جاوید چودھری اگر کسی کمیونسٹ ریاست میں ہوتے اور وہ کمیونزم کی بنیادوں پر ویسے ہی حملے کررہے ہوتے جیسے حملے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہوئے اسلام کی بنیادوں پر کررہے ہیں تو کمیونسٹ ریاست ان کی تکہ بوٹی کر ڈالتی۔ جاوید چودھری اگر امریکا اور یورپ میں آزادی، جمہوریت اور مساوات پر ویسی ہی سنگ زنی کریں جیسی سنگ زنی وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہوئے اسلام پر کررہے ہیں تو وہ زندگی بھر کے لیے جیل میں ڈال دیے جاتے۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کی بنیادوں پر حملے کرنے کے حوالے سے سب آزاد ہیں۔ جاوید چودھری بھی۔ چناں چہ جاوید چودھری اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور اسلام کی تعبیر پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اس سلسلے میں وہ بڑے ’’Committed‘‘ ہیں۔ ان کا ایک حالیہ کالم ان کے ’’Committed‘‘ ہونے کا ٹھوس ثبوت ہے۔ کالم کا عنوان ہے ’’ہم بے حیا لوگوں کے لیے‘‘۔ یہ یقینا اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ جاوید چودھری نے اپنا بے حیا ہونا تسلیم کرلیا اور انہیں بے حیا کہہ کر مخاطب کرنے کا بوجھ کسی اور کو نہیں اُٹھانا پڑا۔ مگر جاوید چودھری نے کالم میں فرمایا کیا ہے۔ ہمارے لیے ممکن ہوتا تو ہم جاوید چودھری کا پورا کالم ہی نقل کردیتے مگر اس سے گفتگو خوامخواہ طویل ہوجاتی۔ چناں چہ ذیل میں جاوید چودھری کے کالم کی چند جھلکیاں پیش کی جارہی ہیں۔ جاوید چودھری نے لکھا۔
’’دنیا میں سب سے زیدہ Sex toy چین برآمد کرتا ہے۔ ڈانس اور موسیقی چین کی تہذیب کا حصہ ہے۔ وہاں شراب اور جوا بھی لیگل ہے۔ وہاں نماز اور اذان پر بھی پابندی ہے مگر اس کے باوجود چین نے سب سے پہلے کورونا کی وبا پر قابو پالیا۔ حالاں کہ چین کے جرائم کو دیکھا جائے تو آدھا چین اب تک دفن ہوجانا چاہیے تھا۔ بلاشبہ چینی صدر نے ایک امام سے دعا کرائی مگر اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے یہ دعا چین میں کیوں قبول کی۔ سعودی عرب، ایران، ترکی، شام، عراق، مسلمان ممالک ہیں۔ سعودی عرب اور ایران میں پردہ لازم ہے۔ شراب پر پابندی ہے۔ دونوں ملکوں میں ناچ گانے کی محفلیں بھی نہیں ہوتیں۔ سعودی عرب اور ایران میں سرکاری سطح پر نماز کی پابندی کرائی جاتی ہے مگر کورونا نے ان ملکوں کا کیا حال کردیا۔ تاجکستان میں کورونا کا کوئی مریض نہیں حالاں کہ تاجکستان بے حیائی، رقص و سرود، شراب نوشی اور جوئے بازی میں بے حیا ملکوں سے پیچھے نہیں۔ مگر یہ ملک کورونا کی وبا سے بالکل محفوظ ہے۔ پاکستان میں کورونا لانے والوں میں تارکین وطن بھی شامل ہیں۔ تارکین وطن بے حیا اور ناچنے کودنے والے لوگ ہیں۔ ان کی خواتین دوپٹا بھی نہیں اوڑھتیں، چناں چہ یہ عذاب الٰہی کا شکار ہوگئے مگر پاکستان میں تبلیغی جماعت کے لوگ تو مومن اور صالح لوگ ہیں۔ ان کی خواتین پردہ کرتی ہیں۔ یہ شعار اسلام کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں تو پھر یہ کورونا کا شکار کیوں ہوئے۔ اس کے بعد جاوید چودھری نے جو کچھ کہا وہ ٹھیک ان کے الفاظ میں یہ ہے۔
’’میری اس ملک کے تمام علما کرام سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر اپنی سوچ اور اپنے بیانات میں تھوڑی سی ترمیم کرلیں، ہم بے شک گناہ گار لوگ ہیں، ہم ظالم اور بے حیا بھی ہیں اور ہم سیاسی جلسوں میں عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کے ملی ترانوں پر اپنے وطن کی بچیوں کو بھی نچاتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ عذاب، یہ وبا صرف ہمارے گناہوں کا نتیجہ نہیں ہے، یہ اگر ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہوتی تو چین اور کیرالہ اس پر قابو نہ پاسکتے، یہ اب تک تاجکستان کو بھی زمین بوس کرچکی ہوتی اور یہ پاناما، کولمبیا اور بولیویا جیسے بے حیا ملکوں میں بھی کنٹرول نہ ہورہی ہوتی، یہ تینوں بے حیا ملک بھی عن قریب کورونا فری ڈکلیئر کردیے جائیں گے اور فرانس اور اسپین بھی مئی کے دوسرے ہفتے میں کھلنا شروع ہوجائیں گے، لہٰذا مہربانی فرما کر ہمیں ہمارے گناہ یاد کراکے نہ ڈرائیں، ہم پہلے ہی سہمے اور مرے ہوئے لوگ ہیں، ہمیں مزید نہ ماریں، آپ ایک لمحے کے لیے رُک کر یہ بھی سوچ لیں، وبائیں اگر دعائوں اور ایمان دار قیادتوں سے رک سکتیں تو مکہ اور مدینہ میں کرفیو نافذ نہ کرنا پڑتا، مزارات کو تالے نہ لگانے پڑتے اور ویٹی کن سٹی اور دیوار گریہ بھی بند نہ ہوتی، ہم انسان بے شک گناہ گار ہیں اور ہمیں ہر لمحہ اپنے گناہ یاد کرکے اللہ سے معافی مانگنی چاہیے خواہ کوئی وبا ہو یا نہ ہو لیکن خدارا، خدارا کورونا کو ہمارے گناہوں کے ساتھ نتھی نہ کریں، ہم مرے ہوئے لوگوں کو مزید نہ ماریں، ہم بے حیا اور بے ایمان لوگوں کو مارنے کے لیے زندگی ہی کافی ہے، آپ اس ظلم میں شامل نہ ہوں‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 28 اپریل 2020)
زندگی کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہر نظام حیات زندگی کی ایک مخصوص تعبیر پر یقین رکھتا ہے۔ مثلاً کمیونزم ہر چیز کو کمیونزم کے نقطہ نظر سے دیکھتا تھا۔ چناں چہ وہ ادب کو صرف ادب نہیں کہتا تھا وہ ادب کو کمیونسٹ ادب کہتا تھا۔ یہاں تک کہ سابق سوویت یونین میں سائنس کو سوویت سائنس قرار دیا گیا۔ کمیونسٹ ریاستوں میں جزا اور سزا کا پورا نظام بھی کمیونزم کی تعبیر پر کھڑا ہوا تھا۔ اس طرح سیکولرازم اور لبرل ازم پوری زندگی کی تعبیر سیکولر اور لبرل تناظر میں کرتے ہیں۔ اسلام تو ہے ہی ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات۔ چناں چہ عقیدہ ہو یا عبادت، اخلاق ہو یا کردار، سیاست ہو یا معیشت، آرٹ ہو یا کلچر، جزا ہو یا سزا ہر جگہ قرآن و حدیث کی تعبیر ہی اصل تعبیر ہے۔ مگر بدقسمتی سے جاوید چودھری کو یہ روحانی مرض لاحق ہے کہ وہ اسلام کا انکار تو نہیں کرتے مگر وہ چاہتے ہیں کہ جزا و سزا کے نظام کی روحانی، اخلاقی یا مذہبی تعبیر پر اصرار نہ کیا جائے۔ حالاں کہ قرآن میں ایسی کئی قوموں کا تذکرہ موجود ہے جنہیں ان کے انحرافات اور گناہوں کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا۔ ظاہر ہے کہ سزا کا جو نظام سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا موسیٰؑ، سیدنا لوطؑ، سیدنا ہودؑ کے زمانے میں موجود تھا وہی نظام اس وقت بھی موجود ہے۔ مگر جاوید چودھری چاہتے ہیں کہ ماضی میں جو ہوا سو ہوا لیکن اب وبا کی تعبیر کسی اور انداز میں ہونی چاہیے۔ ان کا حال باطل پرست اہل مغرب جیسا ہے۔ ایلون ٹوفلر نے اپنی کتاب Future Shock میں تسلیم کیا ہے کہ مغربی تہذیب کا بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے مگر انہوں نے لکھا ہے کہ یہ بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور وہی ہمیں اس سے نجات دلائے گی۔ اس سلسلے میں ہمیں مذہب کی مدد کی ضرورت نہیں۔ جاوید چودھری کورونا کو سمجھنا چاہتے ہیں مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ اس کی مذہبی تعبیر سے ہمیں محفوظ رکھا جائے تو بہتر ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو آواز نہیں دی مگر ان کے دل میں کہیں نہ کہیں یہ بات موجود ہے کہ نئے زمانے کے مسائل کو نئے زمانے کے علوم سے سمجھنا چاہیے۔
یہ سامنے کی بات ہے کہ آپ ٹریفک کا کوئی قانون توڑیں گے تو ٹریفک پولیس آپ کو پکڑ لے گی۔ آپ ریاست کا کوئی بڑا قانون توڑیں گے تو ریاست آپ کی گردن میں پھندا ڈال دے گی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بھی کچھ روحانی اور اخلاقی قوانین ہیں۔ جب انسان ان قوانین کو توڑتا ہے اور روحانی اور اخلاقی قوانین کو توڑنے کا عادی ہوجاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی جب چاہتا ہے انسان، گروہ، قوم یا تہذیب کو پکڑ لیتا ہے۔ جاوید چودھری ریاست کے قوانین اور ان کو توڑنے کے مضمرات کو تو مانتے ہیں مگر انہیں یہ تسلیم کرنے میں بڑی کوفت ہورہی ہے کہ اللہ اپنے قوانین توڑنے کی سزا دیتا ہے۔ اسی لیے وہ وبا اور سزا کے مذہبی بیانیے میں تضادات ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ چین خدا کا منکر اور بے حیائی پھیلانے والے کام کرتا ہے تو اس نے کورونا پر قابو کیسے پایا؟ تاجکستان میں بھی وہی کچھ ہورہا ہے جو امریکا اور یورپ میں ہورہا ہے تو تاجکستان میں کورونا کا ایک بھی مریض کیوں موجود نہیں؟
جاوید چودھری کے لیے اطلاعاً عرض ہے کہ خدا کا کائناتی کیا زمینی منصوبہ بھی اتنا بڑا ہے کہ اس کی ہر چیز کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ انبیا تک کو ہر بات کا علم نہیں دیا گیا۔ ان کو بھی صرف وہی باتیں معلوم تھیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کیا ہوا تھا۔ اس کی کلاسیکل مثال یہ ہے کہ سیدنا موسیٰؑ کو شریعت کا تو پورا علم عطا کیا گیا تھا مگر تکوین کا پورا علم عطا نہیں کیا گیا تھا اسی لیے وہ خضرؑ کے اقدامات پر بار بار ایک طالب علم کی طرح سوالات کرتے رہے۔ سیدنا موسیٰؑ کے برعکس خضرؑ کو تکوین کا علم عطا کیا گیا تھا حالاں کہ وہ پیغمبر وقت نہیں تھے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ کسی فرد یا قوم کو کیا سزا دے گا اور کیوں سزا دے گا اس کا علم صرف خدا کے پاس ہے۔ خدا قادر مطلق ہے وہ جس کے ساتھ جو معاملہ کرنا چاہے کرسکتا ہے ہم صرف شریعت محمدؐ کی روشنی میں خدا کے کسی اقدام کو ’’بساط بھر‘‘ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے امریکا اور یورپ کو کیوں پکڑا اور تاجکستان کو کیوں نہیں پکڑا۔ اس کا علم صرف خدا ہی کو ہے۔ جہاں تک مذہبی معاشروں اور مذہبی انسانوں کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں دو پہلو اہم ہیں۔ ایک یہ کہ ایک چیز ’’ظاہر‘‘ ہے اور ایک چیز ’’باطن‘‘۔ ہوسکتا ہے کہ کسی انسان کا ظاہر مذہبی ہو مگر باطن مذہبی نہ ہو۔ چناں چہ اس کی پکڑ اس کے ظاہر کی بنیاد پر نہیں اس کے باطن کی بنیاد پر ہورہی ہو۔ دوسری بات یہ کہ جاوید چودھری میں اتنی عقل تو ہونی ہی چاہیے کہ ایک ہی چیز ایک کافر کے لیے سزا اور مومن کے لیے آزمائش یا امتحان ہوسکتی ہے۔ رسول اکرمؐ کی موجودگی کے باوجود غزوہ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوگئی یہ سزا نہیں آزمائش تھی۔ بعض صحابہ رسول اکرمؐ کو میدان کار زار میں چھوڑ کر چلے گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا۔ انسانی تاریخ میں ایسا بھی ہوا ہے کہ عذاب سر پر منڈلانے لگا اور پہچاننے والوں نے پہچان لیا کہ یہ عذاب ہی ہے مگر انہوں نے توبہ وگریہ وزاری اختیار کرلی اور خدا کے سامنے اپنا حقیر ہونا تسلیم کرلیا۔ چناں چہ عذاب ٹل گیا۔ سیدنا یونسؑ کی قوم کا قصہ اس سلسلے کی بہترین مثال ہے۔ جاوید چودھری کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ افراد، قوموں اور تہذیبوں کی سزا کا وقت مختلف ہوسکتا ہے۔ سلطنت روما کی سزا کا وقت اور تھا۔ سلطنت ایران کی سزا کا وقت اور تھا۔ سوویت یونین کسی اور Time Zone میں منہ کے بل گرایا گیا۔ امریکا کسی اور Time Zone میں منہدم ہوگا۔
جاوید چودھری نے علما سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے بیانات میں تھوڑی سی ترمیم کرلیں۔ جاوید چودھری نے یہ بات اس طرح کہی جیسے علما وبا، عذاب یا سزا کے حوالے سے کوئی ’’ذاتی بات‘‘ کہہ رہے ہوں۔
ارے بھائی علما وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو قرآن کہتا ہے، جو حدیث کہتی ہے، جو اسلام کے مستند شارحین کہتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جاوید چودھری علما سے نہیں اللہ اور رسولؐ سے ناراض ہیں اور وہ معاذاللہ ان سے کہہ رہے ہیں کہ انسانوں کی سزا کی تعبیر کو بدلو۔ اللہ اکبر۔
اس کالم میں جاوید چودھری کا حال فرعون والا ہے۔ فرعون کی قوم پر عذاب کی کوئی صورت نازل ہوجاتی تھی تو وہ ڈر جاتا تھا اور سیدنا موسیٰؑ سے دعا کے لیے کہتا تھا۔ عذاب ٹل جاتا تھا تو وہ پھر دلیر ہوجاتا تھا۔ جب تک اٹلی اور فرانس کورونا سے لرز رہے تھے اور اوندھے پڑے تھے تو جاوید چودھری کی ’’بولتی‘‘ بھی بند تھی مگر جیسے ہی اٹلی اور فرانس کے لاک ڈائون کے کچھ عرصے بعد ختم ہونے کی اطلاع آئی ہے ویسے ہی جاوید چودھری نے پوری ڈھٹائی اور بے حیائی سے فرمایا ہے کہ عن قریب اٹلی اور فرانس ’’کورونا فری‘‘ ہونے والے ہیں۔ یعنی کورونا عذاب یا سزا نہیں ہے یہ تو بس ایک وبا یا بیماری ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں فرعونیت ماضی کا قصہ ہے مگر پاکستان کے مشہور کالم نگار اور اینکر جاوید چودھری فرعونیت کی علامت بن کر سامنے آچکے ہیں۔ مغرب میں طوائفیں تک کہتی ہیں کہ ہمیں طوائفیں نہ کہو ’’Sex Worker‘‘ کہو۔ جاوید چودھری بھی چاہتے تو لکھ سکتے تھے کہ بھائی میرا علم کم ہے۔ معلومات تھوڑی ہیں مگر انہوں نے اصرار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ ’’بے حیا‘‘ ہیں۔ کسے معلوم کہ جاوید چودھری نے جب یہ لکھا وہ بات کی قبولیت کا لمحہ ہو۔