سلیم احمد نے کہا تھا۔
سلیم میرے حریفوں میں یہ خرابی ہے
کہ جھوٹ بولتے ہیں اور خراب لکھتے ہیں
سلیم احمد کو جاننے والوں کو معلوم ہے کہ سلیم احمد کے 99 فی صد حریف یا تو ترقی پسند تھے یا جدیدیے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سلیم احمد نے ترقی پسندوں اور جدیدیوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور خراب لکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے سلیم احمد کا یہ خیال غلط نہیں۔ ہم نے خود شعوری زندگی میں یہی دیکھا کہ ترقی پسند اور جدیدیے جی بھر کر جھوٹ بولتے ہیں۔ خراب لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تحریر و تخلیق کا جمالیاتی اور ادبی پہلو کمزور ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں میں اتنا ابہام ہوتا ہے کہ عام آدمی سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ انہوں نے کہا کیا ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں سلیم احمد کا شعر روزنامہ جنگ میں معروف ترقی پسند دانش ور ڈاکٹر سید جعفر احمد کا مضمون ’’گلوبلائزیشن، ثقافت اور ترقی پسند ادب‘‘ پڑھ کر یاد آیا۔ ماشاء اللہ روزنامہ جنگ پر ترقی پسندی کا ایسا غلبہ ہے کہ ڈاکٹر سید جعفر احمد کا مضمون تین قسطوں میں شائع ہوا۔ جیسا کہ مضمون کے مندرجات سے ظاہر ہے اس مضمون کا مقصد پاکستان میں ترقی پسندی کو فروغ دینا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے طویل مضمون لکھنے کے باوجود کسی کو یہ معلوم نہیں ہونے دیا کہ ترقی پسندی اپنی اصل میں کیا ہے؟ ترقی پسندی کی تعریف ہم اپنے الفاظ میں بھی بیان کرسکتے ہیں مگر یہاں ہم برصغیر میں ترقی پسندوں کے ’’امام‘‘ مجنوں گورکھ پوری کی رائے آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتے ہیں۔ طاہر مسعود نے 1980ء کی دہائی میں روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والے انٹرویو میں مجنوں گورکھ پوری سے پوچھا کہ ترقی پسند تحریک ناکام کیوں ہوگئی؟ اس کے جواب میں مجنوں صاحب نے کہا۔
’’اس کی بنیادی وجہ تو پاکستان بننا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کو کمیونزم کی تحریک تصور کرلیا گیا اور یہ درست ہے کہ ترقی پسند تحریک نے کمیونزم کو قبول کیا تھا‘‘۔
(یہ صورت گر کچھ خوابوں کے۔ طاہر مسعود۔ صفحہ 84)
ڈاکٹر سید جعفر احمد ترقی پسندی پر طویل مضمون لکھ رہے تھے تو انہیں ترقی پسندوں کے عقاید کا ذکر کرتے ہوئے بتانا چاہیے تھا کہ ترقی پسند خدا اور مذہب دشمن کمیونزم پر یقین رکھتے تھے اور اب بھی رکھتے ہیں۔ جن ترقی پسندوں نے کمیونزم سے ’’توبہ‘‘ کرلی ہے وہ اب سیکولر ازم اور لبرل ازم پر ایمان لے آئے ہیں۔ یہ دونوں نظریے بھی اپنی اصل میں خدا اور مذہب کے دشمن ہیں۔ ڈاکٹر جعفر احمد کی غلط بیانی یہ ہے کہ انہوں نے مضمون میں کہیں ایک فقرہ بھی ایسا نہیں لکھا جس سے معلوم ہو کہ ترقی پسندی کل بھی خدا اور مذہب کی باغی تھی اور آج بھی باغی ہے۔ ہم اسلام پر نئے زمانے کے تناظر میں مضمون لکھتے تو یہ ضرور لکھتے کہ اسلام کمیونزم ہی کو نہیں سیکولر ازم اور لبرل ازم کو بھی باطل سمجھتا ہے۔ آدمی وہی ہوتا ہے جو کھل کر اپنے عقاید کا اظہار کرے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ اپنے نظریے پر بات بھی کریں اور اپنے عقاید کا کھل کر اظہار بھی نہ کریں۔ یہ تو دھوکا دہی کی واردات ہوئی۔ یہ تو ایک بات ہوئی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم تہہ دل سے ڈاکٹر جعفر اور روزنامہ جنگ کو اس پر مبارک باد دیتے ہیں کہ اس نے ایک مردہ، بستر مرگ پر پڑے ہوئے نظریے پر ایک طویل مضمون شائع کیا۔ ترقی پسندی کی موت کا اعلان بھی خود اتفاق سے ترقی پسند ہی کرتے رہے ہیں۔
پروفیسر ممتاز حسین ترقی پسندوں کے امام اور سب سے بڑے ترقی پسند نقاد تصور کیے جاتے تھے مگر معروف ترقی پسند نقاد اور افسانہ نگار شہزاد منظر نے ہمیں 1988ء میں خود بتایا کہ انہوں نے پروفیسر ممتاز حسین کو نماز جمعہ کے لیے مسجد جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اللہ قادر مطلق ہے وہ جسے جب چاہے ’’ہدایت‘‘ دے سکتا ہے۔ آدمی خدا کے آگے سر جھکا دے یہی تو مذہب ہے اور جو شخص خدا اور مذہب کا ہوجائے وہ ترقی پسندی سے برأت کا اظہار کردیتا ہے۔ لیکن یہ تو پروفیسر ممتاز حسین کا ’’انفرادی معاملہ‘‘ تھا۔ ترقی پسند تحریک کے خاتمے کے بارے میں مجنوں گورکھ پوری نے صاف کہا۔
’’ ترقی پسند تحریک ختم ہوگئی۔ اب اس کے پاس کوئی نیا پروگرام نہیں ہے، کیوں کہ ان ملکوں کے پاس کوئی نیا پروگرام نہیں جن سے انہوں نے (یعنی ترقی پسندوں نے) کمیونزم لیا تھا۔ کمیونزم کا تقاضا تھا کہ اپنے خیالات کی تبلیغ کرکے تسخیر حاصل کرلو۔ (مگر) نئے خیالات روس کے پاس بھی نہیں ہیں۔ وہ غاصبانہ قبضے کے ذریعے کمیونزم پھیلارہا ہے‘‘۔
(یہ صورت گر کچھ خوابوں کے۔ صفحہ 85)
یہ تو ہوگئیں ماضی کی مثالیں۔ اب ایک ’’نئی خبر‘‘ بھی ملاحظہ کرلیجیے۔ طارق علی ممتاز ترقی پسند ادیب اور دانش ور ہیں۔ ترقی پسند آج بھی طارق علی کو حیرت اور ہیبت سے دیکھتے ہیں۔ طارق علی نے حال ہی میں دی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا۔
“The traditional Left is on the decline. it will die a natural death.”
(دی نیوز 29 مارچ 2020)
ترجمہ: ’’روایتی بایاں بازو زوال پزیر ہے اور یہ فطری موت مرجائے گا‘‘۔
ہماری نئی نسل کو شاید معلوم نہ ہو کہ ’’ترقی پسندوں‘‘ کا ایک نام ’’بایاں بازو‘‘ بھی ہے۔ ترقی پسندوں کا ایک اور امام کہہ رہا ہے کہ ترقی پسندی فطری موت مرجائے گی مگر ڈاکٹر جعفر ملک کے ایک بڑے اخبار میں طویل مضمون لکھ کر لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کررہے ہیں کہ ترقی پسندی کو ’’نئے تناظر‘‘ میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے اپنے مضمون میں ترقی پسندی کی کیا تعریف کی ہے۔
ڈاکٹر جعفر نے ترقی پسندی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا۔
’’ترقی پسندی ایک رویے، زاویۂ نگاہ، اسلوبِ فکر اور ایک طرز فکر و عمل کا نام ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ27 فروری 2020)۔
ہم ترقی پسندی کی یہ تعریف پڑھ کر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے۔ اگر ترقی پسندی یہی ہے تو پھر مذہب بھی ترقی پسندی ہے۔ فاشزم بھی ترقی پسندی ہے۔ قوم پرستی بھی ترقی پسندی ہے۔ ترقی پسندی کی دشمنی بھی ترقی پسندی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں ایک رویے، ایک زاویۂ نگاہ، ایک اسلوبِ فکر اور ایک طرزِ فکر وعمل کا نام ہیں۔ لیکن ٹھیریے ڈاکٹر صاحب نے ترقی پسندی کی تعریف کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے لکھا ہے۔
’’ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ترقی پسندی نہ تو کسی فرد واحد کی ایجاد ہے اور نہ ہی اس کے آغاز کو کسی خاصی دور یا عہد سے منسوب کیا جاسکتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب یہ آپ کیا فرما رہے ہیں۔ یہ باتیں تو مذہب کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہیں۔ اس لیے کہ مذہب بھی کسی فرد واحد کی ایجاد نہیں اور نہ ہی وہ کسی خاص دور سے منسوب ہے بلکہ مذہب ہر زمانے میں موجود رہا ہے۔ گھبرائیے نہیں ڈاکٹر صاحب نے ترقی پسندی کی تعریف کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ فرماتے ہیں۔
’’انسانی تاریخ کے ارتقائی سفر میں جمود کے بجائے تبدیلی کے عمل سے ہم آہنگ ہونا اور انسان کے مستقبل کو اس کے ماضی اور حال سے بہتر بنانے کی جدوجہد کرنا ابتدائے آفرنیش سے انسانی کاوشوں کا محور رہا ہے‘‘۔
ترقی پسندی کی یہ تعریف درست ہے تو اسلام بھی ایک ترقی پسند مذہب ہے۔ اس لیے کہ اسلام نے عربوں کیا انسانیت کے ایک بڑے حصے کے مستقبل کو اس کے حال اور ماضی سے بہتر بنا کر دکھایا۔ مگر ترقی پسند تو اسلام کو ’’رجعت پسند‘‘ کہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سطور میں ’’تبدیلی‘‘ یا change کو ترقی پسندی کی ایک بنیادی قدر کے طور پر پیش کیا ہے۔ اگر تبدیلی ہر صورت میں ’’اچھی چیز‘‘ ہے تو ہم سب ’’بیماری‘‘ کو کیوں پسند نہیں کرتے۔ آخر بیماری ہمیں صحت کے دائرے سے نکال کر ہمیں بیمار کرتی ہے اور ہمارے اندر ایک ’’تبدیلی‘‘ لاتی ہے۔ چلیے ہم ڈاکٹر صاحب اور تمام ترقی پسندوں کے ’’ویٹی کن‘‘ یعنی سابق سوویت یونین کی بات کرتے ہیں۔ جب سوویت یونین کے صدر گوربا چوف نے کمیونسٹ نظام میں ’’اصلاحات‘‘ کا آغاز کیا تو یہ ایک ’’تبدیلی‘‘ تھی مگر پاکستان سمیت دنیا بھر کے تمام ترقی پسندوں نے گوربا چوف کی اس تبدیلی کو ایک ’’سازش‘‘ قرار دیا۔ آج سیکڑوں ترقی پسند اس بات پر چین کو گالیاں دیتے ہیں کہ اس نے اپنی معیشت کو سرمایہ دارانہ بنالیا ہے۔ ارے بھائی یہ بھی تو ایک تبدیلی ہی ہے۔ ترقی پسند اس تبدیلی کی تعریف کیوں نہیں کرتے۔ اس تبدیلی نے تو چین کے ’’جمود‘‘ کو توڑ کر چین کو ’’نیا چین‘‘ بننے میں مدد دی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز ’’تبدیلی‘‘ نہیں بلکہ تبدیلی کی معنویت ہے۔ ڈاکٹر جعفر اگر کراچی سے ہوائی جہاز کے ذریعے لاہور جارہے ہوں اور طیارے کا پائلٹ طیارے کی سمت سفر ’’تبدیل‘‘ کرکے ڈاکٹر جعفر کو پشاور کے ہوائی اڈے پر اتار دے تو ڈاکٹر صاحب بجا طور پر پی آئی اے کو برا بھلا کہیں گے۔ اس لیے کہ پی آئی اے کا پائلٹ ڈاکٹر صاحب کے سفر کی ’’معنویت‘‘ پر اثر انداز ہوگا۔ اس لیے اسلام کہتا ہے ’’حرکت‘‘ وہی اچھی ہے جو ’’مرکز جُو‘ ہو۔ جو انسان کو اس کے خالق، اس کے نبی اور نبی کی لائی ہوئی کتاب کی طرف لے جانے والی ہو۔ اسی طرح اسلام مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اپنے نفس امارہ کو نفس لوامہ اور نفس لوامہ کو نفس مطمئنہ میں ’’تبدیل‘‘ کرو۔ مگر ترقی پسند تو انسانوں کو اس تبدیلی کی طرف بلاتے ہیں جو انسانوں کو خدا، رسول اور آسمانی کتاب سے کاٹنے والی ہو۔ جو انسانوں کو نفس مطمئنہ سے نفس امارہ کی طرف لے جائے۔ یعنی ترقی پسند ہر دائرے میں الٹی گنگا بہاتے ہیں اور اسے ’’تبدیلی‘‘ کہتے ہیں۔ کیا آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی ترقی پسندی سے متعلق گفتگو ختم ہوگئی۔ جی نہیں ڈاکٹر صاحب نے ترقی پسندی کی وضاحت کرتے ہوئے مزید لکھا ہے۔
’’یہ (یعنی ترقی پسندی) واہموں اور غیر حقیقی چیزوں پر عقل کی بالادستی کا نام ہے۔ جبر کے مقابل انصاف کی آواز ہے۔ انسان دوستی کی پیامبر ہے۔ موت کی قوتوں کے مقابلے پر حیات پرور قوتوں کی طرف دار ہے‘‘۔
کیا آپ کو معلوم ہے ڈاکٹر صاحب نے ان سطور میں ’’وہم‘‘ اور ’’غیر حقیقی چیزیں‘‘ کسے کہا ہے۔ آپ کے خدا کو۔ وحی کے تصور کو، آخرت کو۔ فرشتوں اور جنات کو۔ جنت اور دوزخ کو۔ ترقی پسندوں کے نزدیک یہ سب ’’واہمے‘‘ ہیں۔ ’’غیر عقلی‘‘ ہیں۔ ترقی پسند 70 سال تک ماکسزم اور سوشلزم کو ’’حقیقت‘‘ مانتے رہے مگر آج دنیا میں سوشلزم کی حیثیت تاریخی وہم سے زیادہ نہیں۔ ترقی پسند اسلام اور اس کے عقاید کو وہم کہتے ہیں اور اسلام آج بھی زندہ ہے اور مستقبل اسلام ہی کا ہے۔ روس اور چین ترقی پسند تھے مگر ان کے جبر کا یہ عالم تھا کہ روسی انقلاب کے دورن 80 لاکھ انسانوں کو قتل کردیا گیا۔ چین کے انقلاب میں ترقی پسندوں نے 3 کروڑ انسان مار ڈالے۔ 70 سال تک کوئی روس میں ماکسزم کے خلاف ایک لفظ نہ کہہ سکا۔ آج بھی چین میں کوئی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف ایک لفظ نہیں کہہ سکتا۔ یہ ہے ترقی پسندی۔ ترقی پسندوں کا انصاف اور ان کی زندگی سے محبت۔ ابھی گفتگو شروع ہوئی تھی کہ کالم کی گنجائش ختم ہوگئی۔ اس کے باوجود ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ڈاکٹر صاحب ہم جیسے لوگوں کو اپنی تحریروں سے ہنساتے بہت ہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔