سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن دس بارہ سال پہلے ایک بات تواتر کے ساتھ کہا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے نجی شعبے میں ہورہا ہے۔ سرکاری شعبے یا ریاست ہر چیز سے بری الذمہ ہوگئی ہے۔ سید صاحب کی یہ بات دس بارہ سال پہلے بھی درست تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا درست ہونا مزید عیاں ہوتا چلا گیا۔
تاریخی اور تہذیبی معنوں میں مسلمانوں کے تین سہارے تھے۔ ریاست، معاشرہ اور فرد۔ اقبال نے اس تناظر میں اورنگ زیب عالمگیر کو برصغیر میں مسلم تہذیب کے ترکش کا آخری تیر قرار دیا ہے۔ اقبال کی یہ رائے سو فی صد درست ہے۔ اورنگ زیب پچاس سال تک پوری تہذیب کا بوجھ لیے پھرتا رہا اور ریاست کو سنبھالے رہا مگر اورنگ زیب کے منظر سے ہٹتے ہی ریاست کی ساری کمزوریاں عیاں ہوگئیں۔ یہاں تک کہ بہادر شاہ ظفر تک آتے آتے وہ اپنے دفاع کی صلاحیت سے محروم ہوگئی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 1857ء میں جو جنگ آزادی برپا ہوئی اس کی پشت پر جنرل بخت خان، علما اور عوام کی قوت تھی۔ یعنی یہ جنگ آزادی ’’نجی شعبے‘‘ نے لڑ کر دکھائی۔ یہ جنگ آزادی اگرچہ ناکام ہوگئی مگر اس جنگ آزادی نے برصغیر کے مسلمانوں میں مزاحمت کے جذبے کو زندہ رکھا۔ بدقسمتی سے یہ کام حکومت اور ریاست نے نہیں بلکہ افراد اور معاشرے نے انجام دیا۔ معاشرے اور افراد کی قوت ان کی اپنی قوت نہیں تھی یہ قوت انہیں اسلام سے منسلک رہنے کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھی۔ اسلام کی اس قوت کا شعور کسی اور کو کیا بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو بھی ہے۔ انہوں نے قائد اعظم سے متعلق اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اسلام زندہ رہنے کے لیے ریاست کی قوت کا محتاج نہیں بلکہ اس نے تاریخ کے مختلف مراحل میں ریاستی سرپرستی کے بغیر زندہ رہ کر دکھایا ہے۔
قائد اعظم کے تصورات کے مطابق ریاست پاکستان کو 20 ویں صدی میں اسلام کی تجربہ گاہ اور اس کی قوت و شوکت کا مظہر ہونا تھا۔ قائد اعظم سرمایہ داری اور سوشلزم دونوں سے بیزار تھے اور انہوں نے مسلم ماہرین معاشیات پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان کی معیشت کو اسلام کی بنیادوں پر استوار کرکے دکھائیں۔ مگر قائد اعظم کے بعد اور خوابوں کی طرح یہ خواب بھی تعبیر سے محروم ہوگیا۔ گزشتہ چالیس برس میں تو حد ہی ہوگئی۔ ہم نے 1991ء میں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ اس وقت ملک میں کوئی نجی جامعہ موجود نہ تھی لیکن آج یہ صورت حال ہے کہ اعلیٰ تعلیم کی سطح پر 60 فی صد طلبہ نجی جامعات میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ریاست نے نئی نسل کو خود اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے نجی شعبے میں جانے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ غریب کیا متوسط طبقے کے لوگ بھی اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ خود سرکاری جامعات کا حال بھی اس حوالے سے مخدوش ہے۔ جب ہم 1991ء میں جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ہوئے تو اس وقت جامعہ کراچی میں ایم اے کے ایک سمسٹر کی فیس چار سو روپے سے کم تھی۔ آج اسی جامعہ کراچی میں بی اے آنرز کے ایک سمسٹر کی فیس دس ہزار روپے سے زیادہ ہے۔ یعنی متوسط طبقے کے لوگوں کی اکثریت سرکاری جامعات میں بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے قابل نہیں رہی۔ اس سلسلے میں ان پانچ سے چھ کروڑ پاکستانیوں کا ذکر بھی فضول ہے جو خط غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے بنیادی، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح پر بھی قوم کو تعلیم فراہم کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ یہاں بھی تعلیم ایک کاروبار بن گئی ہے۔
قوم کی صحت کی نگہداشت بھی حکومت اور ریاست کی ذمے داری ہے مگر اس دائرے میں بھی ریاست قوم کی طرف پیٹھ کرکے کھڑی ہوگئی ہے۔ چناں چہ پاکستان میں آٹھ سے دس کروڑ افراد کے لیے علاج بھی ایک بہت بڑا بوجھ بن گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے ہیلتھ کارڈ کا منصوبہ شروع کیا ہے مگر ابھی تک اس کے نتائج ہمارے سامنے نہیں آئے ہیں۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ ملک کا دفاع فوج کی ذمے داری ہے مگر 1971ء کے بحران میں جرنیلوں نے قومی دفاع کا پورا بوجھ خود اٹھانے سے انکار کردیا۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں البدر اور الشمس بنائیں۔ بہاریوں کو اپنا اتحادی بنایا، مگر بحران بڑھا تو جرنیل سب کو پھلانگ کر اس طرح آگے بڑھ گئے جیسے الشمس اور البدر اور بہاری ان کی ’’اخلاقی ذمے داری‘‘ ہی نہ ہوں۔ افغانستان میں جہاد شروع ہوا تو جہاد بھی نجی شعبے کو out source کردیا گیا۔ ریاست اس جہاد کی صرف نگرانی کرتی نظر آئی۔ میدان جنگ میں جانوں کا نذرانہ عام لوگوں نے پیش کیا بالآخر یہ لوگ بھی حکمرانوں کے ہاتھوں ذلیل ہوئے اور آج تک انہیں ’’دہشت گرد‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ کشمیر کا جہاد بھی ریاست کی سیاسی، دفاعی اور اخلاقی ذمے داری تھا مگر ریاست نے یہ بوجھ بھی اُٹھانے سے صاف انکار کردیا۔ یہاں بھی ’’افراد‘‘ اور ’’معاشرے‘‘ نے ’’ریاست‘‘ کا کردار ادا کیا۔
پاکستان میں ہولناک زلزلہ آیا تو ریاست دس دن تک اسلام آباد میں منہدم ہونے والی عمارت کو ٹیلی ویژن پر چلاتی رہی۔ چند روز بعد اسے زلزلے کی ہولناکی کا اندازہ ہوا تو اس نے بین الاقوامی عطیہ کنندگان سے ساری امیدیں وابستہ کرلیں۔ سندھ میں سیلاب کے وقت بھی ریاست کو کہیں کہیں ہی دیکھا جاسکا۔ اب کورونا کی وبا پھیلی ہی ہے تو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار تک چیخ پڑے ہیں کہ نہ وفاقی حکومت کچھ کررہی ہے نہ صوبائی حکومتیں کچھ کرتی نظر آتی ہیں۔ خدا خدا کرکے وفاقی حکومت نے غریبوں کو یکشمت بارہ ہزار روپے دینے شروع کیے ہیں مگر یہ بارہ ہزار روپے تین ماہ کے لیے ہیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ عمران خان نے کہا تھا کہ ایک لاکھ روپے ماہانہ میں ان کا گزارہ نہیں ہوتا مگر اب عمران خان پاکستان کے پانچ کروڑ غریبوں سے کہہ رہے ہیں کہ بارہ ہزار روپے میں تین ماہ گزار کر دکھائو۔
آپ نے کبھی غور کیا کہ اگر ملک میں جماعت اسلامی اور الخدمت نہ ہو۔ سیلانی ویلفیئر نہ ہو۔ ایدھی سینٹر نہ ہو۔ ایس آئی یو ٹی، انڈس اسپتال۔ اخوت جیسے ڈیڑھ درجن ادارے نہ ہوں تو پاکستان کا کیا بنے گا۔ کروڑوں غریبوں کا کیا حشر ہوگا؟۔
شریف خاندان چالیس سال سے اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے۔ شریف خاندان ’’کھرب پتی‘‘ ہے۔ نواز لیگ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے اور نواز لیگ میں ’’ارب پتیوں‘‘ کی فراوانی ہے۔ مگر ملک میں زلزلہ آیا تو شریف خاندان اور نواز لیگ کو کہیں متاثرین کی مدد کرتے ہوئے نہ دیکھا جاسکا۔ سندھ میں دو بار سیلاب آیا مگر اس دوران بھی شریف خاندان اور نواز لیگ کو کہیں متاثرین کی مدد کرتے نہ دیکھا جاسکا۔ اب ملک و قوم کورونا کی گرفت میں ہیں۔ اصولاً شریف خاندان اور نواز لیگ کو اپنی حیثیت کے مطابق اس سلسلے میں پچیس تیس ارب روپے کی امداد کا اعلان کرنا چاہیے تھا مگر پوری قوم گواہ ہے کہ شریف خاندان اور نواز لیگ پورے ملک میں کہیں قوم کی مدد کرتی نظر نہیں آرہی۔ پیپلز پارٹی 50 سال سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ بھٹو خاندان بھی کھرب پتی ہے۔ پیپلز پارٹی میں ارب پتیوں کی کمی نہیں۔ چناں چہ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کو کورونا سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے دس پندرہ ارب تو مہیا کرنے ہی چاہیے تھے مگر پیپلز پارٹی ساری ’’خدمت‘‘ سرکاری وسائل سے کررہی ہے۔
عوامی خدمت کے سلسلے میں عمران خان کا ریکارڈ شاندار ہے۔ انہوں نے لاہور اور پشاور میں کینسر کے اسپتال بنائے ہیں۔ نمل یونیورسٹی قائم کی ہے۔ کراچی میں اسپتال کی تعمیر کا منصوبہ موجود ہے۔ مگر یہ عمران خان کی ’’شخصی خدمات‘‘ ہیں۔
تحریک انصاف کا کوئی شعبہ خدمت خلق ہی نہیں بالکل اس طرح جس طرح نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کا کوئی شعبہ خدمت خلق نہیں۔ تحریک انصاف میں بھی ارب پتیوں کی ریل پیل ہے۔ چناں چہ تحریک انصاف کو بھی پانچ سات ارب تو کورونا سے متاثر افراد کے لیے مہیا کرنے ہی چاہیے تھے مگر تحریک انصاف ’’جیب خاص‘‘ سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کر رہی جو کچھ ہورہا ہے سرکاری وسائل سے ہورہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ فوج ملک میں پچاس سے زیادہ تجارتی ادارے چلارہی ہے۔ چناں چہ فوج کو بھی کورونا سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے دس بارہ ارب تو مہیا کرنے ہی چاہیے تھے۔ مگر جرنیلوں نے اس سلسلے میں صرف چند دن کی تنخواہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ریاست ہی نہیں ریاست کی تمام سیاسی علامتیں بھی ضرورت کے وقت قوم کی طرف پیٹھ کرکے کھڑی ہوجاتی ہیں۔ کورونا کے معاشی اثرات کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران ڈیڑھ کروڑ لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس سلسلے میں وطن عزیز میں بیروزگاری کی کیا صورت حال ہوسکتی ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جماعت اسلامی نہ ریاست ہے نہ ریاست کی سیاسی طاقت کی علامت ہے مگر مشرقی پاکستان میں قومی دفاع ہو یا افغانستان میں اور کشمیر میں جہاد کا فرض جماعت اسلامی سب سے آگے ہوتی ہے۔ ملک میں زلزلہ ور سیلاب آئے یا کورونا کی وبا پھیلے جماعت اسلامی ایک چھوٹی سی ریاست بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق جماعت اسلامی زشتہ ایک ماہ میں کورونا سے متاثرہ افراد کی مدد پر ایک ارب روپے سے زیادہ خرچ کر چکی ہے۔ آخر جماعت کی اس خدمت کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ ظاہر ہے جماعت اسلامی کی قوت اور ساری اہلیت اس کے مذہب کے اصل پیغام سے وابستہ ہونے میں ہے۔ اسلام میں سیاست شہادت حق کا فرض ہے یا مسلمانوں اور پوری انسانیت کی خدمت۔ شریف خاندان نواز لیگ، بھٹو خاندان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف بھی اسلام کے اصل پیغام سے وابستہ ہوتے تو وہ بھی ہر مشکل میں جماعت اسلامی کی طرح ملک قوم کی خدمت کرتے۔