میاں نواز شریف کو اگر پاکستان کا ’’غدار اعظم‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اتفاق سے اس سلسلے میں ٹھوس شہادتوں کا انبار لگ چکا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی سابق ترجمان تسنیم اسلم نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے پاکستان کے دفتر خارجہ کو بھارت کے خلاف بیان بازی سے نہ صرف یہ کہ منع کیا تھا بلکہ یہ ہدایات بھی واضح طور پر موجود تھیں کہ بھارت کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی۔ شریف خاندان بھارت کا حامی تھا اور اس کی ایک وجہ شاید بھارت کے ساتھ ان کے کاروباری امور تھے۔ تسنیم اسلم نے انٹرویو میں مزید کہا کہ نواز شریف نے وزیراعظم کی حیثیت سے دفتر خارجہ کو ہدایت کی تھی کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کا نام نہیں لینا اور نہ ہی بلوچستان میں بھارتی سرگرمیوں کا ذکر کرنا ہے۔ تسنیم اسلم نے بتایا کہ جب نواز شریف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں گئے تو انہوں نے کشمیری قیادت سے کوئی ملاقات نہیں کی۔ جب کہ پاکستان کی یہ پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی رہنما جب بھارت جاتا ہے تو وہ حریت قیادت سے ضرور ملاقات کرتا ہے۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 16 مارچ 2020)
ابھی تسنیم اسلم کے اس انٹرویو کی گونج فضا میں موجود تھی کہ بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر اور دفتر خارجہ کے سابق ترجمان عبدالباسط کا انٹرویو سامنے آگیا۔ انہوں نے انٹرویو میں کیا کہا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’دفتر خارجہ کے سابق ترجمان اور بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے کچھ اقدامات ریاست پاکستان کے حق میں نہیں تھے۔ ان کے کچھ اقدامات سے ابھی نقصان ہورہا ہے اور کچھ کا آئندہ چل کر نقصان ہوگا۔ میاں نواز شریف کے دور میں پٹھان کوٹ واقعے پر بھارت کے کہنے پر گوجرانوالہ میں ایف آئی آر کاٹی گئی جو مناسب بات نہیں تھی۔ نواز شریف دور میں مجھ سے زبانی بہت کچھ کہا گیا۔ میں کہتا تھا جو کہنا ہے لکھ کر دو۔ سلمان شہباز ہر مہینے کچھ بھارتیوں کو ویزے دینے کے لیے فون کرتے تھے۔ نواز شریف کی خواہش تھی کہ (بھارتی صنعت کار) سچن جندال (پاکستان کی) کور انڈسٹری میں سرمایہ کاری کریں۔ (اے آر وائی نیوز۔ 18 مارچ 2020)
ان دونوں انٹرویوز میں جو ’’انکشاف‘‘ کیے گئے ہیں ان میں سے کوئی انکشاف بھی ایسا نہیں خارجی حقائق سے جن کی تصدیق نہ ہوتی ہو۔ آپ میاں نواز شریف کے زمانے کے اخبارات اُٹھا کر دیکھ لیں وہ بھارتی جاسوس کلبھوش کے خلاف اس طرح خاموش نظر آتے ہیں جیسے کلبھوشن کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ میاں نواز شریف کے دور میں دفتر خارجہ واقعتا بھارت کے خلاف چپ سادھے ہوئے تھا۔ میاں نواز شریف نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں گئے تو واقعتاً انہوں نے کشمیری قیادت سے ملاقات نہیں کی کیوں کہ بھارت اس ملاقات سے ناراض ہوسکتا تھا۔ یعنی تسنیم اسلم اور عبدالباسط نے جو کچھ کہا ہے اس زمانے کے اخبارات بھی وہی کچھ کہتے نظر آتے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی تصنیف ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں صاف لکھا ہے کہ میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے ’’Idea‘‘ پر بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ بات چیت کررہے تھے۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ کسی عام آدمی، کسی صحافی یا کسی اخبار کی ’’اطلاع‘‘ نہیں ہے یہ ملک کے دو اہم ترین حساس اداروں کے سربراہ کا ’’بیان‘‘ ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنرل درانی نے جو کچھ لکھا ہے ٹھوس معلومات کی بنیاد پر لکھا ہوگا۔ بلکہ حساس اداروں کی فائلوں میں ٹھوس مواد موجود ہوگا۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف یا شریف خاندان کے کسی رکن نے آج تک جنرل درانی کے اس بیان کی تردید نہیں کی۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ خود ریاست پاکستان اور اس کے حساس ادارے بھی جنرل درانی کی فراہم کی ہوئی معلومات سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں۔ حد یہ ہے کہ عمران خان بھی اس سلسلے میں ’’خاموش‘‘ ہیں۔ حالاں کہ جنرل درانی کی اطلاع میاں نواز شریف کیا ان کے پورے خاندان کے غدار ہونے کا ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت ہے۔ بھلا اس سے بڑی غداری کیا ہوسکتی ہے کہ ملک کا ایک اہم سیاسی خاندان ملک کے سب سے بڑے صوبے کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازش کررہا ہو۔ سوال تو یہاں یہ بھی ہے کہ اگر ملک کے کسی اور خاندان یا ملک کی کسی اور سیاسی جماعت کے بارے میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کا سابق سربراہ یہ اطلاع دیتا کہ یہ خاندان یا یہ جماعت سندھ، کے پی کے، بلوچستان یا کراچی کو الگ کرنے کے لیے کسی غیر ملکی سے مذاکرات کررہی تھی تو پھر وطن عزیز میں کیا طوفان اُٹھ کھڑا ہوتا؟
میاں نواز شریف کی بھارت پرستی نئی نہیں۔ بھارت کے سابق وزیراعظم اندر کمار گجرال نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ میاں نواز شریف انہیں رات گئے۔ ان کی خواب گاہ میں فون کردیتے اور دیر تک گفتگو کرتے رہتے۔ اندر کمار گجرال کے بقول وہ اکثر سوچتے کہ کیا میاں نواز شریف کے پاس کرنے کے لیے کوئی اور کام نہیں ہے؟۔
اٹل بہاری واجپائی بھارت کے وزیراعظم بنے تو میاں نواز شریف ان سے چمٹ گئے۔ انہوں نے واجپائی کو لاہور بلایا۔ اس موقعے پر جماعت اسلامی نے ایک چھوٹا سا احتجاجی مظاہرہ کردیا۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے دل میں حُبّ واجپائی نے جوش مارا اور انہوں نے پنجاب پولیس کو ایک پاگل کتے کی طرح جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں پر چھوڑ دیا۔ پنجاب پولیس نے جماعت اسلامی کے کارکنوں پر وہ تشدد کیا کہ ماضی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ جماعت اسلامی کی قیادت مظاہرے کے بعد والٹن روڈ کے دفتر میں محصور کردی گئی۔ اس حالت میں پولیس نے جماعت اسلامی کے دفتر پر اتنی شیلنگ کی کہ قاضی حسین احمد اور سید منور حسن کے بقول اگر یہ شیلنگ بیس پچیس منٹ مزید جاری رہتی تو جماعت اسلامی کی قیادت دم گھٹنے سے جاں بحق ہوجاتی۔ مگر شریف خاندان کے لیے ’’گریٹر پنجاب‘‘ کے لیے مذاکرات کرنا ’’حلال‘‘ ہے تو جماعت اسلامی کی قیادت کو مار ڈالنا کہاں سے حرام ہوتا؟۔
پاک بھارت تعلقات دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کے تعلقات ہیں مگر نریندر مودی اقتدار میں آئے تو میاں نواز شریف نے پاک بھارت تعلقات کو ’’مودی شریف‘‘ تعلقات بنادیا۔ نریندر مودی نے علاقے کے ملکوں کے سربراہوں کو اپنی تقریب حلف برداری میں اس طرح طلب کیا جیسے کوئی وڈیرا اپنی شادی میں اپنے ہاریوں کو بلاتا ہے۔ میاں نواز شریف سے بہت کہا گیا کہ وہ مودی کے دربار میں حاضری نہ دیں۔ مگر میاں نواز شریف نریندر مودی کی قدم بوسی کے بغیر باز نہ آئے۔ جس طرح عادی شرابی کو شراب اور عادی چرسی کو چرس سے دور نہیں رکھا جاسکتا، اسی طرح میاں نواز شریف کو بھارت پرستی کے نشے سے دور نہ رکھا جاسکا۔ قوموں کے تعلقات اچھے ہوں تو قوموں کے رہنمائوں کے تعلقات بھی گھریلو تعلقات کی طرح ہوسکتے ہیں مگر میاں نواز شریف کی بھارت پرستی پر اس اصول کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چناں چہ گجرات میں 2 ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کرنے والے مودی کو میاں نواز شریف نے اپنے گھر کی تقریب میں بلالیا۔ اس مودی کو جو پاکستان توڑنے کی تحریک میں اپنے کردار پر فخر کرتا ہے، جس کے نزدیک ایک مسلمان اور کتے کے پلّے میں کوئی فرق نہیں۔ مگر میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے لیے کچھ اہم نہیں۔ ان کے لیے اہم ہے تو بھارت پرستی اور اپنے مفادات۔
اس خاندان کے مفادات کا تقاضا ہو تو یہ خاندان خدا کے احکامات اور قرآن اور رسولؐ سے غداری کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔ شریف خاندان کی بے پناہ دولت کا بڑا حصہ حرام کا نتیجہ ہے۔ یہ کل ہی کی بات ہے میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا تھا یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کے فلیٹ خریدے گئے۔ مریم نواز نے جیو پر فرمایا تھا کہ ان کی ملک سے باہر کیا ملک کے اندر بھی کوئی پراپرٹی نہیں ہے اور اب معلوم ہوا کہ ان کی پراپرٹی تو دونوں جگہ ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے: مومن ہر گناہ کرسکتا ہے مگر جھوٹ نہیں بول سکتا۔ شریف خاندان کا حال یہ ہے کہ وہ پوری قوم کے سامنے جھوٹ بولتا ہے۔ ہم نے کئی ایسے واقعات پڑھے ہیں کہ بعض مسلمان اتنے بدتر تھے کہ جھوٹ ان کی زندگی تھا مگر ان سے قرآن پر حلف لیا گیا تو ان سے جھوٹ نہیں بولا گیا۔ مگر شریف خاندان قرآن پر جھوٹ بولنے کے لیے بدنام ہے۔ چودھری شجاعت نے اپنی خودنوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ شریفوں نے ایک معاہدے کے سلسلے میں قرآن کو ضامن بنایا اور کہا کہ وہ چودھریوں سے کیے گئے معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے مگر قرآن کو ضامن بنانے کے باوجود شریف خاندان نے معاہدے کی کسی شق پر عمل نہیں کیا۔ ختم نبوت پوری امت کے ایمان کا معاملہ ہے مگر شریفوں نے ختم نبوت کے تصور پر حملے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو شریف خاندان صرف پاکستان کا غدار نہیں بلکہ وہ اسلام، قرآن مجید اور ختم نبوت کے تصور کا بھی غدار ہے۔ حیرت ہے کہ ابھی تک لاکھوں لوگ اسلام، قرآن، ختم نبوت اور پاکستان کے غدار اس خاندان سے چمٹے ہوئے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت خراب کررہے ہیں۔