قائد اعظم‘ جنرل امجد شعیب اور ہندوستان کے مسلمان

اس سے قبل کے زیر بحث مسئلے پر گفتگو کا آغاز ہو اور جنرل (ر) امجد شعیب تاریخی حقائق کے روبرو آئیں یہ جان لیجیے کہ ہوا کیا ہے۔ جیو نیوز کا ایک پروگرام ’’آپس کی بات‘‘ ہے۔ اس پروگرام کے میزبان منیب فاروق ہیں۔ 28 اپریل 2020ء کے پروگرام میں منیب فاروق نے ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب سے ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار پر ایک سوال کیا۔ جنرل امجد نے اس سوال کا ایک تفصیلی جواب دیا۔ سوال یہ تھا۔
’’اچھا جنرل صاحب Towards the end یہ بتادیں کہ پاکستان اس میں کیا کرسکتا ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کے لیے۔ آواز تو پاکستان اٹھا ہی رہا ہے‘‘۔
جنرل امجد نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا۔
’’اس طرح نہیں۔ جب تک وہ لوگ خود اپنی آواز نہیں اٹھائیں گے جب تک وہ اٹھ کھڑے نہیں ہوں گے پاکستان کو ان کے لیے بولنے کا حق نہیں ہے۔ پاکستان کیوں حمایت کرے ایسے لوگوں کی جو خود اپنے لیے کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ اگر میں اٹھ کے حمایت کروں، آپ کو یاد ہوگا کہ جنرل مشرف نے وہاں پر مسلمانوں کی حمایت میں بات کی تھی تو وہاں پر دیوبند کے جو عالم دین ہیں جو وہاں کے مہتمم ہیں انہوں نے اٹھ کے کہا کہ جناب ہمیں پتا ہے ہم ہندوستان میں رہتے ہیں۔ ہمیں پتا ہے کہ مسلمانوں نے یہاں کیسے رہنا ہے۔ آپ باہر سے آکر ہمیں کیا Lesson دے رہے ہیں؟ تو جنرل مشرف اتنا سا منہ لے کر بیٹھ گئے۔ اصل چیز یہ ہے کہ جن لوگوں کا مسئلہ ہے اگر وہ خوش ہیں اس میں تو آپ کو یا مجھے کیا تکلیف ہے؟ اٹھنا ان کو چاہیے وہ اٹھیں اور آواز بلند کریں۔ پھر میں بھی اور آپ بھی ہم سب آواز ساتھ ملائیں گے لیکن یہ کہ جس کا مسئلہ ہے وہ خاموش بیٹھا رہے۔ تو میں اپنے گھر میں کیوں کودتا رہوں بلاوجہ یا تو یہ آکے کل ان کے لیڈر کہہ سکتے ہیں انہی کے لیڈر کہہ سکتے ہیں کہ جناب آپ آرام سے بیٹھیں۔ ہم اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں میں کیا جواب دوں گا ان کو‘‘۔
تجزیہ کیا جائے تو جنرل امجد شعیب کی اس گفتگو میں ایک رعونت ہے ایک تکبر ہے ایک مذہبی اخلاقی تہذیبی اور تاریخی جہالت ہے۔ تاریخی حافظے کا ایک اضمحلال ہے۔ انہیں برصغیر کے بنیادی تاریخی حقائق کا کوئی شعور ہی نہیں انہوں نے زندگی میں ’’جرنیلی‘‘ کے سوا کچھ نہیں کیا۔ خدا معلوم انہیں جرنیلی بھی آتی ہوگی یا نہیں۔ ہمارے جرنیلوں کو جرنیلی آتی تو 1971ء میں پاکستان آدھا نہ رہ جاتا۔ ہمارے 90 ہزار فوجی شرمناک طریقے سے ہندوستان کے آگے ہتھیار نہ ڈالتے۔
جنرل امجد شعیب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہمارے سامنے قائداعظم کا بیان پڑا ہوا ہے اس بیان میں قائد اعظم نے فرمایا ہے کہ تحریک پاکستان میں ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کا کردار ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کتنی عجیب بات تھی پاکستان پنجاب، سندھ، کے پی کے، بلوچستان اور بنگال میں بن رہا تھا اور تحریک پاکستان دلی، یوپی اور سی پی کے مسلمان چلا رہے تھے جنرل امجد شعیب کی ’’منطق‘‘ کو قبول کرلیا جائے تو دلی، یوپی اور سی پی کے مسلمانوں کو تحریک پاکستان میں کردار ادا کرنے سے پہلے پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے لوگوں سے پوچھ لینا چاہیے تھا کہ تم پاکستان چاہتے بھی ہو یا نہیں؟ اس سے بھی آگے بڑھ کر انہیں پوچھنا چاہیے تھا کہ تم پاکستان کے ’’مستحق‘‘ بھی ہو یا نہیں ان سوالات کی ضرورت اس لیے تھی کہ 1946ء تک پاکستانی پنجاب پر یونینسٹوں(Unionists) کا قبضہ تھا اور یونینسٹ انگریزوں کے ایجنٹ اور کانگریس کے اتحادی تھے۔ یعنی پنجاب 1946ء تک تحریک پاکستان کا حصہ ہی نہیں تھا۔ 1946ء تک کے پی کے پر سرحدی گاندھی غفار خان کا قبضہ تھا۔ بلوچستان قائد اعظم اور بلوچ سرداروں کے مذاکرات کے نتیجے میں آخری لمحات میں پاکستان کا حصہ بنا۔ سندھ واحد صوبہ تھا جس کی اسمبلی نے پاکستان کی حمایت میں قرار داد منظور کی لیکن یہ قرار داد 3 مارچ 1943 کو منظور کی گئی۔ یعنی سندھ بھی 1943ء تک تحریک پاکستان کے راڈار پر کہیں موجود نہیں تھا۔ اس کے برعکس دلی، یوپی اور سی پی کے لوگ 1906 سے مسلمانوں کے مفادات ان کے جداگانہ تشخص اور 1940ء سے تحریک پاکستان کی سیاست کررہے تھے۔ اسی لیے قائد اعظم نے انہیں مینارہ نور یا Beacon of Light قرار دیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان پر پاکستانیوں سے بھی زیادہ ہندوستان کے مسلمانوں کا حق ہے۔ مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمران جس طرح خود اہل پاکستان کا ’’حق‘‘ غصب کیے بیٹھے ہیں اس طرح انہوں نے پاکستان پر ہندوستان کے مسلمانوں کے حق کو بھی غصب کیا ہوا ہے بلکہ جنرل امجد شعیب نے تو قائد اعظم سے مینارہ نور کا خطاب حاصل کرنے والے ہندوستان کے مسلمانوں پر تھوکا ہے۔
جنرل امجد شعیب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس وقت ہمارے سامنے قائد اعظم کا ایک بیان رکھا ہوا ہے اس بیان میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ اگر ہندوستان میں (مسلم) اقلیت کے ساتھ برا سلوک کیا گیا تو پاکستان بھارت میں مداخلت کرے گا۔ جیسا کہ ظاہر ہے بھارت میں مداخلت کا مطلب بیانات سے مداخلت نہیں بلکہ اس سے مراد عسکری مداخلت ہے۔ قائد اعظم نے مداخلت کے لیے یہ شرط نہیں لگائی کہ بھارت کے مسلمان کھڑے ہوں گے تو پاکستان مداخلت کرے گا۔ بلکہ جنرل امجد شعیب قائد اعظم اور ان کے بیان کو توہین آمیز انداز میں پھلانگ کر فرما رہے ہیں کہ بھارت کے مسلمان پہلے کھڑے ہوں پھر ہم ان کی آواز میں آواز ملائیں گے۔ واہ کیا بصیرت ہے۔ کیا تاریخی شعور ہے۔
جنرل امجد شعیب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہمارے سامنے قائد اعظم کا ایک اور بیان رکھا ہوا ہے۔ اس بیان کا تعلق آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری اجلاس سے ہے۔ اس اجلاس میں ایک صاحب نے قائد اعظم سے کہا کہ ہندوستان کے مسلمان قیام پاکستان کے بعد قیادت سے محروم ہوگئے ہیں کیا آپ ان کی قیادت کرنا پسند کریں گے۔ قائد اعظم نے کہا کہ اگر اجلاس ایک قرار داد منظور کرلے تو وہ پاکستان چھوڑ کر بھارت جانے اور ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قائد اعظم ہندوستان کے مسلمانوں پر دل و جان سے فدا تھے مگر جنرل امجد شعیب ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں توہین آمیز گفتگو کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
جنرل امجد کی گفتگو سے یہ ’’تاثر‘‘ ملتا ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوں تو پاکستان کے جرنیل اور سیاسی قیادت ان کو سینے سے لگالے گی اور ان کی مدد فرمائے گی۔ حالاں کہ اس سلسلے میں پاکستان کے جرنیلوں اور سیاسی رہنمائوں کا ریکارڈ شرمناک سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ اس سلسلے میں چند ناقابل تردید مثالیں عرض ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان کے بحران میں جرنیلوں نے اپنی مدد کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کے بنگالی نوجوانوں پر مشتمل البدر اور الشمس نام کی تنظیمیں بنوائیں۔ ان تنظیموں نے مادر وطن کے دفاع کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی مگر پاکستانی جرنیلوں نے جب کسی جواز کے بغیر ہندوستان کے آگے ہتھیار ڈالے تو البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو فراموش کردیا۔ وہ خود تو بین الاقوامی قانون کے تحت ’’محفوظ‘‘ ہوگئے مگر انہوں نے البدر اور الشمس کے دس ہزار سے زیادہ نوجوانوں کو مکتی باہنی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جس نے چن چن کر البدر اور الشمس کے رہنمائوں اور کارکنوں کو شہید کردیا۔ اگر بھارت کے مسلمان کھڑے ہوجائیں تو ہمارے جرنیلوں کا کیا بھروسا وہ ان کو بھی چوراہے پر تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ بنگلادیش میں محصور بہاریوں کی مثال بھی پوری دنیا کے سامنے ہے۔ یہ لوگ اب تک پاکستان سے محبت کی سزا بھگت رہے ہیں مگر ہمارے جرنیل انہیں بھی تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہمیں پاکستان کے ایک اہم سیاست دان نے خود بتایا کہ 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیا الحق نے کشمیریوں سے کہا کہ تم اپنی تحریک کو ایک بلند سطح پر لا کر دکھائو۔ تم ایسا کرو گے تو ہم پھر تمہاری مدد کریں گے۔ کشمیریوں نے اپنی تحریک کو بلند سطح پر لاکر دکھایا اور پاکستان سے مدد کے طالب ہوئے تو انہیں جواب دیا گیا کہ کشمیر کے لیے پاکستان کو دائو پر نہیں لگایا جاسکتا۔ بھارت کے مسلمان کھڑے ہوگئے تو ہمارے جنرل ان سے بھی کہہ دیں گے کہ تمہارے لیے پاکستان کو دائو پر نہیں لگایا جاسکتا۔ جنرل نصیر اللہ بابر نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے یہ کہہ کر طالبان کو تسلیم کرایا کہ یہ افغانی نہیں ہمارے بچے ہیں۔ مگر جب نائن الیون ہوا تو ہمارے جرنیلوں نے ’’اپنے بچوں‘‘ کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کردیا۔ ہندوستان کے مسلمان کھڑے ہوگئے تو کیا خبر ہمارے جرنیل انہیں بھی نائن الیون کے بعد پکڑ پکڑ کر بھارت کے حوالے کردیں۔ خالصتان کی تحریک کا حشر بھی ریکارڈ پر ہے۔ ہمارے جرنیلوں نے سکھ نوجوانوں کی فہرستیں خود بھارت کے حوالے کیں۔ اس سلسلے میں چودھری اعتزاز احسن کا نام لیا جاتا ہے مگر چودھری اعتزاز احسن اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ اگر میں نے فہرستیں بھارت کے حوالے کی ہوتیں تو کیا میں پاکستان میں زندہ رہتا۔ بھارت کے مسلمان اگر آج کھڑے ہوجائیں تو کیا خبر ہمارے جرنیل ان کی فہرستیں بھی بھارت کے حوالے کردیں۔ چناں چہ جنرل امجد شعیب سے عرض ہے۔
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ

Leave a Reply