدا کو بُرا نہیں کہیں گے۔ مگر رسول اکرمؐ نے پرامن بقائے باہمی کے اس فلسفے کو مسترد کردیا۔ قرآن کا ایک نام ’’فرقان‘‘ یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے۔ حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹے کو طوفان سے بچانے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ میرا بیٹا ہے۔ مگر خدا نے صاف کہہ دیا کہ وہ آپ کا بیٹا نہیں ہے۔ حالاں کہ حیاتیاتی اعتبار سے حضرت نوحؑ کا بیٹا انہی کا فرزند تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کے ’’اپنوں‘‘ اور ’’پرایوں‘‘ اور ’’سب‘‘ کا تعین کلمے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ نسل، زبان اور جغرافیے کی بنیاد پر نہیں۔ بعض اسلام پسند ’’سب کو‘‘ ساتھ لینے کی بات اس خوف سے کرتے ہیں کہ وہ معاشرے میں ’’تنہا‘‘ نظر نہ آئیں۔ اس سلسلے کی بنیادی بات یہ ہے کہ اگر ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے تو پھر چاہے پورا معاشرہ ہمیں ’’ترک‘‘ کردے ہم ’’تنہا‘‘ نہیں ہوسکتے۔ اس کے برعکس اگر ہمارا خدا ہمارے ساتھ نہ ہو تو پھر چاہے پوری دنیا ہمارے ساتھ کھڑی ہوجائے ہم ’’تنہا‘‘ ہیں۔ معاشرتی معنوں میں انبیا سے زیادہ ’’تنہائی‘‘ کس نے جھیلی ہوگی، مگر انہوں نے کبھی خود کو تنہا نہیں سمجھا، اس لیے کہ انبیا کا خدا ان کے ساتھ تھا، ہم بھی اگر پورے اخلاص، علم اور عمل کے ساتھ اپنے دین پر کھڑے ہیں تو ان شاء اللہ ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہوگا۔
بلاشبہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم بہت اہم ہے مگر یہاں بھی اصل چیز ہمارے عقاید ہیں۔ ہماری الٰہیات یا ہمارا تصورِ خدا ہے۔ تصورِ علم ہے۔ تصورِ انسان ہے۔ تصورِ اخلاق ہے۔ تصورِ اقدار ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے کہا ہے:
خدا کی ہستی پہ شبہ کرنا اور اپنی ہستی کو مان لینا
پھر اس پہ طرئہ اس اِدّعا کا کہ ہم ہیں اہلِ شعور ایسے
مغرب کے تمام علوم ہماری نئی نسل کو خدا کے وجود پر شبہ کرنا سکھاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ خود کو ’’صاحبِ شعور‘‘ سمجھتا ہے۔ چناں چہ جب تک ہم ایسا نظامِ تعلیم اور ایسا نصابِ تعلیم نہیں بنائیں گے جو ہماری نئی نسلوں کو خدا کی معرفت عطا کرنے والا ہو اس وقت کسی ’’یکساں نصاب تعلیم‘‘ کی کوئی اہمیت نہ ہوگی۔ اکبر کا ایک اور شعر ہے۔
منزلوں دور ان کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خردبیں اور دوربیں تک ان کی بس اوقات ہے
اکبر کہہ رہے ہیں کہ جدید سائنس سائنسی مشاہدے اور سائنسی تجربے سے حاصل ہونے والے ’’علم‘‘ پر کھڑی ہوئی ہے اور اس علم کے ذریعے خدا تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ اس لیے کہ خدا خردبین اور دوربین سے نظر نہیں آتا۔ اس کے لیے ’’علم وحی‘‘ ناگزیر ہے۔ یہاں اقبال یاد آئے۔ انہوں نے فرمایا ہے:
محسوس پر بِنا ہے علوم جدید کی
اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش
اقبال کہہ رہے ہیں کہ مغرب کے جدید علوم حواس خمسہ سے حاصل ہونے والے علم پر کھڑے ہوئے ہیں اور یہ علم مذہب کے تمام عقاید کو منہدم کردینے والا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محسوسات سے نمودار ہونے والا علم ہمیں خدا، اس کی ذات و صفات، اس کے احکامات، آخرت، جنت، دوزخ، حلال و حرام اور فرشتوں کی موجودگی کے علم تک نہیں پہنچا سکتا۔ چناں چہ یہ علم تمام مذہبی عقاید کو رد کردیتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ عورت مارچ کے منتظمین اور شرکا کا ’’کلچر‘‘ ہمارے کلچر سے مختلف ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ خدا کو مانتے ہیں نہ قرآن کو اتھارٹی تسلیم کرتے ہیں، نہ رسول اکرمؐ کو ہادی و رہنما گردانتے ہیں نہ وہ وحی کو حواس سے پیدا ہونے والے علم سے برتر خیال کرتے ہیں۔ اس ’’امتیاز‘‘ کی وجہ سے وہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہونے کے باوجود ہمارے ’’غیر‘‘ ہیں۔ اسی لیے وہ معاشرے کا ’’تنوع‘‘ نہیں معاشرے کا ’’تضاد‘‘ ہیں۔ اسی لیے وہ معاشرے کی ’’قوت‘‘ نہیں اس کی ’’کمزوری‘‘ ہیں، اسی لیے وہ معاشرے کا ’’حُسن‘‘ نہیں اس کی ’’بدصورتی‘‘ ہیں، اس لیے ان کے ساتھ ’’پرامن بقائے باہمی‘‘ ممکن نہیں۔