کبھی کبھی ایک چھوٹی سی بات، ایک چھوٹے سے واقعے اور ایک چھوٹی سی خبر میں پوری داستان چھپی ہوتی ہے۔ ذرا روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہونے والی یہ چھوٹی سی خبر ملاحظہ کیجیے۔ خبر کی سرخی ہے۔
’’عمران خان حکومت کے 12ہزار روپے بھی بے نظیر کا نام نہ مٹاسکے‘‘۔ خبر یہ ہے۔
’’عمران خان حکومت کے 12 ہزار روپے بھی بے نظیر کا نام نہ مٹاسکے۔ تفصیلات کے مطابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے احساس کفالت پروگرام مکلی سینٹر پر مستحق خواتین سے خطاب کے بعد سینٹر کا معائنہ کیا تو انہیں دلچسپ صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ گورنر کے ساتھ دورے پر آئے شخص نے ایک خاتون سے سوال کیا کہ آپ کو یہ رقم کون دے رہا ہے؟ مستحق خاتون نے بے ساختہ کہا کہ بے نظیر بھٹو۔ اس شخص نے خاتون کی تصحیح کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان یہ رقم دے رہے ہیں۔ گورنر عمران اسماعیل نے کہا کہ یہ رقم آپ کو کوئی اور نہیں عمران خان دے رہا ہے۔ چناںچہ آپ کی دعائیں عمران خان اور پاکستان کے لیے ہونی چاہئیں‘‘۔
(روزنامہ جنگ کراچی۔ 15 اپریل 2020ء)
انسانی تعلق کے تین بنیادی حوالے ہیں۔ محبت، عقیدت اور غلامی، عقیدت اور محبت انسان کے مرتبہ ٔ وجود کو بڑھا دیتی ہیں۔ اسے کوئلے سے ہیرا بنا دیتی ہے مگر غلامی انسان کے مرتبہ ٔ وجود کو گرا دیتی ہے۔ اسے ہیرے سے کوئلہ بنادیتی ہے۔ پاکستان میں کئی سیاسی خاندان اور کئی سیاسی رہنما ایسے ہیں جنہوں نے اپنے چاہنے والوں میں غلامی کا شدید احساس پیدا کیا ہوا ہے۔ مذکورہ بالا خبر اس کا ایک ٹھوس ثبوت ہے۔ بھٹو خاندان پاکستان بالخصوص سندھ کا اہم سیاسی خاندان ہے لیکن اس خاندان نے لاکھوں سندھیوں کو غلامی کے سوا کچھ نہیں سکھایا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ 12 ہزار روپے تو عمران خان کی حکومت فراہم کررہی ہے مگر 12 ہزار وصول کرنے والی خاتون اسے بھی بے نظیر کے کھاتے میں درج کرا رہی ہے۔ اصول ہے جو مدد اور احسان کرتا ہے شکریہ بھی اسی کا ادا کیا جاتا ہے مگر سندھ میں اُلٹا دریا بہہ رہا ہے۔ مدد عمران خان کررہا ہے اور احسان بے نظیر بھٹو کا مانا جارہا ہے۔ وہ بے نظیر جو دنیا میں بھی موجود نہیں۔ یہ بھٹو خاندان کی محبت اور عقیدت کی نہیں اس کی غلامی کی مثال ہے۔
آپ کو ذوالفقار علی بھٹو سے ہزار اختلافات ہوسکتے ہیں مگر بھٹو کے کچھ نظریات تھے۔ کچھ خیالات تھے۔ ایک تناظر تھا۔ بلاشبہ بھٹو سندھ کی خاک ہی سے اُٹھے تھے مگر وہ اور ان کی جماعت پورے پاکستان کی علامت تھی۔ مگر بھٹو نے اپنے علم، ذہانت، نظریے اور تناظر سے دیہی سندھ کو کوئی فیض نہ پہنچایا۔ بھٹو دیہی سندھ کے لوگوں میں تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم کا شوق پیدا کردیتے تو یہ ان کی سندھیوں سے محبت اور تعلق کا ثبوت ہوتا۔ مگر بھٹو نے دیہی سندھ کی تعلیم و تربیت کے لیے کچھ نہ کیا۔ بھٹو دیہی سندھ کے لوگوں میں محنت اور مقابلے کی استعداد پیدا کردیتے تو یہ سندھ پر ان کا ایک اور احسان ہوتا مگر بھٹو نے دیہی سندھ کی نوجوان نسل کو کوٹا سسٹم کی چھتری کے نیچے بٹھا کر تعلیم، محنت اور مقابلے کی نفسیات سے محروم کردیا۔ بھٹو صاحب دیہی سندھ کے لوگوں کی home sickness ہی کو دور کردیتے تو یہ بھی بڑی بات ہوتی۔ مگر بھٹو نے یہ کام بھی نہ کیا۔ چناںچہ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کراچی میں 15 لاکھ سے زیادہ پشتون موجود ہیں، کراچی میں دس بارہ لاکھ سے زیادہ پنجابی موجود ہیں مگر کراچی پر جن سندھیوں کا سب سے زیادہ حق ہے وہ کراچی کی آبادی کے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی نے سندھیوں کو صرف اپنا ’’ہاری‘‘ بنا کر رکھا۔ صرف اپنا ’’ووٹر‘‘ بنا کر رکھا، صرف اپنا ’’نفسیاتی غلام‘‘ بنا کر رکھا۔ اس غلامی کی نفسیات کا نتیجہ ہے کہ ایک سندھی عورت عمران خان کی حکومت سے 12 ہزار روپے وصول کرتی ہے اور جئے بے نظیر بھٹو کا نعرہ لگاتی ہے۔ سندھ میں سیلاب آیا تھا تو جماعت اسلامی نے اپنے سندھی بھائیوں کی بڑی خدمت کی تھی۔ جماعت اسلامی نے سندھ میں کئی مقامات پر سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو ایک ایک کمرے کے مکانات بھی بنا کر دیے۔ اس سلسلے میں ایک تقریب میں ہمیں بھی شرکت کا موقع ملا۔ ہم نے اپنے سندھی بھائیوں سے پوچھا کیا پیپلز پارٹی کے کسی وفاقی یا صوبائی وزیر یا مقامی رہنما نے آپ کی کوئی مدد کی۔ کہنے لگے کوئی مدد نہیں کی۔ ہم نے پوچھا کس نے مدد کی۔ کہنے لگے سائیں جماعت اسلامی کے لوگوں نے ہماری بڑی مدد کی۔ ہمیں سیلاب سے نکالا۔ خیمے لگا کر دیے۔ کھانا مہیا کیا۔ ہماری دوا دارو کا اہتمام کیا۔ اب یہ گھر بنا کر ہمارے حوالے کیے جارہے ہیں۔ ہم نے ایک سندھی بھائی سے پوچھا کہ آپ یہ تو بتائیے کہ اب آپ آئندہ انتخابات میں ووٹ کسے دیں گے؟ کہنے لگے سائیں ووٹ تو ہم پیپلز پارٹی ہی کو دیں گے۔ یہ بھٹو خاندان کی محبت یا عقیدت نہیں یہ بھٹو خاندان کی غلامی ہے۔
اس سلسلے میں بھٹو خاندان تنہا نہیں۔ میاں نواز شریف، شہری تمدن سے اُٹھے ہیں۔ وہ جاگیردار بھی نہیں ہیں، مگر شریف خاندان کے ہر فرد کے چہرے پر صاف لکھا ہے ’’ہم تیرے وڈیرے ہیں‘‘۔ نواز لیگ شریف خاندان کی ’’جاگیر‘‘ ہے۔ نواز لیگ کا ہر لیڈر ہمارا ’’شہری ہاری‘‘ ہے اور پنجاب کے لوگ ہمارے نفسیاتی غلام۔ جس طرح بھٹو خاندان نے سندھیوں کو سندھیت کے تعصب سے کبھی بلند نہیں ہونے دیا اسی طرح شریف خاندان پنجاب کو پنجابیت کے تعصب سے بلند نہیں ہونے دیتا۔ میاں نواز شریف کو بڑے مواقع ملے کہ وہ پورے ملک کے رہنما بن کر اُبھریں۔ مگر ان کا پاکستان پنجاب سے شروع ہوتا ہے، پنجاب میں آگے بڑھتا ہے اور پنجاب میں ختم ہوجاتا ہے۔ نواز لیگ شہری پارٹی ہے مگر نواز لیگ کے کسی رہنما میں جرأت ہے کہ وہ میاں نواز شریف سے اختلاف کرسکے؟ یہ صورت حال میاں نواز شریف سے محبت یا عقیدت کا نہیں ان کی غلامی کا نتیجہ ہے۔ محبت انسانوں کو غلام نہیں بناتی اُنہیں آزاد کرتی ہے۔ جو محبت انسانوں کو آزاد نہیں کرتی وہ محبت نہیں محبت کا دھوکا ہے۔ جو عقیدت انسان کو اختلاف کرنا نہیں سکھاتی وہ جھوٹی عقیدت ہے۔ صحابہ ٔ کرامؓ سے زیادہ کس کو رسول اکرمؐ سے محبت اور عقیدت ہوگی مگر صحابہ رسول اکرمؐ کے سامنے اپنی رائے پیش کرتے تھے۔ غزوہ بدر میں رسول اکرمؐ نے پڑائو ڈالا تو ایک صحابی رسول نے پوچھا یہ پڑائو اللہ کا حکم ہے یا جنگی حکمت عملی؟ رسول اکرمؐ نے کہا کہ یہ جنگی حکمت عملی کے تحت ڈالا گیا پڑائو ہے۔ یہ سن کر صحابی رسول نے کہا کہ پھر یہ مقام پڑائو کے لیے مناسب نہیں اور رسول اکرمؐ نے ان کی بات تسلیم کی۔ غزوہ بدر کے قیدیوں کے ساتھ سلوک کے سلسلے میں سیدنا عمرؓ کی رائے رسول اکرمؐ سے مختلف تھی اور وحی سیدنا عمرؓ کی رائے کے حق میں آئی۔ تو کیا معاذاللہ بھٹوز، شریفوں اور الطاف حسینوں کا مرتبہ رسول اکرمؐ سے بھی زیادہ بلند ہے کہ ان سے ان کی جماعت کا کوئی رہنما اختلاف نہیں کرسکتا؟۔
مہاجر سمندر کی مچھلی تھے۔ ان کا وژن ’’امت گیر‘‘ تھا مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی مہاجریت کے تعصب نے مہاجروں کو مہاجریت کے کنوئیں کا مینڈک بنادیا۔ 2013ء کے انتخابات میں ہم صبح ہی صبح اپنے فلیٹ سے نکلے تو ایک پروفیسر صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ ہم نے پوچھا کہاں کا قصد ہے؟ کہنے لگے صبح ہی صبح ووٹ بھگتانے جارہا ہوں۔ ہم نے کہا اور ووٹ آپ کس کو دیں گے؟ کہنے لگے کہ فاروقی صاحب ہماری تو ایک ہی پارٹی ہے۔ ایم کیو ایم۔ ہم نے کہا آپ جیسا پڑھا لکھا آدمی اور ایم کیو ایم کو ووٹ ڈالے گا؟ ہم نے ایم کیو ایم پر چھ سات سنگین الزامات عاید کیے۔ انہوں نے سارے الزامات تسلیم کیے۔ ہم نے کہا مگر آپ پھر بھی ایم کیو ایم ہی کو ووٹ ڈالیں گے؟ کہنے لگے فاروقی صاحب ہم ایسا نہیں کریں گے تو پنجابی، پٹھان اور سندھی ہمیں کھا جائیں گے۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ لوگ تو ابھی مہاجروں کو کھائیں گے مگر ایم کیو ایم تو مہاجروں کو کھاچکی لیکن اس کے باوجود آپ اس کے عشق میں مبتلا ہیں۔ کہنے لگے آپ تو صحافی ہیں آپ سے کون بحث کرے؟۔ یہ تھی تعصب اور غلامی کی وہ نفسیات جو الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے مہاجروں میں پیدا کی اور انہیں کہیں کا نہ رہنے دیا۔
بدقسمتی سے پاکستان کے تو جرنیل بھی وڈیرے ہیں۔ ’’فوجی وڈیرے‘‘۔ وہ پوری قوم کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں اقتدار پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں آئین معطل کردیتے ہیں۔ انہوں نے سیاست دانوں کو کرپٹ بنایا اور کرپٹ بننے میں مدد دی۔ جرنیلوں کے اقتدار میں ملک دو ٹکڑے ہوا اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ مگر جرنیلوں نے جو ’’نفسیاتی غلام‘‘ پیدا کیے ہوئے ہیں وہ اس کے باوجود جنرل شاہی زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔ جس طرح پنجابیت، مہاجریت، سندھیت، پشتونیت اور بلوچیت کا تعصب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادیں کھود رہا ہے اس طرح ’’فوجیت‘‘ کا تعصب بھی پاکستان کو شدید نقصان پہنچارہا ہے۔