غالب کا مذہبی شعور

مغرب کے ممتاز فلسفی وائٹ ہیڈ نے کہا ہے کہ مغرب کا پورا فلسفہ افلاطون کے فلسفے پر ایک حاشیے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ افلاطون کی ایک مبالغہ آمیز تعریف ہے مگر اس مبالغہ آمیز تعریف کے بغیر افلاطون کی عظمت کا اظہار نہیں ہوسکتا۔ میر تقی میر کو ’’خدائے سخن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس تعریف میں بھی ایک مبالغہ ہے مگر ایسا مبالغہ جو میر کی عظمت کے اظہار کے لیے پوری طرح کفایت کرتا ہے۔ غالب کے بارے میں عبدالرحمن بجنوری نے کہا تھا کہ ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں۔ وید اور دیوانِ غالب۔ یہ بھی ایک مبالغہ آمیز تعریف ہے مگر ایسی تعریف کہ اس کے بغیر غالب کی عظمت کا فہم مشکل ہے۔ لیکن غالب کی عظمت اس کی شاعری میں ہے، اس کے آرٹ میں ہے، اس کی فکر میں نہیں۔ غالب کی فکر بالخصوص اُن کے مذہبی شعور میں ایسی پستی اور ایسے ہولناک تضادات ہیں کہ پڑھنے والا کانپ کر رہ جاتا ہے۔ غالب کے مذہبی شعور کی پستی یہ ہے کہ غالب کے طنز سے نہ خدا محفوظ ہے، نہ انبیا و مرسلین محفوظ ہیں، مذہب کی علامتیں محفوظ ہیں نہ مذہبی تصورات محفوظ ہیں۔ غالب کی شاعری کے اس پہلو کی وجہ سے انہیں برصغیر کا ’’پہلا جدیدیہ‘‘ یا پہلا Modernist بھی کہا گیا ہے۔ آئیے آج غالب کے مذہبی شعور کا تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ ہمیں غالب اور اس کی شاعری کی ایک اہم جہت کے بارے میں کیا بتاتا ہے۔ غالب نے کہا ہے۔
قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہمسفر غالب
وہ کافر دو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
غالب کہہ رہے ہیں کہ میرا محبوب ایسا ہے کہ اسے کسی اور کو کیا خدا کو بھی سونپنے میں خطرہ ہے۔ اس خطرے کی تفصیل میں نہ جایا جائے تو اچھا ہے۔ یہ غالب کا تصور خدا ہے۔ اس تصور خدا کا ’’خدا‘‘ جیسا ہے ظاہر ہے۔ غالب کا شعر ہے۔
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے
غالب ’’فرما‘‘ رہے ہیں کہ سیدنا سلیمانؑ کا تخت یا ان کی حکمرانی ان کی نظروں میں اک ’’کھیل‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔ سلیمانؑ کی حکمرانی میں جنات ان کے تابع ہیں۔ ان کا حکم ہوائوں پر چلتا ہے۔ وہ پرندوں کی کیا چیونٹیوں کی زبان بھی جانتے ہیں۔ یہ سب اور ان کے سوا بہت کچھ غالب کے نزدیک صرف ’’اک کھیل‘‘ ہے۔ اسی طرح غالب سیدنا عیسیٰؑ کے معجزات سے بھی رتی برابر متاثر نہیں۔ اس لیے وہ کہہ رہے ہیں کہ عیسیٰؑ کے معجزات ان کے نزدیک ’’اک بات‘‘ سے زیادہ اہم نہیں۔ ان معجزات میں سے ایک معجزہ مردوں کو زندہ کرنے کا ہے۔ دوسرا معجزہ پنگوڑے سے خطاب کرنے کا ہے۔ لیکن غالب کے ’’تصورات‘‘ یا ’’تصور بدذات‘‘ کے نزدیک یہ معجزات ’’اک بات‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ غالب نے سیدنا عیسیٰؑ کے بارے میں ایک اور جگہ فرمایا ہے۔
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
مرے دکھ کی دوا کرے کوئی
یعنی عیسیٰؑ اگر غالب کے دکھ کی دوا کردیں تو وہ ’’ابن مریم‘‘ ورنہ غالب کو ان کے ابن مریم ہونے سے کیا لینا دینا۔ غالب کا شعر ہے۔
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہمسفر ملے
غالب کی ذات اتنی بلند و بالا ہے کہ سیدنا خضرؑ انہیں صرف ’’اک بزرگ‘‘ نظر آتے ہیں اور یہ بزرگ جو سیدنا موسیٰؑ کی رہنمائی کے لیے ’’کافی‘‘ تھے غالب کی رہنمائی کے لیے ’’کافی‘‘ نہیں۔ چناں چہ غالب سیدنا خضرؑ کی پیروی کو ضروری خیال نہیں کرتے۔ ایک اور شعر میں غالب نے سیدنا خضرؑ کی ’’رہنمائی‘‘ پر بھرپور حملہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنماء کرے کوئی
لیجیے غالب کے نزدیک سیدنا خضرؑ نے سکندر کی رہنمائی کرکے اسے مروادیا۔ غالب کہہ رہے ہیں کہ خضرؑ بھی رہنمائی کے قابل نہیں۔ غالب کا ایک اور شعر ہے۔
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زُہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
’’اطاعت‘‘ اور ’’زہد‘‘ اور ان کا ’’ثواب‘‘ انفرادی طبیعت سے متعلق چیزیں نہیں۔ اطاعت و زہد کوئی بھنڈی گوشت نہیں ہیں کہ مجھے پسند نہیں چناں چہ میں نے کھانے سے انکار کردیا۔ مگر غالب نے اطاعت و زہد کو بھی ذاتی پسند و ناپسند کا معاملہ بنادیا ہے اور اطاعت و زہد اور ان کے ثواب کے مذہبی تصور پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔ غالب کے نزدیک فرشتوں کا لکھا اور جنت اور حوریں بھی ہنسی مذاق کی چیزیں ہیں۔ چناں چہ انہوں نے فرمایا ہے۔
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
٭٭٭
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی
مسئلہ یہ ہے کہ جس شخص کے نزدیک فرشتوں کا لکھا ’’مستند‘‘ نہیں وہ اگلے مرحلے پر خدا کے کہے اور اس کے لکھے کو بھی ’’غیر مستند‘‘ قرار دے سکتا ہے۔ آخر فرشتے اپنی مرضی سے تو کچھ نہیں لکھتے۔
غالب کا تصور خدا آپ ملاحظہ فرما چکے۔ اب آپ غالب کے تعلق بااللہ کی دو مثالیں ملاحظہ کیجیے۔ کہتے ہیں۔
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
غالب کہہ رہے ہیں کہ اگر زندگی آرام و آسائش سے گزرے تو خدا کی موجودگی یا اس سے تعلق کا کوئی مطلب ہے لیکن اگر زندگی مصائب و آلام میں گزر جائے جیسے کہ میری گزری تو پھر ہم خدا کا کیا کریں؟ غالب کا ایک اور شعر ہے۔
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے کہ خوش رہا
یاں آپڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
یعنی خدا نے دونوں جہاں دے کر یہ سمجھ لیا کہ یہ خوش رہے گا مگر ہم اس خیال سے خاموش رہے کہ خدا سے بحث کیا کریں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک جانب غالب اطاعت اور زہد اور ان کے ثواب کا فہم رکھنے کے دعویدار ہیں مگر پھر بھی کہتے ہیں کہ ان کی طبیعت اطاعت و زہد کی طرف جاتی ہی نہیں اور دوسری جانب انہیں یہ خوش فہمی لاحق ہے کہ انہیں دونوں جہاں عطا ہوسکتے ہیں اور ان کے ’’اعمال‘‘ ایسے ہیں کہ یہ دونوں جہان بھی ان کے اعمال کا صحیح صلہ نہ ہوں گے۔ غالب کا شعر ہے۔
بندگی میں بھی وہ آزاد و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
بندگی اور خود پسندی ایک دوسرے کی ضد ہیں مگر غالب نے اس شعر میں ان کو باہم آمیز کر دیا ہے اور وہ فرما رہے ہیں کہ ہماری خود پسندی کا یہ عالم ہے کہ اگر کعبے کا در ہمیں کھلا ہوا نہ ملا یعنی کعبے نے ہمیں خوش آمدید نہ کہا تو ہم کعبے سے ملے بغیر یا اس کا طواف کیے بغیر واپس آگئے۔
مذہب اور اس کے تصورات کی تنقید کوئی نئی چیز نہیں۔ انسانی تاریخ کے مختلف مراحل پر انسان خدا اور مذہب کا انکار کرتا رہا ہے۔ جدید مغرب نے خدا اور مذہب کو رد کیا ہے مگر اس نے خدا اور مذہب کو مسترد کرکے مذہبی فکر سے زیادہ بڑی فکر پیدا کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ مگر غالب مذہبی تصورات کی تنقید کے بعد مذہبی تصورات سے بڑا کوئی تصور ہمارے سامنے نہیں لاتے۔ تاریخ میں جب بھی مذہب کی تنقید لکھی گئی ہے کلّی تنقید لکھی گئی ہے۔ Full، Total، Complete تنقید لکھی گئی ہے، مگر غالب کی تنقید کا ایک اور کھوکھلا پن یہ ہے کہ وہ جزوی ہے۔ اس سے بھی ہولناک بات یہ ہے کہ وہ مذہبی تصورات کا کوئی ’’متبادل‘‘ ہمارے سامنے نہیں لاتے۔ اس اعتبار سے غالب کی مذہبی تنقید کی اہمیت ایک فکری اور جذباتی جماہی سے زیادہ نہیں ہے۔ جدید مغرب نے خدا اور مذہب کو مسترد کیا تو کُلی طور پر۔ اس نے مذہب کے تصورِ خدا، تصورِ علم، تصورِ انسان، تصورِ زندگی، تصورِ اقدار، تصورِ کائنات اور تصورِ اقدار سب کو مسترد کردیا۔ مگر غالب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خدا کے مذہبی تصور پر حملہ بھی کرتے ہیں اور خدا سے چمٹے بھی رہتے ہیں۔ غالب کے مذہبی شعور کے اس پہلو پر ہم آگے بھی گفتگو کریں گے۔
آرٹ کی تاریخ کی بنیادی بات یہ ہے کہ آرٹ ہمیشہ عقیدے سے پیدا ہوتا ہے۔ خدا اور مذہب اور اس کی جمالیات کے اقرار سے بھی آرٹ پیدا ہوتا ہے اور ان کے انکار سے بھی۔ اس تناظر میں فنکار کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے عقیدے سے بڑا آرٹ پیدا کرکے دکھائے۔ غالب بڑا شاعر ہے مگر جہاں جہاں وہ مذہبی تصورات پر تنقید کرتے ہیں وہاں وہاں اُن کے آرٹ کی سطح بہت گر گئی ہے۔ مذہبی معنوں میں نہیں ادبی یا Artistic معنوں میں۔ اورنگ سلیماں کو ایک کھیل اور اعجاز مسیحا کو اک بات کہنا محض ایک دعویٰ ہے۔ اس کی دلیل غالب نے کوئی نہیں دی نہ اس تنقید سے کوئی بڑا شعر پیدا کرکے دکھایا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ غالب کی مذہبی تنقید ایک کھیل کے سوا کچھ نہیں۔ مگر غالب کی ’’دانائی‘‘ کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں اورنگ سلیمان کا کھیل ہونا تو نظر آتا ہے۔ اپنی مذہبی تنقید میں موجود کھیل نظر نہیں آتا۔
ہر لکھنے والا کسی نہ کسی زبان کی روایت کے دائرے میں لکھتا ہے اور اسے اپنی زبان کی روایت کے دائرے میں موجود قارئین کے عقاید و نظریات، ذوق اور ان کی جمالیات کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔ غالب کے مذہبی شعور کا معاملہ یہ ہے کہ وہ نہ غالب کے زمانے میں قابل قبول تھا نہ آج پونے دو سو سال بعد قابل قبول ہے۔
غالب کی مذہبی فکر اور غالب کے مذہبی شعور نے ان کی شاعری میں گہرے مذہبی تضادات کو جنم دیا ہے۔ غالب ایک طرف فرماتے ہیں۔
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
دوسری جانب انہوں نے فرمایا ہے۔
بیگانگیِ خلق سے بے دل نہ ہو غالب
کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے
غالب خدا سے بیزار ہوتے ہیں تو خلق کی طرف بھاگتے ہیں۔ خلق انہیں کاٹنے دوڑتی ہے تو وہ خدا سے جاچمٹتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب نہ خدا کے ہوئے نہ خلق کے ہوئے۔ ان کی تسکین کے لیے ان کی انا کا بُت کافی تھا۔ غالب کا ایک تضاد یہ بھی ہے کہ ایک جانب وہ کہتے ہیں۔
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے
دوسری جانب کہتے ہیں۔
اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالب گنبدِ بے در کھلا
کتنی عجیب بات ہے کہ سیدنا سلیمانؑ اور سیدنا عیسیٰؑ کے معجزات تو غالب کو ’’کھیل‘‘ اور ’’اک بات‘‘ نظر آتے ہیں مگر رسول اکرمؐ کی معراج کے معجزے کو وہ سراہتے ہیں۔ اصول ہے رسول اکرمؐ کے لیے اگر آسمان کے دروازے کا کھلنا معجزہ ہے تو اورنگ سلیمان اور اعجاز مسیحا بھی معجزہ ہے۔ رسول اکرمؐ واجب التکریم ہیں تو سیدنا عیسیٰؑ، سیدنا سلیمانؑ اور سیدنا خضرؑ بھی واجب التکریم ہیں۔ مگر غالب کو اپنے ان بھیانک تضادات کا علم تھا نہ انہوں نے ان تضادات پر غالب آنے کی کوشش کی۔ غالب کو نہ ’’بندگی‘‘ راس آسکی نہ وہ حقیقی معنوں میں مذہب کے ’’باغی‘‘ بن سکے۔ اس کی وجہ خود غالب نے بیان کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
غالب کے لیے اپنی ہستی ہی سب کچھ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کو اپنی ’’غفلت‘‘ بھی دوسروں کی آگہی سے بہتر لگتی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غالب ہماری زبان کی روایت میں اپنی غفلت پر ’’اترانے‘‘ والے پہلے شاعر تھے۔

Leave a Reply